پی ایچ اے ملازمین دوہری نہیں تہری پریشانی کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
دور نایاب: پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی (پی ایچ اے) کے ملازمین مستبقی نہ ہونے، تنخواہوں میں تاخیر اور پنشن کے کیسز میں غیر معمولی تاخیر کے باعث شدید پریشانی کا شکار ہیں۔ پی ایچ اے کی سی بی اے یونین نے اس معاملے کو اعلیٰ سطح پر اٹھاتے ہوئے احتجاجی مراسلہ بھی ارسال کیا ہے۔
سی بی اے یونین کا کہنا ہے کہ ملازمین کی پنشن کا حق ادا نہ کرنے اور فنڈز کو دوسرے کاموں میں استعمال کرنے کے خلاف احتجاج کیا جائے گا۔ یونین نے مطالبہ کیا کہ ملازمین کی پنشن کی ادائیگی اور فنڈز کا استعمال درست طریقے سے کیا جائے۔
مری کے جنگلات میں آگ لگ گئی
سی بی اے یونین کے نمائندوں کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ 20 دن کی تاخیر سے تنخواہیں ادا کی گئیں، جس کے باعث ملازمین کو مشکلات کا سامنا ہے۔ یونین نے کہا کہ "ایک ایک سال سے پنشن کے حق سے محروم رکھنا ناانصافی ہے اور فنڈز کو ڈویلپمنٹ پر لگانے کے بجائے ملازمین کی حق تلفی کی جا رہی ہے"۔
یونین نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ فوری طور پر ملازمین کی پنشن کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے، بصورت دیگر احتجاجی مظاہرے کیے جائیں گے۔
ڈِیپ سِیک؛ آرٹیفیشل ٹیکنالوجی کی سستی چینی ٹیکنالوجی نے امریکی کمپنیوں کو دھڑن تختہ کر دیا
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: ملازمین کی یونین نے
پڑھیں:
خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم
خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم ہیں، ویلج کونسلر اور بلدیاتی نمائندے ایک پیسہ اعزازیہ بھی نہیں دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق پشاور سمیت خیبر پختونخوا کے تمام اضلاع میں بلدیاتی حکومتیں تو قائم ہیں لیکن عملی طور پر ان کے پاس نہ فنڈز ہیں، نہ اختیارات، 3 سال گزرنے کے باوجود مقامی نمائندے ایک ایک پیسے کو ترس رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے فنڈز کو ترس گئے، نائبر ہوڈ اور ویلیج کونسلز کے چیئرمین لاکھوں روپے واجب الادا اعزازیے کے انتظار میں ہیں، جبکہ تمام چیئرمین تاحال 30 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ بھی نہیں پا سکے۔
تحصیل اور ڈسٹرکٹ مئیرز بھی حکومت کی ”قسطوں“ کے منتظر ہیں۔ 90 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز کی منظوری تو ہو چکی ہے،لیکن زمین پر کام کی صورتحال صفر ہے ۔
بلدیاتی نمائندوں نے بارہا احتجاج بھی کیا لیکن صوبائی حکومت صرف باتوں سے ٹالتی رہی۔ بلدیاتی نظام کو مؤثر بنانے کے حکومتی دعوے، صرف کاغذوں کی حد تک محدود نظر آتے ہیں۔
بلدیاتی حکومتوں کا وجود صرف نام کا رہ گیا ہے۔ اختیارات کی منتقلی اور فنڈز کی فراہمی کے بغیر مقامی حکومتیں عوامی مسائل کیسے حل کریں گی؟ یہ سوال اب ہر شہری کی زبان پر ہے۔