اپنی اساس سے ہٹنے اور بدعہدی کی سزا
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
ہر پاکستانی کی طرح میں بھی پاکستان کے معاشی مسائل، معاشرتی اقدار کی پامالی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے پریشان ہو کر سوچتا رہتا ہوں کہ آخر کیوں قدرتی وسائل سے مالا مال پاکستان ان حالات سے دوچار ہوا؟ یہی سوال اپنے مرشد و مربی باباجان ڈاگئی باباجی رحمہ اللہ سے ہمیشہ پوچھتا رہتا تھا اور آج بھی اہل علم و نظر رجال اللہ سے پوچھتا رہتا ہوں۔
باباجانؒ سمیت تقریباً تمام کے جوابات کا خلاصہ ہے کہ "ہم بحیثیت قوم نظریہ پاکستان سے غداری اور اللہ رب العزت سے بدعہدی کے جرم کی سزا کاٹ رہے ہیں"۔ مگر یہاں داعی قرآن، مبلغ اسلام ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے نقطۂ نظر پر بات مناسب ہوگی کیونکہ ان کا کہا سب کچھ ان کی زبانی ریکارڈیڈ ہے اس لیے مزید کسی سند کی ضرورت نہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے انتقال کو 14 برس بیت چکے ہیں مگر وہ اپنی زندگی میں جتنے مقبول تھے وفات کے بعد اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ جو اس سے جڑجاتا ہے قرآن اسے زندگی کے علاوہ مرنے کے بعد بھی بلندیوں پر لے جاتاہے۔
سوشل میڈیا پر ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے بیانات خصوصاً ان کی پیش گوئیوں پر مبنی کلپ سچ ثابت ہونے پر بہت تیزی سے وائرل ہورہے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسا ہی ایک کلپ میرے سامنے آیا جسے سن کر مجھے اس میں میرے مرشد و مربی باباجان حضرت ڈاگئی باباجیؒ، مفتی زر ولی خان صاحبؒ، شامنصور کے شیخ شمس الہادیؒ اور پیر ذوالفقار صاحب دامت برکاتہم کے نقطۂ نظر کی جھلک نظر آئی۔
اس 20 سال پرانے کلپ میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ بتا رہے ہیں کہ " 4سال قبل کسی نے سوال کیا کہ کیا پاکستان کے خاتمے کی الٹی گنتی شروع ہوچکی ہے؟ جس پر میرا جواب تھا، ہاں الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ پاکستان اپنے قیام کی بنیادی وجہ کھو چکا ہے، پاکستان کسی نسلیت، کسی لسانیت اور کسی قومیت کی بنیاد پر نہیں بنا تھا، یہ تو اسلام کے نام پر بنا تھا۔ تقسیم ہند تاریخ انسانی کی عظیم تقسیموں میں سے ایک تقسیم تھی۔
لاکھوں انسان مارے گئے تھے، کروڑوں انسانوں نے ہجرت کی ، اِدھر سے لوگ اْدھر گئے، اْدھر سے لوگ اِدھر آئے۔ یہ سب کچھ کس لیے تھا؟ صرف اسلام کے لیے۔ ظاہر ہے یہ ایک نظریاتی ریاست تھی لیکن یہاں وہ نظریہ آیا نہ اس کو تقویت دی گئی اور نہ اسے نافذ کیا گیا، درحقیقت پاکستان اپنی وجہ تخلیق کھو چکا ہے، اس اعتبار سے کئی سال پہلے یہ ملک ایک ناکام ریاست ثابت ہوچکا ہے۔ بس میں آپ کو یاد کرارہا ہوں کہ پاکستان کی وجہ تخلیق ختم ہوچکی ہے۔
دوسری بات یہ کہ ہم نے اللہ سے جو بدعہدی کی اس کی سزا ہمارے اوپر مسلط ہوچکی ہے۔ ایک معنوی سزا ہے، وہ فیزیکل نہیں ہے،نفاق ہمارے دلوں کے اندر پھیلا دیا گیا ہے، مسلمانان پاکستان دنیا کی منافق ترین قوم ہے۔ اللہ کا قاعدہ ہے جو اللہ نے قرآن کریم میں بیان فرما دیا کہ "جب کوئی قوم اللہ سے عہد کرتی ہے اور اس کے بعد وہ قوم وعدہ خلافی کرتی ہے تو ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نفاق پیدا کر دیتا ہے"۔ ہمارے درمیان اس نفاق کی وجہ سے باہمی مخالفتیں ہوگئیں اب ہم قوم نہیں، قومیتوں میں بٹ چکے ہیں۔ وہ قوم جو مسلم لیگ کے جھنڈے تلے ایک تھی، اب وہ قوم کہاں ہے؟
اب اْنہیں ڈھْونڈ چراغِ رْخِ زیبا لے کر
قوم کا تو کہیں وجود ہی نہیں ہے، قومیتوں اور عصبیتوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ علاقائیت ہے، نسلیت ہے، لسانیت ہے مگر قومیت نہیں اس اعتبار سے یہ نفاق باہمی، نفاق کی ایک شکل ہے۔ نفاق کے بعد دوسرا نمبر اخلاقیات کا ہے جس کا جنازہ اس ملک میں نکل چکا ہے۔ یہ بھی اسی نفاق کا نتیجہ ہے، سب سے بڑی منافقت کی علامت ہمارا دستور ہے، کہنے کو سارا اسلام اس میں لکھا ہوا ہے مگرحقیقت میں زیرو ہے۔ تمام اسلامی شقیں غیر موثر ہیں۔ ان کے موثر ہونے کی کوئی شکل دکھائی نہیں دیتی۔
اس میں لکھا ہے کہ کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بنے گا، مگر اسے بھی اسلامی نظریاتی کونسل سے منسلک کر دیا گیا، وہ اپنی سفارشات دیتی رہے گی، رپورٹوں کے انبار لگ گئے، الماریاں بھر گئیں، مگر کوئی ایک رپورٹ بھی آج تک پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوئی۔ کسی ایک رپورٹ کی بنیاد پر قانون سازی نہیں ہوئی۔ معنوی سزا بھی ہم بھگت رہے ہیں اور اللہ کے عذاب کی صورت میں فیزیکل عذاب بھی بھگت رہے ہیں، ایک عذاب 1971ء میں آیا تھا جب ملک دو لخت ہوگیا تھا۔ میں دس پندرہ سال سے جھنجھوڑ رہا ہوں کہ ہوش میں آؤ، تباہی و بربادی تمہارے دروازے پر کھڑی ہے"۔
بلاشبہ ڈاکٹر اسرار احمدؒ ہمیں مسلسل جھنجھوڑتے رہے مگر ہم آج تک غفلت کی نیند سے بیدار ہونے کے لیے تیار نہیں۔ 1971ء میں پاکستان دولخت ہونے کا سانحہ ہوا تو ہمیں ہوش کے ناخن لینے چاہیے تھے مگر ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور خواب خرگوش کے مزے لوٹتے رہے۔
پاکستان کا مطلب کیا "لا الہ الا اللہ" کے نعرے پر پورے ہندوستان کے مسلمان یک جان و یک آواز ہوکر مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہو کر حصول آزادی کے لیے بیک وقت انگریز اور ہندوؤں سے ٹکرا گئے اور صرف سات سال کے عرصے میں کلمہ طیبہ کی برکت سے منزل مقصود پا گئے اور منزل مقصود کیوں نہ پاتے جب اسلام ان کی منزل، ان کی جان، ان کی پہچان، ان کی شناخت اور نصب العین تھا۔ "لاالہ الا اللہ" کا نعرہ ہی نظریہ پاکستان تھا۔
اسی پر پاکستان بنا اور قائم ہوا۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان دو حصوں پر مشتمل ملک اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا، دونوں ملکوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ اور درمیان میں ازلی و ابدی دشمن بھارت تھا، مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے مسلمانوں کے زبان و مزاج، طرز زندگی اور تہذیب و ثقافت ایک دوسرے سے مختلف، کھانا اور پہناوا مختلف تھا، صرف کلمہ طیبہ وہ قدر مشترک تھی جس نے اس قدر تفریق کے باوجود دونوں خطوں کے رہنے والوں کو ایک لڑی میں پرو دیا اور انھوں نے مل کر پاکستان کے حصول کے لیے جدوجہد کی۔ کلمہ طیبہ کے نام پر ملک تو حاصل ہوگیا لیکن جس مقصد کے لیے ملک لیا گیا تھا اسے مکمل نظر انداز کیا گیا اس لیے درست کہا ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے کہ جب پاکستان اپنے تخلیق کی وجہ کھو بیٹھا تو 1971ء میں ملک دولخت ہوگیا۔
آدھا ملک گنوانے کے باوجود ہم ہوش میں نہ آئے۔ ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی تشخیص سوفیصد درست تھی، انھوں نے صرف تشخیص پر ہی اکتفا نہیں کیا تھا، علاج بھی بتایا تھا۔ ان کی ایک کتاب"استحکام پاکستان" کے نام سے 1992ء میں شایع ہوئی تھی، اس کتاب میں انھوں نے پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے کہا تھا کہ "امتِ مسلمہ اور پاکستانی قوم کو قومِ یونسؑ کی طرح توبہ کرنے کی توفیق ہوجائے تو عذاب ٹل جائے گا"، لیکن انھوں نے اس کتاب میں ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ "یہ ایک مشکل بلکہ ایک ناممکن کام ہے۔
ہم نے بہت سارا وقت اللہ سے کیے وعدے سے روگردانی میں گزار دیا، اب ہمیں توبہ کرنی اور اللہ سے کیا گیا وعدہ پورا کرکے اس ناممکن کو ممکن بنانا ہوگا جس کا ڈاکٹر اسرار احمدؒ بتا کر چلے گئے۔ آج بھی کلمہ طیبہ اور نظریہ پاکستان کی طرف صدق دل سے رجوع پاکستان کی بقا، تحفظ، استحکام، سلامتی کا ضامن اور اس کے ازلی دشمنوں سے مقابلے کے لیے بہترین ہتھیار ہے۔ کیا ہوا، اگر دشمن تعداد میں زیادہ اور طاقتور ہے، دشمن اُس وقت بھی زیادہ طاقتور اور مسلمانوں کو مٹانے اور جھکانے کا عزم کیے ہوئے تھے۔
وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہندوستان تقسیم اور پاکستان قائم ہو مگر اللہ رب العزت کے فضل اور کلمہ طیبہ کی برکت سے پاکستان معرض وجود میں آیا۔ جب پاکستان بنا تو اس وقت پورے ہندوستان میں صرف آٹھ کروڑ مسلمان تھے اور آج صرف پاکستان میں مسلمانوں کی تعداد 25کروڑ ہے مگر دشمن آج بھی چاہتا ہے کہ پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ جائے مگر اگر ہم نے توبہ و استغفار سے رب کو راضی کیا تو پاکستان کو مٹانے کے خواب دیکھنے والے خود مٹ جائیں گے اور پاکستان تاقیامت قائم و دائم رہے گا۔ انشاء اللہ۔ نظریہ پاکستان یعنی "لاالہ الا اللہ" کی طرف رجوع ہمیں کامیابیوں، کامرانیوں اور رفعتوں کی طرف لے جائے گا۔ اس کے علاوہ ہر راستہ تباہی و بربادی کا راستہ ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر اسرار احمد نظریہ پاکستان پاکستان کے کلمہ طیبہ انھوں نے رہے ہیں اللہ سے کے لیے کی وجہ کے نام ہے مگر چکا ہے کے بعد
پڑھیں:
میں نے کچھ غلط نہیں کیا’ سیریز ایڈولینس پر ایک مختلف نقطہ نظر‘
’میں نے کچھ غلط نہیں کیا‘ یہ وہ جملہ ہے جو حال ہی میں ریلیز ہونے والی برطانوی منی سیریز Adolescence (ایڈولینس) میں ایک تیرہ سالہ بچہ بارہا دہراتا ہے، جو اپنی ہی کلاس فیلو کو سفاکی سے قتل کر دیتا ہے، یہی جملہ میرے لیے اس تحریر کا نقطہ آغاز بنا، کیونکہ یہ جملہ صرف ایک بچے کے دفاع کا بیان نہیں بلکہ ایک پورے ذہنی، سماجی اور خاندانی بحران کی عکاسی کرتا ہے۔
ایڈولینس یعنی بلوغت، یہی وہ عمر ہے جہاں شخصیت کی بنیاد رکھی جاتی ہے، یہ دور کسی بھی انسان کی زندگی کی سب سے نازک، پیچیدہ اور فیصلہ کن منزل ہوتا ہے۔ تربیت میں جو کمی یا زیادتی اس عمر میں ہو، اس کا اثر باقی زندگی پر لازمی طور پر پڑتا ہے، اس عمر میں بچوں کا ذہن ایک خالی کینوس کی مانند ہوتا ہے، جہاں یا تو رنگ بھرے جاتے ہیں یا دھندلا دھواں۔ سیریز کے پہلے سین اور پہلے ہی مکالمے نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا اور پلک جھپکتے میں میں 2000 کے انگلینڈ، کاؤنٹی یارکشائر کے شہر لیڈز پہنچ چکی تھی، جہاں میں اپنی فیملی کے ساتھ کئی برس مقیم رہی ہوں۔
یارکشائر کے اس مخصوص لہجے کو سمجھنے میں مجھے تب کئی ماہ لگے تھے، لیکن یہ سیریز دیکھتے ہوئے ہر لفظ بغیر سب ٹائٹل کے میرے اندر اترتا چلا گیا، یہ سیریز دراصل اداکار اسٹیفن گراہم کا ’برین چائلڈ‘ ہے، جس میں انہوں نے ہدایتکاری، کاسٹنگ اور پیشکش میں کئی تخلیقی تجربات کیے، خاص طور سے تمام کاسٹ غیرمانوس اداکاروں پر مشتمل رکھی گئی جبکہ سیریز میں یارکشائر کے عام گھرانوں کا ماحول، طرز رہائش اور بول چال من وعن دکھائی گئی ہے، فلم کے کئی سین اور مکالمے فی البدیہہ تھے اور ہر قسط ایک سنگل شاٹ میں فلمائی گئی تھی، لیکن یہ تمام فنی کامیابیاں اپنی جگہ مگر میری گفتگو کا محور اس سیریز کی فنی جہتیں نہیں بلکہ اس کا وہ سماجی و نفسیاتی پس منظر ہے جسے یہ سیریز بے مثال انداز میں پیش کرتی ہے۔
جیسا کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا کے بے لگام استعمال، نامناسب تبصروں اور توہین آمیز ایموجیز کو نئی نسل کی بگاڑ کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے تو کسی حد تک یہ بات درست ہے کیونکہ سوشل میڈیا نے پوری دنیا کے معاشروں پر جو اثرات مرتب کیے ہیں ان سے انکار ممکن نہیں۔
مگر آئیے، میں آپ کو 2002 کے انگلستان کا منظر دکھاتی ہوں، ایک ایسا وقت جب انسٹاگرام، فیس بک، ٹوئٹر، واٹس ایپ تو دور کی بات، اسمارٹ فونز کا بھی کوئی وجود نہیں تھا۔
اس زمانے میں جب میں پہلی بار سٹی آف لیڈز اسکول گئی جو ساتویں سے دسویں جماعت تک کا ایک وسیع و عریض تعلیمی ادارہ تھا، جدید سہولیات سے آراستہ، جہاں اساتذہ و طلبہ کے لیے ہر ممکن آسائش موجود تھی، لیکن میں نے اپنی آنکھوں سے وہاں کے طلبہ کا جو طرزِ عمل دیکھا، وہ ایڈولینس کی دوسری قسط میں اسکول کے مناظر میں دکھائی گئی ’طوفانِ بدتمیزی‘ کا عشر عشیر بھی نہیں تھا۔
جب سیریز میں پولیس کے دونوں اہلکار اسکول کے باہر کھڑے ہو کر دل گرفتہ لہجے میں گفتگو کرتے ہیں، تو ان کا ہر جملہ کڑوی سچائی کو آشکار کرتا ہے، ان مناظر کو دیکھ کر مجھے وہاں پیش آنے والے اپنے تجربات اور اس معاشرے کی تہہ در تہہ پیچیدگیاں شدت سے یاد آئیں۔
سیریز کا ایک اہم پہلو والدین اور اولاد کے درمیان فاصلہ اور خالی پن ہے، مغربی معاشروں میں بچوں پر ہونے والے پرانے تشدد کے خلاف قوانین تو ضرور بنائے گئے، لیکن ان قوانین کے نفاذ نے بچوں کی خودمختاری کو اس حد تک بڑھا دیا کہ اب والدین بے بس اور بےاثر ہو چکے ہیں، برطانیہ میں وقت کے ساتھ ’چائلڈ پروٹیکشن‘ کے قوانین اتنے سخت ہوگئے ہیں کہ معمولی ڈانٹ ڈپٹ بھی ’ابیوز‘ کے زمرے میں شمار کی جانے لگی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بچوں میں ضبط، ہمدردی اور خوداحتسابی جیسی صلاحیتیں ناپید ہوتی چلی گئیں۔ میں نے یہ خالی پن اپنی آنکھوں سے برطانیہ کے اسکولوں میں محسوس کیا تھا، جہاں سہولتیں تو جدید تھیں، مگر طلبہ کا رویہ بدتمیزی اور تشدد کی حد تک بے قابو تھا۔
سیریز میں کئی مناظر ایسے ہیں جو نہ صرف ایک تیرہ سالہ بچے کی نفسیاتی الجھنوں کو بے نقاب کرتے ہیں بلکہ مردانگی کے طاقتور مگر زہریلے اظہار کو بھی نہایت خوبی سے دکھاتے ہیں۔ خاص طور پر جیمی اور اس کی سائیکاٹرسٹ کے درمیان ہونے والی گفتگو کے مناظر نہایت متاثر کن ہیں، جہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ بچے میں سوسیوپیتھ جیسے رجحانات موجود ہیں۔
اکثر لوگ سوسیوپیتھ اور سائیکوپیتھ کو ایک ہی سمجھتے ہیں، حالانکہ دونوں کا تعلق اگرچہ Antisocial Personality Disorder (ASPD) سے ہوتا ہے، لیکن ان کی علامات، وجوہات اور طرزِ عمل میں نمایاں فرق ہے۔ سوسیوپیتھ اکثر اپنے ماحولیاتی پس منظر جیسے گھریلو تشدد، والدین کی عدم موجودگی یا مسلسل تنقید کے نتیجے میں ایسے رویے اپناتے ہیں، جبکہ سائیکوپیتھ عموماً پیدائشی طور پر جذباتی طور پر سرد اور بے حس ہوتے ہیں۔ جیمی کی شخصیت میں ماحولیاتی عنصر کی جھلک نمایاں ہے، ایک مصروف گھریلو نظام، والدین کی عدم توجہی اور ایک بےبس معاشرہ۔
سیریز میں سماج کا سب سے خطرناک پہلو ’مردانگی کا پاور شو اور مردانہ مائنڈ سیٹ‘ کو بھی بڑی خوبی سے اجاگر کیا گیا ہے جو ہمارے جیسے معاشروں میں تو معمول کی بات سمجھا جاتا ہے لیکن اب یہ صرف جنوبی ایشیا یا مشرقی دنیا کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ رویہ اب مغربی معاشروں میں بھی واضح طور پر نظر آنے لگا ہے۔ ہم پاکستان یا انڈیا میں عورتوں پر ہونے والے تشدد یا اجتماعی ریپ جیسے واقعات پر ماتم کناں ہیں، مگر برطانیہ جیسے آزاد خیال معاشرے کے نوعمر لڑکوں کے ذہنی سانچے بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔
سیریز میں جیمی اپنی کلاس فیلو کیٹی کو اس لیے قتل کرتا ہے کیونکہ وہ اس سے تعلق قائم نہیں کرتی، جبکہ وہ اپنی تصاویر کسی اور کو بھیج دیتی ہے، یہ مائنڈ سیٹ دراصل وہی ہے جو نور مقدم کے بہیمانہ قتل کے پیچھے کارفرما تھا، عورت کا انکار، مرد کی انا کو چیلنج دیتا ہے اور پھر اس انا کی تسکین کے لیے طاقت کا اظہار کیا جاتا ہے، جس میں ریپ اور قتل جیسے جرائم بھی شامل ہوتے ہیں۔
اسکول میں پولیس اہلکاروں کی کیٹی کی قریبی دوست جیڈ سے بات چیت کا سین بھی قابل توجہ ہے جس میں بظاہر مرد پولیس اہلکار کیٹی کی لڑکوں سے دوستی کے بارے میں سوال کرتا ہے جس پر جیڈ غصے سے پوچھتی ہے کہ کیا اس برتے پر قتل کیا جاسکتا ہے؟ نور مقدم کے لیے ایسے نامناسب جملے یقیناً سب کو ہی یاد ہوں گے جو اس کے بہیمانہ قتل کو جواز مہیا کرتے تھے، مائنڈ سیٹ اسی کو کہتے ہیں۔
سیریز میں Incel کی ایک جدید اصطلاح بھی استعمال کی گئی، جو انٹرنیٹ کلچر سے ابھری ہے یعنی Involuntarily Celibate وہ شخص جو نہ چاہتے ہوئے بھی جنسی یا رومانوی تعلق سے محروم رہتا ہے، ایسے افراد اکثر عورتوں، معاشرے یا کامیاب مردوں کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ اصطلاح 1990 کی دہائی میں ایک خاتون نے ہمدردانہ فورم کے طور پر متعارف کروائی تھی، لیکن آج یہ عورت دشمن اور مخالف کمیونٹیز میں تبدیل ہو چکی ہے۔
اسی ذہنیت کو مزید ہوا دی سوشل میڈیا انفلوئنسر اینڈریو ٹیٹ نے، جس نے عورت کو مرد کی ملکیت قرار دینے جیسے کئی متنازع بیانات دیے اور 20/80 جیسے تصورات کو فروغ دیا، یعنی 80 فیصد عورتیں صرف 20 فیصد مردوں میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ ایسے نظریات اب مغرب میں کئی پوڈ کاسٹ میزبانوں اور انفلوئنسرز کے ذریعے عام ہو رہے ہیں، اور نوعمر لڑکے ان خیالات سے متاثر ہورہے ہیں، یہ زہر محض سوشل میڈیا تک محدود نہیں بلکہ کلاس رومز، گھروں اور عدالتوں تک سرایت کر چکا ہے۔
سیریز ایڈولینس میں جیمی کا یہ جملہ ’میں نے کچھ غلط نہیں کیا‘ ایک فرد کی نہیں، ایک نظام کی گواہی ہے، یہ صرف ایک بچہ نہیں کہہ رہا یہ دراصل ایک پورے سماجی اور ذہنی ڈھانچے کی سوچ ہے۔ ایک ایسا نظام جو بچے، مرد اور عورت تینوں کو اذیت میں رکھتا ہے۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ یہ ذہنیت، یہ مردانگی کا زہر، یہ احساسِ محرومی اور برتری کا ملاپ کب، کہاں اور کیسے پیدا ہوتا ہے؟ اور اسے روکنے کے لیے ہمیں تربیت، مکالمہ، خاندانی نظام اور نظامِ انصاف میں کن گہرائیوں تک اتر کر تبدیلی لانی ہوگی؟
اس سیریز کو محض ایک کرائم ڈرامہ نہ سمجھیے، یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم سب کے چہرے نظر آ رہے ہیں۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔
wenews ایشیا خاندانی نظام سیریز ایڈولینس صنوبر ناظر ظاہر جعفر عورت مرد معاشرہ مغرب نقطہ نظر نور مقدم قتل وی نیوز