سرکاری اسکیم کے تحت محدود نشستوں پر حج درخواستوں کی وصولی آج بند کر دی جائیگی
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اسلام آباد(اے پی پی) سرکاری اسکیم کے تحت محدود نشستوں پر حج درخواستوں کی وصولی آج 30جنوری کو بند کر دی جائے گی جبکہ پرائیویٹ عازمین کی بکنگ جمعہ تک جاری رہے گی۔ وزارت مذہبی امور کے ترجمان کا کہنا ہے کہ تمام عازمین حج نئی معلومات اور ہدایات کے لیے پاک حج 2025 موبائل ایپ ڈائون لوڈ کریں تاکہ انہیں حج سے متعلق معلومات کے بارے میں آگاہی رہے۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ حج واجبات کی تیسری قسط یکم تا 10 فروری تک وصول کی جائے گی۔ سرکاری اسکیم میں محدود تعداد میں نشستیں باقی ہیں۔ حج کے خواہشمند افراد 30جنوری تک اپنی درخواستیں جمع کرا دیں۔ شارٹ حج کی بکنگ مکمل ہے۔ خالی حج نشستوں پر صرف لانگ حج پیکیج کی بکنگ ہوگی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
آغا راحت کی سرکاری ملازمین پر تنقید مناسب نہیں، انجینیئر انور
گلگت بلتستان کے وزیر زراعت نے ایک بیان میں کہا کہ اگر کسی افسر کے خلاف ٹھوس شواہد کے ساتھ کرپشن کے ثبوت ہیں تو محترم آغا کرپشن کی روک تھام کے متعلقہ اداروں سے رجوع کریں تاکہ ہم بھی آغا کے موقف کی تائید کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ گلگت بلتستان کے وزیر زراعت و خوراک انجینیر محمد انور نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ آغا راحت حسین ایک زمہ دار شخصیت ہونے کے باوجود سرکاری ملازمین پر تواتر سے تنقید مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آغا صاحب ہمارے لئے لائق احترام ہیں لیکن ہر جمعے کی تقریر میں مخصوص افسران کو نشانہ بنانا جائز نہیں ہے۔ آغا راحت کو سنی سنائی باتوں پر تحقیق کرنی چاہیے کیونکہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کیلئے ان تک غلط خبریں پہنچاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں اس وقت ہم آہنگی اور محبت کا ماحول ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہی ماحول برقرار رہے کیونکہ امن، ترقی ہم سب کی مشترکہ ضرورت ہے۔ ہم جب ایک دوسرے کا احترام کریں گے تو یہی ماحول دیرپا ہو گا، سرکاری افسران کے حوالے سے آغا راحت کی جانب سے متواتر بیانات اور تنقید کا سامنے آنا سمجھ سے باہر ہے۔ وزیر زراعت نے مزید کہا کہ اگر کسی افسر کے خلاف ٹھوس شواہد کے ساتھ کرپشن کے ثبوت ہیں تو محترم آغا کرپشن کی روک تھام کے متعلقہ اداروں سے رجوع کریں تاکہ ہم بھی آغا کے موقف کی تائید کریں گے۔ لیکن پسند ناپسند اور بغیر تحقیق کے مخصوص افسران کو ہدف تنقید بنانا نامناسب ہے اور یہ روش آغا راحت کے علاوہ اگر کوئی دوسرے طبقے کا مذہبی پیشوا بھی اپناتا ہے تو بھی زیادتی ہے۔