Express News:
2025-04-22@18:55:18 GMT

جیوڈیشل آرڈر

اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT

سپریم کورٹ میں آجکل کافی سیاست نظر آرہی ہے۔ ویسے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ججز میں اختلاف کے ہم کافی حد تک عادی ہو چکے ہیں۔ سب کو معلوم ہے کہ کس کی کہاں ہمدردیاں ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ نام دیکھ کر فیصلے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔

افسوسناک امر ہے کہ سب کے بارے میں رائے بن گئی ہے کہ کون کس سیاسی جماعت کا حامی ہے اور کس کا مخالف۔ یہ بھی کافی حد تک معلوم ہے کہ کون 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں ہے، کون اس ترمیم کے حق میں نہیں ہے۔ سیاسی سمجھ بوجھ اور عدالتی خبروں پر نظر رکھنے والا بتا سکتا ہے کہ اگر فل کورٹ بنے گا تو کیا فیصلہ ہوگا؟ اگر لارجر بنچ بنے گا تو کیا فیصلہ ہوگا؟ اگر آئینی بنچ سنے گا تو کیا فیصلہ ہوگا؟

بہر حال سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی نے ایک فیصلہ دیا ہے۔اس فیصلے نے ایڈیشنل رجسٹرار سے توہین عدالت ختم کر کے بظاہر یہ تلوار کمیٹی کے ممبران پر لٹکا دی ہے۔ محترم جج صاحبان نے فل کورٹ بنانے کے جیو ڈیشیل احکامات دیے ہیں۔ کہا ہے کہ ان کے بنچ سے کیس لینے کے معاملے پر فل کورٹ بنایا جائے تا کہ یہ طے کیا جا سکے کہ کیا دونوں ججز کمیٹیوں کے پاس ان کے بنچ سے کیس واپس لینے کا اختیار تھا بھی یا نہیں۔

ایک سوال ہے کہ اگر فل کورٹ یہ طے کرتا ہے کہ دونوں ججز کمیٹی کے ارکان کے پاس کیس واپس لینے کا اختیار نہیںتھا تو پھر کیا دونوں ججز کمیٹی کے ارکان نے جسٹس منصور علی شاہ کی عدالت کی توہین کی ہے؟ اس طرح چیف جسٹس آئینی بنچ کے سربراہ اور دو سنیئر ججز توہین عدالت کے کٹہرے میںکھڑے ہو جائیں گے۔

اس ملک میں ایک نیا آئینی بحران پیدا ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کے ججز اپنے ہی چیف جسٹس اور دیگر ججز کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کر دیں گے۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر ججز پر توہین عدالت لگ جائے تو وہ جج نہیں رہ سکتے، اس طرح یہ چاروں جج سپریم کورٹ سے فارغ بھی ہو جائیں گے۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ نے جیوڈیشل فیصلے سے چیف جسٹس بحال تو کیا ہے اور ایک جیوڈیشل فیصلے سے چیف جسٹس کو نکالا بھی ہے۔ ویسے جیوڈیشل فیصلے سے چیف جسٹس کو نکالنے کی روائت موجود ہے۔ سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف ان کے ہی ساتھی ججز نے کوئٹہ بنچ سے فیصلہ دیکر ان کو معزول کیا تھا۔ آج بھی ہمیں ایسی ہی کوئی صورتحال لگ رہی ہے۔

یہ رائے بھی موجود ہے کہ جب ایک دفعہ فل کورٹ بن جائے گا، پھر وہ کیا دیکھتا ہے؟ کیا سماعت کرتا ہے؟ اس کو روکنا عملی طو رپر نا ممکن ہوگا۔ فل کورٹ اکثریت کی بنیاد پر کوئی بھی فیصلہ کر سکتا ہے۔ وہ 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف بھی سماعت شروع کر سکتا ہے۔ اس لیے فل کورٹ بنوانے کی شروع سے کوشش کی جا رہی ہے۔ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد بھی فل کورٹ بنوانے کی کوشش کی گئی تھی۔ فل کورٹ بنوانے کے احکامات بھی دیے گئے تھے لیکن فل کورٹ نہیں بن سکا تھا۔ اس لیے فل کورٹ کی خواہش کوئی نئی نہیں ہے۔

جب سے 26ویں آئینی ترمیم پاس ہوئی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ فل کورٹ بنوانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تا ہم اب انھوں نے اس ضمن میں ایک جیوڈیشل آرڈر کر دیا ہے۔ویسے تو سماعت کے دوران ریمارکس میں واضح کیا تھا کہ وہ اس کیس کو ججز کمیٹی کے اختیار تک ہی محدود رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن ایک رائے یہی ہے کہ جب فل کورٹ بن جائے گا تو پھر بات وہاں رکے گی نہیں۔ 26ویں ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران بھی فل کورٹ بنانے کا مطالبہ سامنے آیا لیکن آئینی بنچ نے یہ مطالبہ مسترد کر دیا اور واضح کیا کہ اب آئین میں فل کورٹ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اب آئینی بنچ ہی آئینی مقدمات سن سکتا ہے۔ آپ آئینی بنچ کو ہی فل کورٹ سمجھیں۔ اب یہ ایک اہم بات ہے۔

اگر 26ویں آئینی ترمیم کے بعد فل کورٹ کا تصور ہی ختم ہو گیاہے، اب ایک آئینی بنچ ہے۔ اور ایک عام مقدمات کے لیے سپریم کورٹ ہے۔ ایسے میں دونوں کو ملا کر فل کورٹ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ اگر آئین وقانون کی تشریح کا معاملہ ہے تو اسے آئینی بنچ سنے گا۔ اگر عام سماعت ہے تو عام بنچ بنے گا۔

اب دونوں کو ملا کر فل کورٹ کیسے بنایا جائے گا۔ کیا ایک جیوڈیشل آرڈر فل کورٹ کے لیے راہ ہموار کر سکتا ہے۔ کیا جو چیز آئینی طو رپر ممکن نہیں۔ اسے ایک جیوڈیشل آردڑ کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ دلیل موجود ہے کہ آئین میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا ہوا کہ فل کورٹ نہیں بن سکتا۔ بنچز کو تقسیم کیا گیا ہے۔ لیکن فل کورٹ نہ بنانے کا نہیں کہا گیا۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ محترم جسٹس منصور علی شاہ کے بنچ نے فل کورٹ بنانے کا کہا ہی کیوں ہے؟ ان کے بنچ سے مقدمہ لیا گیا تو اس کیس کا فیصلہ خودکرنا چاہیے تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ ججز کمیٹی کے ممبر ججز ذمے دار ہیں تو فیصلہ صادر کردیتے۔ یہ معاملہ فل کورٹ کو کیوں بھجوایا گیا۔ کچھ دوستوں کی رائے کہ ان کے بینچ کا فیصلہ لارجر بنچ سے ختم ہو سکتا ہے۔ جیسے ایڈیشنل رجسٹرار کے توہین عدالت کے شو کاز پر ایک لارجر بنچ بن گیا تھا لیکن فل کورٹ سے کارروائی ختم نہیں ہوسکتی ۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ اب بھی ایک لارجر بنچ فل کورٹ بنانے کا حکم بھی ختم کر سکتا ہے۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر ایک عدالت کے پاس کسی درخواست کا دائرہ سماعت نہ ہو۔ آئین وقانون اسے اس درخواست کی سماعت کی اجازت نہ دیتا ہو۔ اسے قانونی زبان میں void jurisdictionکہتے ہیں تو کیا کیا جائے؟ اگر کسی عدالت کو غلطی سے ایسی درخواست سماعت کے لیے مقرر ہو جائے جو اس کے دائرہ اختیار میں نہ ہو تو کیا کیا جائے؟ میں سمجھتا ہوں قانون بہت واضح ہے کہ void jurisdictionکی عدالت کا فیصلہ بھی void ہی ہے۔

یعنی غیر قانونی ہی ہے۔ اس لیے جب ججزکمیٹی نے یہ محسوس کیا کہ یہ کیس جسٹس منصور علی شاہ کے بنچ کے سماعت کے دائرہ کار میں نہیں آتاتو انھوں نے تبدیل کر دیا۔ اس میں اتنے طوفان والی کیا بات ہے۔ کیا ایک جج کو کسی خاص کیس کو اپنی بنچ میں رکھنے کی ضد کرنی چاہیے۔ ہم ماتحت عدلیہ میں روز دیکھتے ہیں ،کیس ایک عدالت سے دوسری عدالت میں ٹرانسفر کیے جاتے ہیں۔

وہاں تو عدلیہ کی آزادی پر کوئی قد غن نہیں آتی۔ یہ کیسی منطق ہے کہ ماتحت عدلیہ ہائی کورٹس میں اگر کیس ایک عدالت سے دوسری عدالت یا ایک بنچ سے دوسرے بنچ میں منتقل کیا جائے تو کوئی بات نہیں۔ لیکن اگر سپریم کورٹ میں ایسا کیا جائے تو معاملہ الٹ جاتا ہے۔ ایک نظام عدل میں دو قانون کیسے چل سکتے ہیں۔ ماتحت عدلیہ کے لیے اور قانون اور سپریم کورٹ کے لیے الگ قانون۔ بہر حال ججز کے باہمی اختلافات ان کے فیصلوں میں نظر آنا کوئی اچھی بات نہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جسٹس منصور علی شاہ 26ویں ا ئینی ترمیم فل کورٹ بنوانے فل کورٹ بنانے ججز کمیٹی کے توہین عدالت سپریم کورٹ فل کورٹ کی کر سکتا ہے فل کورٹ بن لارجر بنچ ہے کہ اگر کیا جائے بنایا جا بنانے کا سماعت کے ترمیم کے چیف جسٹس جائے گا کے خلاف نہیں ہے ہے کہ ا کیا جا کے بنچ تو کیا

پڑھیں:

ایئرمارشل جواد سعید کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور بغاوت کے مقدمات میں سزا سنائی گئی ہے.نمائندہ پاک فضائیہ

اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )پاکستان ایئرفورس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ سابق ایئر مارشل جواد سعید کا آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے علاوہ بغاوت کے ایک مقدمے میں بھی ٹرائل ہوا ہے اور ان دونوں مقدمات میں سابق افسر کو سزا سنائی گئی ہے. قبل ازیں 28 مارچ 2025 کو کیس کی سماعت کے دوران پاکستان ایئرفورس نے اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کیا تھا کہ سابق ایئرمارشل جواد سعید کا حساس دستاویزات شیئر کرنے پر کورٹ مارشل کیا گیا ہے اور انہیں 14 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے پاک فضائیہ کی جانب سے عدالت میں یہ بیان سابق ایئرمارشل کی اہلیہ کی جانب سے اپنے شوہر کو حبس بےجا میں رکھنے سے متعلق درخواست پر سماعت کے دوران آیا تھا.

(جاری ہے)

ایئرفورس کے نمائندے کی جانب سے جب یہ بتایا گیا کہ ریٹائرڈ افسر کا کورٹ مارشل کیا جا چکا ہے تو عدالت نے اہلیہ کی درخواست خارج کر دی تھی جس کے خلاف انہوں نے اسی عدالت میں نظرثانی کی اپیل دائر کر دی تھی پیر کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس خادم حسین سومرو نے اہلیہ کی نظرثانی کی اپیل پر سماعت کی جس کے دوران پاکستان فضائیہ کے نمائندے نے عدالت میں کوئی تحریری دستاویزات پیش نہیں کیں اس اپیل کی سماعت کے دوران ایئرفورس حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ ایئر مارشل ریٹائرڈ جواد سعید کا کورٹ مارشل کرنے کے بعد انہیں ایک سب جیل میں رکھا گیا ہے عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس ضمن میں ایک فوجی میس کو ہی سب جیل قرار دیا گیا ہے.

جواد سعید کی اہلیہ کے وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فضائیہ کے سربراہ کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے کہ جس کی بنیاد پر وہ کسی بھی عمارت کو سب جیل قرار دے کر کسی ملزم یا مجرم کو وہاں قید کر سکیں انہوں نے کہا کہ دراضل یہ اختیار وفاقی حکومت کو حاصل ہے کہ وہ کسی بھی عمارت کو سب جیل قرار دے.

کرنل انعام نے دلائل میں کہا کہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ ایف بی علی سے لے کر آج تک جتنے بھی فوجی اہلکاروں کا کورٹ مارشل ہوا ہے انہیں سزا دینے کے بعد سویلین اتھارٹی کی تحویل میں دے دیا جاتا ہے اور ایسے مجرمان کو عام جیلوں میں رکھا جاتا ہے جہاں ان کے وہی حقوق ہوتے ہیں جو دیگر عام پاکستانی قیدیوں کے ہوتے ہیں یعنی انہیں جیل مینوئل کے مطابق اپنے اہلخانہ اور وکلا سے ملاقات کی اجازت ہوتی ہے.

اس موقع پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی کو اڈیالہ جیل سے بنی گالہ منتقل کرنے سے متعلق عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے محض اس بنیاد پر بشری بی بی کو واپس اڈیالہ جیل بھیج دیا تھا چونکہ انہیں بنی گالہ منتقل کرنے سے پہلے ان کی رضامندی نہیں لی گئی تھی. انہوں نے عدالت سے درخواست کی کہ وہ ایئرفورس کے نمائندے کو حکم دیں کہ وہ اس نوٹیفیکیشن کو عدالت میں پیش کریں جس میں فوجی میس کو سب جیل قرار دینے کا کہا گیا ہے انہوں نے یہ بھی استدعا کی کہ اس کے ساتھ ساتھ جواد سعید کے خلاف چارج شیٹ اور ان کے حوالے سے دیے گئے فیصلے کی کاپی بھی فراہم کی جائے.

جواد سعید کی اہلیہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ جب کسی ملزم کو سزا سنا کر مجرم قرار دے دیا جاتا ہے تو پھر اس فیصلے کی کاپی عدالت میں اور متاثرہ فریق کو دینا قانونی طور پر ضروری ہے انہوں نے کہا کہ سیکرٹ ایکٹ کا قانون تبدیل ہو گیا ہے اور اب وفاقی حکومت ایسے معاملات کی سماعت کے لیے ایک جج مقرر کرتی ہے جو کہ ایسے مقدمات کی سماعت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف درج سائفر مقدمے کی سماعت بھی سول عدالت میں ہوئی تھی جبکہ فی الوقت ایک ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل کا ٹرائل بھی سول کورٹ میں ہو رہا ہے.

کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم نے اپنی اپیل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملٹری ایکٹ میں ہے کہ جس کسی کا ٹرائل ہو گا تو اس کی فیملی کو اس بارے میں آگاہ کیا جائے گا لیکن ان کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا انہوں نے کہا کہ جب ایئرفورس کے حکام یہ مان چکے ہیں کہ ایئر مارشل ریٹائرڈ جواد سعید سزا یافتہ ہیں تو پھر وہ انہیں کیسے اپنی تحویل میں رکھ سکتے ہیں انہوں نے کہا کہ ان کے موکل گذشتہ ایک سال سے غیر قانونی تحویل میں ہیں درخواست گزار کے وکیل نے عدالت یہ بھی استدعا کی وہ اس اپیل میں بنائے گئے فریقین بشمول پاکستان ایئرفورس کو حکم دیں کہ وہ ایئر مارشل ریٹائرڈ جواد سعید کے مقدمے کا تمام ریکارڈ عدالت میں پیش کرے.

عدالت نے اپیل کندہ کی اس استدعا کو منظور کرتے ہوئے ضروری دستاویزات آئندہ سماعت پر عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا واضح رہے کہ کیس کی گذشتہ سماعت کے دوران اسسٹنٹ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا تھا کہ 27 جنوری 2024 کو جواد سعید کا کورٹ مارشل ہواجس کے خلاف دائر اپیل پر فیصلہ بھی 11 مارچ 2024 کو ہو چکا ہے اور فی الحال جواد سعید کی سزا کے خلاف رحم کی اپیل ایئر چیف مارشل کے پاس زیر التوا ہے.

متعلقہ مضامین

  • ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ
  • ایئرمارشل جواد سعید کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور بغاوت کے مقدمات میں سزا سنائی گئی ہے.نمائندہ پاک فضائیہ
  • شیخ رشید بزرگ آدمی ہیں، کہاں بھاگ کر جائیں گے: سپریم کورٹ
  • جی ایچ کیو حملہ کیس میں شیخ رشید کی بریت اپیل؛ مہلت مانگنے پر سپریم کورٹ پراسیکیوٹر پر برہم
  • سپریم کورٹ: 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید اور شیخ رشید کی بریت پر حکومت کو عدالت کا دو ٹوک پیغام
  • شادی کے بغیر پیدا بچے کا کیس، فیملی کورٹ کا باپ کو کفالت کا حکم
  • ججز ٹرانسفر، سنیارٹی کیس، اسلام آباد ہائیکورٹ کا جواب جمع
  • 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد مزید کسی ترمیم کی ضرورت نہیں: اعظم نذیر تارڑ
  • سندھ: سول ججز اور جوڈیشل مجسٹریٹس کی بھرتیوں کا کیس، فیصلہ محفوظ
  • سپریم کورٹ پر حملے بی جے پی کی سوچی سمجھی سازش ہے، کانگریس