زراعت کا پاکستان کی سماجی اور اقتصادی ترقی میں اہم کردار ہے۔ عوام کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ زرعی شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔
اقتصادی سروے 2024ء کے مطابق زراعت کا مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں حصہ 24 فی صد ہے اور یہ شعبہ 37 فی صد آبادی کو روزگار فراہم کرتا ہے، جس میں خواتین 67.
ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات اور چاول قیمتی زرمبادلہ ذخائر کے حصول کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ ہمارے ملک کی 65 فی صد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، لیکن ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود گزشتہ دو دہائیوں سے پاکستان کو ملکی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔ گندم، دالیں اور خوردنی تیل کی درآمدات زرمبادلہ ذخائر پر بوجھ ہیں۔ زرعی پیداوار میں کمی کی ایک اہم وجہ کاشت کاروں، خاص طور پر خواتین کسانوں کو سہولتیں اور مساوی مواقع فراہم نہ کرنا ہے۔
دنیا بھر میں خواتین زراعت سمیت میں مختلف شعبہ ہائے زندگی میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہیں۔ ایشیائی زرعی نظام میں دیہی خواتین کا کردار بہت اہم ہے اور انھیں زراعت پر انحصار کرنے والی معیشت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ محنت کش خواتین زرعی پیداوار کے حصول میں مردوں کے شانہ بہ شانہ کلیدی کردار ادا کرتی ہیں، لیکن انھیں مرد کسانوں کے برابر اجرت نہیں ملتی۔
زرعی لیبر فورس سروے کے اعداد و شمار کے مطابق فارم کی سطح پر خواتین 77 فی صد حصہ ڈالتی ہیں اور ہفتہ واری بنیادوں پر فارم میں 50 گھنٹے یا اس سے زائد وقت گزارتی ہیں، لیکن انھیں مردوں کے مقابلے میں 35 سے 40 فی صد کم اجرت دی جاتی ہے۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق ترقی پذیر ممالک میں زراعت سے منسلک خواتین مجموعی افرادی قوت کا 63 فی صد ہیں۔ ایشیائی ریجن میں آج بھی زرعی شعبے میں خواہ وہ شہری ہوں یا دیہی، خواتین کا حصہ زیادہ ہے۔ کم آمدن والے ممالک میں زراعت اور اس سے جڑے شعبے 80 فیصد خواتین کے روزی روٹی کا ذریعہ ہیں، جب کہ متوسط آمدن والے ملکوں میں یہ شرح 40 فی صد ہے اور یہ ممالک دنیا کی کل آبادی کے 85 فی صد پر مشتمل ہیں۔
پاکستانی خواتین کاشت کار زرعی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔ وہ نہ صرف کھیتوں میں محنت مزدوری کرتی ہیں بلکہ گھر کی ذمہ داریاں بھی نبھاتی ہیں۔ فصل کی کاشت، بیج بونے، پانی دینے، کھاد ڈالنے، فصل کاٹنے اور اناج محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ مال مویشیوں کی دیکھ بھال اور ڈیری مصنوعات کی پیداوار اور فروخت جیسے اہم امور بھی انجام دیتی ہیں۔
غذائی تحفظ، دیہی معیشت کے فروغ اور ملکی اقتصادی ترقی کی رفتار تیز کرنے کے لیے مرد کسانوں کے ساتھ خواتین کاشت کاروں کو بھی بااختیار بنانا ضروری ہے، لیکن خواتین کاشتکاروں کو وسائل اور سہولتوں کی کمی کا سامنا ہے۔ زراعت کے جدید طریقوں اور ٹیکنالوجی کے بارے میں آگاہی نہ ہونے کے باعث ان کی پیداوار محدود رہتی ہے۔ اس لیے دیہی خواتین کی تعلیم و تربیت پر توجہ دینے کے ساتھ انہیں جدید زرعی تکنیکوں، مشینری کے استعمال اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تربیت فراہم کرنا ضروری ہے۔
زراعت کے ہر شعبے میں شرکت کے باوجود صرف تین فی صد پاکستانی خواتین کاشت کاروں کے پاس اپنی زرعی زمین ہے۔ زمین کی ملکیت میں حصہ نہ ہونے کے باعث ان کے پاس فیصلہ سازی کے مواقع بھی محدود ہوتے ہیں۔ خواتین کسانوں کو بااختیار بنانے کے لیے زمین کی ملکیت، بیج، کھاد، جدید زرعی آلات اور دیگر وسائل کے ساتھ ساتھ خواتین کاشت کاروں کی قرض تک رسائی بڑھنا ضروری ہے۔
منڈیوں اور نقل و حمل تک محدود رسائی خواتین کے لیے مناسب قیمتوں پر اپنی پیداوار فروخت کرنا مشکل بناتی ہے۔ حکومت اور نجی ادارے خواتین کو بلاسود یا آسان شرائط پر قرض، معیاری بیج، کھاد اور دیگر زرعی آلات و وسائل فراہم کریں تاکہ وہ اپنی پیداوار میں اضافہ کر سکیں۔ دیہی خواتین کے لیے مخصوص زرعی مارکیٹس قائم کی جائیں، جہاں وہ اپنی پیداوار کو بہتر قیمت پر فروخت کر سکیں۔ مال مویشیوں سے حاصل ہونے والی آمدن پر بھی کسان عورتوں کا حصہ ہونا چاہیے۔ خواتین کاشت کاروں کی منڈیوں تک رسائی کو آسان بناکر، مارکیٹنگ اور ویلیو ایڈیشن کی تربیت فراہم کر کے ان کی آمدن کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
مساوی اور جامع زرعی منظر نامے کے لیے بینکس زرعی سروسز مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کاشت کاروں کو بھی معلومات اور مشاورتی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ فیلڈ ڈویلپمنٹ آفیسر خواتین کسانوں سے مستقل رابطے میں رہتی ہیں اور انھیں معیاری و تصدیق شدہ بیج اور کھاد و ادویہ کے بارے مشورے دیتی ہیں، جس کا مقصد خواتین کاشت کاروں کی ان کی مکمل صلاحیت کے مطابق ترقی کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ لائیو اسٹاک مینجمنٹ اور ڈیری پروڈکٹس میں سرگرم خواتین کو صحت مند جانوروں اور مویشیوں کی معیاری خوراک کے حوالے سے مفید معلومات فراہم کر کے بااختیار جا رہا ہے۔
دیہی خواتین کا کردار زراعت میں بنیادی حیثیت رکھتا ہے، کیوں کہ وہ نہ صرف فصلوں کی کاشت اور دیکھ بھال میں حصہ لیتی ہیں بلکہ کمیونیٹیز کی ترقی اور صنفی مساوات کے لیے بھی سرگرم عمل ہیں۔ اگر ان کے مسائل کو سمجھ کر حل کیا جائے اور انھیں تعلیم، مالی وسائل اور جدید زرعی ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے، تو وہ زراعت کے شعبے میں انقلاب لاسکتی ہیں۔ خواتین کسانوں کو ان کے حقوق دلانے اور معیشت میں فعال کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کرنے سے نہ صرف ان کی ذاتی زندگیوں میں بہتری آئے گی، بلکہ پاکستان کی زرعی معیشت بھی ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہوگی۔
ایسا ماحول جہاں خواتین کاشتکار خود مختار ہوں، وہ ایک جامع اور پائیدار زرعی مستقبل کی بنیاد رکھ سکتا ہے، جو ملک کی مجموعی ترقی میں اہم کردار ادا کرے گا۔ حکومت اور نجی اداروں کو چاہیے کہ خواتین کاشت کاروں کو بااختیار بنانے کے لیے عملی اقدامات کریں، تاکہ نہ صرف ان کی زندگیوں میں نمایاں بہتری آئے بلکہ ایک جامع اور خوش حال زرعی مستقبل کو بھی فروغ ملے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: خواتین کاشت کاروں خواتین کسانوں کے ساتھ ساتھ خواتین کا فراہم کر کے مطابق کاروں کو کرنے کے کے لیے
پڑھیں:
پیرو: جبری نس بندی سے متاثرہ لاکھوں خواتین ازالے کی منتظر
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 20 اپریل 2025ء) فلورینٹینا لوآئزا ایک شیر خوار بچے کی ماں اور صرف انیس برس کی تھیں، جب پیرو کی حکومت کے کارندوں نے دھوکے سے ان کی نس بندی کر دی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق برسوں پہلے پیروکی ﹰ تقریبا پونے تین لاکھ خواتین کے ساتھ ایسا کیا گیا تھا۔
آج عشروں بعد فلورینٹینا کی عمر چھیالیس برس ہے اور وہ اور دیگر متاثرہ خواتین ابھی تک حکومت کی طرف سے معافی مانگے جانے اور اپنے لیے مالی ازالے کی جنگ لڑ رہی ہیں۔
جبری نسبندی ، نسل کشی کا ایک انداز
بیشتر متاثرہ خواتین کا تعلق پیرو کی قدیمی مقامی آبادی سے تھا اور اقوام متحدہ نے مرضی کے خلاف افزائش نسل کی اہلیت سے محروم کر دینے والی اس حکومتی مہم کی مذمت بھی کی تھی۔
(جاری ہے)
ان لاکھوں خواتین کے ساتھ انیس سو نوے کی دہائی میں یہ ظلم کیا گیا تھا اور یہ بات بعد میں منظر عام پر آئی تھی۔
فلورینٹٰنا لوآئزا اب ایک سماجی کارکن ہیں۔
انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ''میری زندگی مختصر کر دی گئی۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ تولیدی نس بندی کے بعد ان کے شریک حیات نے بھی انہیں چھوڑ دیا تھا اور اس بات نے بھی ان کی زندگی پر کبھی نہ ختم ہونے والے اثرات چھوڑے، جو انتہائی تکلیف دہ تھے۔نسلی طور پر پیرو کی قدیمی مقامی آبادی سے تعلق رکھنے والی فلورینٹینا بتاتی ہیں کہ انیس سو ستانوے میں وہ چند ماہ کی عمر کے ایک شیر خوار بچے کی ماں تھیں اور جنوب مشرقی پیرو کے حوآن کاویلیکا نامی دیہی علاقے میں رہتی تھیں۔
سنکیانگ: شرح پیدائش تاریخ کی کم ترین سطح پر
ان کی زندگی میں بہت بڑی تبدیلی اس وقت آئی جب ایک روز کئی دیگر مقامی خواتین کے ساتھ وہ ایک ٹرک میں سوار ہو کر اس لیے ایک قریبی کلینک گئیں کہ وہاں انہیں وہ امدادی خوراک ملنا تھی، جس کا ان سب سے وعدہ کیا گیا تھا۔ لیکن کلینک میں ان خواتین کو کوئی امدادی سامان دینے کے بجائے ان سب کی زبردستی سرجری کر دی گئی۔
وہاں اپنے ساتھ کی گئی زبردستی کو یاد کرتے ہوئے فلورینٹینا کہتی ہیں، ''ہمیں پکڑ کر نرسوں نے زبردستی سٹریچروں پر لٹایا اور ہمیں بےہوشی کے ٹیکے لگا دیے گئے۔‘‘ فلورینٹینا کے بقول جب ان کی آنکھ کھلی تو انہیں بتایا گیا کہ ان کی نس بندی کر دی گئی تھی۔
انہوں نے کہا، ''جب میں گھر لوٹی اور سب کچھ اپنے شریک حیات کو بتایا تو اس نے میری بات پر یقین کرنے سے انکار کر دیا۔
اس نے الٹا مجھ پر الزام لگایا کہ میں دوسرے مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات کی خواہش مند تھی اور اسی لیے دانستہ اپنی نس بندی کروا آئی تھی کہ یوں حاملہ نہ ہو جاؤں۔ اس کے بعد وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘ان واقعات کے بعد فلورینٹینا لوآئزا نے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ دیا اور پیرو کے دارالحکومت لیما منتقل ہو گئیں تاکہ عام لوگوں کے گھروں میں کام کر کے اپنا گزارہ کر سکیں۔
وہ کہتی ہیں، ''سرجری کے بعد میرے پیٹ میں شدید درد رہتا تھا۔ مجھے سرکاری طبی امداد کی اشد ضرورت تھی کیونکہ میں خود اپنا علاج نہیں کرا سکتی تھی۔ سرجری کے بعد میری زندگی کی مشکلات بہت بڑھ گئی تھیں۔‘‘پیرو میں ریاست کے ایما پر دھوکہ دہی سے یا زبردستی کی جانے والی اس نس بندی سے متاثرہ خواتین کی مجموعی تعداد تقریباﹰ دو لاکھ ستر ہزار بنتی ہے۔
ان میں اب پچپن برس کی ماریا ایلینا کارباخال بھی شامل ہیں۔ وہ اپنے چار بچوں کے ساتھ لیما کے مضافات میں رہتی ہیں۔ کارباخال نے اے ایف پی کو بتایا، ''تب میری عمر چھبیس سال تھی۔ میں اپنے سب سے چھوٹے بچے کی پیدائش کے سلسلے میں ہسپتال گئی، تو ڈاکٹروں نے میرے علاج کے لیے شرط یہ رکھی کہ میں اپنی نس بندی پر رضا مندی ظاہر کروں۔ دوسری صورت میں میں اپنے نومولود بچے کو کبھی نہیں مل سکوں گی۔‘‘کارباخال نے مجبوری میں ڈاکٹروں کی بات مان لی اور ان کی بھی زچگی کے فوری بعد نس بندی کر دی گئی۔ اس واقعے کے بعد کارباخال کے شوہر نے بھی انہیں چھوڑ دیا اور وہ گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگیں۔ اب وہ جبری نس بندی سے متاثرہ خواتین کے لیے ایک ادارہ چلاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ہمیں جبراﹰ بانجھ بنایا گیا۔
ہمارے جسموں پر نہ صرف زخم لگائے گئے بلکہ ہم ان زخموں کے نتیجے میں اپنے خاندانوں کے ٹوٹ جانے کے دکھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔‘‘سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خواتین کی جبری نس بندی کی یہ مہم پیرو کے سابق صدر البیرٹو فیوجی موری کے دور میں چلائی گئی تھی، جو 1990 سے لے کر 2000 تک اقتدار میں رہے تھے۔ اس دوران طبی پیچیدگیوں کے باعث اٹھارہ خواتین ہلاک بھی ہو گئی تھیں۔
تخت نشینی کا جاپانی قانون: اقوام متحدہ کے مطالبے پر ٹوکیو حکومت ناراض
فیوجی موری حکومت کے ریکارڈ کے مطابق یہ نس بندی فیملی پلاننگ کے ایک حکومتی منصوبے کے تحت متعلقہ خواتین کی مبینہ رضا مندی سے کی گئی تھی۔
لیکن اقوام متحدہ کی خواتین کے حقوق کی کمیٹی نے گزشتہ برس اکتوبر میں اپنی ایک رپورٹ میں اس جبری حکومتی عمل کو ''ریاست کی طرف سے دیہی اور قدیمی مقامی خواتین پر منظم حملہ‘‘ قرار دیا تھا، جس سے متاثرہ اکثر خواتین ناخواندہ تھیں اور پیرو کی سرکاری زبان کے طور پر ہسپانوی زبان بھی نہیں سمجھتی تھیں۔
اقوام متحدہ کی خواتین کے حقوق کی کمیٹی کی ایک رکن لیٹیسیا بونیفاز نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''یہ دیہی علاقوں میں چلائی گئی ایسی مہم تھی، جس کا مقصد معاشرے کے غریب ترین اور محروم طبقے کی آبادی میں اضافے کو روکنا تھا۔‘‘ بونیفاز کے بقول یہ ناانصافی''لاطینی امریکہ میں جبری نس بندی کا سب سے بڑا منظم واقعہ‘‘ تھی۔
گلوبل جینڈر گیپ انڈکس کیا ہے؟
گزشتہ برس اقوام متحدہ نے پیرو کی حکومت پر زور دیا تھا کہ وہ اس معاملے میںِ ''اپنی تحقیقات کو تیز اور وسیع کرے اور متاثرین کے لیے مالی معاوضے اور نفسیاتی علاج کا ایک جامع پروگرام بھی جلد ترتیب دے۔‘‘
پیرو کی ایک عدالت نے بھی 2023 میں فیصلہ سنایا تھا کہ حکومت متاثرہ خواتین کے لیے مالی ازالے اور طبی دیکھ بھال کے انتظامات کرے۔ اس عدالتی فیصلے پر بھی اب تک عمل نہیں ہوا۔
عصمت جبیں/ ص ز (اے ایف پی)