Islam Times:
2025-04-22@07:09:56 GMT

شام سے ممکنہ امریکی انخلاء کے بارے غاصب صیہونی پریشان

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

شام سے ممکنہ امریکی انخلاء کے بارے غاصب صیہونی پریشان

اسرائیلی سرکاری میڈیا نے نئے امریکی صدر کیجانب سے شام میں تعینات ہزاروں امریکی فوجیوں کے ممکنہ انخلاء کا حکم دیئے جانیکے امکان کے بارے تل ابیب کی گہری پریشانی سے پردہ اٹھایا ہے اسلام ٹائمز۔ امریکہ میں "میڈ مین" کی شہرت پانے والے انتہاء پسند صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک مرتبہ پھر برسر اقتدار آ جانے سے جہاں امریکہ کے یورپی اتحادیوں میں کھلبلی پڑ چکی ہیں، وہیں مشرق وسطی میں امریکی و برطانوی مفادات کی ضامن غاصب صیہونی رژیم کو بھی اپنے وجود کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ کی غیر یقینی شخصیت و غیر قابل پیشین گوئی اقدامات کی جانب اشاہ کرتے ہوئے صیہونی میڈیا نے اعلان کیا ہے کہ غاصب صیہونی رژیم اس فکر میں مبتلاء ہو چکی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی اچانک حکم کے تحت شام میں تعینات امریکی فوجیوں کو بھی واپس نہ بلا لے!

اس حوالے سے جاری ہونے والی اپنی تازہ رپورٹ میں اسرائیل کی سرکاری ریڈیو ٹیلیویژن تنظیم کا کہنا ہے کہ نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے شام سے امریکی فوجیوں کے اچانک انخلاء کے امکان کے بارے "اطلاعات" موصول ہوئی ہیں جنہوں نے تل ابیب میں گہری تشویش کو جنم دیا ہے۔ صیہونی میڈیا کا کہنا تھا کہ شام میں تعینات امریکی افواج کے انخلاء کے امکان سے نہ صرف اسرائیل میں ہی گہری تشویش پائی جاتی ہے بلکہ اس امر کے شام میں موجود کرد فورسز پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ صیہونی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ شام میں تعینات ہزاروں امریکی فوجیوں کو واپس بلانے پر مبنی ڈونلڈ ٹرمپ کی خواہش سے وائٹ ہاؤس کے اعلی حکام نے ہی اسرائیل کو آگاہ کیا ہے!

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: شام میں تعینات امریکی فوجیوں ڈونلڈ ٹرمپ

پڑھیں:

ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔

افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر احتجاج:
 ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط ​​طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • مغرب میں تعلیمی مراکز کے خلاف ریاستی دہشت گردی
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے دور اقتدار کے ہلچل سے بھرے پہلے 3 ماہ؛ دنیا کا منظرنامہ تبدیل
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کرلیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • روس اور یوکرین رواں ہفتے معاہدہ کر لیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • ’ امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
  • صیہونی حملے کے بعد اسرائیلی نژاد امریکی قیدی کا کوئی علم نہیں، ایک محافظ شہید ہو چکا ہے، القسام بریگیڈ
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار