پختونخوا اسمبلی: نگراں دور میں بھرتی ملازمین کو ہٹانے کا بل منظور
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
پشاور (صباح نیوز+ اے پی پی) خیبرپختونخوا اسمبلی میں نگراں دور حکومت میں بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین کو ملازمت سے برخاست کرنے کا بل متفقہ طور پر منظور کرلیا جبکہ اسمبلی نے صوبے بھر میں زرعی انکم ٹیکس عاید کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اس حوالے سے خیبرپختونخوا زرعی انکم ٹیکس بل 2025 کی منظوری دیدی۔ تفصیلات کے مطابق سرکاری ملازمین کو برخاست کرنے کے بل کے متن میں بتایا گیا ہے کہ نگراں حکومت کے دوران غیرقانونی طورپربھرتیاں کی گئیں، متعلقہ ادارے اس ضمن اعلامیہ جاری کریں گے۔ نوٹیفکیشن کے تحت غیرقانونی بھرتی ہونے والے ملازمین کو ہٹایاجائے گا، کوئی قانونی پیچیدگی آڑے آئی تو کمیٹی میں ان کا جائزہ لیا جائے گا۔علاوہ ازیں خیبرپختونخوا زرعی انکم ٹیکس بل 2025 کے مطابق 6 تا12 لاکھ سالانہ زرعی آمدن پر 15 فیصد، 12 تا 16 لاکھ تک آمدن پر 20 فیصد اور 16 تا 32 لاکھ تک سالانہ زرعی آمدن پر 30 فیصد، 32 تا 56 لاکھ تک 40 فیصد اور 56 لاکھ سے زاید سالانہ زرعی آمدن پر 45 فیصد انکم ٹیکس کا نفاذ ہوگا۔ جس شخص کی زرعی آمدن 15 کروڑ روپے سالانہ سے زاید ہو اس پر سپر ٹیکس لگے گا جس شخص کے پاس ایک پٹوار سرکل سے زیادہ زمین ہو اس کی لوکیشن کی تفصیلات جمع کرائے گا، مجموعی زرعی آمدن پر ریٹرن بھی جمع کرایا جائے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ملازمین کو انکم ٹیکس
پڑھیں:
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، ماہانہ رقوم ڈیجیٹل طریقے سے جاری ہوں گی
اسلام آ باد:پاکستان کی ایک کروڑسے زائد غریب ترین خواتین پہلی بار باقاعدہ بینک اکاؤنٹس کی حامل بن گئی ہیں ، جلد مستحق خواتین بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کے تحت ماہانہ وظائف ڈیجیٹل طور پرحاصل کرسکیں گی۔
بی آئی ایس پی کی مستحق خواتین کے پاس اب تک بینک اکاؤنٹس نہ تھے اور وہ ’’لمیٹڈ لائبلیٹی‘‘ اکاؤنٹس کے ذریعے رقوم وصول کرتی تھیں۔
بینک 0.5 فیصدسروس فیس لینے کے باوجود ان خواتین کو عام صارفین جیسی سہولیات دینے پرآمادہ نہ تھے۔
بی آئی ایس پی کے سیکریٹری عامر علی احمد کے مطابق 10 ملین موبائل والٹ اکاؤنٹس کھولنے کاعمل حکومتی اجلاسوں کے بعد ممکن ہوا۔
اعدادو شمار کے مطابق 31 لاکھ اکاؤنٹس ایچ بی ایل، 30 لاکھ بینک الفلاح، 20 لاکھ بینک آف پنجاب، 12 لاکھ جازکیش، جبکہ تقریباً 7 لاکھ ایزی پیسہ نے کھولے ہیں۔
اکاؤنٹس خواتین کے شناختی کارڈزسے منسلک ہوں گے اورموبائل فون کے ذریعے استعمال کیے جائیں گے،حکومت ٹیلی کام کمپنیوں کے تعاون سے مفت سم کارڈبھی فراہم کر رہی ہے۔
تاہم رقوم صرف بائیومیٹرک تصدیق کے ذریعے ہی نکل سکیں گی اور ڈیبٹ کارڈز جاری نہیں کیے جائیں گے، تاکہ کسی ایجنٹ یاگھرکے مردوں کے ذریعے استحصال کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔
اب تک 17 لاکھ سم کارڈ تقسیم کیے جا چکے، حکومت کا ہدف ہے کہ آئندہ ماہ کے آخر تک 30 فیصد ،جبکہ مارچ تک 80 فیصد سم کارڈز فراہم کردیے جائیں۔
وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہرکیانی کے مطابق وزیر اعظم شہبازشریف کا ہدف ہے کہ اگلے سال جون تک بی آئی ایس پی کی تمام ادائیگیاں 100 فیصد ڈیجیٹل کر دی جائیں۔
صوبوں میں سم کارڈزکی فراہمی کے اہداف کے تحت پنجاب کو 51 لاکھ، سندھ کو 26 لاکھ، خیبر پختونخواکو 22 لاکھ، بلوچستان کو 4.85 لاکھ، آزادکشمیر کو 1.67 لاکھ، گلگت بلتستان کو 1.15 لاکھ اور اسلام آباد کو 21 ہزار سمز جاری کی جائیں گی۔
بی آئی ایس پی کاآغاز2008 میں غریب ترین خاندانوں کی مالی معاونت کیلیے شروع کیا گیا تھا۔
موجودہ سہ ماہی وظیفہ 13,500 روپے ہے جو آئی ایم ایف کی شرط کے تحت جنوری سے 14,500 روپے ہونے کاامکان ہے، حکومت نے پروگرام کیلیے بجٹ میں 716 ارب روپے مختص کیے ہیں۔
حکام کے مطابق اہم چیلنج ان خواتین تک رسائی ہے، جن کے پاس موبائل فون موجود نہیں۔ بائیومیٹرک اے ٹی ایم مشینوں کی کمی بھی رکاوٹ ہے۔
کیونکہ ملک میں موجود 16 ہزار اے ٹی ایمزمیں سے صرف 6 ہزار ہی بائیومیٹرک تصدیق کی سہولت رکھتی ہیں، تاہم سہولت کیلیے قریبی دکانوں پر موجود بائیومیٹرک ڈیوائسز سے بھی تصدیق کی جا سکے گی۔