ایف بی آر کو 440 ارب روپے ٹیکس شارٹ فال کا سامنا
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
اسلام آباد: ایف بی آر نے رواں مالی سال 2024-25 کے ابتدائی 7 ماہ (جولائی تا جنوری) میں 440 ارب روپے کے ٹیکس شارٹ فال کا خدشہ ظاہر کیا ہے، جب کہ ایف بی آر کو جنوری میں بھی 50 ارب روپے سے زائد کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ میں ایف بی آر ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جنوری 2025 کے لیے ٹیکس وصولی کا ہدف 956 ارب روپے مقرر کیا گیا تھا، تاہم اس کے مقابلے میں صرف 900 ارب روپے تک وصولی متوقع ہے۔ اسی طرح، ایف بی آر نے جنوری سے مارچ 2025 تک کی سہ ماہی کے لیے 3100 ارب روپے کی ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر کیا ہے۔
ذرائع کے مطابق مالی سال کے ابتدائی 6ماہ میں ایف بی آر کو 386 ارب روپے کا شارٹ فال ہوا، مگر فروری اور مارچ میں ٹیکس وصولی میں اضافہ متوقع ہے۔ پراپرٹی ٹرانزیکشنز پر ٹیکس ریٹ میں کمی اور قابلِ ٹیکس درآمدات میں اضافے کی وجہ سے ریونیو میں بہتری آنے کی امید ہے۔ایف بی آر کی توقع ہے کہ مالی سال کی آخری سہ ماہی میں ٹیکس وصولی میں مزید تیزی آئے گی اور ایف بی آر کا مجموعی ٹیکس وصولی کا ہدف 12,970 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ٹیکس وصولی ایف بی ا ر ارب روپے
پڑھیں:
ٹیکس چوری میں ملوث ڈاکٹرز‘ کلینکس اور اسپتالوں کیخلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251214-08-24
اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) ایف بی آر نے کروڑوں روپے کی مبینہ ٹیکس چوری میں ملوث نجی پریکٹس کرنے والے ڈاکٹرز و میڈیکل کلینکس و نجی اسپتالوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔یہ فیصلہ ایف بی آر کو ڈیٹا اینالسز کے دوران موصول ہونیوالے تازہ ترین اعداد و شمار کی بنیاد پر کیا گیا ہے ملک میں ڈاکٹروں کا بڑے پیمانے پر مبینہ طور پر ٹیکس چوری میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔قابل ٹیکس آمدنی رکھنے کے باوجود 73 ہزار سے زائد رجسٹرڈ ڈاکٹرز کا انکم ٹیکس گوشوارے جمع نہ کرانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ایف بی آرحکام کے مطابق تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق ملک بھر میں ایک لاکھ30 ہزار 243 ڈاکٹرز رجسٹرڈ ہیں لیکن رواں سال میں صرف 56ہزار287 رجسٹرڈ ڈاکٹروں نے انکم ٹیکس ریٹرن جمع کرائے ہیں جبکہ 73 ہزار سے زائد رجسٹرڈ طبّی ماہرین نے کوئی انکم ٹیکس ریٹرن جمع ہی نہیں کرائے۔یہ ڈاکٹرزملک کے سب سے زیادہ آمدنی والے شعبوں میں مصروف کار ہیں یہ انکشافات نجی میڈیکل پریکٹسز کی واضح مصروفیات اور فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے سامنے ظاہر کی گئی آمدنی کے درمیان نمایاں تضادات کو اجاگر کرتے ہیں۔اعداد و شمار سے معلوم ہوا ہے کہ2025ء میں31 ہزار870 ڈاکٹرز نے نجی پریکٹس سے صفر آمدنی ظاہر کی ہے جبکہ 307 ڈاکٹرز نے نقصان ظاہر کیا ہے حالانکہ بڑے شہروں میں مذکورہ داکٹرزکے کلینکس مسلسل مریضوں سے بھرے رہتے ہیں۔صرف24 ہزار 137 ڈاکٹروں نے کوئی کاروباری آمدنی ظاہر کی ہے جو ڈاکٹرز انکم ٹیکس ریٹرن جمع کراتے بھی ہیں۔ان کا ظاہر کردہ ٹیکس ان کی ممکنہ آمدنی کے مقابلے میں انتہائی کم ہے،17 ہزار442 ڈاکٹرز ایسے ہیں جن کی آمدنی 10 لاکھ روپے سے زائد تھی، انہوں نے یومیہ اوسطاً 1,894 روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ10 ہزار922 ڈاکٹرز ایسے ہیں جن کی سالانہ آمدنی 10 سے 50 لاکھ روپے کے درمیان تھی، انہوں نے یومیہ صرف 1,094 روپے ٹیکس ادا کیا۔3312 ڈاکٹرز ایسے ہیں جن کی آمدنی 50 لاکھ سے 1 کروڑ روپے کے درمیان تھی، انہوں نے یومیہ 1,594 روپے ٹیکس ادا کیا جبکہ ایسے بہت سے ڈاکٹرز ہیں جو فی مریض 2 ہزارسے10 ہزار روپے تک فیس وصول کرتے ہیں۔روزانہ ایک مریض کی فیس کے برابر ٹیکس بھی ظاہر نہیں کر رہے، سب سے زیادہ آمدنی والے 3,327 ڈاکٹرز جن کی آمدنی ایک کروڑ روپے سے زیادہ تھی، انہوں نے یومیہ صرف ساڑھے 5 ہزار روپے ٹیکس ادا کیاجبکہ38 ہزار 761 ڈاکٹرز ایسے ہیں جنہوں نے 10 لاکھ روپے سے کم آمدنی ظاہرکی ہے، ان کا یومیہ ادا کردہ ٹیکس صرف 791 روپے تھا۔اس کے علاوہ 31 ہزار524 ڈاکٹرز نے صفر آمدنی ظاہرکی ہے مگر مجموعی طور پر 1.3 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ کے دعوے دائرکیے ہیں۔یہ اعداد و شمار اس زمینی حقیقت سے شدید متصادم ہیں کہ ہر شام ملک بھر میں نجی کلینکس مریضوں سے بھرے ہوتے ہیں اور فی مریض فیس خاصی زیادہ ہوتی ہے اگرموازنہ کیا جائے تو گریڈ 17اور18 کا ایک سرکاری افسر اس سے کہیں زیادہ ماہانہ ٹیکس ادا کرتا ہے، جتنا بہت سے ڈاکٹر پوری سہہ ماہی میں ادا کرتے ہیں، اس کے باوجود کہ سرکاری ملازمین کے پاس آمدنی چھپانے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔اس صورت حال سے ایک بنیادی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک ان طبقات کے ٹیکسوں پر چل سکتا ہے، جن کی آمدنی چھپ نہیں سکتی جبکہ زیادہ آمدنی والے شعبے یا تو آمدنی کم ظاہر کر رہے ہیں یا بالکل ظاہر ہی نہیں کرتے؟۔یہ انتہائی افسوس ناک بات ہے کہ زیادہ آمدنی والے طبقات نہایت کم آمدنی ظاہر کرتے ہیں، کمپلائنس کا یہ ابھرتا ہوا خلا ٹیکس نظام میں انصاف کی بحالی کے لیے موثرانفورسمنٹ اقدامات کی فوری ضرورت کی نشاندہی کرتا ہے۔زیادہ آمدنی والے پیشوں میں کمپلائنس اب کوئی اختیاری امر نہیں رہا،یہ قومی استحکام کے لیے ناگزیر ہو چکا ہے۔