ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس عہدے پر بحال، نوٹیفکیشن جاری
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
فوٹو: فائل
ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس کو بحال کردیا گیا ہے، جس کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔
رجسٹرار آفس نے نذر عباس کے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل کے عہدے پر بحالی کا آفس آرڈر جاری کیا۔
ایڈیشنل رجسٹرار کو آئینی مقدمہ ریگولر بینچ میں لگانے پر او ایس ڈی بنا دیا گیا تھا۔ ایڈیشنل رجسٹرار ایڈمن نے آفس آرڈر جاری کیا تھا جبکہ انہیں تاحکم ثانی رجسٹرار آفس کو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) کے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے انٹرا کورٹ اپیل کردی اور موقف اختیار کیا کہ مجھے اس معاملے میں قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا۔
اس سلسلے میں جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس سنگین غلطی کے مرتکب ہوئے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کو معاملے کو دیکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
بعدازاں ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے انٹرا کورٹ اپیل دائر کی اور موقف اختیار کیا کہ مجھے اس معاملے میں قربانی کا بکرا بنایا گیا تھا۔ بینچز اختیارات کا مقدمہ 13 جنوری کو 27 جنوری تک ملتوی کیا گیا تھا۔
اس اپیل پر سماعت کے بعد سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کے خلاف شوکاز نوٹس کی کارروائی ختم کردی تھی۔
سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کی انٹرا کورٹ اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔
دورانِ سماعت جسٹس منصور علی شاہ نے مختصر فیصلہ پڑھ کر سنایا۔ عدالت نے کمیٹیوں کے اختیار پر فل کورٹ تشکیل دینے کےلیے فائل چیف جسٹس سپریم کورٹ کو بھیج دی۔
سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ ججز کمیٹی اور آئینی کمیٹی نے عدالتی حکم کی خلاف ورزی کی، نذر عباس نے جان بوجھ کر توہین عدالت نہیں کی۔ چیف جسٹس پاکستان اس معاملے پر فل کورٹ تشکیل دیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: رجسٹرار سپریم کورٹ ایڈیشنل رجسٹرار انٹرا کورٹ اپیل سپریم کورٹ نے گیا تھا
پڑھیں:
سپریم کورٹ: زیادتی کیس کے ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی گئی
—فائل فوٹوسپریم کورٹ آف پاکستان نے زیادتی کیس میں ملزم کی سزا 20 سال سے کم کر کے 5 سال کر دی۔
عدالتِ عظمیٰ نے ملزم حسن خان کو دفعہ 496 بی کے تحت مجرم قرار دیا۔
جسٹس شہزاد احمد نے اکثریتی فیصلے میں لکھا کہ واقعے کا مقدمہ 7 ماہ کی تاخیر سے درج کیا گیا تھا، متاثرہ خاتون نے واقعے کے وقت مزاحمت نہیں کی، طبی معائنے میں تشدد یا مزاحمت کے نشانات سامنے نہیں آئے، کیس زبردستی زیادتی کا نہیں بنتا۔
جسٹس صلاح الدین نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس صلاح الدین نے لکھا کہ متاثرہ لڑکی کی عمر تقریباً 24 سال تھی، واقعے کے نتیجے میں بچہ پیدا ہوا، جس کی تصدیق ڈی این اے رپورٹ سے ہوتی ہے، جنسی جرائم کے مقدمات میں تاخیر غیر معمولی بات نہیں، معاشرتی دباؤ اور خوف کے باعث متاثرہ خاتون رپورٹ درج کروانے میں تاخیر کر سکتی ہے، اسلحے کی موجودگی میں مزاحمت نہ ہونا فطری عمل ہو سکتا ہے، 7 ماہ بعد طبی معائنہ مزاحمت کے نشانات ظاہر نہیں کر سکتا، زیادتی ثابت نہ ہونے سےخود بخود رضا مندی ثابت نہیں ہوتی، صرف سزا کم کرنے کے لیے جرم کی دفعہ تبدیل نہیں کی جا سکتی۔
خیال رہے کہ ٹرائل کورٹ نے ملزم کو 20 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی تھی، جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔