Daily Ausaf:
2025-04-22@07:29:04 GMT

ٹرمپ جذباتی ہے پاگل نہیں

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

پاکستان اور امریکہ کی ڈیپ اسٹیٹس اور اداروں کے درمیان جو گہرے مراسم ہیں ان کی وجہ سے بانی پی ٹی آئی اپنے ٹرمپ کارڈ سے محروم بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سیماب صفت اور جذباتی ضرور ہیں لیکن پاگل نہیں، یہ دلچسپ تبصرہ کیا ہے سینئر سیاسی تجزیہ کار اور اینکر پرسن فہد حسین نے اپنے نئے بلاگ میں کیا ہے جو ملک کے معروف انگریزی اخبار میں شائع ہوا ، فہد حسین لکھتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد کھیل حتمی اور سنسنی خیز مرحلے میں داخل ہو گیا ہے، یوں سمجھ لیں کہ پہلے نیٹ پریکٹس جاری تھی اب میچ شروع ہو گیا ہے اور پچ غیر متوقع ہے، بال بہت زیادہ سوئنگ کر رہی ہے، سپن بھی زیادہ ہے، آٹ فیلڈ بھی تیز ہے، اور تماشائیوں کا شور کھلاڑیوں کو نروس کر سکتا ہے۔ ٹرمپ کے حلف اٹھا لینے کی وجہ سے پاکستان کی راج نیتی کے کھیل کی گاڑی کو اگلا گیئر لگ گیا ہے، آنے والے دنوں میں مختلف حوالوں سے تیز رفتار پیش رفت ہو گی، اس دوران اسلام آباد ہائیکورٹ 190 ملین پائونڈ کیس میں کوئی سخت فیصلہ دے کر پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کی امیدوں پر پانی بھی پھیر سکتی ہے کیونکہ عمران خان کو اب تک عدت کیس جیسے جتنے بھی بے سروپا مقدمات میں سزائیں سنائی گئی ہیں ان کے مقابلے میں 190ملین پائونڈ کیس واحد مقدمہ ہے جس کی انتہائی ٹھوس بنیاد ہے، اس لئے یہ کیس عمران خان کے خلاف حکومت کا ٹرمپ کارڈ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
ریاست کی طاقت نے معاملات کو حکومت کی فیور میں موڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، حکومت اپنی پوزیشن کے حوالے سے بہت پر اعتماد ہے، لیکن اس سب کے باوجود حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی تینوں امریکہ اور واشنگٹن کی طرف بے چین نظروں سے دیکھ رہے ہیں، ٹرمپ کے حلف اٹھاتے ہی امریکہ میں سب کچھ بدل گیا ہے لیکن کیا اس کی وجہ سے آیا ہمارے ہاں بھی تبدیلی آئے گی؟ یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ پی ٹی آئی کی تمام تر امیدیں اس وقت امریکہ سے وابستہ ہیں اور ریڈ زون کے طاقتور لوگ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ انہوں نے امریکہ اور ٹرمپ کے سرکلز میں پی ٹی آئی اور اوورسیز پاکستانیوں کی پہنچ اور اثر و رسوخ کا اندازہ لگانے میں غلطی کی اور اسے انڈر ایسٹیمیٹ کیا، اسلام آباد ہائیکورٹ کے 2 نئے جج صاحبان بھی ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے 2 روز بعد اپنا حلف اٹھا چکے ہیں، اس دوران پی ٹی آئی 190 ملین پائونڈ کیس میں اپنے بانی چیئرمین اور ان کی اہلیہ کی سزا کیخلاف اپیل دائر کر چکی ہے، اس کیس کی سماعت کے لئے جو بنچ تشکیل دیا جائے گا اس کی ساخت پر بھی بہت کچھ منحصر ہے کہ یہاں سے بھی نظر آ جائے گا کہ عمران خان اور بشری بی بی کو کس حد تک ریلیف ملنے جا رہا ہے، اگر حکومت ٹرمپ اور اسلام آباد ہائیکورٹ والے 2 اہم مراحل کو کامیابی سے عبور کر لیتی ہے تو پھر آنے والے مہینوں کے دوران وہ پرسکون انداز میں اپنے معاملات چلانے کی پوزیشن میں آ جائے گی۔
جہاں تک پی ٹی آئی اور عمران خان کا تعلق ہے ان کا انحصار بھی انہی دو باتوں پر ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ عمران خان کو چھوڑتی ہے یا نہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ عمران خان کو یاد رکھتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں ۔ حتمی طور پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو اگر امریکہ میں وائٹ ہائوس سے یا پاکستان میں شاہراہ دستور سے ٹرمپ کارڈ مل جاتا ہے تو نتائج غیر متوقع بھی ہو سکتے ہیں۔فہد حسین نے اپنے انگریزی بلاگ میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے اسے ٹرمپ کے تازہ اقدامات سے بھی تقویت مل رہی ہے، ٹرمپ کا پاکستانی اور عرب ووٹرز سے رات گئی بات گئی والا تازہ ترین سلوک اس حوالے سے الارمنگ ہے ، اس نے اپنے انتخابی وعدوں کو پس پشت ڈال کر اسرائیل کو 2 ہزار پائونڈ کے بموں کی فراہمی بحال کر دی ہے، اور یہ دعوی بھی سامنے آ رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو بھی وائٹ ہائوس نے جھنڈی کرا دی ہے۔ پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستانیوں اور مسلمانوں کا مسیحا ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے اور یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی میں امریکہ کے عرب اور پاکستانی مسلم ووٹرز کا بڑا ہاتھ ہے اس لئے فلسطین اور غزہ کے ایشو پر بھی ٹرمپ کی پالیسیاں فلسطینیوں اور عربوں کو ریلیف دلوانے والی ہوں گی اور پاکستان سے متعلق پالیسیوں میں بھی تبدیلی آئے گی اور ان سے پی ٹی آئی اور بانی پی ٹی آئی کو ریلیف ملے گا، لیکن یہ تمام خواب اس وقت خواب پریشاں بن کر رہ گئے کہ جب صدر ٹرمپ نے اسرائیل کے حق میں واضح اقدامات اٹھانے شروع کر دیئے۔ حالیہ پیشرفت میں انہوں نے اسرائیل کو دوہزار پائونڈ طاقت کے بموں کی فراہمی پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے، جو سابقہ بائیڈن انتظامیہ کے آخری دور میں لگائی گئی تھی ۔ ( جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسلام آباد ہائیکورٹ بانی پی ٹی آئی پی ٹی آئی اور عمران خان کو ٹرمپ کے حلف ڈونلڈ ٹرمپ ٹرمپ کا کیا ہے گیا ہے

پڑھیں:

ایران کا جوہری پروگرام(3)

اسلام ٹائمز: مسقط میں ہونیوالے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟ تحریر: سید نوازش رضا

مسقط مذاکرات سے قبل ایران نے دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا کہ بین الاقوامی پابندیوں کے باوجود سائنسی و جوہری ترقی ممکن ہے اور وہ اس میدان میں خود کفیل ہوچکا ہے۔ اگرچہ جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے، تاہم ساتھ ہی ایک خاموش مگر واضح پیغام بھی دیا کہ وہ جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کا جوہری پروگرام اب اُس سطح تک پہنچ چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔ مزید برآں، ایران نے یہ انتباہ بھی دیا کہ اگر اس کے خلاف کوئی فوجی کارروائی کی گئی تو اس کا ردعمل نہایت سخت اور سنگین ہوگا، جس کے عالمی سطح پر خطرناک اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔"

اسرائیل کے لیے پیغام:
"ہم ٹیکنالوجی میں اتنے قریب ہیں کہ اگر چاہیں تو جوہری ہتھیار بنا سکتے ہیں، اس لیے حملے کی غلطی نہ کرنا۔" اسرائیل کے لیے یہ اسٹریٹیجک ڈیٹرنس (Strategic Deterrent) ہے، تاکہ اسرائیل کو باز رکھا جا سکے۔

امریکہ کے لیے پیغام:
ایران نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ اگر امریکہ نے باعزت اور برابری کی سطح پر مذاکرات نہ کیے اور عائد پابندیاں ختم نہ کیں، تو وہ اپنے راستے پر بغیر رکے آگے بڑھتا رہے گا۔ ایران نے یہ بھی باور کرا دیا کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی میں اُس مقام سے آگے نکل چکا ہے، جہاں سے واپسی ممکن نہیں۔"

اسرائیل اور امریکہ کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا؟
اسرائیل:
ممکنہ طور پر ایران کے سائنسدانوں، تنصیبات یا سپلائی چین کو ہدف بنا سکتا ہے، لیکن: امریکہ براہ راست فوجی کارروائی سے اس وقت گریز کرے گا، کیونکہ: یوکرین کا محاذ ابھی کھلا ہے۔ ایران کا جوابی حملہ مشرق وسطیٰ کو آگ میں جھونک سکتا ہے

اس تمام صورتحال میں امریکہ کا ردعمل کیا ہوسکتا ہے
-امریکن صدر ٹرمپ اسرائیل کو خوش کرنے کے لیے صرف جارحانہ بیانات دے سکتا ہے، لیکن امریکہ فوجی کارروائی سے گریز کرے گا۔  
-امریکی اسٹیبلشمنٹ (سی آئی اے، پینٹاگون) سفارتی حل کو ترجیح دے گی۔
یورپ اور امریکہ، خاص طور پر ان کی انٹیلیجنس ایجنسیاں (جیسے CIA ،MI6) ایران کی جوہری پیش رفت پر مسلسل نظر رکھتی آئی ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ: ایران یورینیم کو 60% تک افزودہ کر رہا ہے، جبکہ 90 فیصد بنانے کی صلاحیت موجود ہے۔ ایران نے جدید IR-6 اور IR-9 سینٹری فیوجز بنائے ہیں۔ ایران نے ریسرچ ری ایکٹرز اور بھاری پانی کی ٹیکنالوجی میں خاطر خواہ پیش رفت کی ہے۔

اس لیے مغربی انٹیلیجنس دائرے میں یہ بات اب ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ ایران جوہری ٹیکنالوجی میں ایک اہم مرحلہ عبور کرچکا ہے۔ البتہ وہ عوامی سطح پر اس کو تسلیم نہیں کرتے، تاکہ ایران پر دباؤ برقرار رکھا جا سکے اور اپنے لاڈلے لونڈے اسرائیلی کے اس مطالبات سے بچا جاسکے کہ "فوری حملہ کرو۔" اب سوال یہ ہے کہ امریکہ مسقط مذاکرات میں کیا حاصل کرنا چاہتا تھا اور کیا حاصل کرنا چاہ رہا ہے۔؟ کیا وہ سفارتی ذرائع کے ذریعے JCPOA جیسے معاہدے کی جانب واپسی کا راستہ اختیار کرے گا، یا پھر اپنی سپر پاور حیثیت کا بھرم قائم رکھنے کے لیے مزید دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور خفیہ فوجی اقدامات کا سہارا لے گا؟"

ظاہراً امریکہ کے پاس سفارتی ذرائع کے ذریعے کسی معاہدے تک پہنچنے کے سوا کوئی مؤثر آپشن نظر نہیں آتا، کیونکہ ماضی میں اقتصادی پابندیوں نے ایران پر خاطر خواہ اثر نہیں ڈالا اور فوجی اقدام دنیا کو ایک ممکنہ عالمی جنگ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔ "ایران نے جس انداز سے اب تک اپنی فوجی اور جوہری طاقت کا مظاہرہ کیا ہے، اس نے امریکہ کو یہ باور کرا دیا ہے کہ مذاکرات کی میز پر اب ایک طاقتور اور متوازن فریق موجود ہے۔ ٹرمپ چاہے زبان سے سخت لہجہ اختیار کریں، لیکن اندرونی طور پر انہیں لچک دکھانا پڑے گی، کیونکہ ایران اب "دباؤ" کے بجائے "ٹیکنالوجی" کی زبان میں بات کرے گا۔

مسقط میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ایران ایک مضبوط پوزیشن میں تھا، یہی وجہ ہے کہ یہ بات چیت نہایت خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ مستقبل میں بھی امریکہ کو مذاکرات میں لچک دکھانی پڑے گی، کیونکہ ایران کی جوہری صلاحیت اب اس مقام تک پہنچ چکی ہے، جہاں سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ رواں حالات اور بین الاقوامی تجزیہ کاروں کی آراء کے مطابق، ایران مسقط مذاکرات کی میز پر ایک مضبوط اور پراعتماد فریق کے طور پر موجود تھا۔ ایران اپنی ٹیکنالوجی اور حکمتِ عملی کے بل بوتے پر عالمی اسٹیج پر نئی حقیقت کے طور پر ابھر چکا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا اس حقیقت کو کس نظر سے دیکھے گی۔؟

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • علیمہ خان کو سیاست میں گھسیٹنا ناجائز ہے، عمر ایوب
  • ’بچے کو بچالیں‘، سڑک پر کھڑے گولڈن کڈ کو دیکھ کر گلوکار بلال مقصود کی سوشل میڈیا پر جذباتی پوسٹ
  • امریکہ کے نائب صدر کا دورہ بھارت اور تجارتی امور پر مذاکرات
  • ’حادثے سےقبل جنید جمشید سخت بے چین تھے،اہلیہ رضیہ جنید کا جذباتی انکشاف
  • چینی، بھارتی طلبا کی ویزا قوانین پر ٹرمپ کے خلاف قانونی جنگ
  • امریکہ میں ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں مظاہرے
  • عمران خان کیلئے امریکی دبائو؟ فسانہ یا حقیقت
  • ماورا حسین شوہر کے گھر منتقل، تصاویر شیئر کردیں
  • ایران کا جوہری پروگرام(3)