اسلام ٹائمز: 1897ء میں امریکہ کے صدر ویلیم میک کیلنی نے سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں مخصوص تبدیلیاں ایجاد کر کے رائے عامہ کو اپنی مطلوبہ سامراجی پالیسیاں قبول کرنے کے لیے تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے اصلی اہداف بحرالکاہل اور بحیرہ کریبین کے جزیروں کو امریکہ سے ملحق کرنے پر مبنی تھے جن کے حصول کے لیے 1898ء میں ہسپانوی سلطنت سے خونریز جنگ لڑی گئی۔ اس سے پہلے ہمیشہ دوسروں کی مداخلت آمیز خارجہ پالیسیوں سے خائف رہنے والے امریکیوں نے پہلی بار یورپی سامراجی طاقتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک سے باہر فتح کا مزہ چکھا۔ صدر ویلیم میک کیلنی نے ان کامیابیوں کو امریکہ کا "سنہری دور" قرار دیا۔ اب 20 جنوری 2025ء کے دن جب دنیا والوں نے تقریب حلف برداری میں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر سنی تو انہیں اس میں میک کیلنی کی جھلک دکھائی دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکی عوام کو "نئے دور" کا عندیہ دیا ہے۔ تحریر: سید رضا حسینی
ڈونلڈ ٹرمپ نے 2024ء کے صدارتی الیکشن میں فتح حاصل کر کے ایک بار پھر امریکہ کا اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے جبکہ اس بار اس نے 2016ء میں گذشتہ مدت صدارت کے مقابلے میں زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی وضع کر رکھی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مدنظر امریکہ، ایسا ملک ہے جو دوسری عالمی جنگ (1939ء تا 1945ء) کے اختتام کے بعد برسراقتدار آنے والے امریکی صدور مملکت کے برعکس، جو عالمی نظام میں لبرل طرز فکر کی ترویج کے لیے ایک طرح کی بین الاقومی پولیس کا کردار ادا کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھے، سازباز کرنے والی سپر پاور (مرچنٹلسٹ) کی حیثیت رکھتا ہے اور کسی قسم کے آئیڈیلز اور اعلی اہداف سے عاری ہے۔ دوسرے الفاظ میں، نیا امریکی صدر، امریکی معاشرے کے ایک ایسے حصے کا نمائندہ ہے جو خارجہ امور میں توسیع پسندی کے خواہاں ہیں۔
گذشتہ اوہام کی قید میں
ٹرمپ کی سربراہی میں وائٹ ہاوس کی نئی ڈاکٹرائن درحقیقت شان و شوکت کے افسانوں اور جدید ناراضگیوں کی ملی جلی حالت ہے۔ 1945ء کے بعد بائی پولر ورلڈ آرڈر حکمفرما ہونے کے بعد کسی بھی امریکی صدر نے دیگر سرزمینوں کا امریکہ سے الحاق کی بات نہیں کی۔ آخری امریکی صدر جس نے واضح طور پر امریکی سرزمین میں توسیع کی بات کی تھی ریپبلکن پارٹی کا صدر ویلیم میک کیلنی (1897ء تا 1901ء) تھا۔ میک کیلنی بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح عالمی نظام میں امریکی طاقت اور اثرورسوخ بڑھانے کا خواہاں تھا اور اس مقصد کے لیے اس نے ہوائی جزیروں، گوام اور فلپائن کو امریکہ سے ملحق کرنے کے مقدمات بھی فراہم کیے تھے۔ اس نے کیریبین خطے میں واشنگٹن کا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے اسپین سے جنگ بھی کی اور آخرکار خلیج میکسیکو کو امریکی اثرورسوخ والے علاقے میں تبدیل کر دیا۔
ڈونلڈ ٹرمپ سے پہلے امریکہ کا 25 واں صدر، درآمدات پر 50 فیصد ٹیکس عائد کرنے کا زبردست حامی تھا اور اس نے اندرونی صنعت کی حمایت کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی۔ 1896ء میں ریپبلکن پارٹی کی جانب سے امریکہ کا صدارتی امیدوار بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح اپنے زمانے کے امریکی ارب پتیوں (مورگن اور راک فیلر) کی حمایت سے برخوردار تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں بھی سیلیکان ویلی کے ارب پتی موجود تھے۔ امریکہ کا 47 واں صدر، اپنے اسلاف کی مانند لاطینی خطے میں واشنگٹن کے اثرورسوخ کے احیاء کا خواہاں ہے۔ وہ خلیج میکسیکو کا نام تبدیل کر کے خلیج امریکہ رکھنا چاہتا ہے اور پاناما کینال (جو میک کیلنی کے جانشینوں نے تعمیر کی تھی) بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ پالیسی کا شکار ہو چکا ہے۔ ٹرمپ کی نئی پالیسی کا اہم نکتہ یہ ہے کہ وہ 19 ویں صدی کے سامراجی ہتھکنڈوں کو دوبارہ بروئے کار لانا چاہتا ہے۔
ٹرمپ کا وحشی امریکہ
امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے ویران کھنڈروں میں عالمی ڈھانچے کی تنظیم نو کا نعرہ لگا کر بین الاقوامی سیاسی، فوجی اور اقتصادی نظام اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اس مقصد کے لیے امریکہ نے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے بنا کر اقتصاد میں اداروں کی اجارہ داری کی حکمت عملی اختیار کی۔ ساتھ ہی اقوام متحدہ جیسے سیاسی ادارے تشکیل دے کر دنیا بھر میں اپنا من مانا ورلڈ آرڈر مسلط کرنے کا زمینہ فراہم کیا۔ وہ ٹیم جس کی نمائندگی آج ڈونلڈ ٹرمپ کر رہا ہے، 1990ء کے عشرے میں ان بین الاقوامی اداروں کی کارکردگی سے سخت ناراض تھی۔ اس ٹیم نے امریکی کمپنیوں کو جنوب مشرقی ایشیا منتقل کیا اور دنیا کے مختلف حصوں میں امریکہ کے حریف ممالک کی اقتصادی ترقی کے پیش نظر لبرل طرز فکر کا مقابلہ کرنے کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ جیسی شخصیت کو سامنے لانے کے مقدمات فراہم کیے۔ ٹرمپ کا امریکہ مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے روایتی ہتھکنڈوں (19 ویں صدی میں میک کیلنی جیسے ہتھکنڈوں) کی طرف واپس لوٹ رہا ہے۔
نو لبرل ازم کو درپیش مسائل
21 ویں صدی کے آغاز میں جیوپولیٹیکل شعبے کے ماہر رابرٹ کپلان نے اپنے کتاب "انارکی" میں اپنے ہم عصر بعض مغربی تجزیہ کاروں کی خوش بینانہ نگاہ کے برعکس اس بات کا اظہار کیا کہ اقتصادی ناانصافیاں، موسمیاتی تبدیلیاں اور حکومتوں کی کمزوری کا نتیجہ علاقائی سطح پر جنگوں اور سماجی انتشار کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے۔ امریکہ میں ساحلی اور مرکزی شہروں پر مبنی تقسیم (ساحلی شہروں میں دولت کی فراوانی اور مرکزی شہروں میں غربت)، 90 کے عشرے سے مزدور طبقے کا بے روزگار ہونا (امریکی کارخانے چین منتقل ہو جانے کے باعث) اور ایسی عالمی لبرل ثقافت تشکیل پا جانا جس کے بارے میں امریکہ کا نچلا طبقہ زیادہ آگاہی نہیں رکھتا، نے ڈونلڈ ٹرمپ کی سربراہی میں موجود ورلڈ آرڈر کے خلاف بغاوت کا زمینہ فراہم کیا ہے۔ ٹرمپ نے گذشتہ چار عشروں کے دوران گلوبلائزیشن کے مخالفین کی جانب سے تشکیل پانے والے ہتھکنڈوں کی مدد سے امریکی معاشرے کے ایک حصے کو منظم کر لیا ہے۔
امریکی خارجہ سیاست کی انیسویں صدی کی جانب واپسی
1897ء میں امریکہ کے صدر ویلیم میک کیلنی نے سیاسی، اقتصادی اور سماجی شعبوں میں مخصوص تبدیلیاں ایجاد کر کے رائے عامہ کو اپنی مطلوبہ سامراجی پالیسیاں قبول کرنے کے لیے تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے اصلی اہداف بحرالکاہل اور بحیرہ کریبین کے جزیروں کو امریکہ سے ملحق کرنے پر مبنی تھے جن کے حصول کے لیے 1898ء میں ہسپانوی سلطنت سے خونریز جنگ لڑی گئی۔ اس سے پہلے ہمیشہ دوسروں کی مداخلت آمیز خارجہ پالیسیوں سے خائف رہنے والے امریکیوں نے پہلی بار یورپی سامراجی طاقتوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ملک سے باہر فتح کا مزہ چکھا۔ صدر ویلیم میک کیلنی نے ان کامیابیوں کو امریکہ کا "سنہری دور" قرار دیا۔ اب 20 جنوری 2025ء کے دن جب دنیا والوں نے تقریب حلف برداری میں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر سنی تو انہیں اس میں میک کیلنی کی جھلک دکھائی دی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی امریکی عوام کو "نئے دور" کا عندیہ دیا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی صدر میں امریکہ امریکہ سے امریکہ کا کو امریکہ کرنے کے کی تھی کے لیے
پڑھیں:
امریکا: 20 ریاستوں کا ڈونلڈ ٹرمپ کے 100 ہزار ڈالر H-1B ویزا فیس کیخلاف مقدمہ
امریکا کی 20 ریاستوں نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے H-1B ویزا پر 100 ہزار ڈالر فیس عائد کرنے کے فیصلے کے خلاف وفاقی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق امریکی ریاستوں کا مؤقف ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی یہ نئی پالیسی غیرقانونی ہے اور تعلیم، صحت اور دیگر ضروری عوامی خدمات کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔
یہ مقدمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کی اس پالیسی کے خلاف ہے جس کے تحت ہنر مند غیر ملکی کارکنوں کے لیے H-1B ویزا درخواستوں کی فیس میں غیرمعمولی اضافہ کیا گیا۔
امریکی ریاستوں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کو اس قدر بھاری فیس عائد کرنے کا اختیار حاصل نہیں اور یہ فیصلہ انتظامی طریقۂ کار اور آئینی حدود کی خلاف ورزی ہے۔ H-1B پروگرام سے متعلق فیس ہمیشہ صرف انتظامی اخراجات تک محدود رہی ہے۔
ریاستوں کا مؤقف ہے کہ اس فیصلے سے تعلیمی اداروں اور صحت کے شعبے میں پہلے سے موجود عملے کی کمی مزید سنگین ہو جائے گی۔ حالیہ تعلیمی سال کے دوران امریکا کے 74 فیصد اسکولوں کو اساتذہ کی خالی آسامیوں پر تقرری میں مشکلات کا سامنا رہا۔
واضح رہے کہ ایچ ون بی ویزا پروگرام امریکی اسپتالوں، جامعات اور سرکاری اسکولوں میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے۔
H-1B ویزا رکھنے والوں میں اساتذہ تیسرا بڑا پیشہ ور گروپ ہیں۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں بھی اس پروگرام پر انحصار کیا جاتا ہے۔
نئی پالیسی کے تحت بھاری بھرکم فیس کا اطلاق 21 ستمبر 2025ء کے بعد دائر کی گئی درخواستوں پر کیا گیا جبکہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیکریٹری کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کچھ درخواستوں کو فیس سے مستثنیٰ بھی قرار دے سکتے ہیں۔
اس سے قبل H-1B ویزا کے لیے مجموعی سرکاری فیس 960 ڈالر سے 7 ہزار 595 ڈالر کے درمیان تھی۔
مالی سال 2024ء میں تقریباً 17 ہزار H-1B ویزے طبی اور صحت کے شعبے کے لیے جاری کیے گئے تھے جن میں سے نصف کے قریب غیر ملکی افراد معالجین اور سرجن تھے۔
امریکی انتظامیہ کی نئی پالیسی کے تحت امریکا کو 2036ء تک 86 ہزار ڈاکٹروں کی کمی کا سامنا ہو سکتا ہے۔
یہ مقدمہ کیلیفورنیا اور میساچوسٹس کی قیادت میں دائر کیا گیا ہے جس میں ایریزونا، کولوراڈو، کنیکٹیکٹ، ڈیلاویئر، ہوائی، الینوائے، میری لینڈ، مشی گن، مینیسوٹا، نیواڈا، نارتھ کیرولائنا، نیو جرسی، نیویارک، اوریگن، رہوڈ آئی لینڈ، ورمونٹ، واشنگٹن اور وسکونسن شامل ہیں۔
H-1B ویزا پروگرام امریکا میں ہنر مند غیر ملکی کارکنوں کے لیے ایک اہم راستہ سمجھا جاتا ہے جس کے تحت بڑی تعداد میں پیشہ ور افراد ٹیکنالوجی، صحت اور تعلیمی تحقیق کے شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔