Daily Ausaf:
2025-04-22@06:26:42 GMT

گرین لینڈ،پانامااور کینیڈا،امریکا کے نئے اہداف ہیں؟

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

(گزشتہ سےپیوستہ)
قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں کہ ٹرمپ کی اقتصادی بیان بازی شایدڈنمارک کے لئے سب سے بڑاخطرہ ہے کیونکہ امریکا ڈنمارک اوریہاں تک کہ یورپی یونین کی اشیاپرمحصولات میں نمایاں اضافہ کررہاہے جس کی وجہ سے ڈنمارک کوگرین لینڈکے معاملے میں کچھ رعایتیں دینے پرمجبورکیاجارہاہے اور ڈنمارک کی حکومت کودیگرحالت کی وجہ سے اس جزیرے پر توجہ دینے کے لئے مجبورکیاجارہاہے توایسے میں یہ کہاجاسکتاہے ڈنمارک کی اس جزیرے پرتوجہ میں دیگرعوامل بھی کارفرماہیں۔
ٹرمپ تمام امریکی درآمدات پر10فیصدبراہ راست ٹیرف لگانے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ دیگر چیزوں کے علاوہ اس سے یورپی ممالک کی ترقی میں بہت سی مشکلات پیداہوسکتی ہیں۔ لہٰذاڈنمارک اور دیگر یورپی ممالک کی کچھ کمپنیاں اب امریکامیں پیداواری مراکزقائم کرنے پرغورکررہی ہیں۔بین الاقوامی قانونی فرم’’پلزبری‘‘کے بینجمن کوٹ نے ویب سائٹ ’’مارکیٹ واچ‘‘کوبتایاکہ ٹیرف میں اضافے کے ممکنہ اختیارات میں1977ء کے انٹرنیشنل ایمرجنسی اکنامک پاورز ایکٹ (آئی ای ای پی اے)کواستعمال کرناشامل ہے ۔یہ ممکنہ طورپردواسازی کی صنعت کومتاثرکرسکتاہے جوڈنمارک کی بڑی صنعتوں میں سے ایک ہے۔امریکازیادہ تر مصنوعات جیسے ہیئرنگ ایڈزاورانسولین ڈنمارک سے خریدتا ہے۔اس کے علاوہ ذیابیطس کی دوا ’’اوزیمپک‘‘ بھی ڈنمارک کی کمپنی ’’نوونور ڈسک‘‘ تیارکرتی ہے۔ان اقدامات کے نتیجے میں دواں کی قیمتوں میں اضافہ امریکی عوام کوپسندنہیں آئے گا۔یہ بعیداز قیاس معلوم ہوتاہے کہ امریکاایسا کرے گالیکن ٹرمپ کافوجی کارروائی سے انکارنہ کرنے کی وجہ سے یہ بھی ایک آپشن ہوسکتا ہے۔
بنیادی طورپرامریکاکے لئے گرین لینڈ پر کنٹرول حاصل کرنامشکل نہیں ہوگاکیونکہ گرین لینڈمیں اس کے پہلے ہی فوجی اڈے اوربڑی تعدادمیں فوجی موجود ہیں۔ گرین لینڈپرامریکا کا پہلے سے ہی ڈی فیکٹو کنٹرول ہے۔ ٹرمپ کے بیانات ان معلومات پرمبنی معلوم ہوتے ہیں جن کامطلب وہ سمجھ نہیں سکے اوریقیناگرین لینڈمیں امریکی فوجی کارروائی ایک بین الاقوامی مسئلے کوجنم دے گی۔اگر ٹرمپ گرین لینڈ پرحملہ کرنے کافیصلہ کرتے ہیں تونیٹو کے آرٹیکل5کے مطابق وہ نیٹوپرحملہ کریں گے لیکن اگرکوئی نیٹوملک نیٹوکے کسی رکن ملک پر حملہ کرتاہے توــ ’’نیٹوـ‘‘کاوجودباقی نہیں رہے گا۔
ٹرمپ کی تقریرسے ایسالگتاہے جیسے چینی صدرشی جن پنگ تائیوان یاروسی صدرولادیمیرپوٹن یوکرین کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ٹرمپ کہہ رہے ہیں کہ ’’اس سرزمین کو حاصل کرناہمارے لیے درست ہے‘‘۔اگرواقعی ان کی باتوں کوسنجیدگی سے لیا جائے تویہ مغربی ممالک کے پورے اتحادکے لئے ایک بری علامت ہے۔
ٹرمپ کے بیان پرصرف نیٹوممالک میں ہلچل نہیں بلکہ امریکاکے پڑوس کینیڈاکے وزیراعظم جسٹن ٹروڈونے نہ صرف اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیاہے بلکہ سیاست چھوڑنے کا بھی اعلان کردیاہے۔ٹرمپ نے کینیڈاکی سرحدکوــ’’مصنوعی‘‘ قراردیتے ہوئے کئی باراس بات کاذکرکیاکہ کینیڈاامریکاکی51ویں ریاست بن سکتا ہے۔ ٹرمپ نے تنقیدکی کہ کینیڈا کی حفاظت کے لئے امریکانے اربوں ڈالرخرچ کئے ہیں جبکہ کینیڈاکی کاروں، لکڑی اوردودھ کی مصنوعات کی درآمدکامسئلہ بھی حل کیا۔ میکسیکوکی طرح کینیڈاکو بھی ٹرمپ کے آئندہ دور صدارت میں امریکابرآمدکی جانے والی اپنی اشیاء پر 25فیصد تک ٹیرف عائدہونے کے خطرے کا سامنا ہے۔
اپنی ایک طویل پریس کانفرنس کے دوران ٹرمپ نے ان خدشات کابھی اظہارکیاکہ میکسیکو اور کینیڈاکی سرحدوں سے منشیات امریکامیں داخل ہورہی ہیں۔تاہم امریکی اعدادوشمار کے مطابق کینیڈااورامریکی سرحدپرپکڑی گئی فینٹینیل کی مقدارامریکاکی جنوبی سرحدکے مقابلے میں نمایاں طورپرکم ہے۔کینیڈانے امریکاکے ساتھ اپنی سرحدپرسکیورٹی کے حوالے سے نئے اقدامات کرنے کاوعدہ کیاہے تاکہ منظم جرائم کوکم کیاجا سکے۔تاہم جسٹن ٹروڈونے کینیڈاکو امریکامیں ضم کرنے کے لئے ٹرمپ کی جانب سے ’’معاشی طاقت‘‘کے استعمال کی دھمکی پرجواب دیتے ہوئے اسے ناممکن قراردیا۔
تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ اپنے بین الاقوامی اتحادیوں اورملک میں اپنے حامیوں کوسگنل دے رہے ہیں لیکن امریکامیں اس حوالے سے بے چینی پائی جاتی ہے کہ امیریورپی اتحادی بین الاقوامی سکیورٹی کے تحفظ کے لئے خاطرخواہ اقدامات نہیں کررہے ہیں تاہم سابق امریکی قومی سلامتی کے مشیرجیمزجیفری نے امریکاکی جانب سے اس ضمن میں کسی بھی فوجی کاروائی یا مداخلت کے امکان کو مستردکرتے ہوئے کہاکہ’’ہم گرین لینڈاورکینیڈا میں مارچ نہیں کریں گے،ہم پاناماکینال پرقبضہ نہیں کریں گے، لیکن اس سے کتناہنگامہ ہوگا یہ ایک اورسوال ہے۔ بین الاقوامی نظام کوخطرہ ٹرمپ سے نہیں بلکہ روس اور چین سے ہے‘‘۔لیکن برطانوی اخبار’’دی انڈیپینڈ نٹ‘‘کے مدیربرائے سیاسی امورڈیوڈ میڈوکس محسوس کرتے ہیں کہ ٹرمپ کی باتوں کوسنجیدگی سے دیکھناچاہیے۔یہ ٹرمپ کا سامراجی رویہ ہے۔ وہ دنیابھرمیں امریکاکے قدم جمانا چاہتے ہیں۔یہ سنگین خطرہ ہے۔ہم ٹرمپ کی نئی انتظامیہ کوان کے پہلے دورحکومت سے بہت مختلف اندازمیں دیکھنے جارہے ہیں اوریہ باقی دنیاکے لئے بہت غیرمستحکم ہوگا۔
پانامانے بھی ٹرمپ کے ان بیانات پر شدید غصے کااظہارکیاہے۔20ویں صدی میں پاناماکینال کی تعمیرکاکام سنبھالنے اورکئی دہائیوں کے مذاکرات کے بعد1999میں امریکا نے اس نہرکامکمل کنٹرول پاناماکے حوالے کردیاتھالیکن اب سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر ٹرمپ اس اہم بحری گزرگاہ پردوبارہ کنٹرول حاصل کرناچاہتے ہیں۔ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہاکہ ’’پاناماکینال ہمارے ملک کے لئے اہم ہے۔ اس کا انتظام دراصل چین سنبھالے ہوئے ہے جبکہ ہم نے اس کاکنٹرول پاناماکودیاتھا،ہم نے اسے چین کونہیں دیاتھا۔ انہوں نے(پاناماحکام)اس تحفے کاغلط استعمال کیا‘‘۔
تاہم سرکاری اعدادوشمارٹرمپ کے اس دعوے کی تردید کرتے ہیں۔پاناماکینال اتھارٹی کے اعدادوشما ر کے مطابق اس نہرسے گزرنے والی ٹریفک میں امریکی کارگوکاحصہ72 فیصدہے جبکہ22فیصدحصے کے ساتھ چین دوسرے نمبرپرہے۔واضح رہے کہ چین نے بھی ماضی میں پانامامیں بڑی اقتصادی سرمایہ کاری کی ہے۔ پاناماکینال نہ صرف بحرالکاہل میں امریکی تجارت کے لئے بلکہ مستقبل میں چین کے ساتھ کسی بھی فوجی تنازع کی صورت میں بھی امریکاکے لئے انتہائی اہم ہے۔
اس سے قبل ٹرمپ نے پانامااتھارٹی پریہ الزام بھی عائدکیاتھاکہ وہ اس بحری گزرگاہ کواستعمال کرنے کے عوض امریکی کارگو کمپنیوں سے نسبتاًزیادہ پیسے وصول کررہے ہیں۔پاناما سٹی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پاناماکے وزیرداخلہ نے ٹرمپ کے حالیہ بیان کے بعدکہاہے کہ’’پاناماکینال کی خودمختاری پرکوئی بات چیت نہیں ہوسکتی۔پاناماکاکنٹرول صرف اس کے باشندوں کے ہاتھ میں ہے اورمسقبل میں بھی ایساہی رہے گا‘‘۔
خطے میں پاناماکینال کی اہمیت کوسمھنے کے لئے یہ جانناضروری ہے کہ ٹرمپ نے پاناماپراپنی ملکیت کادعویٰ کرنے کابیان کیوں دیاہے۔اس نہرکی تعمیرسے قبل بحری جہازوں کوامریکاکے مغربی یامشرقی کنارے سے دوسری جانب جانے کے لئے برِاعظم جنوبی امریکا کے آخری کونے کیپ ہارن سے ہوکرگزرناپڑتا تھا مگر اب نہرِپاناماکی وجہ سے یہ سفر8 ہزارناٹیکل میل یا 15 ہزارکلومیٹرکم ہو گیاہے۔اسی طرح شمالی امریکاکے ایک کنارے سے جنوبی امریکاکی کسی بندرگاہ تک جانے میں بھی ساڑھے چھ ہزارکلومیٹر جبکہ یورپ اورمشرقی ایشیاء یا آسٹریلیا کے درمیان چلنے والے بحری جہازبھی 3ہزار 700 کلومیٹرتک کی بچت کرسکتے ہیں۔اس پورے سفرمیں دوسے تین ہفتے تک کاوقت درکارہوتاتھا تاہم اب نہرِپاناماکے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک صرف 10گھنٹے میں پہنچاجا سکتاہے۔اس انقلابی اورحیرت انگیز تبدیلی کاسب سے زیادہ فائدہ چین کو مل رہاہے کیونکہ چین کی پالیسی تجارتی منڈیوں کے حصول سے دنیاکی ایسی سپرپاوربنناہے کہ جس سے اقوام عالم بھی معاشی ترقی کی طرف گامزن ہوں جبکہ ٹرمپ ایک سرمایہ دارتاجرکے ساتھ امریکاجیسے طاقتور ملک کا صدربھی بن گیاہے اوراپنی اس خواہش کی تکمیل کے لئے دوسرے ملکوں پرتسلط کی دہمکیاں دیکردنیاپرحکمرانی کاخواب دیکھ رہاہے جبکہ ایسے خواب کی تکمیل کے لئے اب تک درجنوں ممالک میں شکست سے دوچارہوچکاہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: بین الاقوامی ڈنمارک کی کی وجہ سے کے مطابق رہے ہیں کہ ٹرمپ ٹرمپ کی کے ساتھ کے لئے

پڑھیں:

عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ

روس اور یوکرین نے ایک دوسرے پر صدر ولادیمیر پوتن کی طرف سے اعلان کردہ ایسٹرکی ایک روزہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لگایا ہے۔ فریقین نے کہا کہ اس دوران سیکڑوں حملے کیے گئے ہیں۔ اس سے قبل رواں ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ یوکرین اور روس کے مابین جنگ بندی مذاکرات کا وقت آن پہنچا ہے۔

 روس، یوکرین جنگ چوتھے برس میں داخل ہوچکی ہے، جس میں60ہزار سے زاید یوکرینی اور روسی شہری اور فوجی ہلاک، جب کہ یوکرین میں شہرکے شہرکھنڈرات میں تبدیل ہوچُکے ہیں۔ اس جنگ کے نتیجے میں دنیا میں مہنگائی کا ایک طوفان آیا۔ غریب ممالک کے عوام تو اِس تباہی میں پِسے ہی لیکن امیر ممالک کے شہری بھی توانائی، خوراک اور دوسری اشیائے صَرف کی آسمان سے چُھوتی قیمتوں سے اب تک نجات نہیں پاسکے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رواں ہفتے روس اور یوکرین کے درمیان امن معاہدے کے لیے پرامید ہیں۔صدر ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا ویب سائٹ ٹروتھ سوشل پر لکھا کہ ’’اگر جنگ بندی ہوجاتی ہے تو دونوں ممالک کے لیے امریکا کے ساتھ بڑے تجارتی مواقع دستیاب ہوں گے۔‘‘ تاہم انھوں نے ان امن مذاکرات کی تفصیلات نہیں بتائیں جنھیں امریکا جنوری میں ان کے صدارت سنبھالنے کے بعد سے آگے بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے روس کے ساتھ جنگ ختم کرنے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کے فیصلے کے بعد یورپی طاقتیں بھی شامل ہونے کی کوشش کررہی ہیں۔ دوسری جانب ٹرمپ کی امن کی کوششوں کو جھٹکا لگا ہے،کیونکہ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے مکمل جنگ بندی کی تجویزکو مسترد کردیا ہے۔ دراصل ٹرمپ یوکرین کے مسئلے سے جان چھڑانا چاہتے ہیں، وہ روس کے ساتھ اسٹرٹیجک شراکت داری بحال کرنا چاہتے ہیں، اور وہ نہیں چاہتے کہ یوکرین جیسا ’چھوٹا مسئلہ‘ ان کی راہ میں رکاوٹ بنے۔

عالمی امور کے ماہرین کے مطابق، روس، یوکرین جنگ میں توانائی کی ڈیمانڈ، سپلائی اور قیمتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ پاکستان بھی بری طرح متاثر ہوا ، آئی ایم ایف کے قرضوں کے مسلسل پروگرام اِسی جنگ کی براہِ راست مہربانی ہے۔ جب روس نے جنگ کے بعد تیل اورگیس کی سپلائی پر پابندی لگائی، تو یورپی ممالک تڑپ اُٹھے۔

یوکرین کا بیشتر رقبہ سرسبز و شاداب ہے۔ اس میں کوئی ایسا بڑا پہاڑ نہیں جو برف پوش ہو۔یہاں برف باری تو ہوتی ہے لیکن اس کی وجہ سطح سمندر سے بلندی ہے جیسا کہ براعظم ایشیاء کے بعض ملکوں میں ہم دیکھتے ہیں۔ یوکرین کے پہاڑی سلسلے کم بلند ہیں، زیادہ علاقہ میدانی ہے۔ اس کی مٹی اتنی زرخیز ہے کہ اس میں اگنے والی گندم پاکستان سمیت دوسرے ملکوں کو بھی برآمد کی جاتی ہے۔ پاکستان کا رقبہ تقریباً ساڑھے تین لاکھ مربع میل ہے اور ہماری آبادی 24کروڑ نفوس سے زیادہ ہے جبکہ یوکرین کا رقبہ تقریباً اڑھائی لاکھ مربع میل ہے اور اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑ ہے اور وہ تین برس سے دنیاکی دوسری بڑی سپرپاور (روس) سے نبرد آزما ہے۔

اس کی اسلحہ ساز فیکٹریاں بھی دن رات چل رہی ہیں اور دوسرے ممالک بھی اس کو دھڑا دھڑ اسلحہ برآمد کررہے ہیں۔ اب تک طرفین کے لاکھوں سولجرز اور سویلینز اس جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، لیکن یوکرین کو نیٹو ممالک کی طرف سے جو اسلحہ اور گولہ بارود فراہم ہو رہا ہے، یوکرینی سولجرز اس کو استعمال کرکے روس کو بھی اتنا ہی جانی نقصان پہنچا چکے ہیں جتنا روس، یوکرین کو پہنچا چکا ہے ، یعنی چوٹ برابرکی ہے۔ جنگوں میں صرف گولہ بارود اور چھوٹے بڑے ہتھیار ہی کام نہیں آتے۔ ان ہتھیاروں کے باعث ماحول کی جو تباہی دیکھنے کو ملتی ہے، وہ حیرت انگیز بھی ہے اور حسرت ناک بھی۔جیسا کہ باور کیا جا رہا ہے، امریکی صدر ٹرمپ کی مداخلت سے یہ روس یوکرین تنازعہ شاید آنے والے چند ہفتوں میں ختم ہو جائے، لیکن توپوں، ڈرونوں، بارودی سرنگوں اور میزائلوں سے جو بربادی اس سرزمین کا مقدر بن چکی ہے وہ آنے والے کئی برسوں تک بھی برقرار رہے گی۔ یوکرین، روس کے بعد، یورپ کا سب سے بڑا ملک ہے۔

اس پر جو بربادی اس جنگ کی وجہ سے وارد ہو چکی اس کے اثرات شاید آنے والے کئی عشروں تک بھی برقرار رہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی، پولینڈ اور اردگرد کے ممالک میں چھے برسوں میں جو تباہی مچی، اس کو امریکا نے دو تین برسوں ہی میں ختم کردیا تھا، لیکن اگر یوکرین میں یہ جنگ بند بھی ہوگئی تو اس کی زمین، اس کی بندرگاہوں بحیرہ اسود اور بحیرہ آزوف اور اس کی آب و ہوا کی تباہی کو معمول پر آنے کے لیے کئی برس درکار ہوں گے۔ آج یوکرین کے میدان ہائے جنگ کا حال یہ ہے کہ وہاں کی زمینوں میں توپوں کے گولوں سے پڑنے والے گڑھوں کی تعداد، لاتعداد ہو چکی ہے، تمام فضا زہرآلود ہے اور بارود کی بُو یوکرین کے طول و عرض میں پھیل چکی ہے۔

صدر ٹرمپ کے اقدامات، بیانیے اور مطالبات کو جوڑیں تو ایک پریشان کن منظر ابھرتا ہے۔ وہ احساس جوکبھی قومی ذمے داری کو نبھانے یا اس عالمی نظام برقرار رکھنے یا اس کی مرمت کے لیے تھا، جس کے قیام میں کبھی امریکا اور برطانیہ نے مدد کی، اب مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ روایتی اتحادیوں اور اتحادوں سے وفاداری ختم ہوچکی۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور عالمی تجارتی تنظیم جیسے اداروں کی مفلوج حالت، عالمی معیشت کے زوال کو تیزکر رہی ہے۔ صدر ٹرمپ ایک نئے دورکا آغاز دیکھ رہے ہیں جہاں ہر ملک اپنی بقا کی جنگ خود لڑے گا۔ اس تصور میں پرانے بین الاقوامی نظام کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ بریٹن ووڈز سسٹم کو فرسودہ بوجھ سمجھا جا رہا ہے اور طاقت کو علاقائی اثر و رسوخ کے دائروں میں دوبارہ تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس منطق کے تحت گرین لینڈ اور پانامہ امریکا کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں جب کہ یوکرین کو روس کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسی دوران یورپ،کینیڈا اور میکسیکو اب معاشی حریف سمجھے جاتے ہیں۔

اگر تجارتی معاہدے ایسے شرائط پر نہ ہو سکیں جو مکمل طور پر امریکا کے حق میں ہوں، تو پھر جوابی محصولات کے لیے تیار رہیں۔ اس نئے عالمی انتشار کو کارآمد بنانے کے لیے پوتن کو بحال کرنا ضروری ہے اور روس کو دوبارہ بین الاقوامی نظام میں شامل کرنا ہوگا۔ پابندیاں ختم کرنی ہوں گی، اور معاہدے کرنے ہوں گے۔وسیع تر تناظر میں، دنیا پہلے ہی دو مخالف کیمپوں میں بٹ رہی ہے۔ مغرب کے مقابلے میں چین، جسے بڑھتی ہوئی تعداد میں ریاستوں کی حمایت حاصل ہے، جو کھلم کھلا اس نازک عالمی نظام کو مسترد کر رہی ہیں جسے ہم نے طویل عرصے سے یقینی سمجھ رکھا تھا، اگر یورپ اور امریکا ایک پیج پر نہ ہوئے، جب چین ٹیکنالوجی، معیشت اور عسکری برتری کے لیے امریکا کو چیلنج کر رہا ہے، تو یہ خارج از امکان نہیں کہ دنیا ایک بار پھر جنگ کی دہلیز پر پہنچ جائے۔

ہم تاریخ کے ایک نازک موڑ کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ جتنی دیر ہم امریکا میں جاری اس خطرناک سیاسی تجربے سے نظریں چراتے رہیں گے، اتنا ہی کم وقت ہمارے پاس اس کا جواب دینے کے لیے باقی بچے گا۔ ایک عالمی طاقت کی جانب سے بین الاقوامی معاملات پر توجہ نہ دینے کا ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ باقی دنیا کے تنازعات اسی طرح برقرار رہیں اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے جیسا کہ غزہ میں حماس اور اسرائیل کی جنگ جو فی الحال ایک معاہدے کے تحت جنگ بندی پر منتج ہوئی تھی لیکن اسرائیل کی جانب سے اس معاہدے کی پاسداری نہیں کی گئی۔ اسرائیلی مغویوں کی رہائی میں کچھ تاخیر ہونے کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ پر پھر بمباری شروع کر دی ہے، وہاں یہ کیسے ممکن ہوگا کہ معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے معاملات تھوڑے بھی آگے پیچھے ہوئے تو اسرائیلی قیادت آپے سے باہر نہیں ہو جائے گی؟

دوسری جانب اسرائیل اور ایران کے تعلقات میں بھی کشیدگی پہلے سے زیادہ پائی جاتی ہے اور ٹرمپ ایران کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں یہ بھی سب پر واضح ہے، چنانچہ اگر خدانخواستہ اسرائیل اور ایران کے مابین غزہ یا لبنان کے تنازع اور شام کی جنگ کو لے کر اختلافات بڑھے تو امریکی صدر خاموش تماشائی کے سوا کوئی اور کردار ادا نہیں کرسکیں گے، البتہ صدر ٹرمپ یوکرین کی جنگ بند کرانے میں سرگرم کردار ادا کرنے کی ضرور کوشش کریں گے، وجہ یہ ہے کہ اس جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت براہ راست متاثر ہو رہی ہے۔

یہ جنگ یوکرین کے نیٹو میں شامل ہونے یا نہ ہونے کے تنازع پر شروع ہوئی تھی جبکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خیال ہے کہ امریکا کو نیٹو اتحاد سے نکل جانا چاہیے۔ امریکا کے نیٹو اتحاد سے نکلنے کا مطلب یہ ہے کہ نیٹو کا خاتمہ ، جب نیٹو تنظیم موجود ہی نہیں ہوگی یا مکمل غیر فعال ہو جائے گی تو اس کو وسعت دینے کی بنیاد پر شروع ہونے والی جنگ کے جاری رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہے گا۔ لگتا یہی ہے کہ ٹرمپ دور میں بھی بین الاقوامی تنازعات کا ’اسٹیٹس کو‘ برقرار رہے گا۔

متعلقہ مضامین

  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • ٹرمپ ٹیرف: چین کا امریکا کے خوشامدی ممالک کو سزا دینے کا اعلان
  • چین پر محصولات عائد کرنے سے پیداہونے والے بحران پر وائٹ ہاؤس ایک ٹاسک فورس تشکیل دے گا
  • ’ امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
  • امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے باشندوں کی جبری ملک بدری روک دی
  • امریکا، سپریم کورٹ نے وینزویلا کے تارکین وطن کو بیدخل کرنے سے روک دیا
  • ورلڈکپ، پاکستان کی ویمن ٹیم بھارت نہیں جائے گی : چیئرمین پی سی بی
  • تبدیل ہوتی دنیا
  • پنجاب کا کوئی محکمہ ترقیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکا، فنانشل رپورٹ نے قلعی کھول دی
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار