WE News:
2025-04-22@07:12:09 GMT

مشرق وسطی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی سجی کھبی

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

ہم ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی جیت سے قبل یہ بات متواتر لکھ چکے کہ اگر وہ جیت گئے تو ان کا یہ دوسرا دور بہت مختلف ہی نہیں ہنگامہ خیز بھی ثابت ہوگا۔ بالعموم ہوتا یہ ہے کہ امیدوار انتخابی مہم کے دوران کہتا بہت کچھ ہے۔ مگر جب جیت جاتا ہےتو ثابت کردیتا ہے کہ سیاسی وعدے کیے ہی اس لیے جاتے ہیں تاکہ انہیں مزے لے لے کر توڑا جاسکے۔ مثلا آپ باراک اوباما کی پہلی انتخابی مہم ہی لے لیجیے۔ ان کا سب سے بڑا انتخابی وعدہ یہ تھا کہ وہ امریکا کو عراق اور افغان جنگ سے باہر نکالیں گے۔ مگر الیکشن جیتتے ہی انہوں نے افغانستان میں 35 ہزار مزید فوجی بھیج دیے تھے۔ اور افغان جنگ سے نجات کا عمل ڈونلڈ ٹرمپ کے حصے میں آیا تھا۔

انتخابی وعدوں کی نسبت سے ڈونلڈ ٹرمپ بہت مختلف ثابت ہوئے ہیں۔ انہوں نے جیت والی رات ہی جشن فتح کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہہ دیا تھا

’وعدے ہوئے ہیں، اور وعدے نبھائے جائیں گے‘۔

اقتدار سنبھالنے کے بعد صرف ایک ہفتے میں ہی وہ اپنے بہت سے وعدوں کی جانب پیش رفت کرتے نظر آئے ہیں۔ مگر ان کا سب سے حیران کن قدم اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو لگام ڈالنا ہے۔ یہ وہ اقدام ہے جس کا انہوں نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ بھی نہ کیا تھا۔ اس کے برعکس صورتحال یہ رہی تھی کہ بین الاقوامی امور کے آزاد ماہرین اس بات پر لگ بھگ متفق تھے کہ غزہ کے معاملے میں وہ جو بائیڈن سے بھی دو ہاتھ آگے جائیں گے۔ جیت کے بعد غزہ سے متعلق ان کے ایک اظہار خیال نے بھی اس تاثر کو قوت بخش دی تھی۔ ٹرمپ نے کہا تھا

’اگر میرے حلف اٹھانے سے قبل جنگ بندی نہ ہوئی، اور یرغمالی رہا نہ ہوئے تو جہنم کے دروازے کھول دیے جائیں گے‘۔

یہ بھی پڑھیں: امریکی سیاست اور مذہبی ٹچ

بظاہر یہی نظر آرہا تھا کہ یہ بات وہ غزہ کے مزاحمت کاروں سے کہہ رہے ہیں۔ مگر جب ان کی دھمکی نے نتائج مہیا کیے کہ تو دنیا بھر کے ماہرین یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ انہوں نے سجی دکھا کر کھبی مار دی ہے۔ ان کے حلف اٹھانے سے قبل ہی مشرق وسطی کے لیے ان کا نامزد نمائندہ اسٹیو ویٹکوف قطر میں تھا۔ جب سیز فائر کی خبر بریک ہوئی تو امریکی صدر جو بائیڈن اپنے وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کی معیت میں وائٹ ہاؤس کے روسٹرم پر نمودار ہوئے اور اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ اپنے پورے دور اقتدار میں مخبوط الحواس جو بائیڈن صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرنے سے مستقل گریزاں رہے تھے۔ غزہ سیز فائر کا کریڈٹ لینے کی کوشش کے دوران بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ وہ اپنی بات کرکے واپسی کے لیے پلٹے تو خاتون صحافی نے سوال کیا

’یہ آپ کا کارنامہ ہے یا ڈونلڈ ٹرمپ کا؟‘

جو بائیڈن بس ایک لمحے کو پلٹے اور اتنا کہہ کر چل دیے

’آپ مذاق کر رہی ہیں نا؟‘

مگر اگلے 24 گھنٹوں میں سب کچھ عیاں ہوگیا۔ عرب ہی نہیں اسرائیلی اخبارات نے بھی حقیقت کھول کر رکھ دی۔ سامنے آنے والی تفصیلات میں خود اسرائیلی اخبارات نے لکھا کہ جنگ بندی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن تھے۔ وہ بظاہر امن کی بات کرتے مگر پس پردہ نیتین یاہو کی کمر تھپکتے کہ قتل عام جاری رکھو۔

اسرائیلی اخبارات نے ہی یہ حقیقت بھی عیاں کی کہ یہ ٹرمپ کے نمائندے اسٹیو ویٹکوف تھے جنہوں نے نیتن یاہو کو شٹ اَپ کال دی اور دھمکی دی اگر ٹرمپ کے حلف اٹھانے سے قبل جنگ بندی نہ ہوئی تو ٹرمپ کے پہلے دن کے فیصلوں میں یہ فیصلہ بھی شامل ہوگا کہ اسرائیل کی مالی، دفاعی اور سفارتی ہر طرح کی سپلائی لائن کاٹ دی جائے گی۔ یہی وہ ٹرمپ کارڈ ہے جو ہر امریکی صدر کے پاس اسرائیل کے خلاف ہوتا ہے۔ 30 برس قبل بل کلنٹن نے بھی اسی نیتن یاہو کے خلاف یہ کارڈ استعمال کیا تھا۔ اور نیتن یاہو کو اس حد تک جھکنا پڑا تھا کہ موساد کے 2 ایجنٹوں کی رہائی کے بدلے حماس کے بانی شیخ احمد یاسین سمیت 50 کمانڈر رہا کرنے پڑے تھے۔

سو اس بار بھی نیتن یاہو کو جھکنے میں دیر نہ لگی۔ اس پورے معاملے میں 2 مزید باتیں قابل غور ہیں۔ پہلی یہ کہ ٹرمپ کی حلف برداری والی رات جشن کی تقریب سے اسٹیو ویٹکوف سے خاص طور پر خطاب کروایا گیا۔ ویٹکوف نے اس خطاب میں نام لیے بغیر اسرائیل کو وارننگ دی

’صدر ٹرمپ کو لیپا پوتیاں نہیں چاہییں۔ انہیں امن کے سلسلے میں ٹھوس عملی اقدامات درکار ہیں۔ وہ دن گزر گئے جب مفت خوراک ملا کرتی تھی۔ جو خود کو نہ سنبھال سکتا ہو اس کے لیے ہم کچھ نہ کریں گے‘۔

دوسری اہم بات یہ کہ اقتدار سنبھالنے کے اگلے ہی روز خود ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے ہمکلام تھے۔ وہاں غزہ کا ذکر آیا تو ٹرمپ نے اس پر کچھ اس طرح اظہار خیال کیا

’میں نے غزہ کی تصاویر دیکھی ہیں۔ اسے بہت بری طرح تباہ کیا گیا ہے۔ یہ جگہ اب پہلے سے بھی بہتر تعمیر ہونی چاہیے‘۔

مزید پڑھیے: امام غزالی، دینی تعلیم اور مُلا

دنیا کے لیے یہ سب اس لیے بھی حیران کن تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے لیے اسرائیلی لابی کی اہم رکن میریم ایڈلسن سے 100 ملین ڈالر کا چندہ وصول کیا تھا۔ چنانچہ جن ماہرین کی رائے تھی کہ ٹرمپ غزہ کے لیے جو بائیڈن سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہوں گے وہ اس چندے کا باقاعدہ حوالہ دیتے تھے۔ مگر اب یہ عقدہ بھی کھل گیا ہے کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکا میں ایک ٹریلین ڈالرزانویسٹ کرنے جا رہے ہیں۔ یہ سمجھنا کونسا دشوار ہے کہ میریم ایڈلسن کے 100 ملین ڈالرز محمد بن سلمان کے ایک ٹریلین کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔

غزہ سیز فائر کا اسرائیلی سماج اور سیاست دونوں پر بہت گہرا اثر اس وقت پڑا جب اس معاہدے پر عملدرآمد شروع ہوا۔ اسرائیلی شہریوں کو یقین تھا کہ اپنی 50 ہزار ہلاکتوں کا انتقام حماس نے یرغمالیوں سے ضرور لیا ہوگا۔ جسمانی نہیں تو نفسیاتی تشدد سے تو انہیں ضرور گزارا گیا ہوگا۔ چنانچہ رہائی والے روز ایمبولینسز اور ملٹری ہسپتال دونوں کو اسٹینڈ بائی رکھا گیا تھا۔ لیکن حماس نے دنیا کو حیرت کا ایسا شدید جھٹکا دیا کہ بی بی سی بھی لائیو شو میں اپنی حیرت نہ سنبھال سکا۔ حماس نے اس موقع کو کا بھرپور اخلاقی و سیاسی استعمال کیا۔ چاروں خواتین فوجی یرغمالی یونیفارم میں حماس کے اسٹیج پر یوں ہنستی جھومتی نمودار ہوئیں جیسے کسی شاندار ورلڈ ٹور سے لوٹ رہی ہوں۔ وہ کسی بھی اینگل سے یرغمالی لگ ہی نہیں رہی تھیں۔ جسمانی صحت قابل رشک اور باڈی لینگویج شاداں تھی۔

صرف یہی نہیں بلکہ ان خواتین نے رہائی سے قبل حماس کو ویڈیو پیغام بھی ریکارڈ کرایا ہے جو یوٹیوب پر موجود ہے۔ اظہار تشکر کے وہ پیغامات عربی زبان میں ہیں۔ کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ قیدی کے پاس آپشنز ہی کہاں ہوتے ہیں؟ اس سے تو کچھ بھی کہلوایا جاسکتا ہے۔ عملی طور پر یہ بات معقول بھی ہے۔ مگر آپ ویڈیو پیغامات میں ان خواتین کی باڈی لینگویج کا کیا کریں گے؟ بیہیویئر سائنس و باڈی لینگویج کا کوئی بھی ماہر تصدیق کرسکتا ہے کہ یہ پیغامات کسی جبر کا نتیجہ نہیں ہیں۔

اسرائیلی معاشرے اور سیاست پر اس کا سب سے بڑا اثر یہ پڑا ہے کہ خود اسرائیلی شہری اس بات کا برملا اظہار کر رہے ہیں کہ حماس سے متعلق عالمی میڈیا جو کچھ کہتا ہے، ہم اس پر یقین کرکے شاید بہت بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ ہم نے ان کے 50 ہزار بچے، جوان، بوڑھے اور خواتین ماردیے۔ لیکن اس اتنے بڑے قتل عام کا اسرائیلی یرغمالیوں پر حماس نے کوئی غصہ نہیں اتارا۔ انہیں بحفاظت ہی نہیں بلکہ صحتمند بھی رکھا۔ اگر کوئی یرغمالی مرا بھی ہے تو وہ حماس نہیں بلکہ اسرائیلی بمباری سے مرا ہے۔

رہائی کے مناظر کا دوسرا بڑا سیاسی اثر یہ ہے کہ نیتن یاہو گزشتہ ایک ماہ سے اپنی فتح کا اعلان کیے جا رہا تھا۔ اسرائیلیوں کو بتا رہا تھا کہ حماس مٹا دی گئی، اور اس کی سرنگوں کا نیٹورک تباہ کردیا گیا۔ مگر قیدیوں کے تبادلے والے روز حماس سرنگوں سے برآمد ہوئی اور پورے غزہ پر چھا گئی۔ ہر طرف اس کے مسلح دستے پھیلے نظر آئے، اور پورا غزہ اس کے کنٹرول میں دکھا۔ سب سے اہم چیز یہ کہ غزہ کے شہریوں کا ان کے لیے والہانہ پن ثابت کر رہا تھا کہ اسرائیلی قتل عام حماس اور اہل غزہ میں کوئی دراڑ ڈالنا تو دور خفیف سی لکیر بھی پیدا نہیں کرسکا۔ حماس اب بھی اہل غزہ کا قابل فخر اثاثہ ہے۔

رہائی اور اس کے بعد کی صورتحال پر سب سے بھرپور تبصرہ اسرائیل کے سابق مذاکرات کار ڈینیل لیوی نے کیا ہے۔ ڈینیل نے اپنے ویڈیو انٹریو میں کہا

مزید پڑھیں: ہم، وجاہت مسعود اور ٹرک کی بتی

’رہائی کے اس عمل کا اسرائیلی عوام کی نفسیات پر جو اثر ہوا ہے اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص نے وہ مناظر دیکھے ہیں۔ اسرائیلی شہریوں کو بتایا گیا تھا کہ القسام کو شکست دیدی گئی ہے۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ غزہ کے شہری ان کے مخالف ہوگئے ہیں۔ اور اب انہوں نے یہ مناظر دیکھے کہ ایک ایسی قابض فوج جسے دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت امریکا کی بھی مدد حاصل تھی۔ یعنی ایٹمی طاقت سے لیس اسرائیل اور مزاحمتی تحریک کے مابین تصادم نے ثابت کیا کہ یہاں سب سے طاقتور فورس حماس ہے، اور وہ بھی بہت بڑی قوت کے ساتھ۔اسرائیلی اور مغربی میڈیا کا سارا پروپیگنڈا غلط ثابت ہوگیا۔ القسام کا بیانیہ ہر طرف چھا گیا ہے، اور اسرائیلی بیانیے کا اس وقت برا حال ہے‘۔

عرب شاعر صدیوں قبل کہہ گیا

الفضل ماشہدت بہ الاعداء

ترجمہ اس کا یہ ہے کہ برتری وہ ہے جس کی گواہی دشمن بھی دے۔ سو ڈینیل لیوی کا انٹرویو حماس کی برتری کی وہ گواہی ہے جو دشمن علانیہ دے رہا ہے۔

اس پورے پس منظر میں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ بدلے میں اسرائیل کو بھی کچھ دیتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر دیتے ہیں تو کیا؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ سیاست میں صرف لینا ہی نہیں ہوتا دینا بھی ہوتا ہے۔ گیو اینڈ ٹیک سیاست کا گویا ماٹو ہے۔ اسی انتظار میں ہم نے اس موضوع پر قلم اٹھانے میں خاصی دیر کردی مگر تاحال وہ سامنے نہ آسکا جو اسرائیل کو ملنا ہے۔ سو انتظار ہی واحد آپشن ہے۔ اسٹیو ویٹکوف ایک بار پھر مشرق وسطیٰ میں ہیں۔ اور اس بار وہ پورے اختیار کے ساتھ بھی ہیں۔ ان کا صدر اب امریکا کا باقاعدہ صدر ہے۔ آنے والے ایام میں سعودی کردار اہم تر ہوتا جائے گا۔ طے ہونے والے معاملات میں سعودی ولی عہد کا رول کلیدی  ہوگا کہ سعودی عرب ہی عرب دنیا کا قائد ہے۔ وہ قائد جس کی اب ایران کے ساتھ بھی دشمنی باقی نہیں رہی۔ سو امریکا کی جانب سے ماضی کی طرح اسے ایرانی ڈراوے بھی نہیں دیے جاسکتے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

اسرائیل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو امریکا حماس ڈونلڈ ٹرمپ غزہ جنگ بندی مشرق وسطیٰ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسرائیل اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو امریکا ڈونلڈ ٹرمپ نیتن یاہو کو ڈونلڈ ٹرمپ جو بائیڈن انہوں نے یہ ہے کہ ٹرمپ کے ہی نہیں رہے ہیں رہا تھا غزہ کے کے لیے تھا کہ اور اس

پڑھیں:

غزہ پٹی: اسرائیلی حملوں میں مزید نوے افراد ہلاک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے بتایا ہے کہ تازہ اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں مزید نوے فلسطینی مارے گئے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ ہلاکتیں گزشتہ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران کیے گئے حملوں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اسرائیلی دفاعی افواج حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے۔

ہلاک ہونے والے افراد میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔ غزہ پٹی میں وزارت صحت کے مطابق کچھ افراد ایسے علاقوں میں بھی مارے گئے ہیں، جو اقوام متحدہ کی جانب سے انسانی ہمدردی کے زون قرار دیے گئے تھے۔

جنوبی شہر خان یونس میں بھی کم از کم گیارہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس شہر کے علاقے مواسی کو اسرائیل نے انسانی ہمدردی کا زون زون قرار دیا ہوا ہے۔

(جاری ہے)

یہاں عارضی بنائی گئی پناہ گاہوں میں لاکھوں بے گھر فسلطینی رہائش پذیر ہیں۔ تاہم اسرائیل کا مؤقف ہے کہ جنگجو شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، اس لیے ان ہلاکتوں کی ذمہ داری عسکریت پسند حماس پر ہی عائد ہوتی ہے۔ انسانی بحرانی المیہ شدید ہوتا ہوا

اکتوبر 2023ء سے جاری جنگ نے غزہ کے بڑے حصے کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں وہاں کے باسی خوراک پیدا کرنے کی صلاحیت سے تقریبا محروم ہو چکے ہیں۔

اس مسلح تنازعے کے باعث غزہ پٹی کی نوے فیصد سے زائد آبادی بے گھر ہو چکی ہے جبکہ لاکھوں افراد خیموں یا تباہ شدہ عمارتوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

نئے اسرائیلی فضائی حملے ایسے وقت میں کیے جا رہے ہیں، جب امدادی تنظیمیں اسرائیل کی جانب سے غزہ پر عائد مکمل ناکہ بندی پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ غزہ پٹی میں گزشتہ چھ ہفتوں سے تمام اشیائے خور و نوش اور دیگر ضروریات زندگی کی رسد بند ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق ہزاروں بچے غذائی قلت کا شکار ہو چکے ہیں اور بیشتر افراد بمشکل ایک وقت کا کھانا کھا پا رہے ہیں کیونکہ خوراک کے ذخائر ختم ہوتے جا رہے ہیں۔

محاصرے اور جنگ کی تباہ کاریوں کا شکار افراد خوراک کی شدید قلت کے باعث سمندری کچھوؤں کا گوشت کھانا شروع ہو گئے ہیں۔ مقامی ذرائع کے مطابق کچھ مجبور خاندانوں نے پروٹین کی ضروریات کو پورا کرنے کی خاطر ایسا اقدام اٹھایا ہے۔

جنگ بندی کی جامع ڈیل چاہتے ہیں، حماس

دریں اثنا حماس نے فائر بندی کی اسرائیلی پیشکش مسترد کر دی ہے۔ اس عسکریت پسند تنظیم کا کہنا ہے کہ وہ کسی جزوی ڈیل کو قبول نہیں کرے گی بلکہ وہ جنگ بندی کا ایک جامع معاہدہ چاہتی ہے۔

غزہ میں جنگ بندی کی نئی کوششیں جاری ہیں لیکن حماس کا کہنا ہے کہ وہ صرف اسی معاہدے کو قبول کرے گی جو جنگ کا مکمل خاتمہ کرے۔

غزہ میں حماس کے سربراہ خلیل الحیہ نے کہا، ''ہماری تحریک (حماس) جنگ بندی کے ایک ایسے معاہدے پر فوری مذاکرات کے لیے تیار ہے، جس کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی قیدیوں کی طے شدہ تعداد کی رہائی کے بدلے یرغمالیوں کی آزادی ممکن ہو سکے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس نئی ڈیل کے تحت ہماری عوام کے خلاف جنگ کا مکمل خاتمہ ہو، اسرائیلی افواج غزہ سے مکمل طور پر نکل جائیں اور غزہ پٹی کی تعمیر نو کا آغاز ہو۔

‘‘ اسرائیل نے کیا پیشکش کی تھی؟

اسرائیل 45 دن کی جنگ بندی کے بدلے مزید 10 یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ تجویز بھی ہے کہ اس مدت میں فریقین مستقل جنگ بندی کے لیے مذاکرات کریں گے۔

اسرائیلی منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ حماس ہتھیار ڈال دے تاہم یہ عسکری گروہ اس مطالبے کو مسترد کر چکا ہے۔

مذاکرات ابھی تک تعطل کا شکار ہیں جبکہ غزہ میں لڑائی جاری ہے۔

اس صورتحال میں غزہ کے عام شہریوں کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہ تنازعہ کیسے شروع ہوا تھا؟

غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق دو ماہ کی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد دوبارہ شروع کیے گئے اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں میں اب تک کم از کم 1,691 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ سات اکتوبر سن 2023ء سے جاری اس جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اکاون ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔

سات اکتوبر سن 2023ء کو حماس کے جنگجوؤں نے اسرائیل کی سرزمین پر حملہ کرتے ہوئے اسرائیل کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 1,218 افراد کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ ڈھائی سو سے زائد افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا۔ اس دہشت گردانہ حملے کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کر دی تھی۔ یورپی یونین، امریکہ اور متعدد دیگر مغربی ممالک حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔

ادارت: عرفان آفتاب، مریم احمد

متعلقہ مضامین

  • غزہ میں جنگ بندی کیلئے قطر اور مصر نے نئی تجویز پیش کردی
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کرلیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کر لیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • اسرائیل کی غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ناقابلِ قبول شرائط
  • ’ امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
  • ہم جنگ کا خاتمہ اس وقت تک نہیں کریں گے جب تک حماس کو ختم نہ کردیں: نیتن یاہو
  • غزہ پٹی: اسرائیلی حملوں میں مزید نوے افراد ہلاک