پھول کم ہوں خوشیاں نہ ہوں! یہ کون سی عقل مندی ہے
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
بچے پھولوں کا گیت ہیں۔ سر بفلک پہاڑوں، چاند ستاروں، خوش نما پھولوں، رنگین تتلیوں، تصویروں اور حسین چہروں کو جس سرشاری سے بچے دیکھتے ہیں یہ مناظر بھی بچوں کو اسی خوشی سے دیکھتے ہیں، ان سے زندگی کا احساس لیتے ہیں۔ بچے دنیا کے بارے میں عظیم آسمانی منصوبے کا حصہ ہیں۔ بچے ہماری میراث، ہمارا اثاثہ ہیں۔ شیطان ہمیں اکساتا ہے کہ ہم ظلم کریں، بے رحمی کریں۔ بچوں کو دنیا میں آنے سے روکیں۔ یہ وہ بدترین ظلم ہے جو شیطان ہم سے چاہتا ہے۔ زیادہ بچے اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے آگے سجدہ ریزی ہے۔ اللہ کے اس فرمان پر یقین کی علامت: ’’اپنی اولاد کو فقرو فاقہ کے خیال سے قتل مت کرو۔ ہم ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی۔ روئے زمین پر چلنے والے جتنے جاندار ہیں ان کا رزق اللہ کے ذمے ہے‘‘۔
جو خالق اتنی بڑی کائنات تخلیق کرسکتا ہے کیا اسے ہی یہ علم نہ ہوگا کہ 2025 اور اس کے بعد کے ادوار میں انسانی ضروریات کتنی ہوں گی اور انہیں کیسے پورا کرنا ہے۔ وہ جو کہتا ہے ’’میں سب سے بڑا منصوبہ بنانے والا ہوں‘‘ وہ خاندانی منصوبہ بندی کی ان کوششوں پر کیسے ہنستا ہوگا۔ ہزاروں برس سے یہ دنیا آباد ہے۔ کھربوں انسان آئے اور چلے گئے، کیا وہ بھوکے مر گئے تھے جو اب مرجائیں گے۔ کبھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے خزانے کم ہوئے ہیں جواب ہوجائیں گے۔
کم بچوں کی کوشش شیطان کو سجدہ ہے۔ آدم ؑاور نسل آدم کے خلاف جس کی جنگ شدت سے جاری ہے۔ انسان جلد باز ہے۔ خوف وہراس اس کی کمزوری ہے۔ زیادہ بچوں کی تعداد سے اسے ڈرایا جاتا ہے تو شیطان شہ دیتا ہے، تنگی اور خوف کا وسوسہ ڈالتا ہے۔ یوں ربّ کائنات کے خالق اور مالک ہونے کے عقیدے پر ضرب لگا کر انسان کو اپنا قیدی بنا لیتا ہے۔ زیادہ بچے والدین اور گھروں کی برکت ہیں۔ وہ جن کے ایک دو بچے ہیں، اگر کسی حادثے کا شکار ہوجائیں، نافرمان نکل جائیں تو پھر تنہا والدین کہاں جائیںگے، کیا کریں گے۔ جن والدین کے زیادہ بچے ہوتے ہیں ان کا بڑھاپا عشرت میں گزرتا ہے۔ آج اِس بچے کے گھر مہمان، کل اُس بچے کے گھر مہمان، پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں میں گھرے ہوئے۔
یہ بچوں پر ظلم کا بدترین دور ہے۔ ہلاکو اور چنگیزخان بچوں کو سنگینوں میں پروتے تھے۔ آج کی مہذب دنیا ماں کے پیٹ ہی میں انہیں قتل کررہی ہے، ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں روزانہ۔ نہ جانے کون کون سے نشتر ان کے بدن میں چبھوکر، کون کون سے زہر ان کے رگ وپے میں اتار کر۔ اس پر جواز غربت، افلاس، پال نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو جیسے پُر فریب نعرے۔ کل کہیں گے جب سنبھال نہیں سکتے تو پالتے کیوں ہو۔
بچے کم پیداکرنے کے لیے وضع کیے گئے دلائل، میڈیا ہائو سز سے فیملی پلا ننگ کے قصیدے، اشتہار، ٹاک شوز، پروگرام اور سیمیناروں میں کی گئی تقریریں مسلمانوں کی اکثریت غلاظت کے ڈھیروں پر پھینک دیتی ہے جب اللہ کی آخری کتاب انہیں آگاہ کرتی ہے: ’’زمین پر چلنے والا کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمے نہ لے رکھا ہو۔ وہ اس کے مستقل ٹھکانے کو بھی جانتا ہے اور عارضی ٹھکانے کو بھی‘‘ (ھود: ۶) اور جب اس مقام سے جو آسمان کے نیچے ایک بہت ہی ادب والا مقام ہے، جو عرش سے بھی نازک ہے، جہاں جنید اور بایزید جیسی ہستیاں اپنا سانس روکے ہوئے آتی ہیں اس مقام ادب سے یہ فرمان جاری ہوتا ہے ’زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے نکاح کرو کیونکہ میں کل قیامت میں تم لوگوںکی زیادہ تعداد کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروںگا‘‘۔ تو پھر کون مسلمان خاندانی منصوبہ بندی کی بکواس پر عمل کرے گا۔
کہا جاتا ہے کہ نسل انسانی کے کم ہونے سے وسائل پر بوجھ کم ہو جاتا ہے۔ مہنگائی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے تو پھر مغرب کے بیش تر ممالک کیوں مہنگائی سے بے حال ہیں۔ بچے کم پیدا کرنا تو ایک طرف جہاں لوگ بچے پیدا کرنا ہی بھول گئے ہیں۔ وہاں تو نسل انسانی وسائل پر بوجھ نہیں ہے۔ پھر مہنگائی اور وہ بھی ایسی مہنگائی کیوں ہے کہ فرانس میں لوگ مہینوں مہنگائی کے خلاف سڑکوں پر توڑ پھوڑ اور آگ لگاتے رہے۔ امریکا اور یورپ میں تو بچے منصوبہ بندی کے تحت پیدا کیے جاتے ہیں پھر وہاں مہنگائی کیوں ہے۔ مسئلہ وسائل کی کمی اور بڑھتی ہوئی آبادی کا نہیں ہے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کا ہے۔ وہ تقسیم جس نے دولت کو اکثریت کے ہاتھوں سے چھین کر دنیا کے چند امیر ہاتھوں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھ میں دے دیا ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کو خواتین کی صحت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اسلام میں خواتین کی صحت اور جان کو لاحق خطرات کی صورت میں خاندانی منصوبہ بندی کی اجازت ہے مگر انفرادی سطح پر۔ کیس ٹو کیس۔ با امر مجبوری۔ اسے تحریک بنا کر معاشرے پر ٹھونسا نہیں جاسکتا۔ کیونکہ یہ تحریک اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی صفت رزاقیت کا انکار ہے۔ ان تحریکوں کا مقصد مالی منفعت اور اربوں کھربوں روپے کی اس صنعت کا فروغ ہے جو مانع حمل ادویات اور آلات تیار کرتی ہیں۔ مانع حمل ادویات اور طریقوں نے عورتوں کی زندگی کو جہنم بنادیا ہے۔ انہیں چلتی پھرتی لاشیں بنادیا ہے۔ خطرناک امراض میں مبتلا کردیا ہے۔ حرام کاری اور فحاشی کا دروازہ کھول دیا ہے جس کا سب سے زیادہ نقصان عورتوں کو ہی ہوتا ہے۔ عورت جس طرح آج بازار کی جنس ہے شاید ہی کسی بھی زمانے میں رہی ہو۔
خاندانی منصوبہ بندی کی تحریک کا آغاز اٹھارویں صدی کے اواخر میں یورپ میں ہوا۔ اس کا محرک برطانیہ کا مشہور ماہر معاشیات مالتھس تھا۔ اس نے حساب لگایا تھا کہ اگر نسل انسانی اسی طرح اپنی فطری رفتار سے بڑھتی رہی تو زمین انسان کے لیے تنگ پڑجائے گی۔ یہ تحریک ایک عالمی تحریک اس وقت بنی جب امریکا کے وزیر خارجہ جان مارشل نے 1947ء میں دنیا کی آبادی کم کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔ وہ دراصل مسلمانوں کی بڑی آبادی سے پریشان تھا۔ اس منصوبے سے اس کا اصل مقصد مسلمانوں کی آبادی کم کرنے کی کوشش کرنا تھا، لیکن جو اصل ہدف تھے یعنی مسلمان وہ تو اس مغربی سازش سے اس قدر متاثر نہ ہوئے۔ لیکن مغرب کو اس نظریے نے اس طرح برباد کیا کہ آج ترقی یافتہ ممالک اپنی تہذیبوں کے خاتمے کے خوف میں مبتلا ہیں۔
دنیا کے تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیںکہ اگر کسی بھی تہذیب کو زندہ رکھنا ہے تو اسے اگلے پچیس سال تک اپنی آبادی میں اضافے کی شرح کو اس طرح برقراررکھنا ہے کہ ہر خاندان میں اوسطاً 2.
غربت کے خاتمے کے لیے بچوں کا قتل عقل مندی نہیں تہذیب جدید کی درندگی ہے اس سطحی حل کے بجائے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ غریب اور امیر کے درمیان بڑھتی ہوئی لکیر کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ وسائل کی کھوج اور ان کی منصفانہ تقسیم کی ضرورت ہے۔ انصاف پسند اور درد مند حکمرانوں کی ضرورت ہے جو دردمندی سے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: خاندانی منصوبہ بندی کی کی ضرورت ہے زیادہ بچے جاتا ہے کو بھی
پڑھیں:
فلسطین: انسانیت دم توڑ رہی ہے
دنیا کے نقشے پر اگرکہیں ظلم کی سب سے بھیانک اور خوفناک تصویر نظر آتی ہے۔ زمین کے نقشے پر اگرکوئی خطہ سب سے زیادہ زخم خوردہ ہے، اگر کہیں مظلومیت روز جیتی ہے اور انسانیت روز مرتی ہے، اگرکہیں معصوم بچوں کے کٹے پھٹے جسم انسانی ضمیرکو جھنجھوڑتے ہیں اور پھر بھی دنیا کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی تو وہ فلسطین ہے۔
آج فلسطین صرف ایک سرزمین نہیں، بلکہ قیامت زدہ قبروں کا میدان ہے، جہاں بچوں کے جنازے روزانہ اٹھتے ہیں، جہاں عورتوں کی چیخیں دیواروں سے ٹکرا کر دم توڑ دیتی ہیں، جہاں ملبے تلے کچلی ہوئی زندگی کراہ رہی ہے اور جہاں پوری دنیا کی خاموشی انسانی تاریخ کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔
یہ صرف ایک قوم کا المیہ نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کی غفلت، بے حسی اور زوال کی تصویر ہے۔ آج غزہ صرف ملبے کا ایک ڈھیر نہیں، بلکہ تاریخ انسانی کی سب سے تاریک داستانوں میں سے ایک ہے، جو ہر باشعور انسان سے سوال کر رہی ہے۔ ’’کیا تم واقعی انسان ہو؟ ‘‘
غزہ پر پچھلے ڈیڑھ سال سے جو قیامت ٹوٹی ہے، اس نے ظلم اور وحشت کی ساری حدیں پار کردی ہیں۔ اسرائیل نے غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ آئے روز ہونے والے فضائی حملے، ٹینکوں کی گولہ باری، ڈرونز سے میزائل برسائے جانے اور زمین دوز بموں نے اس علاقے کو کسی کھنڈر میں بدل دیا ہے، جہاں زندگی باقی نہیں رہی، صرف موت کا راج ہے۔
غزہ کی گلیاں اب زندگی کی نہیں، موت کی تصویر ہیں۔ ہر طرف بکھری لاشیں، خون میں نہائے بچے، روتی بلکتی مائیں اورکھنڈرات میں چھپتے بے سہارا انسان، یہ سب کچھ ہمیں صرف ایک تصویر دکھاتے ہیں کہ انسانیت ہار چکی ہے۔
ہزاروں معصوم بچے جنھوں نے ابھی دنیا دیکھی بھی نہ تھی، دنیا چھوڑگئے۔ وہ بچے جو اسکول جانا چاہتے تھے،کتابوں سے دوستی کرنا چاہتے تھے، آج ان کی کتابیں خون میں لت پت ملبے تلے دبی پڑی ہیں۔ مائیں اپنے شیر خوار بچوں کے لاشے سینے سے لگائے بیٹھی ہیں اور دنیا کی بے حسی پر ماتم کر رہی ہیں۔ غزہ کے کئی علاقے مکمل طور پر نیست و نابود کردیے گئے ہیں۔
پورے محلے، بستیاں، سڑکیں، اسپتال، مساجد، اسکول اور یونیورسٹیاں ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ پینے کا صاف پانی ہے، نہ کھانے کو کچھ میسر، نہ دوا ہے، نہ علاج۔ بیمار مرتے ہیں، زخمی سسکتے ہیں اورکوئی مدد کو نہیں آتا۔
ظلم صرف غزہ میں نہیں ہو رہا، بلکہ فلسطین کے کئی علاقوں میں اسرائیلی فوجی گھروں میں گھس کر نہتے شہریوں کو مار رہے ہیں، نوجوانوں کو اغوا کیا جا رہا ہے، عورتوں کی بے حرمتی ہو رہی ہے اور مسجد اقصیٰ میں نمازیوں پر حملے معمول بن چکے ہیں۔
فلسطین پر ظلم کوئی نیا واقعہ نہیں۔ یہ ایک مسلسل کہانی ہے، جو پچھلی کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ 1948 میں اسرائیل کے قیام کے وقت سے ہی فلسطینی قوم کو اپنی سرزمین سے بے دخل کیا گیا، ان کے گھروں پر قبضے کیے گئے، ان کی زمینیں چھینی گئیں اور ان کی نسل کو مٹانے کی کوشش کی گئی۔
کبھی ’’نقب‘‘ کیمپوں میں، کبھی ’’ صبرا و شتیلا‘‘ میں، کبھی ’’جنین‘‘ اور کبھی ’’غزہ‘‘ میں۔ ہر جگہ اسرائیل نے ظلم کی نئی تاریخ رقم کی، لیکن جو کچھ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہوا، وہ محض ظلم نہیں، بلکہ انسانیت کا جنازہ ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ فلسطین جلتا رہا، معصوم بچے مرتے رہے، عورتیں چیختی رہیں، بوڑھے کراہتے رہے، مگر مسلم دنیا کے حکمران اپنی کرسیوں سے ہلنے کو تیار نہیں۔
او آئی سی، جو کہ اسلامی تعاون تنظیم کہلاتی ہے، صرف بیانات تک محدود رہی۔ عرب لیگ کے اجلاس منعقد ہوئے، لیکن ان اجلاسوں میں صرف قراردادیں منظور ہوئیں، جن کا زمین پر کوئی اثر نہ پڑا۔ کہیں سے نہ تجارتی بائیکاٹ ہوا، نہ سفارتی دباؤ، نہ اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمات دائرکیے گئے۔
یہاں تک کہ مسلم دنیا اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ پر بھی متحد نہ ہو سکی۔ کیا یہ ہمارے ایمان کی کمزوری نہیں؟ کیا یہ ہمارے ضمیرکی موت نہیں؟جہاں مسلم حکمرانوں کی بے حسی شرمناک ہے، وہیں عالمی طاقتوں کا کردار اور بھی زیادہ مجرمانہ ہے۔ امریکا نے اسرائیل کو مہلک ہتھیار فراہم کیے، اس کی ہر ظلم کی پشت پناہی کی اور اقوام متحدہ میں فلسطینیوں کے حق میں آنے والی ہر قرارداد کو ویٹو کر کے یہ ثابت کر دیا کہ وہ انصاف کے نہیں، مفادات کے علمبردار ہیں۔
برطانیہ، جرمنی، فرانس جیسے ممالک جو انسانی حقوق کے علمبردار بنتے ہیں، وہ بھی اسرائیل کی صف میں کھڑے نظر آئے۔ اقوام متحدہ، جو امن و انصاف کا عالمی ادارہ کہلاتا ہے، فلسطین کے معاملے میں محض تشویش، افسوس اور فوری جنگ بندی کی اپیل جیسے کمزور الفاظ سے آگے نہ بڑھ سکا۔
یہ ادارہ اگر شام، لیبیا، یوکرین یا کسی اور مغربی مفادات سے جڑے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر متحرک ہو سکتا ہے تو فلسطین کے معاملے میں اتنا بے بس کیوں ہے؟ کیا فلسطینی انسان نہیں؟ کیا ان کے خون کی قیمت کم ہے؟ یہ سب دیکھ کر دل چیخ اٹھتا ہے کہ کیا انسانیت واقعی مر چکی ہے؟ کیا اب دنیا صرف طاقتور کے حق کو تسلیم کرتی ہے؟ کیا اب معصوم بچوں کی لاشیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی نہیں رہیں؟
اس وقت پوری دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہ ہمیں ایک عظیم سبق دے رہا ہے کہ صرف جذباتی تقریریں، روایتی احتجاج اور سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ چلانا کافی نہیں۔ اب وقت ہے کہ مسلم دنیا اپنے وسائل، اپنی طاقت، اپنی وحدت کو یکجا کرے۔
وہ ملت جو ڈیڑھ ارب سے زیادہ افراد پر مشتمل ہو، جس کے پاس بے پناہ دولت، افرادی قوت اور وسائل ہوں، وہ اگر متحد نہ ہو تو اس کا بہت بڑا جرم ہے۔ ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے فلسطینیوں کے لیے کیا کیا؟ ہم میں سے ہر فرد جواب دہ ہے۔
کیا ہم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا؟ کیا ہم نے اپنے حلقے میں شعور اجاگرکیا؟ کیا ہم نے مظلوموں کے لیے دعا بھی کی؟ کیا ہم نے ان کے حق میں آواز بلند کی؟ کیا ہم نے قلم اٹھایا؟ کیا ہم نے بچوں کو بتایا کہ فلسطین کیا ہے؟ اگر ہم نے اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ نہیں کیا، اگر ہم نے سوشل میڈیا پر فلسطینیوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی، اگر ہم نے اپنی اولاد کو فلسطین کی حقیقت نہیں بتائی تو ہم بھی مجرم ہیں۔
خاموشی بھی ظلم کا ساتھ دینا ہے اور ظلم کے سامنے خاموش رہنے والا بھی ظالم کے جرم میں شریک ہوتا ہے۔ آج فلسطین ملبے تلے صرف معصوم انسانوں کی لاشیں نہیں دفن ہو رہیں، بلکہ انسانیت کی روح بھی کچلی جا رہی ہے، اگر آج ہم نے آنکھیں بند رکھیں، زبانیں بند رکھیں، ہاتھ روک لیے اور ضمیر کو سلا دیا تو کل جب ہماری باری آئے گی تو کون ہمارے لیے بولے گا؟ کون ہمارا پرسان حال ہوگا؟ یہ وقت محض تماشائی بنے رہنے کا نہیں، عملی اقدامات کا ہے۔ یہ وقت بیدار ہونے کا ہے۔ آج ہم خاموش رہے تو کل تاریخ ہم پر بھی خاموشی کا پردہ ڈال دے گی۔ آج غزہ ختم ہو رہا ہے، کل بیت المقدس پر ہاتھ ڈالا جائے گا۔ ظلم کو آج نہ روکا گیا تو یہ کل ہم سب کو نگل لے گا۔