پی ٹی آئی کارکن میر جعفر و میر صادق کو صدارت سے ہٹانے پر یوم نجات منا رہے ہیں، فیصل کریم کنڈی
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
گورنر خیبرپختونخوا فیصل کریم خان کنڈی نے کہا ہے کہ صوبائی حکومت عوام کے مسائل کرنے میں مکمل ناکام ہوگئی ہے، ہم کہتے رہے کہ پی ٹی آئی میں میرصادق اور میر جعفر کردار ادا کر رہے ہیں، اب دیکھ لیں ان کو صدارت سے ہٹایا گیا تو پی ٹی آئی کے اصلی کارکن یوم نجات منا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور کو ہمیشہ میدان سے بھاگنے کی عادت ہے، گورنر فیصل کریم کنڈی کا وزیراعلیٰ کے انٹرویو پر ردعمل
بدھ کے روز گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی تحصیل صدر سید توقیر شاہ کی رہائش گاہ گئے، سید توقیر شاہ نے انہیں اپنی رہائش گاہ مدعو کیا تھا، جہاں ان سے سابق ناظم پہاڑپور حاجی ایوب خان مروت، تحصیل جنرل سیکریٹری، چیئرمین جنید طارق قریشی، لیاقت علی ساجدی، منیجر جلال خان نے ان کا استقبال کیا۔
گورنر فیصل کریم کنڈی نے پی پی پی عہدیداروں اور ورکروں سے ملاقات کی اور عوام سے ان کے مسائل سنے۔
اس موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ صوبائی حکومت عوام کے مسائل کرنے میں مکمل ناکام ہوگئی ہے، ہم کہتے رہے ہیں پی ٹی آئی میں میرصادق اور میرجعفر کردار ادا کر رہے ہیں اور اب دیکھ لیں ان کو صدارت سے ہٹایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سنجیدہ ہوتے تو کرم ایجنسی میں اتنا جانی نقصان نہ ہوتا، فیصل کریم کنڈی
انہوں نے کہا کہ میر صادق و میر جعفر کو صدارت سے ہٹائے جانے پر جو پی ٹی آئی کےاصلی ورکر ہیں ، وہ یوم نجات منا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کو پی ٹی آئی کے پی کی صدارت سے ہٹا دیا گیا ہے، ان کی جگہ جنید اکبر کو پی ٹی آئی کا صوبائی صدر بنایا گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news پی ٹی آئی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور فیصل کریم کنڈی گورنر میر جعفر میر صادق وزیراعلی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور فیصل کریم کنڈی گورنر وزیراعلی فیصل کریم کنڈی کو صدارت سے پی ٹی ا ئی رہے ہیں
پڑھیں:
ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے ہل چل سے بھرپور پہلے 100 دن
ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔ سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں دوبارہ واپسی کے بعد ان کے اقدامات اور بیانات نے دنیا بھر میں ہلچل مچا دی۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 100 دن 30 اپریل کو مکمل ہو رہے ہیں اور اب تک صدر ٹرمپ نے صدارتی اختیارات کو نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ 78 سالہ صدر ٹرمپ نے ایک ایونٹ میں کہا کہ میرا دوسرا دورِ حکومت پہلے سے زیادہ طاقتور ہے۔ جب میں یہ کہتا ہوں یہ کام کرو تو وہ کام ہو جاتا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی ٹیرف پالیسی کا دفاع کیا اور سب سے پہلے امریکا کے اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ امریکی صدر نے اپنی سمت کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ بڑی کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو حاصل کر رہے ہیں۔ البتہ ان کے ناقدین نے پہلے 100 دنوں کی حکومت کو "آمرانہ طرزِ حکومت" قرار دیا ہے اور ان کی پالیسیوں کو انتشار کا باعث قرار دیا۔ سیاسی مورخ میٹ ڈالک کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کا دوسرا دورِ صدارت پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ذہنیت اور اقدامات سے بھرپور ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ روزانہ اوول آفس میں صحافیوں کے سوالات کا سامنا کرتے اور ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کرتے ہوئے خود کو ایک "ریئلٹی شو" کے مرکزی کردار کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ٹرمپ کے ناقدین کا بھی کہنا ہے کہ نئے صدر کے دوسرے دور میں وائٹ ہاؤس میں مخصوص اور من پسند نیوز اداروں کو رسائی دی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں عدلیہ کے ساتھ بھی صدر ٹرمپ کا رویہ جارحانہ رہا ہے جہاں انہوں نے ماضی کے مقدمات میں شریک کئی لاء فرمز کو سخت معاہدوں میں جکڑ دیا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کے پہلے 100 دنوں کی تکمیل پر ان کی مقبولیت تمام جنگ عظیم دوم کے بعد صدور میں سب سے کم ہے۔ سوائے خود ان کے پہلے دور کے۔ ریپبلکن سینیٹر لیزا مرکاؤسکی نے کہا کہ ہم سب خوف زدہ ہیں جبکہ پروفیسر باربرا ٹرش کا کہنا تھا کہ صدر آئینی پابندیوں کی پرواہ کیے بغیر فیصلے کر رہے ہیں۔ ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ نے روس کے توسیع پسندانہ عزائم کی تقلید میں گرین لینڈ، پاناما اور کینیڈا پر علاقائی دعوے کرتے ہوئے امریکی اثرورسوخ بڑھانے کا عندیہ دیا ہے۔
ٹرمپ نے تعلیمی اداروں، جامعات اور ثقافتی مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے خود کو ایک اہم آرٹس سینٹر کا سربراہ مقرر کیا اور ڈائیورسٹی پروگرامز کو ختم کر دیا ہے۔ اسی طرح تارکین کو پکڑ پکڑ کر دور دراز علاقے میں قائم خطرناک جیلوں میں زبردستی بھیجا جا رہا ہے۔ یاد رہے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 20 جنوری کو عہدے کا حلف اُٹھایا تھا اور اسی دن چند اہم لیکن متنازع اقدامات کی منظوری دی تھی۔