Islam Times:
2025-04-22@06:11:17 GMT

یورپی یونین کا نیا اقتصادی ماڈل اپنانے کا فیصلہ

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

یورپی یونین کا نیا اقتصادی ماڈل اپنانے کا فیصلہ

عالمی خبررساں ادارے کے مطابق ارسلا وان ڈیر لیین نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یورپ کے جدت طرازی کے انجن کو دوبارہ متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔  اسلام ٹائمز۔ امریکا اور چین کی جانب سے چیلنجز کا سامنا کرنے والی یورپی یونین نے یورپ کے اقتصادی ماڈل کو از سر نو ترتیب دینے کے لیے تجارت دوست خاکہ پیش کر دیا، جو 5 سال تک گرین اہداف پر بھرپور توجہ مرکوز کرنے کے بعد برسلز کو زیادہ بزنس فرینڈلی بنانے کی نشاندہی کرتا ہے۔ فرانسیسی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے محصولات عائد کرنے، مصنوعی ذہانت پر زور دینے اور چین کے اہم صنعتی اور ڈیجیٹل شعبوں میں اضافے کے بعد 27 ممالک پر مشتمل بلاک پر دباؤ ہے کہ وہ ترقی میں اضافہ کرنے والی کمپنیوں کے لیے فضا سازگار بنائے۔ یورپی یونین کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیین نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں یورپ کے جدت طرازی کے انجن کو دوبارہ متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی اور کاروباری اخلاقیات کے بارے میں یورپی کمیشن کی حالیہ ترجیحات نے بہت سے اداروں کو بہت زیادہ ریگولیشن کے بارے میں شکایت کی ہے۔

حالیہ ترجیحات سے توانائی کی زائد لاگت اور کمزور سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی یونین کو امید ہے کہ وہ گزشتہ سال سابق اطالوی رہنماؤں اینریکو لیٹا اور ماریو دراگی کی جانب سے پیش کی گئی سفارشات کو عملی جامہ پہنا کر اس دوڑ میں دوبارہ شامل ہو جائے گا، لیکن وان ڈیر لیین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ یورپی یونین 25 سال کے اندر کاربن کی غیر جانبداری تک پہنچنے کے لیے پرعزم ہے، تاکہ خطرناک موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ 2050 تک ہمارے اہداف بہت اہمیت کے حامل ہیں، تاہم یورپ کو ان اہداف تک پہنچنے کے حوالے سے لچکدار ہونے کی ضرورت ہے، خاص طور پر بلیو پرنٹ میں کہا گیا ہے کہ 2025 میں اخراج کے بھاری جرمانے کا سامنا کرنے والے یورپ کے مشکلات کا سامنا کرنے والی کار ساز کمپنیوں کے لیے ممکنہ لچک ہونی چاہیے۔

اس منصوبے کے تحت درجنوں قوانین پر نظر ثانی کی جائے گی، جس میں ماحولیاتی اور انسانی حقوق کی سپلائی چین کے معیارات، کارپوریٹ پائیداری اور کیمیائی تحفظ سے متعلق قوانین کو ختم کیا جائے گا، کمیشن کے نائب صدر اسٹیفن سیجرنے کی جانب سے پیش کیے جانے والے سمپلی فکیشن شاک نے ماحولیات کے ماہرین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ فرینڈز آف دی ارتھ یورپ کے عہدیدار کم کلیس نے خبردار کیا کہ آسانی کی آڑ میں یہ اقدام یورپی شہریوں، ماحولیات اور آب و ہوا کے لیے ضروری حفاظتی اقدامات کو ختم کر دے گا، تاہم یورپی یونین کے لابی گروپ بزنس یورپ کے ڈائریکٹر جنرل مارکس بیئرر نے اس منصوبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ’ایک واضح اشارہ‘ قرار دیا کہ یورپی یونین یورپ کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے پر عزم ہے۔

مجوزہ منصوبے کے متن کے مطابق، ہزاروں فرموں کا ریگولیٹری بوجھ کم کرنے کے لیے درمیانے درجے کی کمپنی کی نئی کیٹیگری تشکیل دی جائے گی، 27 رکن ممالک کے قومی دائرہ اختیار سے الگ ایک یورپی قانونی نظام قائم کیا جائے گا، تاکہ جدید کمپنیوں کو دیوالیہ پن، لیبر قانون اور ٹیکسیشن سے متعلق قوانین کے واحد ہم آہنگ سیٹ سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دی جا سکے۔ یوکرین میں جنگ سے سستی روسی گیس کی فراہمی منقطع ہونے کے بعد یورپ توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا سامنا کر رہا ہے، جو اس کے بین الاقوامی حریفوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں۔ سربراہ یورپی یونین نے گزشتہ ہفتے ڈیووس میں عالمی اشرافیہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یورپ کو اپنی توانائی کی فراہمی کو متنوع بنانا جاری رکھنا چاہیے، اور جوہری سمیت صاف توانائی کے ذرائع کو بڑھانا چاہیے۔

ہدف، آسان امداد اسکیم صنعتی کاربنائزیشن کی حوصلہ افزائی کرے گی، سیجرن کو امید ہے کہ ترجیح کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرنے والے سرفہرست 100 مقامات کو گرین بنانے کی طرف جائے گی، جو صرف یورپ کے صنعتی اخراج کا نصف سے زیادہ حصہ ہے۔ اس منصوبے میں کم کاربن والی مصنوعات جیسے گرین اسٹیل کی طلب کو بڑھانے کے لیے لیبلز کی تخلیق کا بھی تصور پیش کیا گیا ہے، جس میں برسلز دلچسپی رکھتا ہے، لیکن اس کی زایدہ لاگت کی وجہ سے طلب انتہائی کم ہے، کیمیکلز، اسٹیل اور آٹوموٹو جیسے مشکلات سے دوچار شعبوں کے لیے مخصوص منصوبے بھی تیار کیے جائیں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: یورپی یونین کا سامنا کر کی جانب سے کرتے ہوئے یورپ کے کے لیے

پڑھیں:

ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) ایرانی ریال ایک سال کے اندر اندر اپنی نصدف سے زیادہ قدر کھو چکا ہے۔ مارچ 2024 میں ایک امریکی ڈالر چھ لاکھ ایرانی ریال کے برابر تھا۔ لیکن گزشتہ ماہ یہ شرح تبادلہ ایک ملین ریال فی ڈالر سے بھی زیادہ ہو گئی۔ ایرانی کرنسی کی قدر میں اتنی زیادہ کمی نے ملک میں مہنگائی کو مزید ہوا دی اور درآمدی اشیاء کا حصول اور بھی مشکل ہو گیا۔

یہ شدید مہنگائی ایران میں کم آمدنی والے شہریوں اور متوسط طبقے پر بہت زیادہ اضافی بوجھ کی وجہ بنی ہے۔

وسطی جرمنی کے شہر ماربرگ کی یونیورسٹی کے مشرق قریب اور مشرق وسطیٰ کے علوم کے مرکز سے منسلک ماہر اقتصادیات محمد رضا فرزانگان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ''معاشی بے یقینی کی صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ اخراجات زندگی کے بارے میں خدشات زیادہ سامنے آ رہے ہیں اور سماجی سطح پر سیاسی اشتراک عمل کم ہوتا جا رہا ہے۔

(جاری ہے)

اقتصادی حوالے سے لیکن یہ بات مشکوک ہے کہ بین الاقوامی سیاسی دباؤ کے ذریعے جن مقاصد کے حصول کی کوشش کی جاتی ہے، انہیں مڈل کلاس کو کمزور کر کے حاصل یا آسانی سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘‘

ایران: کرنسی اصلاحات سے مہنگائی روکنے کی کوشش کیا ہے؟

محمد رضا فرزانگان نے حال ہی میں ایک نئی تحقیق بھی مکمل کی، جس کے لیے انہوں نے امریکہ میں برینڈیز یونیورسٹی کے ایک ماہر تعلیم نادر حبیبی کے ساتھ مل کر کام کیا۔

انہوں نے ڈی ڈؓبلیو کو بتایا کہ یہ نئی تحقیق ثابت کرتی ہے کہ ایران کے خلاف 2012 سے عائد بین الاقوامی اقتصادی پابندیوں نے وہاں مڈل کلاس کی ترقی کی راہ میں بہت زیادہ رکاوٹیں ڈالی ہیں۔ تہران کے خلاف یہ پابندیاں ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کی وجہ سے لگائی گئی تھیں۔ ان کے ذریعے ایران پر اقتصادی اور سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی گئی اور ایران کو ان پابندیوں کا سامنا آج بھی ہے۔

ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر ایران پر یہ بیرونی پابندیاں نہ لگائی جاتیں، تو اس ملک کی آبادی میں متوسط طبقے کا حجم ہر سال اوسطاﹰ گیارہ فیصد کی شرح سے بڑھتا رہتا۔

پابندیوں سے فائدہ ریاست سے جڑے اداروں کو

فرزانگان کا کہنا ہے کہ ایران میں متوسط طبقے کے سکڑتے جانے سے ریاست سے وابستہ اداروں پر معاشی انحصار بہت بڑھ چکا ہے۔

ایران کی کئی نجی کمپنیوں کو بھی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ایسے میں ریاست سے وابستہ ادارے، خاص طور پر وہ جو پاسداران انقلاب سے تعلق رکھتے ہیں، ہمیشہ فائدہ اٹھانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
ایسے پیداواری اور تجارتی اداروں نے اپنے لیے متبادل تجارتی نیٹ ورکس کو وسعت دینے کے طریقے تلاش کر لیے ہیں اور مارکیٹ میں اپنی پوزیشن بھی مضبوط بنا لی ہے۔

اس طرح ان پابندیوں کے نتیجے میں ایرانی نجی شعبے کے مقابلے میں ریاست کی اقتصادی طاقت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

ایرانی تیل کی اسمگلنگ پاکستانی معیشت کے لیے کتنی مضر ہے؟

امریکہ کی الینوئے یونیورسٹی کے ماہر اقتصادیات ہادی صالحی اصفہانی کے مطابق ایرانی خواتین مردوں کے مقابلے میں زیادہ دباؤ میں ہیں۔ ان کے لیے معاشی چیلنجوں کا سامنا کرنا، خاص کر ملازمتوں کی تلاش اور روزی کمانا اب بہت مشکل مرحلہ بنتا جا رہا ہے۔


ایرانی لیبر مارکیٹ کے بارے میں محمد رضا فرزانگان کی تازہ ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ کم اقتصادی ترقی اور کساد بازاری کے ساتھ ساتھ کئی ثقافتی عوامل اور روایتی رول ماڈل بھی ایرانی خواتین کے لیے ملازمتوں کے حصول کو مشکل بنا رہے ہیں۔ مثلاﹰ یہ روایتی سوچ بھی کہ کسی بھی خاندان کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ مردوں کو ہی ہونا چاہیے۔ یہ سب عوامل مل کر خواتین کو ایرانی لیبر مارکیٹ سے باہر دھکیلتے جا رہے ہیں۔

فرزانگان کے مطابق آئندہ مہینوں میں صورتحال میں بہتری کے امکانات کم اور خرابی کے خدشات زیادہ ہیں۔ اس لیے بھی کہ امریکی صدر ٹرمپ تہران حکومت پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کی بحالی کے لیے قومی سلامتی کے ایک ایسے صدارتی میمورنڈم پر دستخط کر چکے ہیں، جس کا مقصد ایرانی تیل کی برآمدات کو مزید کم کرنا ہے، جو ایرانی ریاست کے لیے آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہیں۔

ایران نے ابھرتی ہوئی معیشتوں کی تنظیم 'برکس' میں شمولیت کی درخواست دی دے

تہران توانائی کے شعبے میں مالی اعانتوں میں کمی کی تیاری میں

ایرانی حکومت نے اس اضافی دباؤ کے باعث توانائی کے شعبے میں مالی اعانتوں میں کمی کے ذریعے ریاستی اخراجات کم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ ایرانی بزنس رپورٹر مہتاب قلی زادہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس اقدام سے بھی اقتصادی صورتحال میں بہتری کا کوئی حقیقی امکان نہیں۔

قلی زادہ کے مطابق، ''21 مارچ کو شروع ہونے والے نئے فارسی سال کے بجٹ میں حکومت نے تیل کی برآمدات کا ہدف دو ملین بیرل روزانہ رکھا ہے۔ تاہم ٹرمپ کے دور صدارت میں ایسا ہونا تقریباﹰ ناممکن ہے۔‘‘

ایران امریکا کشیدگی: بھارت کو کونسے خطرات لاحق ہیں؟

مہتاب قلی زادہ نے کہا کہ ایرانی بجٹ میں خسارہ بڑھنے کے امکان اور سبسڈی میں کمی کے خاتمے کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ملک میں مہنگائی کی ایک نئی بڑی لہر دیکھنے میں آئے۔

حالیہ برسوں میں ایرانی عوام میں ملکی سیاسی نظام کے خلاف عدم اطمینان میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اسی لیے وہاں 2019 اور 2022 میں بڑے پیمانے پر عوامی اجتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے، جنہیں سختی سے دبا دیا گیا تھا۔

ماہر اقتصادیات فرزانگان کے الفاظ میں، ''لازمی نہیں کہ عوامی عدم اطمینان میں اضافہ حکومت پر منظم سیاسی دباؤ کی وجہ بھی بنے۔

اس لیے کہ جو گھرانے معاشی طور پر کمزور ہو چکے ہیں، ان کے پاس تو سیاسی سطح پر متحرک ہونے کے لیے مالی وسال بہت ہی کم ہیں۔‘‘

امریکی پابندیوں کے باوجود ایران تیل بیچ رہا ہے، ایرانی نائب صدر

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ متوسط طبقے کو کمزور کر دینے والی بین الاقوامی پابندیاں حکومت پر خود بخود ہی مزید دباؤ کی وجہ نہیں بنیں گی۔ ''اس کے برعکس ایسی پابندیاں سیاسی طور پر سرگرم سماجی طبقات کی معاشی بنیادیں کمزور کرتی اور سیاسی نظام کی طاقت میں نسبتاﹰ اضافہ کر دیتی ہیں۔‘‘
شبنم فان ہائن (عصمت جبیں)

متعلقہ مضامین

  •   کینالز منصوبے پر پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ
  • پرائیویٹ سکیم کے 67 ہزار عازمین کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے حکومت کوشاں ہے، جب دیگر ممالک کا فیصلہ ہوگا تو پاکستان کا یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ، وفاقی وزیر سردار محمد یوسف کا حج 2025 کانفرنس سے خطاب
  • ایران میں اقتصادی بحران سے سب سے زیادہ متاثر متوسط طبقہ
  • خیبرپختونخواہ حکومت کا ٹرانسپلانٹ اور امپلانٹ سروسز مفت فراہم کرنے کا فیصلہ
  • تعلیم، آئی ٹی دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش، سازگار ماحول مہیا کر رہے ہیں: مریم نواز
  • مریم نواز شریف سے یورپی یونین کے پارلیمانی وفد برائے جنوبی ایشیا کی ملاقات
  • یورپی یونین کیساتھ دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں،وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز
  • وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف سے یورپی یونین کے پارلیمانی وفد برائے جنوبی ایشیا (DSAS) کی ملاقات
  • پاکستان یورپی یونین کیساتھ قابل اعتماد دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے‘ مریم نواز
  • یورپی یونین کیساتھ دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں: مریم نواز