اپوزیشن و میڈیا تنطیموں کی مخالفت نظرانداز؛ سینیٹ نے بھی پیکا ایکٹ منظور کرلیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
اسلام آباد:
قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ نے بھی اپوزیشن اور میڈیا تنظیموں کی سخت تنقید کو نظر انداز کرتے ہوئے پیکا ایکٹ کی منظوری دے دی۔ سینیٹ کا اجلاس ڈپٹی چیئرمین سیدال ناصر کی صدارت میں شروع ہوا، جس میں 16 نکاتی ایجنڈے کے تحت کارروائی ہوئی۔ اجلاس میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کا ترمیمی بل (پیکا) منظوری کے لیے پیش کیا گیا، جسے اپوزیشن اور میڈیا تنطیموں کی سخت مخالفت کے باوجود منظور کرلیا گیا۔ قبل ازیں قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ پیکا ایکٹ کو منظور کر چکی ہیں۔ علاوہ ازیں ڈیجیٹل نیشنل پاکستان بل 2025ء بھی کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا۔ ملک کے چھوٹے ائرپورٹس پر رونقیں لگیں گی، خواجہ آصف اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران وزیر دفاع و ہوابازی خواجہ آصف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ چترال کا ایئرپورٹ فعال ہے۔ پی آئی اے کے حالات قوم کے سامنے رہے ہیں، پی آی اے اب بحال ہورہی ہے۔ اب چھوٹے ایئرپورٹس پر رونقیں لگے گی، جہاز آنا جانا شروع ہوں گے۔ آنے والے دنوں میں چترال اور شمالی علاقہ جات میں فلائٹس شروع ہوں گی۔ نئے جہاز بھی لینے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ائیرلائنز نے درخواستیں دی ہیں، وہ چھوٹے ایئرپورٹس پر آپریٹ کریں گی۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایٹمی ملک ہیں اور 3 اےٹی آرز ہیں ، ایک بند ہے۔ اس کے پرزے نہیں مل رہے۔ پی آئی اے نہیں چل رہا تو مفت دے دیں تاکہ اے ٹی آرز مل جائیں۔ فلائٹ آپریشن کب شروع ہوگا ٹائم دیں۔ وزیر دفاع نے جواب دیا کہ پی آئی اے کے روٹس کھل رہے ہیں۔ یوکے کی ٹیم آئی ہوئی ہے وہ روٹ بھی کھل جائے گا۔ پی آئی اے کی نجکاری کی ایک کوشش ناکام ہوچکی ہے دوسری کی جارہی ہے۔ ابھی ان معاملات کو بہتر کرنے کے لیے کچھ وقت چاہیے۔ متناع اسمگلنگ تارکین وطن ترمیمی بل 2025 قائمہ کمیٹی کے سپرد اجلاس میں متناع اسمگلنگ تارکین وطن ترمیمی بل 2025 سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا، جسے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔ اسی طرح انہوں نے دی ایمیگریشن آرڈیننس ترمیمی بل 2025 پیش کیا، یہ بل بھی قائمہ کمیٹی کے سپرد کردیا گیا۔ ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل کثرت رائے سے منظور بعد ازاں سینیٹ میں ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل منظوری کے لیے پیش کرنے کی تحریک وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کی جسے منظور کرلیا گیا۔ اپوزیشن نے اس موقع پر ایوان میں احتجاج کیا۔ اور اسی دوران ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025ء سینیٹ نے کثرت رائے سے منظور کرلیا۔ یہ بل دونوں ہاؤسز سے پاس ہوگیا، جس کے بعد اسے اب منظوری کے لیے صدر مملکت کو بھجوایا جائے گا۔ پیپلز پارٹی نے بل کے حق میں ووٹ دیا، اپوزیشن کا احتجاج ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2025ء وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیا، جس کی اپوزیشن ارکان نے سخت مخالفت کی۔سینیٹر شبلی فراز اپنی نشست پر کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ اس بل پر مشاورت ہی نہیں کی گئی اور اب بات کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ اپوزیشن ارکان نے سیکرٹری سینیٹ کے سامنے احتجاج کیا اور کہا کہ یہ طریقہ کار غیر قانونی ہے۔ اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔ اجلاس میں اے این پی کے رہنما ایمل ولی خان اور ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ علامہ ناصر عباس نے بھی بل کی مخالفت کی جب کہ اپوزیشن لیڈر کو بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر اپوزیشن کی جانب سے احتجاج کیا گیا۔ سینیٹر فلک ناز نے کہا کہ ہاوس کو یرغمال بنا لیا گیا ہے، مذاق بنا ہواہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے سینیٹر فلک ناز کو احتجاج کرنے پر ہاؤس سے نکالنے کی تنبیہ کردی۔ اس موقع پر اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ اس بل کو پارلیمان میں اپوزیشن کو دبانے اور اپوزیشن لیڈر کو نہ بولنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ سینیٹر کامران مرتضیٰ کی ترامیم مسترد دورانِ اجلاس سینیٹر کامران مرتضیٰ نے شق نمبر 7، 23 اور 29 میں ترامیم پیش کیں، جو کثرت رائے سے مسترد کردی گئیں۔ کامران مرتضیٰ نے اس موقع پر کہا کہ آپ صوبائی خودمختاری میں مداخلت کررہے ہیں۔ سارے اختیارات اسلام آباد کو دیے جارہے ہیں۔ پیکا ایکٹ پیش کیے جانے پر صحافیوں کا حتجاج بعد ازاں الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام سے متعلق الیکٹرانک کرائمز ترمیمی بل 2025ء پیش کرنے کی تحریک وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے ایوان میں پیش کی۔ یہ بل (پیکا ایکٹ) قومی اسمبلی اور سینیٹ کی قائمہ کمیٹی پہلے ہی متفقہ طور پر منظور کر چکی ہیں۔ اس موقع پر پارلیمانی صحافیوں نے ایک بار پھر پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا۔ پی آر اے کی جانب سے پیکا ترمیمی بل کالا قانون ہے نامنظور کے نعرے لگائے گئے اور صحافی پریس گیلری سے اٹھ کر چلے گئے۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان صحافیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے پریس لاؤنج پہنچیں اور انہوں نے کہا کہ ہم صحافیوں کی ترامیم کو سپورٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پیکا ایکٹ پر اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ پیکا بل کمیٹی میں ڈسکس نہیں ہوا، اس بل کو پیپلز پارٹی بھی اچھا نہیں سمجھتی، پیپلزپارٹی صحافیوں کے ساتھ بیٹھے گی، ہم پیکا بل میں ترمیم لائیں گے۔ کوشش ہے کہ پیکا بل میں ایک کونسل بنائی جائے۔ بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ اس معاملے پر صحافیوں کے ساتھ ہیں۔ اجلاس میں پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ء کی شق وار سینیٹ سے منظوری کا عمل شروع ہوا جب کہ سینیٹر کامران مرتضیٰ کی مزید ترامیم کی تحریک مسترد کر دی گئی اور سینیٹ نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل 2025ء کثرت رائے سے منظور کرلیا۔.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل انہوں نے کہا کہ سے منظور کرلیا قائمہ کمیٹی اجلاس میں پیکا ایکٹ سینیٹ نے پیش کیا کرنے کی کے لیے پیش کی آئی اے
پڑھیں:
جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
گزشتہ دنوں میرے ایک دوست جو درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، میری ان سے ملاقات ہوئی۔ میرے یہ دوست جمہوریت کے سخت ترین مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک ہماری تمام تر سیاسی نظام کی خرابیوں کی جڑ پاکستان میں رائج یہ جمہوری نظام ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان کے نزدیک اسلام کا سیاسی نظام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔
اپنے اس دوست کی سوچ کے برعکس راقم التحریر جمہوری نظام کی تمام تر خرابیوں کے باوجود اس کا حامی رہا ہے۔ میرے نزدیک ہماری تمام سیاسی نظام میں خرابیوں کی وجہ جمہوری نظام کا تسلسل کے ساتھ جاری نہ رہنا ہے۔
بار بار کے مارشل لا اور سیاست میں مداخلت کے نتیجے میں یہ خرابیاں پیدا ہوئیں اور عوام جمہوریت کے حقیقی ثمرات سے محروم رہے۔ مجھے دینی اور مذہبی موضوعات پر اپنی کم علمی اورکم فہمی کا ہمیشہ احساس رہا ہے، اس لیے میں عموماً دینی اور مذہبی موضوعات پر علمی گفتگو سے گریز کرتا ہوں۔ تاہم جب جمہوریت کا موضوع ہمارے درمیان دوران گفتگو آیا تو اس گفتگو نے مکالمے کی صورت اختیار کر لی۔
جمہوریت کی مخالفت کے حوالے سے میرے دوست کا کیا موقف ہے، اسے اپنے اسلوب میں بیان کر رہا ہوں۔ میرے دوست کے نزدیک ایک صالح اور مہذب حکومت وہی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد اخلاقی اقدار اور تصورات پر قائم ہو۔
دنیا کے سیاسی نظاموں میں اخلاقی اقدارکی کوئی جگہ نہیں، اس میں نمایندگی کا اہل وہی شخص تصورکیا جاتا ہے جو ڈپلومیٹک اور چرب زبان ہو، چاہے اخلاقی حوالے سے کتنا ہی گرا ہوا کیوں نہ ہو۔ یہ عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اس نظام میں قانون سازی کا حق شہری کا حق ہے۔ لازمی اس قانون سازی میں انسانی خواہشات کو اولین حیثیت حاصل ہوگی اس طرح انسان کی روحانی زندگی تباہ ہو جائے گی اور انسان نفس کا غلام بن کر رہ جائے گا۔
اسلام میں نسلی اور مذہبی گروہ بندی جائز نہیں۔ جمہوری طریقہ انتخاب میں نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کو ابھارکر عوامی جذبات کو استعمال کرکے اسے اپنی کامیابی کا زینہ بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں کشمکش اور تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
جمہوریت کی بنیادی خوبی محض عددی برتری تصورکی جاتی ہے یہ منطقی لحاظ سے درست نہیں،کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ 200 کے مقابلے 201 کی رائے زیادہ درست اور دانش مندانہ ہے۔ اس نظام میں افراد کی گنتی کی جاتی ہے انھیں تولا نہیں جاتا، یعنی صلاحیت اور قابلیت کی اس نظام میں کوئی اہمیت نہیں۔
جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کا مزاج سیکولر ہے، یہی وجہ ہے کہ جو مذہبی اور دینی جماعت اس میں حصہ لیتی ہے، اس کا مزاج سیکولر ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں کامیابی کے لیے تمام طبقات کی حمایت درکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ جماعتیں مصلحت کا شکار ہو کر خدائی احکامات کے نفاذ کے بجائے انسانی خواہشات کی تکمیل میں سرگرم عمل ہو جاتی ہیں یہ طرز عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔
میرے دوست کی یہ تمام باتیں جزوی طور پر درست ہیں کلی طور پر نہیں۔ میرا موقف یہ تھا کہ انسانی معاشرے کو مہذب اور تمدنی معاشرہ کہلانے اور عوام الناس کو اجتماعیت کے دائرے میں رکھنے کے لیے کسی نہ کسی نظام حکومت کی ضرورت لازمی طور پر ہوتی ہے اب یہ نظام حکومت کیسے وجود میں آئے گا، اس نظام کے خد و خال کیا ہوں گے؟
حکومت کرنے والوں کے اختیارات کی حدود کیا ہوں گی، ان کا انتخاب کس طرح کیا جائے گا اور سیاسی استحکام کس طرح پیدا ہوگا۔ اس حوالے سے مختلف زمانے میں مختلف تجربات سامنے آئے ہیں، اس میں ایک تجربہ جمہوری نظام بھی ہے۔ دنیا نے اب تک کے تجربات سے جمہوری نظام کو اس کی بہت سی خرابیوں کے باوجود ایک بہتر نظام سیاست پایا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو دنیا بھر میں فروغ حاصل ہوا۔
اگر آپ جمہوری نظام کو اس کی چند خرابیوں کی بنیاد پر مسترد کرتے ہیں تو آپ کو دنیا کے سامنے ایک واضح سیاسی نظام پیش کرنا ہوگا۔ محض ہوا میں قلعے بنانے سے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔
جہاں تک اسلام کے نظام حکومت کی بات ہے تو ہمیں اسے تاریخی پس منظر میں سمجھنا ہوگا۔ اسلام کے سیاسی نظام میں خلاف راشدہ کے دور کو رول ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دور حکومت 30 سال کے عرصے پر محیط ہے، اس مدت میں چار صحابی خلیفہ مقرر ہوئے چاروں خلفا کا تقرر چار مختلف طریقوں سے ہوا۔ اس کے بعد جو ماڈل سامنے آیا اسے خاندانی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔
اسلام کی پوری سیاسی تاریخ اس پس منظر میں چلتی رہی، اسی پس منظر میں مسلم حکومتیں قائم ہوئیں۔ اس میں زیادہ تر حکمران وہی تھے جو خاندانی حکومت کے اصول کے تحت حکمران بنے تھے۔ یہ خاندانی ماڈل خلافت راشدہ کے رول ماڈل سے مختلف تھا لیکن کیونکہ اس ماڈل میں اہل اسلام کو امن اور حفاظت کے ساتھ دین پر عمل کرنے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام بخوبی انجام پا رہا تھا، اس لیے عوام الناس نے اس نظام کو قبول کیا عرب کے بعض ممالک میں یہ نظام آج بھی رائج ہے۔
اس تاریخی پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے۔ اسلام کسی لگے بندھے نظام کی تجویز یا خاکہ پیش نہیں کرتا بلکہ ایسے بنیادی اصول قائم کرتا ہے جو کسی حکومت کے عمومی خدوخال کی تشکیل کرتے ہیں وقت اور حالات کے تحت طرز حکومت کیسا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا ہے یہ میری ناقص رائے ہے اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار مذہبی اسکالر اور علما دین ہی کر سکتے ہیں۔
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس وقت دنیا میں جمہوری نظام کامیابی سے جاری ہے۔ جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسا نظام حکومت ہے جس میں حکومتی مدت پوری ہوتی ہے اس میں پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ موجود ہے۔
عوامی رائے عامہ کے ذریعے اسے قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو سیاسی استحکام حاصل ہوتا ہے اس لیے اس نظام کو غیر اسلامی قرار دینا درست عمل نہیں ہے اور نہ ہی اسے مغربی طرز حکومت کا نام دیا جانا چاہیے۔ بعض لبرل اور سیکولر عناصر سیاست میں دینی اور مذہبی جماعتوں کی شمولیت کے خلاف ہیں میری ذاتی رائے میں اگر ملک کی اکثریت کسی نظام حیات کو قبول کرکے اس کے نفاذ کی کوشش کرتی ہے تو اس کے اس جمہوری حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اسے تسلیم کیا جانا جمہوریت کی روح کے عین مطابق ہے۔
یہ ہے دونوں جانب کا نقطہ نظر، کون درست ہے کون غلط اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔