Express News:
2025-04-22@11:19:02 GMT

کتاب اور دہشت گردی

اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT

ڈاکٹر چارلس ڈارون (1809-1889) کے نظریہ ارتقاء کے تحت چمپنز سے انسان ارتقاء پذیر ہوا۔ انسان جب غاروں میں رہتاتھا تو ابلاغ کا ارتقاء شروع ہوا۔ انسانوں نے پہلے اشاروں کے ذریعہ اپنا خیال دوسروں کو منتقل کرنا شروع کیا۔ پھر انسان نے لکھنے کا طریقہ سیکھ لیا۔ انسان پہلے درخت کی چھالوں پر اور جانوروں کی کھالوں اور پتھروں پر لکھتا تھا ۔

اس طرح انسانوں میں مزید شعور اجاگر ہونا شروع ہوا اور اپنی تخلیق کو کتاب کی صورت میں منتقل کرنے کی روایت پڑی۔ خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے پیغمبر بھیجے۔ ان پر کتابیں اتریں اور 16ویں صدی میں کاغذ کی ایجاد اور پھر پریس کی ایجاد نے علم کو پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یورپی ممالک میں کتاب کے ذریعے علم کے پھیلاؤ کا عمل تیز ہوا۔ صنعتی انقلاب کے ساتھ درمیانہ طبقہ اور مزدور طبقہ کا وجود ہوا اور شاعروں، ادیبوں اور دانشوروں نے نئے خیالات کو تخلیق کرنا شروع کیا۔

اخبار کے ادارے کے قیام کے ساتھ عوام اور حکمرانوں میں ابلاغ کا عمل مستحکم ہوا۔ سیاسی جماعتوں، مزدور، ادیبوں اور شاعروں کی انجمنوں کے قیام سے یورپ میں علمی ماحول کو تقویت ملنے لگی۔ اس کے ساتھ کتابوں کی اشاعت بھی تیز ہوگئی۔ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ یورپ میں چرچ کی آمریت تھی۔

بادشاہ وقت اور چرچ کے گٹھ جوڑ سے انسانوں میں شعور پیدا کرنے والے خیالات کی بیخ کنی کی جاتی تھی۔ یورپ ان کتابوں پر پابندی لگادینا چاہتا تھا جو چرچ کے خیالات کی نفی کرتی تھیں۔ فرانس کی St Joan of Arc نے چرچ کے مروجہ نظریات کو قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ جان آف آرک کو عدالت کے حکم پر پھانسی دیدی گئی تھی۔ اٹلی کے سائنس دان گلیلو نے اپنی تحقیق سے ثابت کیا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ چرچ نے اس کی کتاب کو ضبط کرکے گلیلو کو سزائے موت دیدی تھی۔

یورپی ممالک میں مذہبی کتابوں کے علاوہ سائنس، سیاسیات اور فلسفہ سے متعلق کتابوں کی اشاعت پر پابندی لگی۔ یورپ میں 14ویں صدی سے 17ویں صدی تک احیائے علوم Renaissance کی تحریکیں چلیں۔ احیائے علوم کے اس دور میں مذہب اور ریاست کو علیحدہ کیا گیا۔ زندگی کے معیار کو بلند کرنے کے لیے سائنسی تحقیق کو برتری حاصل ہوئی۔

اس کے ساتھ فرد کی آزادی ، نئے نظریات کا پرچار کرنے اور زندگی اور دنیا سے متعلق ہر قسم کے نظریات پر بحث کی آزادی کی اہمیت کو محسوس کیا گیا۔ اس عرصے میں ریاست پر عوام کی بالادستی، غربت کے خاتمے، خواتین اور مردوں کے درمیان امتیاز کے خاتمہ اور تعلیم اور صنعتی ترقی کی اہمیت پر بہت تحقیق ہوئی۔ برطانیہ آزادئ اظہار اور منحرفین کے مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔ برطانیہ، فرانس اور جرمنی وغیرہ میں سرمایہ دارانہ نظام اور سوشل ازم کے متعلق نئے خیالات سامنے آئے۔

 کارل مارکس 5 مئی 1818 کو جرمنی کے شہر Trier میں پیدا ہوا۔ اس کا تعلق ایک خوشحال گھرانہ سے تھا،مارکس نے فلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ اس نے سوشل ازم کا نظریہ پیش کیا۔ جرمنی اور بیلجیئم وغیرہ میں مارل مارکس کے نظریات پر پابندی لگ گئی۔ مارکس کو برطانیہ میں پناہ ملی۔ مارکس نے برطانیہ میں سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے لیے عظیم کتاب داس کیپیٹال تحریر کی۔ کارل مارکس 64سال کی عمر میں 14 مارچ 1883 کو لندن میں انتقال کرگیا۔ انسانی تاریخ میں برطانیہ کا نام اس بناء پر روشن حرفوں سے لکھا جانے لگا کہ برطانیہ نے ہی کارل مارکس کو پناہ دی۔

برصغیر ہندوستان میں مغلوں نے کئی سو سال تک حکومت کی۔ مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین بابر تھے۔ انھوں نے اپنی سوانح عمری تحریر کی تھی مگر اکبر کے دور میں جب ولندیزی افسروں نے پرنٹنگ پریس کا نمونہ پیش کیا تو اکبر کے دربار کے نورتن اس نمونہ کو شایع کرنے والی پرنٹنگ پریس کی اہمیت کو محسوس نہ کرسکے۔ مغل بادشاہ سلطنت عثمانیہ کے خلفاء کی تابعداری کرتے تھے ۔ سلطنت عثمانیہ کے خلفاء نے قرآن شریف کو پرنٹنگ پریس پر چھاپنے کی اجازت نہیں دی تھی اور اس عمل کو حرام قرار دیا گیا۔

شاید یہی ایک وجہ تھی کہ مغلوں کے دور میں تعلیم پر توجہ نہیں رہی۔ اس دور میں کئی عظیم شاعروں نے اپنی شاعری کا جادو تو ضرور جگایا مگر ان کا کلام بھی سینہ با سینہ منتقل ہوا۔ برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک نے اپنے شہریوں کو اظہارِ رائے اور تخلیق اور تحقیق کی آزادی دی مگر اپنی نوآبادیات کے شہریوں کو ہر قسم کی آزادی سے محروم رکھا گیا۔

برطانیہ نے جب ہندوستان میں جدید تعلیمی، انتظامی اور عدالتی نظام نافذ کیا تو دہلی سے کلکتہ تک ریل گاڑی چلائی اور بجلی آنے کے ساتھ جدید صنعت کاری کا آغاز ہوا تو ہندوستان میں پہلی دفعہ متوسط اور مزدور طبقہ پیدا ہوا۔ سیاسی جماعتیں قائم ہوئیں۔ پرنٹنگ پریس مختلف شہروں میں لگ گئیں۔ انگریزی کے علاوہ مقامی زبانوں میں اخبارات شایع ہونے لگے۔

ایسٹ انڈیا کمپنی نے فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں قائم کیا۔ اس فورٹ ولیم کالج نے اردو کی قدیم کتابوں کو دوبارہ شایع کرنا شروع کیا، یوں اب مقامی زبانوں کے علاوہ ہندوستان میں انگریزی، اردو اور مقامی زبانوں میں کتابیں شایع ہونے لگیں۔ انگریز حکومت نے آزادی کے خیالات کو تقویت دینے والی کتابوں پر پابندی اور ان کے مصنفین پر مقدمہ چلانے کے لیے قانون سازی کی مگر ہندوستان بھر میں مختلف موضوعات پر کتابیں تحریر کرنے اور ان کی اشاعت پر خصوصی تقریبات کرانے کی روایت بھی شروع ہوئی۔

 جب ہندوستان کے بٹوارے کے بعد پاکستان وجود میں آیا تو وہ تمام سیاہ قوانین جو ہندوستان میں نافذ تھے وہ پاکستان میں بھی نافذ ہوئے۔ ان قوانین میں آزادئ صحافت ، آزادئ اظہار اور تخلیق کی آزادی کو کچلنے والے قوانین بھی شامل تھے۔

آزادی کے چند سال کے اندر عظیم افسانہ نگار سعادت حسین منٹو کے افسانہ ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کو پنجاب کی انتظامیہ نے فحش قرار دیا اور ان کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلا۔ عظیم شاعر فیض احمد فیض اور دیگر ترقی پسند ادیب منٹو کے صفائی کے گواہ کے طور پر عدالت میں پیش ہوئے۔ عدالت نے منٹو پر جرمانہ کیاجو اپیل میں ختم ہوا۔ اس کے بعد کتابوں کی اشاعت پر کوئی بڑی پابندی نہ لگی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پرانی نسل کو کتابوں سے دلچسپی نہیں رہی جس کے اثرات آنے والی نسلوں پر پڑے۔

جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار سے ایک مصنوعی معاشرہ ارتقاء پذیر ہوا اور کتابوں کی دکانیں ختم ہونے لگیں۔ پبلشروں نے یہ کہنا شروع کیا کہ اس کاروبار میں کئی ریٹرین(Retrain) نہیں مگر اس تمام منفی صورتحال کے باوجود بلوچستان میں خواندگی کی شرح بڑھی اورایک وقت آیا جب پتہ چلا کہ سب سے زیادہ کتابیں بلوچستان میں پڑھی جارہی ہیں ۔ بلوچستان کے دوردراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات کی کتابوں میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ گوادر سمیت چھوٹے شہروں میں بھی باقاعدہ کتب میلے منعقد ہوتے ہیں اور ان میلوں میں لاکھوں کروڑوں روپوں کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں۔

بلوچستان کے نوجوان مارکس ،لینن ، اینگل، چی گویرا کی کتابوں کے علاوہ دنیا کے بڑے ادیبوں کے علاوہ ترقی پسند مصنفین سید سبط حسن، ڈاکٹر مبارک علی، علی عباس جلالپوری اور بلوچی ادب کی کتابوں کو شوق سے پڑھتے ہیں۔۔ بلوچستان کے امور کے ماہر صحافی عزیز سنگھور نے لکھا ہے کہ گوادر اور اطراف کے علاقوں میں منشیات کے اڈے چل رہے ہیں۔

نوجوان، بوڑھے، عورتیں اور مرد آسانی سے منشیات خریدتے ہیں مگر پولیس ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔ ایک اور صحافی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان کو Dark Agesکی طرف دھکیلا جارہا ہے اور اب تو کتابی دہشت گردی کی اصطلاح بھی استعمال ہورہی ہے، جس معاشرے میں کتابوں پر پابندی لگ جائے ،اس کی قسمت میں زوال پذیر ہونے کے علاو ہ کچھ نہیں لکھا ہوتا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ہندوستان میں پر پابندی کتابوں کی کے علاوہ کی آزادی کی اشاعت شروع کیا کی کتاب کے دور اور ان

پڑھیں:

بھارت اقلیتوں کیلئے جہنم اور پاکستان میں مکمل مذہبی آزادی

بھوپال میں ہندوانتہا پسندوں نے مسلمانوں کی دکانوں میں توڑ پھوڑ بھی کی جس سے افراتفری پھیل گئی۔ہنگامہ آرائی کی اطلاع ملتے پولیس کی ایک ٹیم جائے وقوعہ پر پہنچی۔ صورتحال اس قدر سنگین تھی کہ قریبی تھانوں سے کمک طلب کی گئی۔حالات بگڑتے ہی پولیس نے آنسو گیس کے گولے داغے اور بے قابو ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔ضلع کلکٹر سندیپ جی آر نے بتایاکہ علاقے میں ماحول کشیدہ رہا، پولیس کی بھاری نفری امن و امان برقرار رکھنے کے لیے تھی۔انہوں نے کہاکہ سپرنٹنڈنٹ آف پولیس وکاس شاہوال، اے ایس پی لوکیش سنہا اور ایس ڈی پی او پرکاش مشرا سمیت سینئر حکام صورتحال کی نگرانی کے لیے علاقے میں تعینات ہیں۔ضلع کلکٹرنے کہا کہ علاقے میں امن و امان کی صورتحال قابو میں ہے۔ مغربی بنگال کے لوگوں کو انتہائی محتاط رہنا چاہیے تاکہ وہ ان کے جال میں نہ پھنسیں۔انہوں نے کہاکہ بی جے پی اور اس کے اتحادی مغربی بنگال میں اچانک بہت سرگرم ہو گئے ہیں، ان اتحادیوں میں آر ایس ایس بھی شامل ہے اوروہ ایک افسوسناک واقعے کے پس منظر کو استعمال کرکے تقسیم کی سیاست کے لئے جان بوجھ کر لوگوں کو اکسا رہے ہیں۔وزیر اعلی نے کہا کہ آر ایس ایس-بی جے پی اتحاد کا مقصد فسادات بھڑکانا ہے جس سے تمام کمیونٹیز متاثر ہو سکتی ہیں۔انہوں نے کہاکہ ہم سب سے پیار کرتے ہیں اور ہم آہنگی سے رہنا چاہتے ہیں۔ ہم فسادات کی مذمت کرتے ہیں۔ ممتابنرجی نے کہاکہ آر ایس ایس اوربی جے پی حقیر انتخابی فائدے کے لیے ہمیں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے سب سے پرسکون اور ہوشیار رہنے کی اپیل کی۔انہوں نے کہاکہ تشدد میں ملوث مجرموںکے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔
ادھر بھارت کے برعکس پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ پاکستان کی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اقلیتوں کو مکمل تحفظ فراہم کرتے ہیں اس کی واضح مثال سالانہ بیساکھی تہوار اور خالصہ کی 326ویںسالگرہ منانے کے لیے پاکستان کا دورہ کرنے والابھارت کے5,803 سکھ یاتریوں پر مشتمل گروپ ہفتے کو واہگہ بارڈر کے ذریعے اپنے وطن واپس پہنچ چکا ہے۔
سکھ یاتری مختلف تاریخی گوردواروں میں منعقد ہونے والی مقدس تقریبات میں شرکت کے لیے رواں ماہ کے شروع میں واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچے تھے۔ وفد میں امرتسر، ہریانہ، اتر پردیش، دہلی اور 11دیگر بھارتی ریاستوں کے یاتری شامل تھے اوریہ حالیہ برسوں میں سب سے بڑے مذہبی دوروں میں سے ایک تھا۔واہگہ بارڈر پر منعقدہ الوداعی تقریب میں پنجاب کے وزیر برائے اقلیتی امور سردار رمیش سنگھ اروڑہ نے شرکت کی جنہوں نے ذاتی طور پر یاتریوں کو الوداع کیا۔ ان کے ہمراہ ای ٹی پی بی کے ایڈیشنل سیکرٹری برائے مقدس مقامات سیف اللہ کھوکھر اور پاکستان سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی (PSGPC)کے اراکین بھی تھے۔سردار رمیش سنگھ اروڑہ نے میڈیا اور روانہ ہونے والے یاتریوں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ ہم آپ کی آمدکے لیے شکر گزار ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ جلد واپس آئیں گے تاکہ ہم مل کر امن اور ہم آہنگی کے پیغام کو پھیلاتے رہیں۔ ہم نے خلوص اور لگن کے ساتھ آپ کی خدمت کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔انہوں نے کہا کہ حکومت یاتریوں کے لیے آسانی اور سہولیات کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ دوروں پرویزوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے گا۔ متروکہ املاک وقف بورڈ (ای ٹی پی بی)کے ایڈیشنل سیکرٹری برائے مقدس مقامات سیف اللہ کھوکھر نے کہا کہ ہم نے آپ کے دورے کو آسان بنانے کے لیے تمام محکموں میں قریبی رابطہ قائم رکھا۔ اس دورے کے دوران جو بھی کوتاہیاں سامنے آئیں گی انہیں اگلی بار دور کیا جائے گا۔ ہمیں پوری امید ہے کہ ہماری مہمان نوازی آپ کی توقعات پر پوری اترے گی۔سکھ یاتریوں نے ان کو دی جانے والی محبت، بہترین دیکھ بھال اور احترام کے لیے شکریہ ادارکیا ۔ دہلی گوردوارہ مینجمنٹ کمیٹی کے جتھے دار سردار دلجیت سنگھ نے کہاکہ یہاں ملنے والے پیار سے ہم بہت خوش ہیں۔ ہم اس محبت کی خوشبو کو بھارتی سرزمین تک پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ ہم حکومت پاکستان، حکومت پنجاب اورمتروکہ املاک وقف بورڈکی مہمان نوازی کے لیے شکر گزار ہیں۔سکھ یاتریوں نے پاکستان کو ایک حقیقی اقلیت دوست ملک قرار دیا جہاں انسانی وقار کا احترام کیا جاتا ہے۔ ایک یاتری نے کہا کہ ہم نے پاکستان میں انسانیت کا حقیقی احترام دیکھا۔ ہم پاکستانی عوام کے خلوص اور گرمجوشی کو کبھی نہیں بھولیں گے۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا دورہ کابل
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • صدر مملکت نے 6 دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر سیکورٹی فورسز کو سراہا
  • بھارت اقلیتوں کیلئے جہنم اور پاکستان میں مکمل مذہبی آزادی
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے: وفاقی وزیر
  • ملک میں دہشت گردی کے نظریاتی مسائل کا حل فکر اقبال میں ہے، وفاقی وزیر
  • جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت پھر ملتوی، وجہ بھی سامنے آگئی
  • بی ایل اے کی دہشت گردی کے خلاف کراچی میں خواتین کا احتجاج
  • اسحاق ڈارکے دورہ کابل میں اعلانات حوصلہ افزا
  • وقف قانون میں مداخلت بی جے پی کی کھلی دہشت گردی