پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مسلسل مندی سے 7 ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
لاہور ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 29 جنوری 2025ء ) پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مسلسل مندی سے 7 ہزار سے زائد پوائنٹس کی کمی، رواں ماہ کے دوران پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا 100 انڈیکس 1 لاکھ 19 ہزار پوائنٹس کی سطح کو چھو جانے کے بعد چند ہی دن میں مسلسل گراوٹ سے 1لاکھ 11 پوائنٹس کی سطح کے قریب آ گئی، سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوب گئے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں آج مسلسل تیسرے دن مندی کا رجحان رہا، جس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں کے مزید 31 ارب روپے ڈوب گئے۔
مسلسل تیسرے دن مندی کے سبب 55.13فیصد حصص کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی جب کہ سرمایہ کاروں کے مزید 31ارب 96کروڑ 47لاکھ 80ہزار 278روپے ڈوب گئے۔ بدھ کے روز کاروباری دورانیے میں پیٹرولیم سیکٹر کی کچھ کمپنیوں میں خریداری سرگرمیاں بڑھنے سے ایک موقع پر 540پوائنٹس کی تیزی بھی ہوئی لیکن تیزی رونما ہوتے ہی فرٹیلائزر آئی ٹی آٹوموٹیو سیکٹر میں حصص کی دھڑا دھڑ فروخت سے مارکیٹ میں تیزی برقرار نہ رہ سکی اور ایک موقع پر 873 پوائنٹس کی مندی بھی ہوئی۔
(جاری ہے)
بعد ازاں اختتامی لمحات میں نچلی قیمتوں پر دوبارہ خریداری سرگرمیاں بڑھنے سے مندی کی شدت میں کمی واقع ہوئی اور نتیجتاً کاروبار کے اختتام پر کے ایس ای 100 انڈیکس 543.00 پوائنٹس کی کمی سے 111487.36پوائنٹس کی سطح پر بند ہوا۔ اسی طرح کے ایس ای 30 انڈیکس 201.46پوائنٹس کی کمی سے 34934.40پوائنٹس، کے ایس ای آل شئیر انڈیکس 160.57 پوائنٹس کی کمی سے 69018.85 پوائنٹس اور کے ایم آئی 30 انڈیکس 338.44پوائنٹس کی کمی سے 167466.62پوائنٹس پر بند ہوا۔ آج مارکیٹ میں کاروباری حجم منگل کی نسبت 13.24فیصد کم رہا جب کہ مجموعی طور پر 44کروڑ 92لاکھ 44ہزار 755 حصص کے سودے ہوئے اور کاروباری سرگرمیوں کا دائرہ کار 448 کمپنیوں کے حصص تک محدود رہا، جن میں 138 کے بھاؤ میں اضافہ، 247 کے داموں میں کمی اور 63 کی قیمتوں میں استحکام رہا۔ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پاکستان اسٹاک ایکسچینج پوائنٹس کی کمی سے
پڑھیں:
کار مسلسل
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی( ایف آئی اے) پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر کے خلاف انکوائری کررہا ہے۔ انھیں عید الفطر کی تعطیلات سے قبل طلب کیا گیا تھا اور 11اپریل کو دفتری اوقات کے بعد ایک سوالنامہ ارسال کیا گیا، بتایا جاتا ہے کہ کسی نامعلوم شخص کی درخواست پر اس انکوائری کا آغاز کیا گیا ہے۔
یہ سوالنامہ 12نکات پر مشتمل ہے،انھیں ہدایت کی گئی تھی کہ 17اپریل تک سوالنامہ کے جوابات جمع کرائیں۔ اس سوالنامے میں ان کے سینیٹر کی حیثیت سے اور بعد میں ہونے والی آمدنی کے بارے میں پوچھا گیا ہے۔ ایف آئی اے کے طریقہ کار سے واقف صحافیوں کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے کے تحقیقاتی افسر اب ایک چارج شیٹ تیار کریں گے، پھر مزید کارروائی کے بارے میں پتہ چل جائے گا۔
فرحت اللہ بابر بنیادی طور پر انجنیئر ہیں۔ وہ 70ء کی دہائی میں سابقہ صوبہ سرحد حکومت کے محکمہ اطلاعات میں شامل ہوئے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو بطور وزیراعظم صوبہ سرحد کے دورے پر پشاور آئے تو بھٹو صاحب نے صوبائی کابینہ میں تبدیلی کا فیصلہ کیا۔
احتیاط یہ کی گئی تھی کہ یہ خبر قبل از وقت افشا نہیں ہونی چاہیے اور شام کو پی ٹی وی کی خبروں میں یہ خبر شامل ہونی چاہیے۔ محکمہ اطلاعات کے اعلیٰ افسروں نے جونیئر افسر فرحت اللہ بابر کو گورنر ہاؤس بھیجا اور ہدایت کی کہ جلد سے جلد خبر کا ہینڈ آؤٹ تیار کر لیں۔ بابر صاحب نے یہ ہینڈ آؤٹ تیار کیا، یوں بھٹو صاحب ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دور میں وہ سرکاری نوکری کو خدا حافظ کہہ کر سعودی عرب چلے گئے اور وہاں کئی سال گزارے۔ وہ جونیجو دور میں واپس پاکستان آگئے اور پشاور سے شائع ہونے والے معروف انگریزی کے مینیجنگ ایڈیٹر بن گئے۔
اس اخبار کے ایڈیٹر معروف صحافی عزیز صدیقی تھے۔ یہ جنرل ضیاء الحق کی آمریت کے آخری ایام تھے ۔ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ پر عزیز صدیقی اور فرحت اﷲ بابر کو اس اخبار سے رخصت ہونا پڑا۔ فرحت اﷲ بابر پیپلز پارٹی کے اہم رہنماؤں میں شامل ہوگئے، وہ بے نظیر بھٹو حکومت کی پالیسی اور پلاننگ کمیٹی کے رکن رہے۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد آصف زرداری صدر پاکستان کے عہدے پر فائز ہوئے، تو انھوں نے انھیں اپنا پریس سیکریٹری مقرر کیا۔ وہ پیپلز پارٹی کی جانب سے کئی دفعہ خیبر پختون خوا سے سینیٹ کے رکن رہے۔ انھوں نے خواتین، ٹرانس جینڈر اور مظلوم طبقات کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہونے والی قانون سازی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
انھوں نے اطلاعات کے حصول کے قانون کی تیاری میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ انسانی حقوق کے مقدمات کی پیروی بھی کی۔ وہ ایچ آر سی پیP کے بانی ارکان میں شامل ہیں اور کمیشن کے بنیادی ادارے کے منتخب رکن بھی ہیں۔ وہ اس ادارے کو فعال کرنے میں ہمیشہ متحرک رہے اور انھوں نے اپنے اس مقصد کے لیے کبھی کسی بڑی رکاوٹ کو اہمیت نہیں دی۔
فرحت اللہ بابر لاپتہ افراد کے حوالے سے آئین کے تحت دیے گئے انسانی حقوق کے چارٹر اور سول و پولیٹیکل رائٹس کنونشنز جس پر پاکستان نے بھی دستخط کیے ہیں کے تحت اس مسئلے کے لیے کبھی سینیٹ میں آواز اٹھاتے ہیں تو کبھی عدالتوں کی سیڑھیوں پر اور کبھی نیشنل پریس کلب کے سامنے بینر اٹھائے نظر آتے ہیں۔
گزشتہ دفعہ پیپلز پارٹی نے فرحت اللہ بابر کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا تو بابر صاحب کے پاس انتخابی فارم کے ساتھ زرِ ضمانت جمع کرانے کے لیے رقم موجود نہیں تھی۔ ان کے چند دوستوں نے چندہ جمع کر کے زرِ ضمانت کی رقم جمع کرائی تھی۔
فرحت اللہ بابر نے ہمیشہ پیپلز پارٹی میں رہ کر مظلوم طبقات کے لیے آواز اٹھائی مگر پیپلز پارٹی کی قیادت کی خاموشی سے بہت سے پوشیدہ حقائق آشکار ہورہے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے پر عمل درآمد شروع ہوچکا ہے ۔ فرحت اللہ بابر پاکستان کی سول سوسائٹی کا استعارہ ہیں۔ رئیس فروغ کا یہ شعر بابر صاحب کی شخصیت پر پورا اترتا ہے:
عشق وہ کارِ مسلسل کہ ہم اپنے لیے
کوئی لمحہ بھی پس انداز نہیں کرسکتے