کراچی (رپورٹ: منیر عقیل انصاری) بلوچستان کے مسائل کا حل مشاورت، بات چیت، سیاسی جدوجہد اور آئینی مزاحمت ہے‘ جبری گمشدگی کا مکمل خاتمہ، حقیقی سیاسی نمائندگان اور ناراض شہریوں کیساتھ مذاکرات کرنے ہوںگے ‘حکومت دہشت گردی کیخلاف اپنے سیکورٹی اداروں کی مہارت کو بڑھائے‘مسئلے کو ایک ایس ایچ او کی مارقراردیا جار ہاہے‘جنرل ایوب خان کے دور سے لے کرآج تک بلوچستان میں ظلم وجبر کا نظام قائم ہے۔ ان خیالات کا اظہار امیر جماعت اسلامی بلوچستان مولانا ہدایت الرحمن بلوچ، جماعت اسلامی پاکستان کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل، مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور معروف ماہر توانائی انجینئر سید فراست شاہ اور سینئر صحافی، تجزیہ کار، مصنفہ اور ٹیلی ویژن اینکر نسیم زہرہ نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’کیا بلوچستان کے سلگتے مسائل کا کوئی حل ہے؟‘‘ ہدایت الرحمن بلوچ کا کہنا ہے کہ حکمرانوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بلوچستان کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل اور بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق دینے ہوں گے‘ بلوچستان کے عوام کو عزت اور ان کے حقوق دیے جائیں تو یہ اور زیادہ محب وطن ثابت ہوں گے‘ جنرل ایوب خان کے دور سے لے کرآج تک
بلوچستان میں جبر و ظلم کا نظام قائم ہے‘ بلوچستان کا میڈیا بھی آزاد نہیں ہے جس کے باعث بلوچستان کے مسائل اور گمنام اموات کا پتا تک نہیں ہے‘یہاں کے عوام کے بارے میں پورے پاکستان میں غلط تاثر پھیلایا گیا ہے‘ قائد اعظم کے سر پر جناح کیپ کسی اور نے نہیں وہ بلوچستان کے عوام نے پہنایا تھا‘ بانی پاکستان قائد اعظم کو بلوچستان کے عوام نے سونے میں تولہ اور انہیں عزت دی‘ جنرل ایوب نے اپنی طاقت کے زور پر بلوچستان کے عوام کو شرپسند قراردیا‘ جنرل پرویز مشرف نے بھی مکا لہراتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں چند سرداروں کا مسئلہ ہے اور وہاں آگ اور خون سے کھیلا گیا‘ حکمران مختلف بہانے سے بلوچ عوام کو دھوکا دیتے رہے‘ آج کے حکمران بھی کہتے ہیں کہ ایک ایس ایچ او کی مار ہے ‘ تکبر اور غرور کرنے والوں نے بہت ساری بیویوں کو بیوہ کیا اور بچوں کو یتیم کیا‘ آج بلوچستان جل رہا ہے۔ ایف سی کے اہلکار گھروں میں آکر مائوں کی عزت نہیں کرتے جس کے باعث نوجوان پہاڑوں پر جاکر مسلح جدوجہد کر رہے ہیں‘ ہم نے مسلح جدوجہد کے بجائے جمہوری راستہ اختیار کیا ہے‘ بلوچستان کو لینڈ مافیا، کرپٹ بیوروکریسی اور ظالم جاگیرداروں و سرداروں کے حوالے کردیا گیا ہے‘ ہم بلوچستان میں دن میں 5 دفعہ اپنی شناخت کرواتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں‘ پاکستان اس وقت تک مستحکم نہیں ہوگا جب تک چادر اورچار دیواری کا تقدس پامال کرنے کا سلسلہ بند نہ ہوگا‘ اسلام آباد کے حکمران بلوچستان کے ساتھ وہی رویے رکھتے ہیں جو مشرقی پاکستان کے عوام کے ساتھ رکھا گیا تھا‘ بلوچستان کا سونا، چاندی، سوئی گیس، کوئلہ یہاں کے عوام کو ملنا چاہیے‘ بلوچستان کے عوام چاہتے ہیں کہ ان کی مائوں کو عزت دی جائے، نوجوانوں کو بازیاب کروایا جائے‘ مائیں پکار رہی ہیں کہ ہمیں ہمارے بچے دے دیں‘ حکمران سن لیں! اگر وہ بندوق اور طاقت کے زور پر ملک میں استحکام چاہتے ہیں تو یاد رکھیں، طاقت کو ہمیشہ شکست ہوئی ہے‘ بلوچستان ہمارا ہے، بندوق والوں کا نہیں، بلوچستان کو ہم خود سنبھالیں گے‘ جماعت اسلامی کی بلوچستان کے حقو ق کے حصول کے لیے جدوجہد قابل تعریف وقابل تقلید ہے‘ بلوچستان کے مسائل کا حل مشاورت بات چیت اور سیاسی جدوجہد وآئینی مزاحمت ہے‘ بلوچستان کو لاوارث سمجھ کر وسائل کو ہڑپ کیے جا رہے ہیں‘ بلوچستان کے ولی وارث ہم ہیں‘ اہل بلوچستان وسائل کی حفاظت اور حقوق کے حصول کے لیے جماعت اسلامی کا ساتھ دیں‘ جماعت اسلامی مشاورت سے اہل بلوچستان کے حقوق کے حصول اور ان کے وسائل کی حفاظت کر رہی ہے‘ لوٹ مار، بے روزگاری، بارڈر بندش و دیگر مسائل کے حل کے حوالے سے حقوق بلوچستان مہم چلا ر ہی ہے۔ سید فراست شاہ نے کہا کہ قدرت نے بلوچستان کو سونا، چاندی، گیس، تیل، پیڑول، ڈیزل، کوئلہ و دیگر معدنیات سے نوازا ہے‘ ذخائر اس قدر زیادہ ہیں کہ ہم اپنی خود کفالت کا سفر بڑی آسانی سے طے کر سکتے ہیں‘ یہ صوبہ پاکستان کے علاقائی اور عالمی تجارت کے دروازے کی حیثیت رکھتا ہے‘ بلوچستان کے قدرتی وسائل جن میں ریکوڈک کاپر گولڈ مائن، کرومائیٹ، سنگ مرمر اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائر شامل ہیں، عالمی سرمایہ کاروں کے لیے سرمایہ کاری کے بے مثال مواقع فراہم کرتے ہیں‘ بلوچستان کی زراعت اور ماہی گیری کے شعبے بھی سرمایہ کاری کے لیے پرکشش ہیں، یہاں اعلیٰ معیار کی کھجور، سیب، انار اور انگور کی پیداوار ہوتی ہے‘ ہمارا سب سے بڑا اثاثہ بلوچستان کے نوجوان ہیں جو پاکستان کے لیے بھی بہت اہم ہیں‘ نوجوان بہت ہی ہنر مند اور پڑھے لکھے ہیں‘ بد قسمتی سے باصلاحیت بلوچستان کے عوام کو اوپر کی سطح پر نہیں لایا جاتا‘ ہمارے ملک کا گلہ سڑا نظام ہے جس کے باعث بلوچستان کے پڑھے لکھے لوگوں کو ضائع کیا جا رہا ہے‘ بلوچستان میں منرل ڈیولپمنٹ کے حوالے سے بہت سارے مواقع موجود ہیں لیکن حکومتی سرپرستی میں کام نہیں کرنے دیا جاتا‘ 1950ء میں صوبے میں گیس دریافت ہوئی جو تمام صوبہ جات میں تقسیم ہوتی ہے لیکن خود بلوچستان کے عوام کو گیس فراہم نہیں کی جاتی‘ اگر پائپ لائن کے ذریعے گیس کی فراہمی مشکل ہے تو اب نئی ٹیکنالوجی کے بعد ٹرکوں کے ذریعے ایل پی جی گیس فراہم کی جاسکتی ہے لیکن اس پر کوئی عمل نہیں کرتا۔ نسیم زہرہ کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کی زندگی میں امن چین اور سدھار لانے کے لیے ان کو ان کے آئینی حقوق دینے ہوں گے‘ ریاست سے اعتماد کا رشتہ لازم ہے‘ اعتماد یکطرفہ نہیں دوطرفہ ہی ہوتا ہے‘ گزرے ہوئے کل سے سیکھنا ہے ناکہ ماضی کی غلطیوں میں ڈوب جانا ہے‘ صحیح سمت میں بڑھنے اور مثبت عوام دوست نتائج حاصل کرنے کے لیے اور آئینی طرز کو اپنانے کے لیے بلوچستان میں 3 فوری اقدامات لازم ہیں۔ نمبر ایک جبری گمشدگی کا مکمل خاتمہ، دو حقیقی سیاسی نمائندگی اور تین بلوچستان کے ناراض شہریوں کے ساتھ کی ڈائیلاگ کی شروعات ہے۔ بس یہی ایک طریقہ ہے بلوچستان میں بگاڑ کو ختم کرنے کا اور اسی طریقے سے بلوچستان کے لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا جا سکتا ہے‘ سیکورٹی کے معاملات بھی نہایت اہم ہیں‘ دہشت گردی کو روکنا، پاکستان کا خارجی دیرینہ دشمن قوتوں سے نمٹنا، اس کے لیے پاکستان کو اپنی انٹیلی جنس اور سیکورٹی اداروں کی مہارت کو بڑھانا ہے۔ نیشنل پلان آف ایکشن کو متحرک کرنا ہے‘ بلوچستان کو سیاسی طور پر حقیقی جمہوریت کی ڈگر پر ڈالنا ہے‘ اگر حکومت عزم دکھائے تو بلوچستان کے مسائل حل کیے جا سکتے ہیں‘ حالات کو سلجھانے کی خواہش تو پاکستان میں ہر دور میں پائی گئی۔ سوال البتہ ہمیشہ بگڑے ہوئے حالات میں ابھرتے ہوئے معاملات اور مشکلات کو حقیقت پسندانہ طریقے سے سمجھنے اور پھر سلجھانے کے لیے حکومت کی حکمت اور فراست کا ہوتا ہے۔ اس فہم کے بغیر نہ ریاستی طاقت اور نہ سیاسی جوڑ توڑ کسی بھی ملک کو سنبھال پاتے ہیں‘ مسئلہ نیتوں کا نہیں، سمجھ اور اہلیت کا ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: بلوچستان کے عوام کو بلوچستان کے مسائل جماعت اسلامی بلوچستان میں بلوچستان کو پاکستان کے کے حوالے مسائل کا ہیں کہ کے لیے اور ان

پڑھیں:

فلسطین، مزاحمت اور عرب دنیا کی خاموشی

اسلام ٹائمز: عرب ممالک کے اثر و رسوخ، ان پر پاکستان کے انحصار اور آئی ایم ایف کی معاشی پابندیوں کے باعث ریاستی سطح پر بھی ایسی ہی پالیسی اپنائی گئی، جس کا نتیجہ انیس ماہ کی مکمل خاموشی اور عدم فعالیت کی صورت میں نکلا۔ لیکن ایک تکلیف دہ خاموشی کے بعد ناگہاں پاکستان کے مذہبی طبقات میں تحرک ایجاد ہوگیا ہے، جس کے اسباب اور نوعیت پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔ تحریر: علامہ سید جواد نقوی

سعودی وزیرِ دفاع کا دورۂ ایران ایک غیر معمولی سفارتی اقدام کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا جب ایران امریکہ کے ساتھ نیوکلیئر مذاکراتی عمل میں مصروف ہے، اسرائیل کے ساتھ شدید تنازع میں ہے اور یمن کے مسئلے پر بھی سعودی پالیسی سے متضاد موقف رکھتا ہے۔ سعودی ولی عہد بن سلمان کے بڑے معاشی منصوبے خطے میں دیرپا امن کے متقاضی ہیں، جبکہ امریکہ کی قیادت سیاسی حکمتِ عملی کے میدان میں بے صبری، عجلت اور جارحانہ طرزِ عمل کا مظہر بن چکی ہے اور اسرائیل بدستور غیر مشروط امریکی حمایت کے بل بوتے پر فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے۔ ایران اس صورتِ حال پر محض بیانات تک محدود نہیں، بلکہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں جنگ کے لیے بھی تیار ہے۔ فلسطینی محاذ پر وہ عسکری سطح پر اپنی پوزیشن واضح کر چکا ہے کہ وہ مزاحمت کے ہر راستے پر قائم ہے۔ تاہم، شام کے بحران کے بعد وہ راستے، جن کے ذریعے ایران فلسطین اور حزب اللہ کی عملی مدد کرتا تھا، بڑی حد تک منقطع ہو چکے ہیں۔

اس کے برعکس سعودی عرب کا حمایت یافتہ دو ریاستی حل، جو اسرائیل کو تسلیم کرنے، اسے خطے میں ایک معمول کی حیثیت دینے اور اس کے ساتھ معاشی تعاون پر مبنی ہے، اس امید پر قائم ہے کہ اس سے خطے میں بڑے معاشی منصوبوں کے لیے امن و استحکام کی ضمانت حاصل ہو سکے گی۔ تاہم، دوسری جانب مشرقِ وسطیٰ میں "گریٹر اسرائیل" کا منصوبہ حالات کو نہایت پیچیدہ اور تشویشناک بنا رہا ہے۔ یہ منصوبہ تین ہزار سال پرانی یہودی سلطنت کی سرزمینوں کو مذہبی و تاریخی قلمرو قرار دے کر سامنے آ گیا ہے اور فلسطینی عوام کے لیے متبادل عرب علاقوں کی تجاویز پیش کر رہا ہے۔ اب یہ منصوبہ صرف فلسطین کو صفحۂ ہستی سے مٹانے تک محدود نہیں رہا، بلکہ پورے خطے کی جغرافیائی اور نظریاتی تشکیلِ نو کا ایجنڈا بن چکا ہے۔ سعودی عرب کی پالیسی اس وقت ایک ایسے نازک موڑ پر آن پہنچی ہے، جہاں پسپائی بھی خطرے سے خالی نہیں اور پیش قدمی بھی اندیشوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایسے میں اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیاں اس بند گلی کو مزید تنگ کرتی جا رہی ہیں۔

یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ انیس ماہ کی جاری جنگ کے دوران سامنے آنے والی خاموشی اور غیر فعالیت کوئی اتفاقی امر نہیں تھا، بلکہ اس کے پیچھے سعودی عرب کی وہ پالیسی کارفرما تھی جو مسئلہ فلسطین کو صرف دو ریاستی حل کی عینک سے دیکھتی ہے۔ یہ پالیسی اسرائیل کے ساتھ ممکنہ شراکت داری کے امکانات کو ترجیح دیتی ہے، چاہے اس کے لیے فلسطینی مزاحمت کو پسِ پشت ڈالنا ہی کیوں نہ پڑے۔ اس مقصد کے لئے جنگ کے دوران بھی ایک ہمہ جہت اور نہایت پیچیدہ حکمتِ عملی اختیار کی گئی، جس کے تحت مزاحمتی بیانیے کو امت کے دینی و اجتماعی شعور سے کاٹ کر اسے محض ایک مسلکی ایجنڈا ثابت کیا گیا اور اسلامی مزاحمت کو دانستہ طور پر فرقہ واریت کے خانے میں مقید کرنے کی کوشش ہوئی تاکہ اسے امتِ مسلمہ کا مشترکہ فریضہ ماننے کے بجائے اہلِ تشیع کا مخصوص ہدف باور کرایا جا سکے۔

اہلِ سنت مذہبی طبقات کو اس انداز سے متاثر کیا گیا کہ گویا فلسطین کی جنگ دراصل ایران اور حزب اللہ کے مسلکی عزائم کا پرتو ہے۔ یہ تاثر پھیلایا گیا کہ اگر یہ مزاحمت کامیاب ہوئی تو اس کا سارا کریڈٹ ایران کو جائے گا، اور یوں ایران مسلم دنیا میں ایک قائدانہ مقام حاصل کر لے گا۔ یہاں تک کہ پاکستان میں بعض مذہبی شخصیات نے سرِ عام یہ دعویٰ کیا کہ ایران اس جنگ کو سنیوں کو شیعہ بنانے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ کہیں اسے سعودی ایران پراکسی جنگ قرار دے کر غیر جانبدار رہنے کا سبق پڑھایا گیا، تو کہیں سکوت و خاموشی کو حکمت و بصیرت کے قالب میں پیش کیا گیا۔ مذہبی وحدت کے کسی بھی اشارے کو کچلنے کے لیے پاکستان میں شیعہ علما کو اتحادِ امت کی کسی بھی کوشش میں دانستہ طور پر نظر انداز کیا گیا تاکہ فلسطین کے مسئلے پر اتحاد کی کوئی علامت ابھرنے نہ پائے۔ اسی مہم کو تقویت دینے کے لیے ایران کے مزاحمتی ماڈل کو غیر عملی اور نقصان دہ قرار دے کر انسانی حقوق، سیاسی حل، اور ریلیف جیسے "نرم" بیانیوں کو آگے لایا گیا۔ حماس کی قیادت کو تقسیم کر کے ایران سے دور کرنے کی کوششیں کی گئیں، جب کہ فلسطین اتھارٹی کے لیے متبادل مالی وسائل، سفارتی پشت پناہی، اور "ابراہیم معاہدات" جیسے اقدامات کے ذریعے فلسطینی بیانیے کو عرب اسٹیبلشمنٹ کے تابع بنانے کی کوشش کی گئی۔

عرب ممالک کے اثر و رسوخ، ان پر پاکستان کے انحصار اور آئی ایم ایف کی معاشی پابندیوں کے باعث ریاستی سطح پر بھی ایسی ہی پالیسی اپنائی گئی، جس کا نتیجہ انیس ماہ کی مکمل خاموشی اور عدم فعالیت کی صورت میں نکلا۔ لیکن ایک تکلیف دہ خاموشی کے بعد ناگہاں پاکستان کے مذہبی طبقات میں تحرک ایجاد ہو گیا ہے، جس کے اسباب اور نوعیت پر سنجیدہ سوالات اٹھتے ہیں۔ کیا یہ واقعی فلسطین سے مخلصانہ ہمدردی ہے، یا کسی اور ایجنڈے کا حصہ؟ سوال یہ ہے کہ اب یکدم جذبات کیوں بھڑک اٹھے؟ اور پہلے 19 ماہ کیوں خاموشی رہی؟ یہ جذبات اگر واقعی فلسطینی عوام کیلئے ہیں تو اُن لمحوں میں کیوں نہیں اُبھرے جب حزب اللہ، حماس اور ایران اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر رہے تھے؟ یہ بات مسلمہ ہے کہ پاکستانی عوام کے جذبات ایسے عوامل سے متاثر ہوتے ہیں جو بعض اوقات شدید ظلم پر بھی خاموشی اختیار کروا دیتے ہیں، اور کبھی اچانک انہیں جوش دلا دیتے ہیں جن کی شناخت ضروری ہے۔

یہ تمام تحرک اس صورتِحال کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، جس میں پاکستان کی جغرافیائی اور سیاسی حیثیت غیر معمولی اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ امریکہ اور ایران کے درمیان کسی ممکنہ تصادم کی صورت میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک خلیجی ریاستیں ہوں گی، کیونکہ ایران کے ابتدائی اہداف وہ امریکی فوجی اڈے ہوں گے جو انہی عرب ممالک کی سرزمین پر قائم ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے ممالک اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ایران کیخلاف کسی ممکنہ تنازعے کی صورت میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری حمایت ان کے مفادات کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ عرب ممالک خصوصاً پاکستان کی حمایت کو "دفاعِ حرمین شریفین" جیسے مقدس اور حساس مقصد کے لیے نہایت ضروری سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان کی سیاسی حمایت، سفارتی تعاون، اور ممکنہ دفاعی شراکت کو اپنی حکمتِ عملی کا اہم جزو بنا رہے ہیں۔

آج فلسطین کا مسئلہ صرف ایک انسانی المیہ یا علاقائی تنازع نہیں رہا، بلکہ یہ امتِ مسلمہ کے اجتماعی شعور، نظریاتی یکجہتی، اور عالمی عدل کے تصور کا کڑا امتحان بن چکا ہے۔ اس قضیے میں فرقہ واریت، علاقائی سیاست اور عالمی طاقتوں کے مفادات اس حد تک در آئے ہیں کہ اصل حقیقت تک رسائی اور اس پر ثابت قدمی خود ایک مستقل مزاحمت کا روپ دھار چکی ہے۔ اب وقت آ چکا ہے کہ فلسطین کی حمایت کو کسی سیاسی مصلحت، مسلکی تعصب یا خارجی دباؤ سے بالا تر ہو کر خالصتاً حق و انصاف کی بنیاد پر اپنایا جائے۔ یہ معرکہ صرف زمین یا وسائل کا نہیں، بلکہ یہ حق و باطل کے درمیان وہ تاریخی جدوجہد ہے جو ہماری دینی غیرت، فکری پختگی، اور انسانی شعور کی آخری آزمائش بن چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلسطین، مزاحمت اور عرب دنیا کی خاموشی
  • جے یو آئی اجلاس:سیاسی جدوجہد جاری رکھنے اور سیاسی اتحاد میں نہ جانے کا فیصلہ
  • غزہ کے لوگوں کیلئے احتجاج وقت کی اہم ضرورت ہے، جماعت اسلامی بلوچستان
  • بلوچستان کا بحران اور نواز شریف
  • سیاسی جماعتوں کو پرامن احتجاج کا آئینی حق حاصل ہے تاہم عوام کا خیال رکھا جائے، شرجیل میمن
  • جے یو آئی کا پی ٹی آئی سمیت کسی سیاسی اتحاد میں شامل نہ ہونے کا فیصلہ
  • کوئٹہ، ملی یکجہتی کونسل کا فلسطین کی حمایت میں 26 اپریل کو احتجاج کا اعلان
  • 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد مزید کسی ترمیم کی ضرورت نہیں: اعظم نذیر تارڑ
  • بلوچستان کو خیرات نہیں، بلکہ حقوق دیں، مولانا ہدایت الرحمان
  • بلوچستان کے مسائل کا حل کیسے ممکن، کیا پیپلزپارٹی نے صدارت کے بدلے نہروں کا سودا کیا؟