حماس کی فتح ٗ مسئلہ کشمیر و پاراچنار : ائمہ خطبات جمعہ میں بات کریں ٗ ملی یکجہتی کونسل سندھ
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
کراچی(اسٹاف رپورٹر)ملی یکجہتی کونسل سندھ کا اجلاس صوبائی صدر اسد اللہ بھٹو کی زیر صدارت ادارہ نورحق میں منعقد ہوا ، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ جمعہ 31جنوری کو صوبے بھر میں ائمہ وخطبا اجتماعات جمعہ میںحماس کے مجاہدین اور فلسطینیوں کی فتح ، مسئلہ کشمیر اور پاراچنار کے
حالات کے حوالے سے تقاریر کریں گے اوربڑی مساجد کے باہر ملی یکجہتی کونسل کے تحت اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج اوراہل غزہ سے اظہار یکجہتی بھی کیا جائے گا ،اجلاس میں شریک تمام جماعتوں نے جماعت اسلامی کے تحت 5فروری کو ہونے والی ’’کشمیر ریلی ‘‘ میں بھر پورشرکت کی یقین دہانی کرائی ۔اجلاس میں طے کیا گیا کہ ملی یکجہتی کونسل سندھ کے تحت کراچی تا کشمور ’’یوم یکجہتی کشمیر ‘‘ منایا جائے گااورسندھ کے پانچوںڈویژن میں پروگرامات منعقدکیے جائیں گے ۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اسد اللہ بھٹو نے کہاکہ حماس نے پوری مسلم امہ کی قیادت کا حق ادا کیا ہے اور اپنی قربانیوں کے ذریعے ایک بار پھر امت کو بیداری کا پیغام دیا ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلم حکمراں دینی حمیت کا مظاہرہ کریں اور فلسطینیوں کا کھل کر ساتھ دیں ۔صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ قاضی احمد نورانی نے کہاکہ امریکا اور اس کے حواری مسلم امہ کے غفلت سے فائدہ اٹھا کر دنیا بھر میں صیہونیت کو مسلط کرنا چاہتے ہیں ، لیکن غیرت مند مسلمان عالم کفر کی سازش کو ہر گز کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔فلسطینی جدوجہد اپنے منطقی انجام کو پہنچے گی اور اسرائیل نابود ہوگا ، عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مفتی محمد اعجاز مصطفی نے کہاکہ 75سال سے اسرائیل جو مظالم فلسطینیوں پر ڈھارہا ہے اس پر دنیا خاموش رہی لیکن حماس نے 15ماہ مسلسل جدوجہد کر کے اسرائیل کو شکست سے دوچار کیا۔محمد حسین محنتی نے کہاکہ کشمیر کا تشخص تبدیل کرنا بہت بڑاالمیہ اورکشمیر کو متنازع علاقہ قراردینے کے بجائے بھارت کے حوالے کردینا بہت بڑا دھوکا ہے۔مسلم پرویز نے کہاکہ اسرائیل نے اہل غزہ و فلسطینیوں پر ظلم ڈھایا ،15ماہ تک مسلسل بمباری کی لیکن فلسطینیوں کے حوصلے پست نہ کرسکا ، حماس کے مجاہدین ڈٹے رہے اور اسرائیل کو پیچھے ہٹنے اور معاہدہ کرنے پر مجبور کیا۔اصل شکست صیہونیوں کی سرپرستی کرنے والوں کی ہوئی ہے ۔جماعت اسلامی 5فروری کو کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ’’کشمیر ریلی ‘‘کا انعقاد کرے گی ۔ایم ڈبلیو ایم کے ملک غلام عباس نے کہاکہ صرف یوم کشمیر منانا کافی نہیں بلکہ عملی اقدامات کرنا ضروری ہیں،فلسطین میں حماس کی فتح کو یوم فتح کے طور پر منایاجانا چاہیے ، پاراچنار کے معاملے میں حکومت و ریاست دونوں شامل ہیں ، اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے ۔مفتی اعجاز مصطفی نے کہاکہ مدارس کے حوالے سے سوسائٹی ایکٹ کو مرکز کے ساتھ صوبائی حکومتیں بھی منظور کریں۔غلام یحییٰ نے کہاکہ حماس پر الزام تراشی کرنے والے معاہدہ و شکست کو یاد کرلیں ، اسرائیل کی شکست پر ان کے ذمے داران کو استعفا دینا پڑا۔نائب صدر تحریک فیضان اولیا محمد علی صابری نے کہاکہ پاراچنار میں مسلمانوں کو آپس میں لڑانے کی سازش کی جارہی ہے ، علما کرام منبر ومحراب سے پاراچنار کے مسئلے پر بات کریں ۔سید شاہد رضا نے کہاکہ پاراچنار کے مسئلے پر احتجاج کرنے والوں پر ظلم کیاگیا، ہم اس کی مذمت کرتے ہیں،کشمیر ریلی کی حمایت کرتے ہیں ، کشمیر کے حوالے سے ایک سیمینار منعقد ہونا چاہیے ۔شیعہ علما کونسل کراچی ڈویژن کے جنرل سیکرٹری سجاد حسین حاتمی نے کہاکہ مجاہدین کی استقامت کے آگے اسرائیل شکست کھاچکا ،ایران کی قربانیاں قابل قدر ہیں ۔ ہدیۃ الہادی سندھ کے نائب صدر ممتاز رضا سیال نے کہاکہ اسرائیل نے جو کچھ کیا وہ ظلم و سفاکیت ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے ۔مولانا غلام مرتضیٰ رحمانی نے کہاکہ دنیا بھر کے مسلم حکمرانوں کو یکجا ہوکر فلسطینی جدوجہد کی حمایت کرنی چاہیے۔صوفی سید منور چشتی نے کہاکہ ملی یکجہتی کونسل کے حوالے سے جماعت اسلامی کی میزبانی اور کوششیں قابل تحسین ہیں ، دینی جماعتوں کے اس پلیٹ فارم کو اور زیادہ فعال کرنے کی ضرورت ہے ۔اجلاس میںفلسطین فاؤنڈیشن کے ڈاکٹر صابر ابو مریم ، شیعہ علما کونسل کے ڈاکٹر سید علی بخاری،متحدہ جمعیت اہلحدیث کے عارف رشید،تحریک فیضان اولیا کے سید محمد ریحان ،مجلس وحدت المسلمین کے ناصر حسینی ،البصیرہ کے نائب صدر سید شاہد رضا ،ادارہ البصیرہ کے ڈاکٹر جواد حیدر ہاشی مرکزی علما کونسل کے ڈپٹی سیکرٹری محمد عدنان اور دیگر نے بھی شرکت کی ۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ملی یکجہتی کونسل پاراچنار کے کے حوالے سے کونسل کے نے کہاکہ
پڑھیں:
اسرائیل کی غزہ میں جنگ روکنے کے لیے ناقابلِ قبول شرائط
ایک اسرائیلی میڈیا آؤٹ لیٹ نے اتوار کو غزہ میں نسل کشی روکنے کے لیے چار ناقابل قبول اسرائیلی شرائط کا انکشاف کیا۔ اسلام ٹائمز۔ آج بروز اتوار، ایک اسرائیلی میڈیا چینل نے غزہ میں نسل کشی کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی چار ناقابلِ قبول شرائط کو بے نقاب کیا۔ فارس نیوز مطابق، اسرائیلی چینل i24NEWS نے دعویٰ کیا ہے کہ غزہ میں جنگ کا خاتمہ اسرائیل کی درج ذیل چار شرائط کی تکمیل پر منحصر ہے، تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، حماس کا مکمل طور پر اقتدار سے دستبردار ہونا، غزہ پٹی کا مکمل غیر مسلح ہونا اور حماس کے درجنوں رہنماؤں کو ملک بدر کرنا۔ یہ شرائط ایسے وقت میں پیش کی جا رہی ہیں جب حماس کئی بار واضح طور پر اعلان کر چکی ہے کہ اسرائیلی قیدیوں کی رہائی جنگ کے خاتمے سے مشروط ہے، اور وہ مزاحمتی قوتوں کو غیر مسلح کرنے یا اپنے رہنماؤں کو وطن سے نکالنے کی شرائط کو قبول نہیں کرے گی۔
اس سے قبل، حماس کے ایک رہنما نے المیادین ٹی وی کو بتایا تھا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا اور اس کی غزہ میں واپسی کو روکنا اسرائیل کے پیش کردہ جنگ بندی کے منصوبے کا مرکزی نکتہ ہے، جبکہ اس میں مستقل جنگ بندی یا اسرائیلی افواج کی مکمل واپسی جیسے بنیادی مطالبات شامل نہیں ہیں۔ اسرائیل صرف حماس سے قیدیوں کا کارڈ چھیننے کی کوشش کر رہا ہے۔ حماس نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ ایک جامع قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ جنگ مکمل طور پر بند کی جائے، اسرائیلی فوج غزہ سے نکل جائے، باریکے کی تعمیر نو کا آغاز ہو، اور محاصرہ ختم کیا جائے۔
دوسری جانب، اسرائیلی وزیراعظم نے گزشتہ شب مظاہروں اور طوماروں کے باوجود جن پر عام شہریوں، ریزرو فوجیوں اور ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں نے دستخط کیے تھے تاکہ قیدیوں کی واپسی کے لیے جنگ بندی کی جائے کہا کہ ہمارے پاس فتح تک جنگ جاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ہم ایک نازک مرحلے میں ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ حماس نے زندہ قیدیوں میں سے نصف اور کئی ہلاک شدگان کی لاشوں کی رہائی کی پیشکش کو مسترد کر دیا اور جنگ کے خاتمے کا مطالبہ کیا، جو ناقابلِ قبول ہے۔ یہ دعویٰ ایسی حالت میں سامنے آیا ہے جب غزہ میں حماس کے رہنما خلیل الحیہ نے جمعرات کی شب اعلان کیا کہ حماس اسرائیل کے ساتھ فوری طور پر ایک جامع پیکیج مذاکرات کے لیے تیار ہے۔
اس پیکیج میں تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی، متفقہ تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی، مکمل جنگ بندی، غزہ سے اسرائیلی انخلاء، تعمیر نو کی بحالی اور محاصرہ ختم کرنا شامل ہیں۔ خلیل الحیہ، جو مذاکراتی ٹیم کے سربراہ بھی ہیں، نے کہا کہ غزہ سے متعلق جزوی معاہدے دراصل نیتن یاہو کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہیں، جو جنگ، نسل کشی اور بھوک کے تسلسل پر مبنی ہے۔