Nai Baat:
2025-12-13@23:01:10 GMT

تباہ حال آشیانوں سے دل چھلنی

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

تباہ حال آشیانوں سے دل چھلنی

نام نہاد این جی اوزاورانسانی حقوق کے یورپی مامے جوحقوق کی بات کرتے نہیں تھکتے نے دنیا کو شکنجے میں لے رکھا ہے اسی آڑ میں جہاں چاہتے ہیں جنگ مسلط کر دیتے ہیں جہاں چاہتے ہیں دو عملی کا اظہار کرتے ہیں جیسے غزہ جنگ میں کیا گیااور 7 اکتوبر 2022 کو شروع ہونے والی جنگ میں نسل کشی کی گئی اس کے باوجود غزہ کے مکین جھکے نہ بکے،دنیا مذمتوں میں لگی رہی کئی دین کے ٹھیکیداربھی تماشا دیکھتے رہے عالمی عدالتیں فیصلے دیتی رہیں اور اسرائیل فیصلوں کو پائوں تلے روندتا رہا بلی کے بچے کی موت پر رونے والے امریکہ سمیت تمام اس کے حواری خاموش مذمتیں کرتے رہے یہ سلسلہ چلتا رہا آج غزہ کے مکینوں کی واپسی پر آنکھوں سے آنسو رکنے کا نام نہیں لے رہے جنگ بندی ہونے پر جشن بھی منایا گیا لیکن دنیا بتائے کہ لاکھوں کی تعداد میں غزہ کے باسیوں کی ہلاکتیں دنیا کے مردہ ضمیرکو جگا سکیں گی ان کے زخموں پرمرہم کون رکھے گا ننھے پھول جو بن کھلے مرجھا گئے کے والدین کو قرار کون دے گا کیا سہاگنوں کے سہاگ اجڑنے کا کوئی حساب دے گا کیا خاندان کے خاندان جو منوں مٹی تلے جا سوئے اور ان ہلاکتوں کے قصور واروں کو دنیا کیفر کردار تک پہنچائے گی کیا دنیا غزہ والوں کو بے یارومدد گار چھوڑ دے گی جس طرح جنگ کے دوران چھوڑا گیاتقریبا ڈیڑھ سال کی بھیانک جنگ کے بعد لاکھوں بے گھر فلسطینی خوشی، درد اور پشیمانی کے ساتھ پیدل سفر کرتے ہوئے شمالی غزہ پہنچے، بہت سے دل دہلا دینے والے مناظر اور ایک کلپ جس میں ایک لڑکی اپنی چھوٹی بہن کو کندھوں پر اٹھائے ہوئے ہے، وہ اور اس کے دوست اپنی عمر کی دوسری لڑکیوں کی طرح زندگی گزارنا چاہتے ہیں،عرب ٹی وی کے مطابق فاطمہ تھکی ہوئی اور ننگے پائوں دکھائی دے رہی تھی، وہ اپنی چھوٹی بہن کو لے جانے کی دشواری کی پروا نہیں کرتی، اس کی تمام امیدیں شمالی غزہ کی پٹی میں اپنے گھر واپس آنے کی تھیں،اس نے ویڈیو میں کہا کہ مجھے اپنی بہن سے محبت ہے، یہی وجہ ہے کہ شمالی غزہ میں جانے اور اپنے ساتھ اپنے گھر واپس آنے پر میں اپنی بہن کو ساتھ لائی غزہ میں واپسی پر مظلوموں کوایسا لگ رہا ہے جیسے ان کی روح اور زندگی ایک بار پھرلوٹ آئی ہے،اپنے گھروندے دوبارہ تعمیر کریں گے اسرائیل اور حماس کے درمیان سیز فائر اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے بعد لاکھوں بے گھر فلسطینی تباہ حال غزہ کے شمال کی طرف لوٹ رہے ہیں،تھکے ہارے ضرورہیں لیکن چہرے پر کوئی آثار نہیں کہ جس سے کسی کو شک ہو کہ وہ ہارے ہوئے ہیں آج بھی ان کے حوصلے بلند ہیں،اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کا مقصد 15 ماہ سے زائد عرصے سے جاری لڑائی کا خاتمہ ہے، غزہ میں بارود کی بارش کرنے کے بعد اب اسرائیل غرب اردن پر چڑھ دوڑا ہے، اسرائیلی ٹینکوں کی نگرانی میں لوگوں کی بڑی تعداد راہداری کے ذریعے شمال کی طرف جا رہے ہیں ،کچھ لوگ ضروری سامان کو اٹھائے ہوئے چل رہے تھے جنہیں دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان پر مظالم کے پہاڑ کس طرح گرائے گئے، بچھڑے پیاروں نے علاقے میں پہنچنے کے بعد ایک دوسرے کو گلے لگا لیا رقت آمیز مناظر بھی دیکھنے کو ملے غزہ والوں کے حوصلے آج بھی جواں ہیں ، کہا جاتا ہے کہ غزہ میں پہنچنے والوںکیلئے غزہ میں خوش آمدید کے بینر آویزاں کیے گئے، تباہ شدہ آشیانوں کو دیکھ کر فلسطینیوں کے آنکھوں سے آنسو نہیں تھم رہے معصوم بچے، لاچار خواتین اور نہتے مرد اسرائیلی حملوں میں زندگی کی جنگ ہار گئے،کئی معصوم بھوک برداشت نہیں کر پائے تو کچھ کو پینے کے لیے صاف پانی بھی نصیب نہ ہوا،انسان تو انسان جانوروں نے بھی غزہ میں جنگل کا قانوں دیکھا، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے فلسطینیوں کے لئے الگ جگہ رہائشی منصوبے کے حوالے سے دیا جانے وا لے بیان سے یہ بات عیاں ہے کہ اسرائیل اور امریکہ غزہ پر مستقل قبضہ چاہتے ہیں ، اسرائیل نے امریکہ کی پشت پناہی سے غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کو شہید اور ایک لاکھ سے زائد کو زخمی کیایہ وہ تعداد ہے جو سامنے آ چکی جبکہ ملبے تلے ہزاروں افراد اب بھی ملبے تلے دبے ہیں، امریکہ ہمیشہ اپنے مفادات کو عزیز رکھتا ہے اور اس کی دوستیاں، دشمنیاں اسی بات پر منحصر ہوتی ہیں،غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکہ نے تمام غیر ملکی امدادی پروگرام کو 90 روز کے لیے معطل کردیا،معطل کیے گئے پروگراموں میں یوکرین، اردن، تائیوان کی امداد کا پروگرام بھی شامل ہے۔ صرف اسرائیل اور مصر کو فوجی فنڈنگ میں استثنا حاصل ہے،رپورٹ کے مطابق یہ اقدام امریکی غیر ملکی امدادی پروگراموں کی کارکردگی اور مستقل مزاجی کا جائزہ لینے کے لیے 90 دن کے وقفے کا حصہ ہے، دوسری جانب امریکی وزارت خزانہ نے اسرائیلی آباد کاروں پر عائد پابندیاں ختم کردیں۔ 17 یہودیوں اور 16 تنظیموں کو بلیک لسٹ سے ہٹا دیا گیا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ کس طرح اسرائیل کی پشت پناہی کر رہا ہے امریکہ سمیت دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ تعلقات کو برابری کی سطح پر استوار کرنے کے لئے کشکول لے کر دنیا میں گھومنے کا سلسلہ ختم کرنا ہوگاغزہ میں امن قائم ہونا چاہیے غزہ کے مکینوں کو اکیلا چھوڑنے سے انہیں مزید تباہی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے،یہ بہت تلخ سوالات ہیں جن کا جواب کسی کے پاس نہیں کیونکہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں ہم سب برابر کے شریک ہیں اوراللہ اس بارے ضرورپوچھے گا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اسرائیل اور چاہتے ہیں کے بعد غزہ کے

پڑھیں:

یورپ کی سڑکوں پر فلسطین کی پکار؛ عالمی ضمیر کی بیداری

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251213-03-7

 

میر بابر مشتاق

یورپ کے مختلف ممالک میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں افراد کا سڑکوں پر نکل آنا، دنیا کے بدلتے ہوئے سیاسی شعور کا ایک ایسا اظہار ہے جسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں رہا۔ گزشتہ کئی ماہ سے غزہ مسلسل اسرائیلی بمباری کی لپیٹ میں ہے، اور ماؤں، بچوں، بوڑھوں اور عام شہریوں کی لاشیں ملبے تلے سے اُٹھ رہی ہیں۔ لیکن حیرت انگیز طور پر عالمی ادارے، طاقتور ممالک اور اثرو رسوخ رکھنے والی حکومتیں عملی اقدام کے بجائے صرف تشویش، افسوس اور ’سنجیدہ نوٹس‘ جیسے بے معنی بیانات پر اکتفا کر رہی ہیں۔ ایسے میں یورپ کی شاہراہوں، پلوں، چوراہوں اور مرکزی اسکوائرز میں اٹھنے والی انسانی آوازیں اُمید کا ایک روشن چراغ بن کر سامنے آئی ہیں۔ لندن، پیرس، میونخ، ایمسٹرڈیم، برسلز، اوسلو، میلان اور بارسلونا… یہ وہ شہر ہیں جو شام اور ہفتہ وار چھٹیوں کے دنوں میں عام طور پر پْرسکون تفریحی ماحول کے لیے مشہور ہیں۔ مگر اب ان سڑکوں پر فلسطینی پرچموں کی لہر، احتجاجی نعروں کی بازگشت اور انسانی حقوق کے مطالبات کی گونج سنائی دیتی ہے۔ ہزاروں لوگ صرف کسی سیاسی جماعت، کسی نظریاتی گروہ یا مذہبی وابستگی کے تحت نہیں نکلے بلکہ انسانی تکلیف، معصوم بچوں کی چیخوں اور انسانیت کے نام پر نکلے ہیں۔

بینرز پر لکھے الفاظ “Stop the Genocide”, “Free Palestine, “Ceasefire Now”, “Justice for Gaza”  صرف سادہ نعرے نہیں بلکہ دنیا کے اجتماعی شعور کی نمائندگی بن چکے ہیں۔ یہ وہ آواز ہے جو نہ صرف غزہ کے لیے اْٹھی ہے بلکہ ان عالمی اداروں کے لیے بھی ایک واضح انتباہ ہے جو اپنی خاموشی کے باعث انسانی تاریخ کے تاریک ترین واقعات میں شریک ِ جرم بنتے جا رہے ہیں۔

یورپ کی سڑکوں پر نکلنے والے عوام نے یہ ثابت کر دیا کہ فلسطین صرف عرب دنیا یا مسلم دنیا کا مسئلہ نہیں رہا، بلکہ پوری انسانیت کا درد بن چکا ہے۔ مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں میں نوجوان، طلبہ، اساتذہ، مزدور، یہودی امن پسند، مسیحی رہنما، انسانی حقوق کے کارکن، صحافی، خواتین اور بچے شریک تھے۔ اس ملے جلے ہجوم نے ایک اصولی بات پر یکجہتی اختیار کی: انسانیت کو قتل ہونے سے بچایا جائے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ غزہ میں جاری حملے انسانی اصولوں کے خلاف ہیں، اور دنیا کا کوئی قانون چاہے وہ جنیوا کنونشن ہو یا انسانی حقوق کا عالمی چارٹر، بے گناہوں کے اجتماعی قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ مگر اس کے باوجود اسرائیلی حملے جاری ہیں، ہلاکتوں کی تعداد 70 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے، اور ایک پوری نسل اپنے مستقبل کے ساتھ مٹتی جا رہی ہے۔

یہ سوال آج ہر یورپی ریلی کا مرکزی نعرہ بن چکا ہے کہ عالمی برادری عملی قدم کیوں نہیں اٹھا رہی؟ یورپی مظاہرین واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ اسرائیل کی مسلسل فوجی کارروائیاں جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہیں، اور ان پر بین الاقوامی عدالت (ICC) اور اقوام متحدہ کی جانب سے فوری تحقیقات ہونی چاہیے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ صرف آج کی جنگ نہیں۔ اس کی جڑیں بیسویں صدی کی اوائل میں برطانوی مینڈیٹ اور قومی ریاستوں کے قیام کے پیچیدہ عمل میں پیوست ہیں۔ 1948 کے بعد سے ہونے والی جنگوں اور علاقائی کنٹرول کے تنازعات نے ایک ایسی صورت حال پیدا کر دی ہے جس میں اسرائیل؛ اقوام متحدہ، امریکا اور یورپی یونین کی نظر میں مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم میں ’’قابض فوج‘‘ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

آج، عالمی طاقتیں اپنی جغرافیائی سیاست، اسلحہ جاتی مفادات اور مشرقِ وسطیٰ میں اپنی موجودگی کے توازن کے باعث اس تاریخی الجھن میں عملی اقدام سے گریزاں ہیں۔ جب عالمی ادارے سیاسی دباؤ کے سامنے بے بس ہو جائیں، تو عوامی تحریکیں ہی وہ واحد قوت بنتی ہیں جو دنیا کو راستہ دکھاتی ہیں اور یہی قوت یورپ کے گلی کوچوں میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔

رہنماؤں نے اپنی تقریروں میں صرف جذباتی اپیلیں نہیں کیں بلکہ اعداد و شمار، رپورٹوں اور عینی شواہد کے حوالے سے دنیا کو جھنجھوڑا ہے۔ غزہ میں 70 ہزار سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، جن میں نصف سے زیادہ خواتین اور بچے شامل ہیں۔ ہزاروں عمارتیں، اسکول، مساجد، چرچ، اسپتال اور پناہ گاہیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہیں۔ یورپ کے لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں: اگر اتنے ہی ہلاکتیں کسی یورپی شہر میں ہوتیں تو کیا دنیا کا ردعمل ایسا ہی ہوتا؟ کیا پھر بھی اقوام متحدہ محض ’نوٹس‘ لیتی؟ کیا پھر بھی اسی طرح کی خاموشی ہوتی؟ یہ سوال صرف فلسطین کے لیے نہیں بلکہ عالمی انصاف کے معیار کے حوالے سے بھی اٹھائے جا رہے ہیں۔

یورپ میں ہونے والے مظاہروں کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ احتجاج وقتی نہیں، بلکہ ایک مستقل عوامی تحریک کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ ہر ہفتے لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں طلبہ چھاؤنیاں قائم ہیں۔ بہت سی جامعات نے اسرائیل کے ساتھ مالی تعاون کے خلاف قراردادیں منظور کر لی ہیں۔ متعدد یورپی پارلیمانوں میں جنگ بندی کی قراردادیں پیش ہو چکی ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے: ’’جب تک غزہ میں انصاف نہیں ملتا، ہم آواز اُٹھاتے رہیں گے‘‘۔ یعنی یہ احتجاج ایک عالمی ضمیر کی مہم بن چکا ہے، جسے روکنا اب کسی طاقت کے ہاتھ میں نہیں۔

ایک اہم حقیقت یہ بھی ہے کہ ان مظاہروں میں بڑی تعداد میں یہودی تنظیمیں، ربی حضرات اور اسرائیلی نژاد یورپی شہری بھی شریک ہیں۔ ان کا مؤقف بہت واضح ہے: ’’اسرائیل کی جارحیت ہمارے مذہب، ہماری تاریخ اور ہماری اخلاقیات کے خلاف ہے‘‘۔ یہ منظر پوری دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ فلسطین کے لیے آواز اٹھانا کسی قوم، کسی مذہب کے خلاف نہیں بلکہ ظلم کے خلاف ہے۔ اور ظلم ہمیشہ انسانیت کا مشترکہ دشمن ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسرائیل کے اندر بھی، اگرچہ تعداد میں کم، لیکن کچھ آوازیں اسی طرح کے اخلاقی احتجاج کو بلند کر رہی ہیں۔

یورپ میں عوامی احتجاج نے مین اسٹریم میڈیا کو بھی اپنی پالیسی بدلنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ رپورٹیں جو پہلے نظر انداز ہو رہی تھیں، اب نمایاں جگہ پا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کے ماہرین، سیاسی تجزیہ کار، اور جنگی رپورٹرز کھل کر اسرائیلی پالیسیوں کو چیلنج کر رہے ہیں۔ میڈیا کے اس دباؤ نے کئی ممالک کی حکومتوں کو سخت سوالات کا سامنا کروایا ہے۔ اب یورپی سیاست میں ایک نئی بحث جنم لے چکی ہے کہ آیا اسرائیل کو غیر مشروط حمایت جاری رکھنا اخلاقی اور جمہوری طور پر درست ہے یا نہیں۔ یورپ میں ہونے والی لاکھوں افراد کی ریلیوں نے دنیا کو یہ واضح پیغام دیا ہے کہ فلسطین اب کوئی ’تنازع‘ نہیں یہ ایک انسانی المیہ ہے۔ اور جب انسانیت خطرے میں ہو، تو سرحدیں اور قومیتیں بے معنی ہو جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ کے گلی کوچوں میں گونجنے والی آوازیں صرف فلسطینیوں کے لیے نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے بھی اٹھ رہی ہیں۔ اس بحران میں، اقوام متحدہ کی عدالتوں میں اسرائیل کی قانونی ذمے داریوں پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں، اور انسانی امداد کے بحران نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔ یورپ میں اٹھنے والی انسانیت کی یہ آوازیں آنے والے دنوں میں مزید مضبوط ہوں گی۔ دنیا بدل رہی ہے، اور عوام کا اخلاقی دباؤ اب عالمی سیاست کو متاثر کر رہا ہے۔ یہ احتجاج ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ اندھیری راتوں میں بھی امید کے چراغ جلتے رہتے ہیں۔ اور جب لاکھوں لوگ ظلم کے خلاف کھڑے ہو جائیں، تو تاریخ کا پہیہ بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔ فلسطین کا مسئلہ صرف سیاست نہیں؛ انسانیت کا امتحان ہے۔ اور یورپ کے یہ احتجاج ثابت کر رہے ہیں کہ انسانیت اب بیدار ہو چکی ہے۔ جب تک غزہ میں انصاف نہیں ملتا، دنیا بھر کی سڑکیں خاموش نہیں ہوں گی۔

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • انفرا اسٹرکچر تباہ ،حیدرآباد کے عوام ای چلان نظام قبول نہیں کرینگے ،انجمن تاجران سندھ
  • دنیا ایک اور جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی
  • ایک عام سی بات
  • کیلیفورنیا میں گیس پائپ لائن پھٹنے سے 3 عمارتیں تباہ‘ 6 افراد زخمی
  • غزہ، امن کا منظر نامہ دھندلا رہا ہے
  • یورپ کی سڑکوں پر فلسطین کی پکار؛ عالمی ضمیر کی بیداری
  • شمالی وزیرستان: میر علی میں سرکاری پرائمری اسکول تباہ، سینکڑوں بچوں کا مستقبل خطرے میں
  • رنگین روایات کی دنیا؛ کیلاش سے سائبیریا تک زندہ ثقافتیں
  • مستقبل کس کا ہے؟
  • حیدرآباد: ریٹائرڈ ڈی ایس پی راحت زیدی کی گولیوں سے چھلنی لاش برآمد