Nai Baat:
2025-12-13@23:17:01 GMT

کوئی روکنے والا نہیں

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

کوئی روکنے والا نہیں

کوئی روکنے والا نہیں ،کوئی ٹوکنے والا نہیں ۔۔فریادی فریاد کر رہے ہیں مگر کوئی سننے والا نہیں ۔۔۔ایک عجب سا قحط الرجال کا عالم ہے۔۔ اہل اقتدار اپنی من مانیوں، آسانیوں اور عیاشیوں میں مصروف ہیں۔۔ وہ ایک بل کے ذریعے اپنی اور جن سے ان کے مفادات وابستہ ہیں، ان سب کی محکمہ جاتی و دیگر مالی مراعات اور سہولیات کو بڑھاتے چلے جارہے ہیںجس کے نتیجہ میں مزید معاشرتی تفاوت بہت تیری سے بڑھ رہی ہے ۔پچیس ، تیس ہزار کمانے والا، نشیب میں کھڑا مزدور سر اٹھانے پر بھی دس دس ، بیس بیس لاکھ کی تنخواہ اور اس سے بھی زیادہ ماہانہ مراعات لینے والے کوہ ہمالیہ پر کھڑے مراعات یافتہ طبقے کو نہیں دیکھ سکتا ۔۔۔وہ سر اٹھائے تو لگتا ہے کہ اوپر سلگتا ہوا آسمان نظر آتا ہے اورسر جھکائے تو نیچے تپتی ہوئی زمین دکھائی دیتی ہے۔ وہ جائے تو جائے کہاں۔۔اس کے لیے کہیں بھی جائے امان نہیں ۔۔مقتدرطبقے آپس میں بندر بانٹ میں مصروف ہیں اورغریب بے بسی کے اندھی کھائی میںگرے سسک رہے ہیں ۔۔۔!
ایک طرف کروڑوں اربوں کی مراعات ہیں تو دوسری طرف غریب پینشنرز کے منہ سے لقمہ چھیننے کی تیاری ہے۔ کہیں مرسڈیز، لینڈ کروزر، جھنڈے لگی گاڑیاں اور ویگو ڈالے ہیں تو کہیں چنگ چی رکشہ کی سواری تک بھی منظور نہیں۔۔! امیروں سے ٹیکس کے نام پر سفید پوش طبقہ کو رگڑا دیاجا رہا ہے مگر کوئی سننے والا نہیں۔۔قومی شاہراہوں پر قوم کے ساتھ مذاق جاری ہے ۔ان شاہراؤں پر بنے ٹول پلازوںپر ٹول کی وصولی سال میں کئی کئی بار بڑھائی جا رہی ہے مگر کسی کو کوئی غم نہیں۔۔۔! آج کل’’ ایم ٹیگ‘‘ کے نام پرموٹرویز پر لوٹ مار کا ایک اور سلسلہ چل نکلا ہے۔ آپ نے ’’ایم ٹیگ ‘‘ لگوایا ہے تو چارجز اور ،نہیں لگوایا تو اور ،حتی کہ ایم ٹیگ لگوایا ہے مگر کسی وجہ سے بیلنس کم پڑ گیا ہے تو بھی دو دو تین تین سو گنا جرمانے کے ساتھ وصولی۔۔ خدا کی پناہ کوئی دس بیس روپے کا علامتی جرمانہ تو سمجھ میں آتا ہے مگر 220 روپے کی بجائے 380 روپے کی وصولی۔۔ ایک گھنٹے سے بھی کم سفر پر اتنا جرمانہ اور ہر جگہ جرمانے ہی جرمانے۔۔ کوئی کہے تو کس سے اور سنائے تو کسے سنائے۔۔۔ سننے والے کان اپنی مراعات بچانے اور بڑھانے کے فکر میں ہیں۔ ان کے کانوں میں اپنی مراعات کا پگھلا ہوا سیسہ ڈلا ہے، وہ کس کی سنیں گے اور کیسے سنیں گے۔۔۔!
ایک عالم حشر ہے، بجلی کے ہوش ربا نرخ ۔۔اوپر سے 200 یونٹس کے ریٹ اور ، اور 201 یونٹ صرف ہونے پر اور۔۔ گیس کے یونٹس میں سلیب سسٹم کا ظالمانہ نظام ، بالواسطہ طور پر انڈسٹری کی تباہی ۔۔تنخواہوں سے اپنی مرضی کے ٹیکس کی وصولی۔۔پراپرٹی کی خرید و فروت پر ٹیکس د رٹیکس سلسلہ ۔۔سیلز ٹیکس ،ویلتھ ٹیکس ،پراپرٹی ٹیکس ، پروفیشنل ٹیکس ۔۔اعلانیہ اورغیر اعلانیہ ٹیکسزکی بھرمار۔۔۔کبھی کسی نے اس طرف توجہ نہیں کی ہے کہ لاری اڈے سے نکلنے والی گاڑی کتنے پیسے ادا کرتی ہے ۔۔ہر پھیرے کے ہزاروں روپے اور وہ کن کی جیب میں جا رہے ہیں ۔۔نا جائز سٹینڈ، لوٹ کھسوٹ، بندر بانٹ مگر حرص ہے کہ پھر بھی بڑھ رہی ہے۔ مردہ خورگدھوں کی طرح جو کھا کھا کر اگل رہی ہیں اور پھر کھا رہی ہیں۔۔ کہیں تو سلسلہ رکے گا ۔۔کوئی تو روکے گا ۔۔خدا کے ہاں ہرگزاندھیر نہیں۔۔ اجالا تو ہوگامگر تاریخ آج کے حکمرانوں ، حکمراں اداروں، اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقوں کو مصلوب ضرور کرے گی۔۔ حرام سے بنا کسی کا کبھی کچھ نہیں ۔۔حرام سے کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آیا۔۔یہاں قارون بھی سب کچھ چھوڑ کر چلا گیا ۔۔سکندر اعظم بھی خالی ہاتھ کفن سے باہر نکالے رخصت ہو گیا۔اگر زندگی میں اطمینان قلب نہیں ملا تو کامیابی کا تصور وقتی اور بے معنی ہے۔ اور ایسے ہی وقتی اور بے معنی تصورات میں ہماری زندگیاں بسر ہو رہی ہیں۔۔۔!
بڑا سے بڑا تیر مارا تو دو چار پلاٹ لے لیے، دو تین نئے مکانات بنا لیے،دو چار دکانیں،کوئی ایک دو مارکیٹیں، پلازے بنا لیے یا کوئی کاروبار سیٹ کر لیا ۔۔اپنی اولاد کو تن آسانی سکھائی، مکانات کے کرایوں اور محنت سے دور سہل پسندی کا سبق دیا اور نتیجہ کیا نکلا ۔۔آپ بناتے گئے اور وہ لٹاتے گے۔ ۔۔آپ اپنی ساری زندگی جوڑ توڑ میں گزارو اور وہ آپ کی کمائی کو دنوں میں تار تار کر دیں،گے۔۔۔ نہ ادب،نہ سلیقہ، نہ وفا، نہ محبت۔۔۔آپ اپنی اولاد میں مفاد پرست گدھ تیار کرو،تو پھر جو نتیجہ نکلے گا وہ صاف ظاہر ہے۔۔۔!
ایسے ہی صاف نتیجے پکار پکار کر مقتدر طبقوں سے کہہ رہے ہیں ، یہ زمینیں ، جائدادیں اور مال و زر ، سب یہاں کا یہاںہی رہ جائے گا مگر ہم نہیں۔۔۔! اور اگر باقی رہے گا تو صرف کردار، محبت ، خلوص، وفا، ایثار اور قربانی جیسے جاوداں جوہر اور ان کو اپنے سر کا تاج بنانے والے نگینے اور نابغہ ء روزگار لوگ۔۔۔!تاہم آج پنجاب حکومت جس جذبے ، تندی اور تیزی سے عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کی تشکیل و تکمیل پر کمر بستہ ہے ،وہ یک گونہ اطمینان بخش اوراس سے کسی قدرامید اور اصلاحِ احوال کی توقع کی جاسکتی ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: والا نہیں رہے ہیں ہے مگر

پڑھیں:

میرٹ کی جنگ میں کراچی کے طلبہ تنہا؛ کیا کوئی سنے گا؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251212-03-3
کراچی کے تعلیمی مستقبل کے ساتھ یہ مسلسل ناانصافی کب ختم ہوگی؟ یہ شہر جو پورے ملک کی معاشی ریڑھ کی ہڈی ہے، جہاں کے بچے روزانہ ہزاروں مشکلات، ٹریفک، شور، اکیڈمک پریشر، مہنگی کوچنگ، اور محدود تعلیمی سہولتوں کے باوجود شب و روز محنت کرتے ہیں، انہیں ہر سال صرف اس لیے دھکیل دیا جاتا ہے کہ ان کے پاس نہ طاقت ہے نہ سفارش۔ کراچی کے تعلیمی ادارے برسوں سے زبوں حالی کا شکار ہیں، سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی کمی، لیب اور لائبریری کا فقدان، اور امتحانی سسٹم کی سختی کے باوجود یہاں کے طلبہ بہتر سے بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، مگر بدقسمتی یہ ہے کہ جب بات سب سے اہم مرحلے میڈیکل داخلوں پر آتی ہے تو ان کی محنت کو بیرونی امیدواروں کی جعلی رپورٹس، غیر منصفانہ میرٹ، اور کمزور نظام کے نیچے دفن کر دیا جاتا ہے۔ کراچی کے بچوں سے صرف اکیڈمک نہیں بلکہ بنیادی انصاف بھی چھینا جا رہا ہے، اور یہ ظلم اب ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔

کراچی کے سرکاری تعلیمی بورڈ سے انٹر کرنے والے طلبہ و طالبات ایک بار پھر میڈیکل کالجوں میں داخلوں سے محروم رہے اور یہ المیہ نئی بات نہیں بلکہ کئی برسوں سے جاری حقیقت ہے۔ ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کی 3 دسمبر 2025 کو جاری کردہ ایم بی بی ایس داخلہ فہرست نے شہر بھر میں شدید بے چینی پیدا کی ہے، کیونکہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی کراچی بورڈ کے طلبہ بڑے پیمانے پر نظرانداز ہوئے ہیں۔ میرٹ پالیسی کی شفافیت، انتظامی ساکھ اور داخلہ طریقہ کار پر سنگین سوالات نے نہ صرف والدین کو پریشان کیا ہے بلکہ کراچی کے تعلیمی مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

داخلہ فہرست میں ایسے امیدوار شامل ہیں جن کے انٹرمیڈیٹ کے نمبر غیر معمولی حد تک زیادہ ہیں، ایسے نمبر جو کراچی کے سخت امتحانی معیار میں لینا تقریباً ناممکن ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس کراچی کا انٹر نتیجہ اس سال بھی کم رہا جبکہ ایم ڈی کیٹ 2025 کو پورے ملک میں سخت ترین امتحان قرار دیا گیا تھا، مگر حیرت انگیز طور پر وہی امیدوار کراچی کی 860 ایم بی بی ایس سیٹوں میں سے 500 سے زائد سیٹیں لے اڑے۔ یہ توازن خود بخود اس نظام کی شفافیت پر بڑا سوال اُٹھاتا ہے جہاں کراچی کا طالب علم اپنی اصل محنت کے باوجود مقابلے سے باہر کر دیا جاتا ہے۔

تحقیقات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اندرونِ سندھ کے درجنوں امیدواروں نے جعلی کراچی ڈومیسائل بنوا کر کراچی کوٹے پر داخلے حاصل کیے۔ یہ صرف ضابطہ جاتی غلطی نہیں بلکہ کراچی کے حق پر براہ راست ڈاکا ہے۔ ڈومیسائل ویریفکیشن بورڈ اور داخلہ کمیٹیاں اپنی بنیادی ذمے داری نبھانے میں بری طرح ناکام رہیں۔ مزید افسوسناک انکشاف یہ ہے کہ کچھ ایسے امیدوار بھی داخلہ فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے ایم ڈی کیٹ 2025 کا امتحان ہی نہیں دیا تھا، مگر پھر بھی انہیں میڈیکل کالجوں میں نشستیں الاٹ کر دی گئیں۔ یہ صورتحال واضح کرتی ہے کہ ڈاؤ یونیورسٹی کی انتظامیہ داخلی بے ضابطگیوں، مبینہ کرپشن اور بدترین غفلت میں مبتلا ہے۔ یہ معاملہ صرف ڈاؤ تک محدود نہیں رہتا بلکہ یہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل، وفاقی وزیر ِ صحت، اور سندھ کے صوبائی وزیر ِ صحت کی نااہلی کا ثبوت بھی ہے۔ اگر ادارے اپنی نگرانی، اسکروٹنی اور میرٹ پالیسی پر عمل درآمد کو سنجیدگی سے لیتے تو ایسے جعلی ڈومیسائل، مشکوک اسناد اور غلط میرٹ لسٹیں کبھی سامنے نہ آتیں۔ لیکن افسوس کہ کراچی کی آبادی اور اس کے وسائل کو استعمال کرنے والے ادارے جب کراچی کی نوجوان نسل کے مستقبل پر بات آتی ہے تو خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔

کراچی کے عوام کا سب سے بڑا شکوہ یہ ہے کہ شہر سے مینڈیٹ لینے والی سیاسی جماعتیں اس سنگین ناانصافی پر ایک لفظ تک نہیں بول رہیں۔ ہر انتخابی جلسے میں کراچی کے حقوق کا راگ الاپنے والے رہنما آج ان بچوں کی آواز بننے کے لیے تیار نہیں۔ گزشتہ سال بھی یہی مسئلہ سامنے آیا تھا، عدالتوں تک بات گئی، میڈیا نے اُٹھایا، احتجاج ہوئے، مگر اصلاحات نہ ہوئیں اور اس سال دوبارہ وہی معاملہ سامنے آ گیا۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ کراچی کا مینڈیٹ لینے والے اس وقت تو بڑے دعوے کرتے ہیں جب ووٹ چاہیے ہوتا ہے، مگر جب شہر کا مستقبل لٹ رہا ہو تو سب اپنی ذمے داریوں سے نظریں چرا لیتے ہیں۔

کراچی کے طلبہ آج دہائی دے رہے ہیں کہ اگر یہ سلسلہ نہ رکا تو آنے والے برسوں میں صورتحال مزید خراب ہو جائے گی۔ ایسا لگتا ہے جیسے کراچی کے بچوں کے ساتھ ایک منظم ظلم کیا جا رہا ہو، اور ان کی محنت کو کسی منفی نظام کے نیچے روند دیا جاتا ہو۔ طلبہ نے چیف جسٹس آف پاکستان، وزیر ِ اعلیٰ سندھ، اور پی ایم ڈی سی سے فوری شفاف انکوائری کا مطالبہ کیا ہے تاکہ کراچی کے بچوں کو ان کا حق مل سکے۔ یہ صرف داخلوں کا مسئلہ نہیں بلکہ نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے۔ اگر اس شہر کے بچوں کے ساتھ یہ ناانصافی اسی طرح جاری رہی تو کراچی کی محنتی نسل مایوسی، بیگانگی، اور عدم اعتماد کا شکار ہوتی چلی جائے گی، اور یہ وہ نقصان ہوگا جس کا ازالہ صرف بہتر پالیسیوں سے نہیں بلکہ مضبوط اور منصفانہ نظام سے ہی ہو سکے گا۔ کراچی صرف احتجاج نہیں چاہتا، کراچی انصاف چاہتا ہے اور وہ بھی اب، اسی وقت، بغیر کسی تاخیر کے۔

دلشاد عالم سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • ایک عام سی بات
  • طبی شعبے میں بڑے پیمانے پر ٹیکس چوری، ایف بی آر کا چونکا دینے والا انکشاف
  • آئی ایم ایف کی 23 سخت شرائط تسلیم:حکومت ترقیاتی اسکیموں میں کمی اور نئے ٹیکس لگانے پر تیار    
  • سزا کے بعد فیض حمید سے مراعات واپس لی جائیں گی، انکے ساتھیوں کا بھی احتساب ہوگا، فیصل واوڈا
  • پچیس سال سے کیا خاص کام نہیں کیا؟ سلمان خان کی نجی زندگی کا چونکا دینے والا انکشاف
  • فیض حمید کی سزا کسی حکومت کی فتح نہیں: طارق فضل چوہدری
  • ایس آئی ایف سی مراعات تجویز نہیں کریگی، آئی ایم ایف نے حکومت کو نئے اسپیشل اکنامک زون بنانے سے بھی روک دیا
  • میرٹ کی جنگ میں کراچی کے طلبہ تنہا؛ کیا کوئی سنے گا؟
  • ایک نہ ایک دن سب کو چلے جانا ہے!
  • حملہ آور کو روکنے پر پاکستانی ڈرائیور جرمنی کا ہیرو قرار، اعلیٰ اعزاز سے نوازا گیا