جب وقت پر اسٹیڈیم تیار نہ کرنے پر بھارت پوری دنیا کے سامنے شرمندہ ہوا
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
’ہمیں افسوس ہے کہ بھارت اپنا وعدہ پورا نہیں کرسکا، اس لیے ہم یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ ورلڈ کپ کا افتتاحی میچ اب ایڈن گارڈن میں نہیں ہوسکتا‘۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) نے یہ اعلان کب اور کیوں کیا، اس کی تفصیل کچھ دیر بعد، مگر اس سے پہلے ہم آپ کو پڑوسی ملک بھارت کے پروپیگنڈے سے متعلق آگاہ کرتے ہیں اور پھر یہ بتاتے ہیں ٹھیک 13 سال قبل بی سی سی آئی اپنے ملک بھارت کے لیے کتنی بڑی رسوائی کا سبب بنا تھا۔
تو بات یہ ہے کہ تقریباً 28 سال بعد پاکستان کو جب آئی سی سی ایونٹ کی میزبانی ملی تو پاکستان نے بہترین انتظامات اور شاندار میزبانی کے لیے اپنے اسٹیڈیمز کی تزئین و آرائش اور اسے نئی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے چیئرمین محسن نقوی نے یہ اعلان کیا کہ لاہور کے قذافی اسٹیڈیم کو نئے سرے سے تعمیر کیا جائے گا جبکہ کراچی اور راولپنڈی میں جزوی تبدیلیاں کی جائیں گی۔
جب یہ اعلان ہوا تو چیمپیئنز ٹرافی کے انعقاد میں چند ہی ماہ تھے اور ابتدا میں لوگوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ یہ غلط فیصلہ ہوگیا ہے اور اتنے مختصر وقت میں یہ سب ہونا ناممکن ہے۔
پھر اس حوالے سے پڑوسی ملک بھارت سے خاص انداز میں پروپیگنڈے کا آغاز ہوا اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے، لیکن ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ جو وعدہ پی سی بی نے کیا تھا، وہ اب مکمل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
یہ دعویٰ میں نہیں کررہا یا پاکستان کا میڈیا نہیں کررہا بلکہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کا وفد ان اسٹیڈیمز کا جائزہ لے چکا ہے اور اب تک کی ہونے والی تمام پیشرفت سے مطمئن بھی ہے۔ یعنی 19 مارچ کو چیمپیئنز ٹرافی کا افتتاحی میچ طے شدہ شیڈول کے مطابق نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ہی ہوگا، جو پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
اس خوشخبری کو سننے کے بعد چلتے ہیں ٹھیک 13 سال پہلے آئی سی سی کے اس فیصلے کی طرف جو پوری دنیا میں بھارت کے لیے رسوائی کا سبب بنا تھا۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ 2011 کے ورلڈ کپ کی میزبانی بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے حصے میں آئی تھی، اس میں پاکستان کا نام بھی ہونا تھا مگر بدقسمتی سے امن و امان کے مسائل کے سبب ہم اس ایونٹ کی میزبانی سے محروم ہوگئے۔
بہرحال، تو بات یہ تھی کہ 27 فروری 2011 کو بھارت بمقابلہ انگلینڈ کا افتتاحی میچ ایڈن گارڈن میں طے ہوا مگر اس حوالے سے حیران کن بات یہ تھی کہ جب یہ سب کچھ طے ہوا اس وقت کلکتہ کا ایڈن گارڈن مکمل طور پر کھدا ہوا تھا اور بار بار ڈیڈلائن کو آگے بڑھانے کے باوجود بات بنتی دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
17 دسمبر 2010 کو کرس ٹیٹلے کی سربراہی میں آئی سی سی کی جائزہ کمیٹی نے اسٹیڈیم کا دورہ کیا اور وہاں کی صورتحال دیکھ کر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ آئی سی سی وفد کا کہنا تھا کہ جس رفتار سے کام ہورہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے تو 15 جنوری تک بھی کام مکمل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا، اور ہوا بھی بالکل ایسا ہی۔
دوسری طرف بھارت کا یہی خیال تھا کہ وقت پر کام مکمل ہوجائے گا مگر جب ایونٹ شروع ہونے سے چند دن قبل یعنی 27 جنوری 2011 کو آئی سی سی وفد نے دوبارہ اسٹیڈیم کا دورہ کیا تو اسے تعمیراتی کام کی پیشرفت دیکھ کر ایک پھر مایوسی ہوئی اور یہی وہ وقت تھا جب اسے یقین ہوگیا کہ وقت پر اسٹیڈیم تیار نہیں ہوسکتا جس کے بعد آئی سی سی نے باقاعدہ یہ اعلان کردیا کہ ورلڈ کپ کے افتتاحی میچ کا میزبان اب ایڈن گارڈن نہیں ہوگا۔
آئی سی سی کے چیف ایکزیگٹیو ہارون لوگارٹ کا کہنا تھا کہ ہمیں افسوس ہے کہ بھارت اپنا وعدہ مکمل نہیں کرسکا اور بار بار تاریخ آگے بڑھنے کے باوجود ہمیں لگتا ہے کہ یہ کام وقت پر مکمل نہیں ہوسکتا۔
واضح رہے کہ آئی سی سی کے اس فیصلے نے پوری دنیا میں بھارت کو شرمندہ کیا اور ساتھ ان ہزاروں لوگوں کو بھی مایوس کیا جو افتتاحی میچ دیکھنے کے لیے تیار تھے۔
اب دونوں ممالک کے رویے میں ایک اور فرق یہ بھی دیکھیے کہ پی سی بی نے صحافیوں کے لیے اسٹیڈیم میں آمد و رفت پر کوئی پابندی نہیں لگائی بلکہ روزانہ کیا گھنٹوں کی بنیاد پر اسٹیڈیمز سے تازہ ترین صورتحال لوگوں کو بتائی جارہی ہے، مگر دوسری طرف بھارت نے اس وقت ایڈن گارڈن میں صحافیوں کی انٹری پر پابندی لگائی ہوئی تھی کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ اگر ٹھیک صورتحال میڈیا پر آگئی تو اسے مزید سبکی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یہ بات واضح رہے کہ ایڈن گارڈن کو 3 میچوں کی میزبانی کرنی تھی مگر پھر یہ افتتاحی میچ کی میزبانی کا اعزاز بینگلور کو مل گیا۔
تاریخ کا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو ہمیشہ بھارت کے لیے بدنما داغ رہے گا اور پاکستان کے خلاف بڑھتے پروپیگنڈے کی وجہ بھی یہی ہے کہ بھارت یہ چاہتا ہے کہ جس سبکی کا سامنا اسے 13 سال قبل ہوا تھا وہی پاکستان کو بھی ہو، مگر پاکستان نے جو وعدہ کیا تھا اب وہ پورا ہونے کے قریب ہے اور 19 فروری کو چیمپئنز ٹرافی کا شاندار افتتاحی میچ ہم ضرور کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ہوتا دیکھیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
گزشتہ 15 سال سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں، اس وقت وی نیوز میں بطور نیوز ایڈیٹر منسلک ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کی میزبانی یہ اعلان بھارت کے تھا کہ کے لیے
پڑھیں:
کیا 67 ہزار پاکستانی عازمین حجاز مقدس نہیں جاسکیں گے؟ حج آرگنائزرز کا اہم بیان سامنے آگیا
کراچی:67 ہزار عازمین حج کے حجاز مقدس روانگی اور حج سے محروم ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے، حج کی سعادت کے لئے زندگی بھر کی جمع پونجی داؤ پر لگ گئی، حج آرگنائزر ایسوسی ایشن نے سفارتی سطح پر سعودی حکومت سے بات کرنے کی اپیل کردی۔
کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حج آرگنائزر ایسوسی ایشن آف پاکستان کے میڈیا کوآرڈی نیٹر محمد سعید نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ سعودی ڈیجیٹل سسٹم نسک کی ٹائم لائن گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک ماہ پہلے ہی درخواستوں کے لیے بند کردی گئی اس وجہ سے انھیں رہ جانے والے عازمین حج کے ویزا کے حصول کے لیے 72 گھنٹوں کی مہلت دی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ٹوٹل کوٹا 179210 ہے جو کہ 50 فیصد سرکاری اور 50 فیصد پرائیوٹ سیکٹر پر مشتمل ہے ابھی تک صرف 23000 حج کنفرم ہیں ہے اور 67000 کا کنفرم نہیں ہے جس میں سے 13000 عازمین سسٹم سے ہی آؤٹ ہیں، 2024ء تک سعودی تعلیمات میں ہمیشہ ٹائم لائن میں تخفیف ہوتی رہی، اس سال سعودی ٹائم لائن میں اب تک کوئی تخفیف نہیں دی گئی۔
چئیرمین حج آرگنائزر زعیم اختر صدیقی کا کہنا تھا کہ 27 نومبر 2024ء کو حکومت پاکستان نے حج پالیسی جاری کی، وزارت مذہبی امور نے صرف گورنمنٹ حج اسکیم کے حجاج کو قسط وار ادائیگی پر حج درخواستوں کی وصولی شروع کی جو کہ 28 نومبر سے 25 مارچ تک وقفہ وقفہ تک جاری رہی، 14 جنوری کو وزارت مذہبی امور کی جانب سے پرائیوٹ سیکٹر کو باقاعدہ حج درخواستوں کی وصولی کی اجازت دی گئی، 8 جنوری کو پرائیوٹ سیکٹر کے حج پیکیجز کی جزوی منظوری دی گئی جس میں خامیوں کو درست کرتے ہوئے 18مارچ کو دیکھ فائنلائز ہوئے ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ سعودی ٹائم لائن 21 فروری تک تھی اور اس کے بعد سسٹم بند ہوگیا کچھ تاخیر ہوئی جو کہ محکموں کے انتظامی امور کی وجہ سے تھی، ایس ای سی پی منظوری اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو فہرست بھیجے میں 2 ماہ کا وقت لگ گیا، عازمین حج کی حجاز مقدس روانگی کے لیے جمع کروائی گئی رقم کا حجم مجموعی طور پر 50 ارب روپے کا ہے، جس کی فوری واپسی کا معاملہ بھی کھٹائی میں پڑگیا۔