اسٹیبلشمنٹ نے جناح کے پاکستان کو قید خانہ بنادیا ہے،عوامی تحریک
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
حیدرآباد (اسٹاف رپورٹر) عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایڈووکیٹ وسند تھری، مرکزی سینئر نائب صدر نور احمد کاتیار اور مرکزی جنرل سیکرٹری ایڈووکیٹ ساجد حسین مہیسر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ پیکا ایکٹ ترمیمی بل قائداعظم محمد علی جناح کے پاکستان پر غیر جمہوری قوتوں کے قبضے کا پروانہ ہے، اسٹیبلشمنٹ نے کالے قوانین کے ذریعے محمد علی جناح کے پاکستان کو قید خانہ بنا دیا، اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی ملک کے بانی کے اُصولوں کے خلاف ہے، ملک میں غیر اعلانیہ مارشل لا نافذ ہے، پیکا ایکٹ میں ترمیم مارشل لاء کا اعلان ہے، پیکا ایکٹ ترمیمی بل جیسے کالے قوانین نام نہاد جمہوری حکومت کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں، آزادیٔ اظہار پر قدغن لگا کر آئین کی تذلیل کی گئی ہے، پیکا ایکٹ آئین کی خلاف ورزی ہے، پاکستان کے 1973 کے آئین کا آرٹیکل 19 آزادیٔ اظہار کا حق دیتا ہے، جبکہ پیکا ایکٹ آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے، غیر آئینی قانون سازی کے ذریعے ملکی آئین کو پامال کیا جا رہا ہے، ہر دور میں غیر جمہوری قوتوں نے آئین کی توہین اور تذلیل کی ہے، پیکا ایکٹ جیسے کالے قوانین بدترین مارشل لاء دور کی عکاسی کرتے ہیں، اقتدار کی خاطر ن لیگ مکمل طور پر غیر جمہوری قوتوں کا ذیلی ونگ بن چکی ہے، پیپلز پارٹی جمہوریت کا راگ الاپنا بند کرے، پیپلز پارٹی حکومتی کالے قوانین پاس کرنے میں ن لیگ کی برابر شراکت دار ہے، شہباز شریف، صدر آصف زرداری اور بلاول عوام کو بے وقوف بنانا بند کریں، عوامی تحریک کے رہنماؤں نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل کو میڈیا کی آزادی اور عوامی رائے پر شب خون قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایک طرف کارپوریٹ فارمنگ کے ذریعے ملک کی لاکھوں ایکڑ زمین، دریائے سندھ اور مظلوم قوموں کے وسائل پر قبضہ کیا جا رہا ہے، تو دوسری طرف عوام کی آواز دبانے کے لیے روز نئے کالے قوانین لائے جا رہے ہیں، ملک کے مظلوم عوام پرامن سیاسی جدوجہد جاری اور غیر جمہوری قوتوں کے ملک دشمن کالے قوانین کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
کراچی سٹی کورٹ کے باہر وکلاء کے احتجاج کے باعث ایم اے جناح روڈ پر ٹریفک کی روانی متاثر
وکلا نے خبردار کیا ہے کہ جب تک دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کو مستقل طور پر ختم نہیں کیا جاتا، یہ احتجاج جاری رہے گا۔ وکلا برادری کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے سندھ کے پانی کے حصے پر ڈاکہ ہیں اور ان کے خلاف ہر قانونی، جمہوری اور آئینی طریقے سے مزاحمت کی جائے گی۔ اسلام ٹائمز۔ دریائے سندھ میں نئی نہروں کی تعمیر کے معاملے پر وکلاء برادری سراپا احتجاج بن گئی، کراچی میں وکلا برادری نے دریائے سندھ سے چھ نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کے خلاف بھرپور احتجاج کا اعلان کردیا۔ سندھ بار کونسل کی کال پر کراچی بار ایسوسی ایشن نے سٹی کورٹ میں مکمل ہڑتال کرتے ہوئے عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔ وکلا نے سٹی کورٹ کے داخلی دروازے بند کر دیئے، جس کے باعث نہ صرف سائلین بلکہ عدالتی عملہ بھی عدالت کے اندر داخل نہ ہو سکا۔وکلا کے احتجاج کے باعث ایم اے جناح روڈ پر ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوئی۔ عدالت کے باہر سائلین کا شدید رش دیکھنے میں آیا۔ وکلا کی ہڑتال کے باعث جیلوں سے قیدیوں کو بھی نہیں لایا گیا اور ججز اپنے چیمبرز میں بیٹھ کر عدالتی امور نمٹاتے رہے۔ سندھ بار کونسل نے اعلان کیا کہ جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے عدالتی کارروائی کا غیر معینہ مدت تک بائیکاٹ جاری رہے گا۔ وکلا نے کہا کہ دریائے سندھ پر نہروں کی تعمیر مقامی مفادات اور ماحولیاتی توازن کے خلاف ہے اور اس فیصلے کے خلاف وہ ہر قانونی اور احتجاجی راستہ اختیار کریں گے۔
کراچی بار ایسوسی ایشن کے قائم مقام جنرل سیکریٹری عمران عزیز نے کراچی سٹی کورٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ وکلا نے دوپہر دو بجے سے ملیر کورٹ کے باہر دھرنے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی شاہراہیں بند کرنے کی تیاری مکمل کر لی گئی ہے۔عمران عزیز نے کہا کہ کراچی بار گزشتہ چھ ماہ سے ایک مسلسل تحریک چلا رہی ہے، جس کے چار اہم نکات تھے، مگر ان میں سے دو مسائل کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل رہی، دریائے سندھ سے چھ نہریں نکالنے کا منصوبہ اور کارپوریٹ فارمنگ۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ وکلا کے پرامن اور آئینی مطالبات کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔
کراچی بار کے مطابق ببرلو بائی پاس پر وکلا کا دھرنا پانچویں روز بھی جاری ہے اور اس کا دائرہ اب وسیع کیا جا رہا ہے، گزشتہ روز ہونے والے آل سندھ وکلا ایکشن کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ مزید تین دھرنوں کا آغاز کیا جائے گا، جن میں کمبوہ اور کشمور کی مرکزی شاہراہیں بھی شامل ہیں، جبکہ کراچی میں بھی احتجاجی دھرنے کی کال دے دی گئی ہے۔ وکلا نے خبردار کیا ہے کہ جب تک دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے منصوبے کو مستقل طور پر ختم نہیں کیا جاتا، یہ احتجاج جاری رہے گا۔ وکلا برادری کا کہنا ہے کہ یہ منصوبے سندھ کے پانی کے حصے پر ڈاکہ ہیں اور ان کے خلاف ہر قانونی، جمہوری اور آئینی طریقے سے مزاحمت کی جائے گی۔