Nai Baat:
2025-04-22@11:29:02 GMT

ڈیجیٹلائزیشن: ٹیکس اصلاحات کا واحد راستہ!

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

ڈیجیٹلائزیشن: ٹیکس اصلاحات کا واحد راستہ!

گزشتہ دنوں میں نے اپنے ایک کالم میں تفصیل سے لکھا تھا کہ پاکستان میں ہر سال ٹیکس کولیکشن بڑھی ہے لیکن مسائل جوں کے توں ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح اب بھی کم ہے۔اس وقت بقول وزیرخزانہ محمد اورنگزیب پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 10 فیصد کے قریب ہے جسے وہ اگلے 3سال میں 13.5 فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں۔ وزیرخزانہ کی یہ خواہش اور سوچ درست ہے کیونکہ ورلڈ بینک کے مطابق، جی ڈی پی کا 15 فیصد ٹیکس ریونیو معیشت کی ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ اس سے معاشی استحکام لانے میں مدد ملتی ہے۔ جب حکومت کے پاس اضافی وسائل ہوتے ہیں تو وہ ان کو صحت، تعلیم اور دیگر اہم شعبوں میں خرچ کرتی ہے، جو عوام کی زندگی کے معیار کو بہتر بناتا ہے۔ اس طرح سے ٹیکس کی شرح میں اضافہ معاشی ترقی، استحکام اور سماجی مساوات میں بہتری لاتا ہے، جو ایک مضبوط اور خوشحال معاشرے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ لیکن وزیرخزانہ کی خواہش اور سوچ کو عملی جامہ پہنانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کے لیے حکومت کو ایسے ٹھوس اور عملی اقدامات کرنا پڑیں گے جس سے دو کام ہوں۔ ایک تو ان لوگوں کے لیے نظام میں آسانیاں پیدا کی جائیں جوٹیکس دینا توچاہتے ہیں لیکن ٹیکس نظام سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں رجسٹرڈ ہونے کے بعد انہیں ٹیکس سے زیادہ متعلقہ اداروں کے اہلکاروں کو نوازنے کے لیے پیسے خرچ نہ کرنا پڑیں اور دوسرا ان ٹیکس نہ دینے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ایسا نظام وضح کیا جائے کہ اربوں روپیہ افراد کی جیبوں میں جانے کے بجائے ملکی خزانے میں جمع ہو۔

میری نظر میں یہ دونوں کام کرنے کا ایک بہترین راستہ ڈیجیٹلائزیشن کا فروغ ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن دنیا کا مستقبل ہے۔ ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے دنیا کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو حل کیا جارہا ہے لیکن میں حیران ہوں کہ پاکستان میں سرکاری کاموں میں اس کا استعمال اب بھی پوری طرح نہیں ہوپارہا جس کی وجہ وزیر مملکت برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ خواجہ نے پچھلے دنوں بتائی کہ کوئی بھی سرکاری محکمہ ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہتا، انہیں سرکاری اداروں کی ڈیجیٹائزیشن کے لیے جنگ لڑنا پڑ رہی ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ رشوت کے بازار کو ختم کرنا ہے یا نہیں؟ اگر رشوت کو ختم کرنا اور نظام میں شفافیت لانا ہے تو ڈیجیٹل ہونا پڑے گا۔ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب اور اور وزیر آئی ٹی شیزہ فاطمہ کی باتوں کا خلاصہ کریں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت میں موجود لوگوں کو مسائل اور ان کا حل دونوں معلوم ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی سطح پر بے بسی کا شکار ہیں۔ حکومتی اور عوامی نمائندوں کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ پچھلے دنوں خبرآئی کہ ایف بی آر نے اپنے افسران کے لیے اربوں روپے مالیت کی 1010 گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس پر گزشتہ ہفتے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔چیئرمین قائمہ کمیٹی خزانہ سلیم مانڈوی والا نے سوال کیا تھا کہ ایک ہزار دس گاڑیاں ایف بی آر کس لیے خرید رہا ہے جس پر وزارت خزانہ کے حکام کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ یہ گاڑیاں فیلڈ افسران کے لیے خریدی جارہی ہیں۔سینیٹر سلیم ماونڈوی والا نے پوچھا کہ کیا پہلے فیلڈ افسر سائیکل پر سفر کرتے تھے؟ اہم حلقوں میں محبوب سمجھے جانے والے سینیٹر فیصل واوڈا نے بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایف بی آر مخصوص کمپنی سے گاڑیاں خرید رہا ہے، یہ بہت بڑا سکینڈل ہے۔ تاہم چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے افسران کے لیے گاڑیوں کی خریداری پر ہونے والے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان افسران کے لیے گاڑیاں ضرور خریدیں گے، آپریشنز کے لیے گاڑیوں کی ضرورت ہے۔ حد یہ ہے کہ جب ایک صحافی نے چیئرمین ایف بی آر سے پوچھا کہ ’کیا آپ اپنے ٹارگٹس حاصل کرلیں گے‘، تو اس کے جواب میں چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ میں نے ابھی جوتشی والا کام شروع نہیں کیا۔ اس ساری صورتحال سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ٹیکس جمع کرنے والوں کی اپنی ترجیحات کیا ہیں اور عوامی نمائندوں کے اختیارات کتنے مؤثر ہیں۔

میری رائے میں اگر حکومت اصلاحات چاہتی ہے تو اسے ٹیکس نہ دینے والوں اور اپنے اداروں پر رٹ منوانے کے لیے کچھ ایسے اقدامات کرنا پڑیں گے کہ ٹیکس چوری کا سانپ بھی مرجائے اور حکومتی بھرم کی لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ حکومت تھوڑا حوصلہ کرکے ٹیکس نظام میں ڈیجیٹلائزیشن پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ افزائی، ٹیکس چوروں کی پکڑ اور افسر شاہی کے غیر ضروری عمل دخل کا خاتمہ ایک ساتھ ہو۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے خرید و فروخت کا ایسا نظام بنایا جائے کہ ٹیکس چوری ہو ہی نہ سکے۔ حکومت ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کو فروغ دے۔ فوری طورپر کریڈٹ اور ڈیبیٹ کارڈ کے ذریعے خریداری پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کرکے5 فیصد کردیا جائے تاکہ ڈیجیٹل پیمنٹس کے ذریعے خریداری کو فروغ ملے اور جتنی بھی ادائیگیاں ہیں وہ آہستہ آہستہ باضابطہ بینکنگ چینلز کے ذریعے ہوں۔ اب ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں لوگ کارڈ کے ذریعے پیمنٹس کو ترجیح دیتے ہیں جس پر 16 فیصد کی بجائے 5 فیصد سیلز ٹیکس کٹتا ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہوگاکہ حکومت کے پاس ٹیکس بیس کر بڑھانے کے لیے ڈیٹا دستیاب ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ حکومت پوائنٹ آف سیل نظام کو مزید بہتری لانے کے اقدامات بھی کرے۔

پاکستان میں ٹیکس اور دیگر سرکاری نظام کی ڈیجیٹلائزیشن وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے نہ صرف کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے بلکہ عوامی اعتماد بھی بحال ہو سکتا ہے۔ ٹیکس دہندگان کو سہولت فراہم کرنے، ٹیکس چوری کے خلاف کارروائی اور سرکاری اداروں کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو فوری طور پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر حکومت اس سمت میں سنجیدہ اقدامات کرے تو نہ صرف معیشت میں استحکام آئے گا بلکہ عوام کی زندگی کے معیار میں بھی بہتری آئے گی، اور ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کا خواب پورا ہو سکے گا۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: افسران کے لیے پاکستان میں ایف بی ا ر کے ذریعے یہ ہے کہ

پڑھیں:

وزیرخزانہ کی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات، اصلاحات جاری رکھنے کی یقین دہانی

وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے آئی ایم ایف کو معاشی اصلاحات جاری رکھنے کی یقین دہانی کردی ہے۔

واشنگٹن میں آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جورجیوا سے ملاقات کے دوران انہوں نے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے پر اظہار تشکر کیا۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے سربراہ کو وزیراعظم محمد شہباز شریف کی طرف سے دورہ پاکستان کی دعوت بھی دی۔

آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کے ساتھ یہ ملاقات آئی ایم ایف اور عالمی بینک کے موسم بہار اجلاس کی سائیڈ لائن پر ہوئی۔

یہ بھی پڑھیے: آئی ایم ایف پروگرام میں ہوتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں کمی کرنا آسان نہ تھا، نواز شریف

اس موقع پر انہوں نے امریکی محکمہ خزانہ کے اسسٹنٹ سیکریٹری رابرٹ کیپروتھ سے بھی ملاقات کی جس میں انہوں نے پاکستان میں معاشی صورتحال اور محصولات، نجکاری اور پینشن کے شعبے میں جاری اصلاحات سے متعلق انہیں آگاہ کیا۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن کی ریجنل نائب پریزیڈنٹ ہیلا چیخروحو اور ان کی ٹیم سے بھی ملاقات کی۔

اس اجلاس میں نجی شعبے کے اصلاحات، توانائی، مستحکم بلدیاتی مالیات اور روزگار کے شعبوں میں تعاون کے بارے میں گفتگو ہوئی۔

اجلاس میں متنوع ادائیگی کے حقوق پر پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔

یہ بھی پڑھیے: آئی ایم ایف نے 1 ارب ڈالر کی قسط دینے سے پہلے کیا مطالبات رکھ دیے؟

وزیر خزانہ نے بلوچستان میں ریکو ڈک میں تانبے اور سونے کے منصوبے کے لیے 2.5 ارب ڈالر کے قرض کی مالی معاونت میں بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن کے اہم کردار کو سراہا۔

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اس منصوبے کے فوائد مقامی کمیونٹی کو بھی پہنچنے چاہئیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • پنجاب حکومت نے ملازمین کی ٹیکس کٹوتی سے  متعلق نئی ترمیم متعارف کرادی
  • حکومت پاکستان کی آئی ایم ایف کو اصلاحات جاری رکھنے کی یقین دہانی
  • وزیر خزانہ کی ایم ڈی آئی ایم ایف سے ملاقات، اصلاحات جاری رکھنے کی یقین دہانی
  • وزیرخزانہ کی آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر سے ملاقات، اصلاحات جاری رکھنے کی یقین دہانی
  • وزیر خزانہ کی آئی ایم ایف کو اصلاحات جاری رکھنے کی یقین دہانی
  • خیبرپختونخوا حکومت نے آئندہ مالی سال کیلیے بجٹ کی تیاری شروع کر دی
  • تنخواہ دار اب ٹیکس سے نہیں بچ سکے گا، پنجاب حکومت نے شکنجہ تیار کرلیا
  • جدید تعلیم ہی قوم کی ترقی کا واحد راستہ ہے،جہانگیر ترین
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟