حکومتی مذاکرات کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے عملی طور پر آج مذاکرات ختم کردیے. حکومتی کمیٹی 31 جنوری تک موجود رہے گی. اس دوران پی ٹی آئی نے دوبارہ اسپیکر سے رابطہ کیا تو ہماری کمیٹی ان کے ساتھ بیٹھ جائے گی۔پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے آج اس مذاکراتی عمل کو ختم کردیا ہے.

جس کا انہوں نے خود آغاز کیا تھا، 5 دسمبر کو انہوں نے کمیٹی بنائی تھی، پھر یکے بعد دیگر 3 ملاقاتیں ہوئی تھیں، 42 دن کے بعد انہوں نے اپنے مطالبات پیش کیے تھے .جس کے بعد ہم نے ان مطالبات پر صرف 7 دن مانگے تھے اور بڑا جامع کام کیا. غیرجانبدار قانونی ماہرین سے رائے لی اور کوشش کی کہ ان کے مطالبات کو زیادہ سے زیادہ قابل عمل بناسکیں، ہماری توجہ اس پر مرکوز رہی۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے جواب کی تفصیلات جاری نہیں کریں گے، کیونکہ کمیٹی کا کمیٹی سے معاملہ تھا. اگر وہ آتے تو ہم اپنا جواب ان کے سامنے رکھتے، وہ اس پڑھتے اور جائزہ لیتے اور جن نکات پر انہیں اعتراض انہیں اٹھاتے یا اپنے نکات شامل کرتے تو پھر شاید کچھ معاملات بہتر ہوجاتے یا پھر ہم نے ان کے مطالبات اور اپنے جواب پر ایک اور میٹنگ کرلیتے کہ بات آگے بڑھنی ہے یا نہیں بڑھنی کیونکہ ان کی 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن برقرار ہے۔انہوں نے کہا کہ چونکہ پی ٹی آئی تشریف نہیں لائی اس لیے مذاکرات کا سلسلہ عملاً ختم ہوچکا ہے. ہماری کمیٹی ابھی قائم ہے، ہم اسے تحلیل نہیں کیا، یہ کمیٹی 31 جنوری تک موجود رہے گی. اگر اس دوران پی ٹی آئی حکومت سے رابطہ کرتی ہے تو ہماری کمیٹی 31 جنوری سے پہلے پہلے ان کے ساتھ بیٹھ جائے گی اور اگر وہ 31 جنوری کے بعد بھی یہ عمل جاری رکھنا چاہیں تو ہم جاری رکھیں گے۔سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ تحریک انصاف نے 28 تاریخ سے 5 دن پہلے 23 جنوری کو فیصلہ کرلیا اور یکطرفہ طور پر اس کا اعلان بھی کردیا، اصل چیز یہ تھی کہ وہ اس سلسلے کو ختم کرنا چاہتی تھی.ان کی کوئی اور ترجیحات اور حکمت عملی ہوگی جو ہمیں معلوم نہیں ہے. انہوں نے جس عمل کو شروع کیا تھا اسے خود ہی سبوتاژ کردیا۔انہوں نے کہا کہ ہم نے بڑے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا، ادھر سے سول نافرمانی کی تحریک چلی، پیسے نہ بھیجنے کا کہا گیا، خطرنات ٹوئٹس آئے، آرمی چیف اور مسلح افواج پر حملے کیے گئے. ہمارے وزیراعظم کو گالیاں دی گئیں، ہم نے اسے بھی برداشت کرلیا. ہم نے کسی چیز کو جواز نہیں بنایا، ٹوئٹس کا گلا بھی نہیں منایا. سول نافرمانی تحریک ملتوی کرنے کی درخواست بھی نہیں کی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم بڑے سلیقے کے ساتھ مذاکرات کے طریقہ کار کے تحت آگے بڑھتے رہے مگر انہوں نے آج یہ طرز عمل اختیار کرکے اسپیکر کی بھی توہین کی ہے جس سے رابطہ کرکے انہوں نے وزیراعظم کے ذریعے یہ کمیٹی بنوائی تھی، ہماری بھی بے توقیری کی ہے اور جمہوری روایت کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔حکومتی کمیٹی کے ترجمان نے واضح کیا کہ حکومتی کمیٹی اب نہ پی ٹی آئی سے مطالبہ کر رہی ہے کہ وہ تشریف لائیں، نہ ان کا انتظار کر رہی ہے کہ وہ تشریف لائیں اور ان کے پاس کوئی پیغام لے کر جائیں گے کہ وہ تشریف لائیں، ہاں اگر وہ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرتے ہیں تو ہم غور کریں گے کہ ہمارا ردعمل کیا ہوگا۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: سینیٹر عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی نے کہا کہ انہوں نے کے بعد

پڑھیں:

دو اتحادی جماعتوںکی پنجاب میں بیٹھک، نون لیگ اور پیپلزپارٹی میں پاؤر شیئرنگ پر گفتگو ، ساتھ چلنے پر اتفاق

 

پانی کی تقسیم ارسا طے کرتا ہے ، کینالز کا معاملہ تکنیکی ہے ، اسے تکنیکی بنیاد پر ہی دیکھنا چاہیے ، نئی نہریں نکالی جائیں گی تو اس کے لیے پانی کہاں سے آئے گا ، ہم اپنے اپنے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں(پیپلزپارٹی)

ارسا میں پانی کی تقسیم کا معاملہ طے ہے جس پر سب کا اتفاق ہے ، سندھ کا حق ہے کہ وہ اپنے پانی کی حفاظت کرے ، 10ملین ایکڑ پانی کا گیپ ہے ، سندھ اور پنجاب میںپانی پر ڈیٹا کے مطابق بات کریں گے (نون لیگ)

پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں پنجاب میں پاور شیئرنگ کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال اور ملکی حالات کے پیش نظر ساتھ چلنے پر اتفاق کیا گیا۔تفصیلات کے مطابق گورنر ہاؤس پنجاب میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا۔اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اور سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب شریک ہوئیں جب کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر ، ندیم افضل چن، حسن مرتضیٰ اور علی حیدرگیلانی نے شرکت کی۔کمیٹی کے کچھ رہنماؤں نے زوم کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی جب کہ کوارڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سمیت دیگر افسران بھی شریک ہوئے ۔کوآرڈینیشن کمیٹی نے پنجاب میں پاور شیئرنگ کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا جب کہ سب کمیٹی کی ملاقاتوں میں ہونے والے فیصلوں پر مشاورت کی۔بعد ازاں، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے سیکریٹری جنرل حسن مرتضیٰ نے اسمبلی میں پیش کیے گئے بلدیاتی بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بلدیاتی انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ ملکی حالات کے پیش نظر ساتھ چلنے پر اتفاق ہوا، امید ہے کہ ہم مزید آگے بڑھیں گے جب کہ اجلاس میں زراعت اور گندم سے متعلق بات ہوئی اور گورننس سے متعلق تحفظات بھی رکھے ۔حسن مرتضیٰ نے کہا کہ پانی کی تقسیم ارسا طے کرتا ہے ، کینالز کا معاملہ تکنیکی ہے اور اسے تکنیکی بنیاد پر ہی دیکھنا چاہیے ، نئی نہریں نکالی جائیں گی تو اس کے لیے پانی کہاں سے آئے گا جب کہ اس وقت ہم اپنے اپنے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں، گفتگو کے بعد بہتر راستہ نکلے گا۔دوسری جانب، مسلم لیگ (ن) کے ملک احمد کا کہنا تھا کہ ارسا میں پانی کی تقسیم کا معاملہ طے ہے جس پر سب کا اتفاق ہے ، سندھ کا حق ہے کہ وہ اپنے پانی کی حفاظت کرے ۔انہوں نے کہا کہ بتایا گیا 10 ملین ایکڑ پانی کا گیپ ہے ، سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کے معاملات پر ڈیٹا کے مطابق بات کریں گے ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مقامی سطح پر عوامی نمائندوں کو اختیار ملنا چاہیے ، پیپلزپارٹی بھی چاہتی ہے پنجاب میں اچھی گورننس ہو۔واضح رہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات دور کرنے کے لیے پہلی باضابطہ ملاقات گزشتہ سال 10 دسمبر کو ہوئی تھی جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئی تھی جس کے بعد متعدد اجلاس ہوچکے ہیں۔تاہم، 10 مارچ 2025 کو وزیراعظم شہباز شریف سے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وفد نے ملاقات کی تھی جس میں شہباز شریف نے بلاول کو تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔وزیرِاعظم ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جب کہ پنجاب میں پاور شیئرنگ کے معاملات پر بھی غور کیا گیا۔بعد ازاں، کینالز کے معاملے پر دونوں جماعتیں آمنے سامنے آگئیں اور اس دوران دونوں جانب سے بیان بازی کی گئی، یہاں تک کہ پیپلزپارٹی نے وفاقی حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی بھی دے دی۔جس کے بعد گزشتہ روز، وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔جس کے بعد آج، رانا ثنااللہ نے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور دونوں رہنماؤں نے بات چیت سے مسئلہ حل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ کی عوام اپنے حقوق کا سودا کرنے والوں کو کسی قسم کے مذاکرات کا حق نہیں دیگی، سردار عبدالرحیم
  • وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے کنوینئر پارلیمانی کاکس آن چائلڈ رائٹس ڈاکٹر نکہت شکیل خان کی سربراہی میں وفد کی ملاقات
  • وفاق کا کینالز منصوبے پر پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلیے مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ
  •   کینالز منصوبے پر پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کیلئے مذاکراتی کمیٹی بنانے کا فیصلہ
  • دو اتحادی جماعتوںکی پنجاب میں بیٹھک، نون لیگ اور پیپلزپارٹی میں پاؤر شیئرنگ پر گفتگو ، ساتھ چلنے پر اتفاق
  • بی جے پی عدلیہ کی توہین کرنے والے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، جے رام رمیش
  •   عرفان صدیقی کی  شکیل ترابی کو جماعت اسلامی کا سیکرٹری اطلاعات مقرر ہونے پر مبارکباد
  • پی ٹی آئی احتساب کمیٹی نے اسپیکر بابر سلیم سواتی کو کرپشن الزامات سے بری کردیا
  • مودی حکومت کو ہٹ دھرمی چھوڑ کر مسلمانوں کے جذبات کا احترام کرنا چاہیئے، سرفراز احمد صدیقی
  • بلوچستان کے مسائل معاشی ترقی سے حل نہیں کئے جاسکتے: رضا ربانی