صرف آٹھ ماہ زندہ رہنے والا ’’القادر یونیورسٹی ٹرسٹ‘‘
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
190 ملین پائونڈ کے عدالتی فیصلے میں ’’القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ‘‘ کو جعلی (SHAM) ٹرسٹ قرار دیاگیا ہے جو بحریہ ٹائون کے مالک، ملک ریاض حسین سے، 170 ملین ڈالر کے عوض زمین، نقد رقوم اور متعدد دیگر مفادات بٹورنے کی خاطر پُرفریب چھتری کے طورپر قائم کیاگیا۔
میں نے ’القادرٹرسٹ‘ کے حوالے سے تحقیق وجستجو کی تو ’’صاف چلی شفاف چلی‘‘ کی قبائے تقدیس تار تار ہوتی گئی اور اُس کے ’’صادق وامین‘‘ سربراہ کے سر پہ سجی دستارِ صداقت وامانت کے پیچ کھُلتے چلے گئے۔ عدالتیں اپنی جگہ، ہمارا نظامِ انصاف اپنی جگہ، سیاست اپنی جگہ، نفرتیں اور محبتیں اپنی جگہ، تعصّب میں لت پت تجزیے اپنی جگہ، جھوٹ کے انبار اور گالیوں کے طورمار اپنی جگہ، اٹل اور دوٹوک حقیقت یہ ہے کہ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ یا 190 ملین پائونڈ کیس ہماری 78 سالہ تاریخ میں کرپشن کی سب سے بڑی واردات ہے جس نے وزیراعظم ہائوس میں جنم لیا اور وزیراعظم کی قیادت میں بدعنوان رفقا کی معاونت سے پروان چڑھی۔ میں بدعنونی اور عہدے کے انتہائی متعفن استعمال کی اس پُر تحیّر داستان کو ایک طرف رکھتے ہوئے، اپنی بات القادر یونیورسٹی ٹرسٹ تک محدود رکھنا چاہتا ہوں۔
2018ء میں جب برطانیہ کی’ نیشنل کرائم ایجنسی ‘نے بحریہ ٹائون کے کچھ مشکوک کھاتوں پر کام شروع کیا تو وزیراعظم عمران خان کے رفیق خاص اور اثاثہ جات بازیابی یونٹ کے سربراہ شہزاداکبر کی رال ٹپکی۔ اُنہیں ایک بڑے شکار کی بُو آئی۔ انہوں نے وزیراعظم کو اعتماد میں لے کر لندن کے متعدد دورے کئے۔ ملک ریاض حسین سے ملاقاتیں کیں۔ مفاہمت کی یاداشت (MoU) مرتب ہوگئی۔ ’’صداقت وامانت‘‘ کا بابِ فضیلت کھل گیا۔
ملک صاحب کو 171 ملین پائونڈز دینے کی پختہ ضمانت کے بعد زرِرشوت (Kickback) کی وصولی کا عمل شروع ہوگیا۔ کابینہ سے لفافہ بند منظوری سے مہینوں قبل، اپریل 2019ء میں سوہاوہ (ضلع جہلم) میں 458 کنال 4 مرلہ، 58 مربع فٹ زمین، عمران خان کے رفیق خاص ذُولفی بخاری کے نام کر دی گئی۔ اس کی کاغذی قیمت 6 کروڑ 60 لاکھ، 50 ہزار بتائی گئی۔ اگلے ہی ماہ، 5 مئی کو عمران خان نے، اس زمین پر القادر یونیورسٹی کا سنگِ بنیاد رکھ دیا۔ صوفی ازم کی تبلیغ وترویج کے لئے اسے غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے منسوب کر دیاگیا۔ اُس وقت تک القادر ٹرسٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔ زمین پر قبضہ مستحکم کرنے کے کم وبیش سات ماہ بعد دنیا کی پارلیمانی تاریخ کا عجیب وغریب وقوعہ رونما ہوا جب وزیراعظم اور شہزاد اکبر کے اصرار پر کابینہ نے ایک لفافہ بند ایجنڈے کی منظوری دے دی۔ یوں کرپشن کی اُس مفاہمتی یاداشت کو قانونی جامہ پہنا دیاگیا جو مہینوں قبل طے پاچکی تھی اور جس پر عمل درآمد بھی شروع ہوچکا تھا۔
’’زرِ رشوت‘‘ کے ایک بڑے حصے کی وصولی اور ’’قانونی تقاضے‘‘ پورے کرنے کے بعد، 26 دسمبر2019ء کو، سب رجسٹرار آفس اسلام آباد، میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ‘ رجسٹر کرا دیا گیا۔ عمران خان، بُشری خان، ذُولفی بخاری اور بابر اعوان ٹرسٹی قرار دیے گئے۔ عمران خان نے ( جو ٹرسٹ کے چئیرمین بھی تھے) ٹرسٹ کو پچاس ہزار روپے کا عطیہ دیا جب کہ بحریہ ٹائون نے 28 کروڑ 50 لاکھ روپے کا نقد عطیہ ٹرسٹ کے کھاتے میں جمع کرا دیا۔ اس سوال کا بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں مل رہا کہ جب زمین پنجاب میں تھی، یونیورسٹی پنجاب میں بن رہی تھی تو ٹرسٹ اسلام آباد میں کیوں رجسٹر کرایا گیا؟‘‘ تاہم جب زرِ رشوت پر ٹرسٹ کی سبز چھتری تن گئی اور کاروبار چل نکلا تو چار ماہ بعد، 25 اپریل 2020ء کو ٹرسٹ ڈیڈ میں ترمیم کرتے ہوئے ذُولفی بخاری اور بابر اعوان کوٹرسٹیز کی فہرست سے نکال دیاگیا۔ یوں القادر ٹرسٹ میاں بیوی کے حُجلۂِ عروسی کی زینت بن گیا۔ ایک اور ترمیم کے ذریعے عمران خان نے اپنے اختیارات میں وسعت کے لئے خود کو ٹرسٹ کا Founder اور Settlor بھی قرار دے دیا۔
زرِ رشوت کی بَرکھا برستی رہی۔ جولائی 2020ء میں علی ریاض ملک نے بنی گالہ اسلام آباد میں واقع 240 کنال 6 مرلہ زمین، بشریٰ بی بی کی معتمدِ خاص، فرحت شہزادی (فرح گوگی) کے نام منتقل کر دی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ القادر ٹرسٹ کے ہوتے ہوئے، یہ انتہائی مہنگی زمین ٹرسٹ کو عطیہ کرنے کے بجائے فرحت شہزادی کو کیوں دے دی گئی؟26 اگست 2020 کو ایک اور واردات یہ ہوئی کہ یکایک، بظاہر کسی معقول وجہ کے بغیر 1882 کے ٹرسٹ ایکٹ کو اسلام آباد کی حد تک منسوخ کرتے ہوئے، ’’اسلام آباد ٹرسٹ ایکٹ 2020ء ‘‘ جاری کردیاگیا۔ نئے قانون کی شق 113 میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں رجسٹرڈ ٹرسٹ، چھ ماہ کے اندر اندر خود کو نئے قانون کے تحت رجسٹر کرالیں ورنہ اُن کی رجسٹریشن معطل ہوجائے گی اور وہ غیرفعال ٹھہریں گے۔ اب جگر تھام کر، پُراسراریت میں لپٹی اس واردات پر نگاہ ڈالئے کہ القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو اس نئے قانون کے تحت رجسٹر نہیں کرایا گیا۔ معطل اور غیرفعال ہوجانے کے بعد ٹرسٹ عملی طورپر تحلیل ہوگیا لیکن گُلشن کا کاروبار بدستور چلتا رہا۔
ٹرسٹ، غیرفعال ہوجانے کے سات ماہ بعد، 24 مارچ 2021ء کو بنی گالہ وزیراعظم ہائوس میں بحریہ ٹائون اور بشریٰ بی بی کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت القادر یونیورسٹی اور ہاسٹلز کی تعمیر، فرنیچر، کمپیوٹرز سمیت ہر نوع کے سازوسامان کی فراہمی حتیٰ کہ اخراجات جاریہ کی ذمہ داری بھی بحریہ ٹائون کی ٹھہری۔ اس معاہدے کا اطلاق مارچ 2019ء سے کیا گیا تاکہ ماضی کی ’ترسیلاتِ زرِ رشوت‘ کو چھتری مل جائے۔ یاد رہے کہ اس معاہدے کے وقت القادر ٹرسٹ کا کوئی وجود نہیں تھا۔
اپریل 2022ء میں عمران خان کی حکومت چلی گئی۔ 2023ء کے اوائل میں نیب نے 190 ملین پائونڈ اور القادر ٹرسٹ کے معاملات کا جائزہ لینا شروع کیا تو بنی گالہ ہائوس میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ فوری طورپر ٹرسٹ کو ازسرِ نو رجسٹر کرانے کے لئے 3 مارچ 2023ء کو ’لیبر اینڈ ٹرسٹیز ڈائریکٹوریٹ‘ اور 6 اپریل کو ’اسلام آباد چیرٹی ایکٹ‘ کے تحت رجسٹریشن کی درخواستیں دائر کی گئیں لیکن نیب کی منفی رپورٹ کے باعث رجسٹریشن نہ ہوسکی۔ اب معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہے۔
کیا عجب کہانی ہے! اپنی رجسٹریشن (26 دسمبر2019) سے لے کر غیرفعال ہونے (26 اگست 2020) تک، القادر یونیورسٹی ٹرسٹ، صرف آٹھ ماہ زندہ اور فعال رہا جب کہ زرِ رشوت کی وصولی کا عمل اپریل 2019ء سے شروع ہوا اور برسوں جاری رہا۔
یونیورسٹی کی تعمیر پر 28 کروڑ چالیس لاکھ روپے جبکہ فرنیچر اور دیگر سازوسامان پر 51 لاکھ 49 ہزار روپے خرچ ہوچکے ہیں۔ کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپس کی خریداری پر ساڑھے چھ لاکھ روپے لاگت آئی۔ یہ سب کچھ بحریہ ٹائون کے خوانِ نعمت سے آیا۔ زمین، تعمیرات اورٹرسٹ کے کھاتے میں پڑی رقوم سمیت تمام اثاثے اس وقت عمران خان اور بُشری بی بی کے ذاتی تصرف میں ہیں، کیونکہ القادر یونیورسٹی نامی ٹرسٹ کو معطل، غیرفعال اور معدوم ہوئے ساڑھے چار سال ہوچلے ہیں۔ یہ داستانِ ندامت پڑھنے کے بعد پی۔ٹی۔آئی کے اس معصومانہ سوال پر بھی سَر دُھنیے کہ 171 ملین پائونڈ (تقریباً 50 ارب روپے) ملک ریاض کو تو مل گئے، لیکن عمران خان کو کیا ملا؟ اُسے تو ایک پیسے کا فائدہ بھی نہیں ہوا؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: القادر یونیورسٹی ٹرسٹ القادر ٹرسٹ بحریہ ٹائون ملین پائونڈ اسلام ا باد کہ القادر ٹرسٹ کو ٹرسٹ کے کے تحت کے بعد
پڑھیں:
ہیگستھ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں‘ میڈیا پرانے کیس کو زندہ کرنے کی کوشش کررہا ہے .ڈونلڈ ٹرمپ
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔22 اپریل ۔2025 )امریکہ کے وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ کی جانب سے مبینہ طور پر ایک گروپ چیٹ میں یمن پرحملے کی تفصیلات شیئر کیے جانے کے بعد انہیں شدید تنقید کا سامنا ہے تاہم صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب بھی ان کا دفاع کرتے نظر آ رہے ہیں نجی چیٹ گروپ میں امریکی وزیر دفاع کی اہلیہ، بھائی اور ان کے ذاتی وکیل بھی شامل تھے.(جاری ہے)
صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ پیٹ بہترین کام کر رہے ہیں ہر کوئی ان سے خوش ہے امریکی جریدے کے مطابق وائٹ ہاﺅس حکام نے اس واقعے کی سنگینی کو کم کر کے دکھانے کی کوشش کی ہے تاہم صدرٹرمپ نے اس کی تردید نہیں کی انہوںنے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں وزیر دفاع پر کافی بھروسہ ہے انہوں نے کہا کہ یہ وہی پرانا کیس ہے جسے میڈیا دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے. ہیگستھ کی سگنل چیٹ کی خبر سب سے پہلے نیویارک ٹائمز نے شائع کی تھی تاحال ہیگسٹھ نے ان خبروں پر براہ راست کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جبکہ وائٹ ہاﺅس کی جانب سے نیویارک ٹائمز کو بھیجے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس چیٹ میں کوئی خفیہ معلومات شیئر نہیں کی گئیں جبکہ نیویارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ ”ڈیفنس ٹیم ہڈل“ نامی یہ نجی گروپ ہیگستھ نے خود بنایا تھا اور15 مارچ کو چیٹ گروپ میں بھیجے گئے پیغام میں حوثی جنگجوﺅں پر حملے میں حصہ لینے والے جنگی جہازوں کی تفصیلات اور شیڈول تک شامل تھا. امریکی وزیردفاع ہیگستھ کی بیوی جینیفر فاکس نیوز کی سابق پروڈیوسر ہیں اور ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ نہیں ہے اس سے قبل ہیگستھ کو اپنی بیوی کو غیر ملکی راہنماﺅں کے ساتھ حساس نوعیت کی ملاقاتوں میں اپنے ہمراہ لے جانے پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا ہیگستھ کے بھائی اور ان کے ذاتی وکیل ٹم پارلا وزارتِ دفاع کے عہدیدار ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ ان تینوں افراد کو یمن میں امریکی حملے کی پیشگی اطلاع کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے. رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اعلیٰ امریکی عہدیداروں کو ”سگنل“ چیٹ گروپ میں حساس معلومات شیئر کرنے پر تنقید کا سامنا ہے اس سے قبل گذشتہ ماہ بھی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے ایک صحافی کو سگنل ایپ کے ایک ایسے گروپ چیٹ میں شامل کر لیا تھا جہاں اعلیٰ امریکی حکام حوثی جنگجوﺅں پر حملے کے منصوبے کے بارے میں تبادلہ خیال کر رہے تھے تاہم یہ گروپ امریکی مشیربرائے قومی سلامتی مائیکل والٹزکی جانب سے بنایا گیا تھا”سی بی ایس“ نیوز نے بھی اپنے ذرائع کے حوالے سے تصدیق کی ہے کہ اس معاملے میں ہیگستھ نے نجی چیٹ گروپ میں یمن میں جاری فضائی حملوں کے بارے میں تفصیلات شیئر کی تھیں گذشتہ ماہ” دی ایٹلانٹک “میگزین کے چیف ایڈیٹر جیفری گولڈ برگ نے انکشاف کیا تھا کہ انہیں سگنل میسیجنگ ایپ کے ایک ایسے گروپ میں شامل کیا گیا تھا جس میں قومی سلامتی کے مشیر مائیکل والٹز اور نائب صدر جے ڈی ونس نامی اکاﺅنٹ بھی شامل تھے گولڈبرگ کے مطابق انہوں نے حملوں سے متعلق ایسے خفیہ فوجی منصوبے دیکھے ہیں جن میں اسلحہ پیکجز، اہداف اور حملے کے اوقات بھی درج تھے اور یہ بات چیت بمباری ہونے سے دو گھنٹے پہلے ہو رہی تھی. گولڈ برگ کا کہنا تھا کہ امریکی حکام کی قسمت اچھی تھی کہ ان کے نمبر کو گروپ میں شامل کیا گیا تھا ان کے مطابق کم از کم یہ کسی ایسے شخص کا نمبر نہیں تھا جو حوثیوں کا حامی تھا کیونکہ اس چیٹ گروپ میں ایسی معلومات شیئر کی جا رہی تھیں جس کے نتیجے میں اس آپریشن میں شامل افراد کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا.