نقطہ نظر کی تبدیلی زندگی تبدیل کر دیتی ہے
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 28 جنوری 2025ء) نیورو سائنس کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ہمارا دماغ ملنے والی حسی معلومات اور ہمارے موجودہ علم کی بنیاد پر مسلسل دنیا کے ماڈل بنا رہا ہے۔ نقطہ نظر کی تبدیلی میں مشغول ہو کر ہم ان ذہنی ماڈلز کو نئی شکل دے سکتے ہیں یعنی ہم اپنے دماغ کو مسلسل کون سی معلومات فراہم کر رہے ہیں اس کا ہماری زندگی پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔
ہم اپنا فارغ وقت کن سرگرمیوں میں گزارتے ہیں ہمارے نقطہ نظر کی سمت متعین کرتا ہے۔ ایک بڑھتا ہوا رجحان زیادہ تر وقت انٹرنیٹ پر غیر حاضر دماغی سے سکرولنگ کرنا ہے جو کہ ذہنی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔سوشل میڈیا انفلوئنسز کی نظر آنے والی ظاہری چمک دمک والی زندگی بہت سے لوگوں میں مسلسل اپنی زندگی کا موازنہ کرنا اور احساس کمتری کا شکار ہونے کو فروغ دیتی ہے۔
(جاری ہے)
اس کے برعکس اگر ہم اپنا وقت مثبت سرگرمیوں میں گزاریں تو سوچ کا زاویہ بدل سکتا ہے اور اس طرحح ہمارے خوشی، غمی، آسودگی کے معیار سطحی نہیں رہتے۔جیسے کہ ورزش کرنا، جم جانا، تازہ ہوا میں چہل قدمی کرنا مزاج اور ذہن دونوں پر مثبت اثر ڈالتا ہے۔ یوں ذہنی کشمش اور پریشانیاں کم ہوتی ہیں اور جسمانی صحت بھی بہتر رہتی ہے۔
اسی طرح مطالعہ کی عادت انسان کی سوچ کے دائرے کو وسیع کرنے میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے۔
مختلف مصنفین کی تحریریں مختلف نقطہ نظر سامنے لاتی ہیں اور کھلی ذہنیت کو بڑھاوا دیتی ہیں۔ مختلف تاریخ، ثقافت، مذاہب وغیرہ کے بارے میں جاننا نا صرف دلچسپ تفریح ہے بلکہ انسان میں عاجزی بھی پیدا کرتی ہے جو کہ نسل پرستی اور نفرت کے خلاف بہت کارآمد ہتھیار ہے۔فلاحی کاموں میں فعال کردار وقت کا ایک اور بہترین مصرف ہو سکتا ہے جو کہ اجتماعی فوائد کا حامل ہے۔
فلاحی کام عام طور پر ذہنی سکون اور مکمل احساس فراہم کرتا ہے جو کسی کی مدد کر کے انسان پر گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ انسانی خدمات ایک مثبت سوچ اور شکر گزاری کو ممکن بناتی ہیں۔ ان خدمات کا صرف مالی ہونا ضروری نہیں۔ اپنا وقت اور کوشش بھی کسی ایسے بامقصد منصوبے میں شامل کرنا جس سے ضرورت مندوں کی مدد ہو سکے کسی بھی سطحی اور عارضی خوشی سے بڑھ کر ہے۔اسی طرح لوگوں سے ملنا جلنا بہت سے ذاتی تجربات سامنے لاتا ہے جن سے ہم سب بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ مثلا ایک صاحب نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا کہ وہ کیسے بہت پریشان تھے کیونکہ انہوں نے اپنی تمام تر جمع پونجی ایک پلاٹ خریدنے میں اس امید پر لگا دی تھی کہ انہیں جند برس میں دگنا تگنا منافع ہو گا مگر بد قسمتی سے اس زمین کی قیمت اتنی گری که انہیں آدمی قیمت بھی واپس نہ مل سکی۔
وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے کہ ان کی ملاقات بچپن کے ایک دوست سے ہو گئی جس نے بتایا کہ اس نے اپنی تمام جمع پونجی اپنے بیمار اکلوتے بیٹے کے علاج پر خرچ کر دی مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔دوست کی یہ کہانی سن کر ان صاحب کو شدت سے احساس ہوا کہ جس مالی نقصان کی وجہ سے وہ کب سے دل چھوڑے بیٹھے ہیں اس کی تو زندگی، صحت، خاندان، گھرانے کے سامنے شاید کوئی وقعت ہی نہیں۔
اگر وہ اس دوست سے نہ ملتے تو شاید ساری زندگی خود سے مالدار عزیز و اقارب کو دیکھ کر اس نقصان کا ملال کرتے رہتے اور اصل دولت کو پہچان ہی نہ پاتے۔سوشل میڈیا پر خریداری، تقاریب، بیرون ملک سیر و تفریح وغیرہ کی تشہیر مرد اور خواتین دونوں میں ذہنی دباؤ، پریشانی اور احساس کمتری پیدا کر رہا ہے۔ امیر و غریب طبقات میں خلیج تو ہمیشہ سے ہر جگہ موجود ہی تھی مگر مسلسل دوسروں کی زندگی پر نظر رکھنا ہماری ترجیح نہیں تھی اور نہ ہی گھنٹوں گھنٹوں انہی معلومات کو حاصل کرنے میں صرف کیے جاتے تھے جو کہ اب ہم اپنے سمارٹ فون پر با آسانی اور غیر حاضر دماغی سے کرتے چلے جاتے ہیں۔
ایک تحقیق نے بھی اس بات کی نشاندہی کی ہے مادی اثاثوں کو جمع کرنا زندگی کو پرسکون اور مطمئن نہیں کرتا بلکہ درحقیقت اضطراب عدم تحفظ اور خالی پن کے گہرے احساسات کا باعث بن سکتا ہے۔ حقیقی زندگی میں اس سے خاص فرق نہیں پڑتا کہ کس کے پاس کتنا پیسہ ہے کیونکہ کسی نہ کسی کے پاس ہم سے زیادہ ہی ہوگا۔ برتر حیثیت حاصل کرنے کا سفر ہمیں ترقی کی بجائے اضطراب کا شکار بنا دیتا ہے۔
کسی بھی چیز کا نیا پن جیسے برانڈڈ لائف سٹائل کے لیے مہنگے بیگ، زیورات، بڑا گھر، بڑی گاڑی وغیرہ آخر کار ختم ہو جاتا ہے اور اسے تبدیل کرنے کی خواہش مزید بڑھ جاتی ہے۔ہم اپنے دماغ کو جس طرف چاہیں راغب کر سکتے ہیں۔ جیسے کہ صرف امیر سے امیر ہونے کا شوق ہی نہیں بلکہ ہم کن موضوعات پر سوشل میڈیا کی پوسٹ یا ٹی وی ڈرامے دیکھ رہے ہیں اور کسی صحبت میں وقت گزار رہے ہیں کا ہمارے نقطہ نظر سے براہ راست تعلق ہوتا ہے۔
اگر ہم مسلسل خاندانی سیاست، ساس بہو کے جھگڑے، دیورانی جیٹھانی کی جلن ہی دیکھتے اور اس بر بات کرتے رہیں گے تو ہمارا ذہن بھی اپنی سوچ کا زاویہ یہیں تک محدود کرلے گا۔ اس کے برعکس اگر ہم کتب، حالات حاضرہ، زندگی کے اصل معنی، صحت، اولاد، تعلیم و تربیت اور فلاحی خدمات پر تو مرکوز کرکے اپنا وقت گزاریں گے تو ہمارا ذہن بھی مثبت راہ پر چلے گا۔زندگی کی ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم اکثر ایسی چیزوں کا پیچھا کرتے ہیں جن کے بارے میں ہم یہ گمان رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں مطمئن اور مکمل ہونے کا احساس فراہم کریں گے مگر اکثر ان چیزوں کو حاصل کرنے کے بعد بہت عارضی خوشی نصیب ہوتی ہے اور جلد خالی پن پہلے سے زیادہ بے چین کر دیتا ہے۔
اپنی ترجیحات درست رکھنا اپنی اور اپنے پیاروں کی صحت، زندگی، اپنا گھر، رشتے، خاندان، دوست احباب، اپنوں کا وقت، پیار اور ان کا ساتھ اس خالی پن کو دور کر سکتا ہے۔
نقطہ نظر کا قبلہ سیدھا رکھنا انفرادی طور پر انسان کو خود اور اجتماعی طور پر اس کے ارد گرد والوں کو پرسکون، مطمئن اور خوش کر سکتا ہے۔ یہ وہ ذہنی ترقی ہے جس سے ہم اپنی نئی نسل کا بھلا کر سکتے ہیں۔ اگر ہم 40 اور 50 سال کی عمر میں بھی زندگی اور دنیا کو اسی نظر سے دیکھیں جیسے ہم انیس بیس سال کی کچی عمر میں دیکھتے تھے تو شاید ہم نے اس بیچ کے تمام برس ضائع کر دیے ہیں یعنی وقت کے ساتھ علم و دانش سے ذہن سازی اور بہتر سوچ ہی مستقبل کی راہ ہے۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سکتے ہیں سکتا ہے اگر ہم
پڑھیں:
ڈیتھ بیڈ
ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اﷲ تعالیٰ نے اس کی زبان میں تاثیر رکھی تھی‘ وہ جس سے بات کرتا تھا‘ وہ اپنااکاؤنٹ اس کی کمپنی کے حوالے کر دیتا تھا‘ ٹام روز کمپنی کے سرمائے میں ایک دو ملین ڈالر کا اضافہ کر تا تھا‘ کمپنی اس سے خوش تھی اور وہ کمپنی سے بہت خوش تھا۔
ٹام کا لنچ فائیو اسٹار فرنچ‘ اٹالین اور مراکو ریستورانوں میں ہوتا تھا‘ لنچ کا بل کمپنی ادا کرتی تھی‘ کمپنی نے اس کے دوسرے اخراجات بھی اٹھا رکھے تھے‘ گاڑی کمپنی نے دی‘ مین ہیٹن میں تین بیڈ روم کا فلیٹ بھی کمپنی نے دیا تھا‘ وہ کمپنی کا جیٹ اور ہیلی کاپٹر بھی استعمال کرتا تھا‘ کمپنی فرسٹ کلاس فضائی ٹکٹ بھی دیتی تھی‘ تنخواہ بھی چھ ہندسوں میں تھی اور ٹام کے پورے خاندان کی میڈیکل انشورنس بھی کمپنی کے ذمے تھی۔
شام چھ بجے اس کی ذاتی مصروفیات شروع ہو جاتی تھیں‘ وہ کلب جاتا تھا‘ وہاں نئے دوست بناتا تھا‘ یہ نئے دوست آنے والے دنوں میں اس کے کلائنٹ بنتے تھے‘ وہ ڈنر بھی فائیو اسٹار ہوٹل میں کسی فائیو اسٹار بزنس مین کے ساتھ کرتا تھا‘ دس بجے کے بعد وہ کسی اعلیٰ درجے کے پب یا رقص گاہ میں چلا جاتا تھا‘ وہ دو گھنٹے وہاں رہتا تھا‘ بارہ بجے واپس آتا تھا تو اس کی بیگم اور تینوں بچے سو چکے ہوتے تھے‘ وہ بھی آڑھا ترچھا ہو کر لیٹ جاتا تھا‘ اگلی صبح آٹھ بجے پھر کام شروع ہو جاتا تھا۔
یہ سلسلہ جمعہ تک چلتا تھا‘ وہ جمعہ کی شام کمپنی کا جیٹ جہاز لے کر نیویارک سے باہر چلا جاتا تھا‘ کبھی شکاگو‘ کبھی آرلینڈو‘ کبھی میامی‘ کبھی سان فرانسسکو اور کبھی ہونولولو۔ وہ مہینے میں ایک بار یورپ‘ مڈل ایسٹ یا مشرق بعید کا چکر بھی لگا تا تھا‘ مارتھا اس کی بیوی یورپ اور فارایسٹ کی وزٹس میں اس کے ساتھ ہوتی تھی‘ یہ اس کے معمولات تھے‘ اﷲ نے جوانی ہی میں اسے نعمتوں سے نواز دیا تھا‘ پیسہ تھا‘ دوست تھے‘ توانائی تھی‘ فیملی تھی اور نصف درجن کریڈٹ کارڈ ۔ ٹام کی زندگی شاندار تھی لیکن پھر اسکو نظر لگ گئی۔
ٹام ایک صبح اٹھا تو اس کا سر بھاری تھا‘ اس نے اس بھاری پن کو رات کی شراب نوشی کے کھاتے میں ڈال دیا‘ اس نے ’’ہینگ اوور‘‘ سمجھ کر اپنا سر جھٹک دیا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھاری پن درد بن گیا‘ وہ ڈاکٹر کے پاس گیا‘ ڈاکٹر نے اسے درد کش گولیاں دیں اور گھر بھجوا دیا لیکن درد میں افاقہ نہ ہوا‘ وہ رات بے چینی اور بے آرامی میں گزری‘ وہ اگلی صبح دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گیا۔
ڈاکٹر نے خون چیک کرانے کا مشورہ دیا‘ وہ لیبارٹری چلا گیا‘ بلڈ رپورٹس آئیں توڈاکٹر نے خون کے مزید دو نمونے لیے اور یہ دو مختلف لیبارٹریوں میں بھجوا دیے‘ ہفتے بعد رپورٹس آ گئیں‘ تینوں لیبارٹریوں کی رپورٹ ایک جیسی تھیں‘ ڈاکٹر نے اس سے مزید دو دن مانگے اور اسکی رپورٹس ملک کے تین بڑے اسپیشلسٹس کو بھجوادیں‘ تینوں کا ایک ہی جواب تھا‘ معجزے کے علاوہ مریض کا کوئی علاج نہیں‘پھر ڈاکٹر نے اسے بلایا‘ کرسی پر بٹھایا‘ پانی کا گلاس اسکے ہاتھ میں دیا اور سرجھکا کر بولا ’’ٹام تمہارے پاس صرف تین ماہ ہیں‘‘۔
ٹام کے طوطے اڑ گئے‘ اس نے گھبرا کر پوچھا ’’کیا مطلب؟‘‘ ڈاکٹر نے بتایا ’’تم بلڈ کینسر کی آخری اسٹیج پر ہو‘ اس اسٹیج کا معجزے کے سوا کوئی علاج نہیں ہوتا‘ تمہارے پاس اب دو آپشن ہیں‘ تم یہ تین مہینے مختلف ڈاکٹروں اور مختلف اسپتالوں کا چکر لگا کر گزار دو یا پھر ان تین ماہ کو اپنی زندگی کے بہترین دن رات بنا لو‘ چوائس از یورز‘‘۔
یہ لفظ بم تھے اور ان بموں نے ٹام کی بنیادیں ہلا دیں‘ وہ اٹھا اور چپ چاپ باہر نکل گیا‘ وہ دماغی طور پر غائب ہو چکا تھا‘ وہ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا لیکن اسے نظر کچھ نہیں آ رہا تھا‘ وہ کانوں سے سن رہا تھا لیکن اسے سنائی کچھ نہیں دے رہا تھا اور وہ چل رہا تھا لیکن اس کے قدم نہیں اٹھ رہے تھے‘ وہ دس منٹ میں کامیاب لوگوں کی فہرست سے ناکام ترین لوگوں میں شامل ہو چکا تھا‘ وہ چلتا رہا‘ صبح تک پیدل چلتا رہا‘ اگلے دن کے سورج نے آنکھ کھولی تو ٹام کی آنکھ بھی کھل گئی۔
وہ بیخودی میں چلتے چلتے نیویارک سے باہر آ گیا‘ وہ نیویارک کے مضافات کا چھوٹا سا گاؤں تھا اور وہ گاؤں کی مصنوعی جھیل کے کنارے کھڑا تھا‘ اس نے جھرجھری لی‘ ایک لمبا سانس لیا‘ اپنی ٹائی کھولی‘ اوورکوٹ کی جیب سے میڈیکل رپورٹس نکالیں‘ پھاڑیں‘ ڈسٹ بین میں پھینکیں اور ڈیتھ بیڈ کے تین ماہ کو آئیڈیل بنانے کا فیصلہ کر لیا‘ فیصلے کے اس لمحے نے ٹام کی زندگی بدل دی۔
ٹام روز آسمان دیکھتا تھا‘ وہ زندگی میں سیکڑوں جھیلوں کے کناروں پر گیا‘ اس نے زندگی میں ہزاروں پھول بھی دیکھے اور اس نے کم وبیش اتنے ہی پرندوں کی آوازیں بھی سنی تھیں لیکن فیصلے کے اس ایک لمحے نے ان تمام آوازوں‘ پھولوں‘ جھیلوں اور آسمانوں کا رنگ بدل دیا‘ آسمان‘ جھیل‘ پھول اور آوازیں‘ کائنات کی ہر چیز خاص ہو گئی۔
اس کے حلق میں چالیس برس سے درج ذائقے زندہ ہو گئے‘ وہ ماں کے دودھ سے پچھلی رات کی شراب تک ہر نگلی چکھی چیز کا ذائقہ محسوس کرنے لگا‘ وہ چالیس برس سے گھروں کی چمنیاں اور ان چمنیوں سے ابلتا دھواں دیکھ رہا تھا لیکن دھوئیں میں تین رنگ ہوتے ہیں‘ یہ اسے زندگی میں پہلی بار معلوم ہوا‘ وہ روز سانس لیتا آیا تھا‘ اس کے پھیپھڑے روزانہ سکڑتے اور پھیلتے تھے لیکن اس نے ہوا کے ذائقے‘ ہوا کی خوشبو کو پہلی بار محسوس کیا تھا۔
شبنم جب پاؤں کے نیچے کچلی جاتی ہے تو وہ ایک خاص آواز میں احتجاج کرتی ہے‘ شبنم کا وہ احتجاج بھی اس نے زندگی میں پہلی بار محسوس کیا‘ آبی پرندے جب جھیل سے جدا ہوتے ہیں تو یہ جھیل کو بوندوں کی سلامی پیش کرتے ہیں‘ جدائی کی یہ سلامی بھی اس نے پہلی بار محسوس کی‘ وہ ہمیشہ فراری اور لیموزین میں سفر کرتا تھا۔
وہ طویل عرصے بعد بس اور ٹرین میں سوار ہوا‘اس نے پہلی بار ٹرین کی ٹک ٹک ٹھک ٹھک محسوس کی‘ وہ بچپن سے کافی پی رہا تھا لیکن کافی کا ذائقہ اسے پہلی بار محسوس ہوا‘ ہوا میں نمی بھی ہوتی ہے‘ اس کا احساس اسے پہلی بار ہوا‘ چلتے ہوئے قدموں کی آواز میں ایک ردھم‘ ایک موسیقی ہوتی ہے‘ یہ بھی اسے پہلی بار محسوس ہوا اور موبائل فون‘ نیوز چینلز‘ مہنگی گاڑیاں اورتعلقات یہ دنیا کی واہیات ترین چیزیں ہیں۔
یہ بھی اسے پہلی بار پتا چلا‘ وہ گھر پہنچا‘ اس نے بچوں کے چہرے دیکھے‘ اپنے کتے جیری کو غور سے دیکھااور بیوی کو نظر بھر کر دیکھا تو معلوم ہوا اصل خوشی تو یہ ہیں‘ اس نے اپنے بینک اکاؤنٹس دیکھے‘ کریڈٹ کارڈ کے بل پڑھے اور قسطوں پر خریدی چیزوں کا ڈیٹا دیکھا تو پتا چلا وہ آج تک بینکوں‘ پراپرٹی ڈیلروں اور الیکٹرانکس بنانے والی کمپنیوں کے لیے پیسہ کماتا رہا تھا‘ اسے زندگی میں پہلی بار اپنے لان میں کھلے پھول اور میز پر پڑے سنگترے کی خوشبو محسوس ہوئی‘ اسے پہلی بار اپنی وارڈروب کے کپڑے اور جوتے اضافی لگے اور اسے گھر کی گراسری فضول خرچی محسوس ہوئی ۔
ٹام کی زندگی کا اگلادن بظاہر موت کی طرف ایک اور قدم تھا لیکن عملاً وہ اس کی زندگی کا پہلا دن تھا‘ اس نے زندگی کے اس پہلے دن جاب سے استعفیٰ دے دیا‘ کریڈٹ کارڈ توڑ کر ٹوکری میں پھینک دیے‘ بینک میں پڑی ساری دولت نکال لی‘ آدھی پر اپرٹی بیچ کر آدھی کی قسطیں ادا کر دیں‘پراپرٹی کو کرائے پر چڑھا دیا‘ بچوں کو اسکول سے چھٹی کرائی اور فیملی کو ساتھ لے کر لانگ ہالیڈیز پر نکل گیا۔
اس نے اپنے تمام مخالفوں‘ تمام دشمنوں سے اپنے رویے کی معافی مانگ لی اور وہ لوگ جنھوں نے اس کا دل دکھایا تھا‘ ان سب کو صدق دل سے معاف کر دیا‘ اس نے وہ سو کتابیں بھی خرید لیں جنھیں وہ زندگی میں پڑھنا چاہتا تھا‘ ٹام نے اس دن ہر ملنے والے کو مسکرا کر ملنا شروع کر دیا‘ سوری اور تھینک یو اس کا تکیہ کلام بن گیا تھا۔
وہ لوگوں کو کم اور فیملی اور دوستوں کو زیادہ وقت دینے لگا‘ وہ شام ساڑھے سات بجے ڈنر کرنے لگا‘ وہ نو بجے سو جاتا تھا‘ ساڑھے چار بجے اٹھ جاتا تھا اور صبح تین گھنٹے جنگلوں‘ جھیلوں اور پارکوں میں گھومتا تھا‘ موبائل اس نے بند کر دیا‘ فلمیں وہ دیکھنے اور میوزک سننے لگا‘ ٹام کی اس نئی زندگی نے ٹام کو بتایا‘ اصل زندگی تو ڈیتھ بیڈ کی زندگی ہے‘ہم انسان تو اس وقت جینا شروع کرتے ہیں جب ہم اپنی موت کا دن معلوم کر لیتے ہیں‘ ہمیں اس وقت معلوم ہوتا ہے‘ ہم انسان جسے زندگی سمجھتے ہیں‘ وہ دراصل مرے ہوئے بے جان دن ہوتے ہیں اور جسے ہم موت سمجھتے ہیں وہ اصل زندگی کا آغاز ہوتا ہے۔
ٹام نے اپنی زندگی کے شاندار دن ڈیتھ بیڈ پر گزارے‘ اصل زندگی کے اصل دن لیکن ہم یہ اصل زندگی کب شروع کرینگے؟ اس دن جب ہمیں بھی ڈاکٹر یہ بتائے گا ’’آپ کے پاس صرف ایک مہینہ بچا ہے‘‘۔