ممبئی پولیس کی جانب سے بالی ووڈ اداکار سیف علی خان پر حملہ کیس میں ابتدائی طور پر ملزم قرار دیے گئے شخص کے والد نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے ان کے بیٹے کی زندگی تباہ کر دی ہے۔

آکاش کانوجیا نامی شخص کو سیف علی خان پر حملے کے جرم میں دورگ اسٹیشن سے گرفتار کیا گیا تھا، آکاش کے والد کیلش کانوجیا نے بھارتی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ان کے بیٹے کو اس کی شناخت کی تصدیق کیے بغیر گرفتار کیا اور اس غلطی نے ان کے بیٹے کی زندگی تباہ کر دی ہے۔

یہ بھی پڑھھیں: حملہ اور سرجری، کیا سیف علی خان جھوٹ بول رہے ہیں؟

آکاش کے والد کا کہنا ہے کہ ذہنی دباؤ کے تحت ان کا بیٹا نہ تو کام پر دھیان دے رہا ہے اور نہ ہی اپنے خاندان کے افراد سے بات کر رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس کی وجہ سے ان کے بیٹے نے اپنی نوکری کھو دی اور اس کی شادی بھی منسوخ ہو گئی، اس سب کا ذمہ دار کون ہے؟ کیلش کانوجیا نے مزید کہا کہ پولیس کے رویے نے آکاش کا مستقبل تباہ کر دیا ہے۔

اس سے پہلے آکاش نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس کی کارروائی نے اس کی زندگی مکمل طور پر برباد کر دی ہے۔ اسے نوکری سے ہاتھ دھونا پڑا، اس کی منگنی ٹوٹ گئی اور اس کے خاندان کو رسوائی کا سامنا ہے۔ آکاش نے مزید کہا کہ یہ خدا کا کرم تھا کہ اصل مجرم چند گھنٹوں میں گرفتار ہو گیا ورنہ شاید انہیں ہی ملزم بنا کر پیش کر دیا جاتا۔ ان کا کہنا تھا ’اب میں انصاف چاہتا ہوں‘۔

یہ بھی پڑھیں:سیف علی خان پر حملہ نہیں ہوا، وہ ناٹک کررہے ہیں، بی جے پی رہنما

واضح رہے کہ آکاش کنوجیا کی عمر 31 سال ہے وہ ایک کچی بستی میں رہتے ہیں۔ آکاش ایک کمپنی میں کنٹریکٹ ڈرائیور کے طور پر کام کرتے تھے۔ یہ کمپنی ریلوے ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو گاڑیاں فراہم کرتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سیف علی خان سیف علی خان حملہ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سیف علی خان سیف علی خان حملہ سیف علی خان پر ان کے بیٹے کہ پولیس کی زندگی تباہ کر

پڑھیں:

بیٹا مجرم ہو تو سزا دیں مگر غائب نہ کریں، وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد کی استدعا

پشاور:

وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد نے عدالت میں مقدمے کی سماعت کےد وران کہا کہ میرا بیٹا مجرم ہے تو اسے سزا دیں مگر ایسے غائب نہ کریں۔

ہائی کورٹ میں وزارت داخلہ کے ملازم کمپیوٹر آپریٹر محمد عثمان کی گمشدگی سے متعلق درخواست  پر سماعت قائم مقام چیف جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے کی، جس میں لاپتا شخص کے والد، وکیل، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل پیش  ہوئے۔

دورانِ سماعت وکیل نے عدالت کو بتایا کہ پولیس کے ساتھ سفید کپڑوں میں ملبوس افراد نے درخواست گزار کو گھر سے اٹھایا۔

وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد نے بتایا کہ گزشتہ 7 ماہ سے میرے بیٹے کو لاپتا کیا گیا ہے۔ ہم محب وطن ہیں، ہمارے خاندان کا کوئی بھی فرد وطن کے ساتھ غداری نہیں کرسکتا۔

جسٹس ایس ایم عتیق شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کے بیٹے نے کیا کیا ہے کہ اسے غائب کیا گیا، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میرے بیٹے نے اگر کچھ کیا ہو تو سزا دیں، لیکن اس طرح غائب نہ کریں۔

قائم مقام چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رپورٹس دیکھنے کے بعد ہم فیصلہ کر سکیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے پولیس سمیت وفاقی اور صوبائی حکومت سے رپورٹ طلب کرلی۔

متعلقہ مضامین

  • کراچی، جسٹس (ر) مقبول باقر پر حملے کا ملزم معاویہ عدم شواہد پر 12 سال بعد بری
  • بیٹا مجرم ہو تو سزا دیں مگر غائب نہ کریں، وزارت داخلہ کے لاپتا ملازم کے والد کی استدعا
  • کراچی: جسٹس (ر) مقبول باقر پر حملے کا ملزم عدم شواہد پر 12 سال بعد بری
  • امریکا کے یمن پر تازہ حملے، مزید شہری جاں بحق، جوابی کارروائی میں امریکی ڈرون تباہ
  • خیبر پختونخوا پولیس نے پوسٹ کی فصل تلف کردی
  • ایک نا تجربہ کار حکومت نے ملک کی معاشیات کو تباہ کر کے رکھ دیا،خواجہ آصف
  • پولیس سے مزاحمت کا الزام، عالیہ حمزہ کارکنوں سمیت گرفتار، اڈیالہ جیل بھیجنے کا حکم
  • مقبوضہ کشمیر میں امن و ترقی کے بھارتی حکومت کے دعوے جھوٹے ہیں، کانگریس رہنما
  • بھارتی پولیس افسر متنازعہ وقف ترمیمی قانون کیخلاف بطور احتجاج مستعفی
  • بارہمولہ، بھارتی پولیس کا حریت کارکن کے گھر پر چھاپہ