چترال میں الٹرا فاسٹ فائبر آپٹک انٹرنیٹ کی آمد، ڈیجیٹل پاکستان کی جانب اہم پیشرفت
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
کراچی:
سائبرنیٹ کی صارفین کو الٹرا فاسٹ فائبر آپٹک انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنی اسٹارم فائبر نے باضابطہ طور پر چترال میں اپنی خدمات کا آغاز کر دیا ہے۔
یہ کمپنی کا 25 واں شہر ہے جہاں اس کی تیز رفتار فائبر آپٹک انٹرنیٹ سروس دستیاب ہوگی۔ اس اقدام کا مقصد دور دراز علاقوں میں ڈیجیٹل سہولتوں کی فراہمی اور ملک میں ڈیجیٹل خلا کو کم کرنا ہے۔
اس موقع پر اسٹارم فائبر کے منیجنگ ڈائریکٹر فواد لاہر نے کہا کہ چترال میں سروس کا آغاز ایک جامع ڈیجیٹل مستقبل کی طرف اہم پیش رفت ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ مقامی افراد تعلیم، صحت، ای کامرس اور کاروبار کے نئے مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اسٹارم فائبر کا نصب العین ’پاکستان میں بنا، پاکستان کے لیے‘ مقامی ٹیلنٹ کو فروغ دینے اور ڈیجیٹل ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ چترال، جو اپنی ثقافتی ورثے اور قدرتی خوبصورتی کے لیے جانا جاتا ہے، اب تیز رفتار انٹرنیٹ کے ذریعے عالمی تعلیمی وسائل، ڈیجیٹل مارکیٹس اور ریموٹ ورکنگ کے مواقع تک رسائی حاصل کر سکے گا۔
یہ توسیع پاکستان کو ڈیجیٹل طور پر مضبوط بنانے کے لیے کمپنی کے عزم کی عکاسی کرتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور بہتر کنیکٹیویٹی کے ذریعے اسٹارم فائبر ملک میں ترقی، جدت اور پائیدار ڈیجیٹل ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اسٹارم فائبر کے لیے
پڑھیں:
جنید جمشید کے آخری سفر پر جانے سے قبل کیا جذبات تھے، اہلیہ نے بتا دیا
دین کی خاطر میوزک انڈسٹری کو خیر بعد کہنے والے پاکستان کے معروف سابق گلوکار و نعت خواں جنید جمشید کے موت سے قبل آخری جذبات سے متعلق ان کی دوسری اہلیہ رضیہ جنید نے پہلی بار لب کشائی کی ہے۔
حال ہی میں رضیہ جنید نے پہلی بار پوڈکاسٹ میں شرکت کی اور جنید جمشید کی آخری یادیں تازہ کرتے ہوئے المناک طیارہ حادثے سے متعلق گفتگو کی۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جب سے میری شادی جنید جمشید سے ہوئی ہے تب سے میں نے دیکھا ہے کہ ان کا زیادہ تر وقت سفر بالخصوص فضائی سفر میں گزرتا تھا، انہوں نے طیارہ حادثے سے قبل آخری سفر چترال کا کیا تھا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ جنید جمشید کا معمول تھا کہ جب کبھی سفر پر جاتے تو اپنی تمام شریکٍ حیات سے بھی ساتھ چلنے کا پوچھ لیا کرتے تھے، اس وقت میرے امتحان تھے تو میں نے جانے سے انکار کر دیا تھا لیکن مجھے یاد ہے کہ وہ چترال جانے سے قبل بہت بے چین تھے۔
رضیہ جنید نے بتایا کہ اس سے قبل کبھی کسی سفر پر جاتے ہوئے وہ اس طرح بے چین نہیں ہوئے تھے، وہ امریکا سے آئے تھے اور انہیں اس کے بعد چترال جانا تھا، تو مجھ سے کہنے لگے کہ چترال میں تو بہت ٹھنڈ ہے، انہیں 5 سے 6 دنوں کے لیے جانا تھا لیکن ان کا سفر 10 دن کا ہو گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے محسوس کیا تھا کہ چترال جانے سے قبل کچھ اداس تھے اور وہاں جانے کے بعد بھی نیٹ ورک کے مسائل ہونے کے باوجود مسلسل رابطے میں رہے اور اپنی خریت کی اطلاع دیتے رہے، اب اس بارے میں سوچوں تو لگتا ہے کہ انہیں اپنی موت سے قبل اس کا احساس ہو گیا تھا۔
رضیہ جنید نے بتایا کہ میں عدت مکمل کرنے کے بعد اس طیارہ حادثے کی جگہ بھی گئی تھی۔
دورانِ انٹرویو رضیہ جنید یہ یاد کرتے ہوئے جذباتی ہو گئیں کہ کس طرح انہیں جنید جمشید کی موت کی اطلاع موصول ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ میں قرآن کلاس لے رہی تھی، میرے ہاتھ میں قرآن تھا کہ ان کے (جنید جمشید) منیجر کی کال موصول ہوئی، جب میں نے ان سے جنید کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ جنید کا طیارہ مل نہیں رہا، اسے ڈھونڈنے کے لیے ایبٹ آباد جا رہا ہوں، یہ سن کر مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا، ہمارے پاس ٹی وی نہیں تھا تو میں نے بیٹے سے کہا کہ انٹرنیٹ پر دیکھ کر بتائے کہ کیا ہوا ہے، تب ہمیں پتہ چلا کہ جنید کے طیارے کو حادثہ پیش آ گیا ہے۔
یاد رہے کہ جنید جمشید 7 دسمبر 2016ء کو چترال سے اسلام آباد آنے والے طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہو گئے تھے، رپورٹس کے مطابق ان کے ساتھ ان کی اہلیہ نیہا جمشید بھی تھیں۔
جنید جمشید نے کیریئر کے عروج پر گلوکاری اور موسیقی کو خیرباد کہہ کر خود کو تبلیغ کی راہ پر ڈالا اور پھر نعت خوانی شروع کر دی تھی اور لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔
ان کا آخری سفر بھی دین کی تبلیغ کے لیے تھا اور انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام چترال میں دین اسلام کی تبلیغ اور لوگوں کو حقیقی روشنی کی طرف آنے کی دعوت دیتے ہوئے گزارے تھے۔
Post Views: 3