خوشیوں کے راز تلاش کیجیے!
اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT
اگر آپ زندگی میں زیادہ خوش رہنا چاہتی ہیں، تو ان عادات کو الوداع کہہ دیجیے، جو آپ کو زندگی میں خوشی محسوس کرنے سے روکتی ہیں۔ خوب صورتی سے زندگی گزارنا یہ نہیں ہے کہ آپ ہمیشہ اپنی جوانی کو برقرار رکھیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی زندگی میں خوشیاں تلاش کریں اور یقین مانیں، کچھ عادات اس میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ یہ عادات آپ کو بے ضرر یا فائدہ لگ سکتی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ یہ ہماری خوشیوں کی راہ میں رکاوٹ بھی بن سکتی ہیں۔
ایک کہاوت ہے: ’’اگر کسی کتاب میں آپ بار بار پچھلے باب ہی کو پڑھیں گے، تو آپ اگلا باب شروع نہیں کر سکتے۔‘‘ یہ بات زندگی میں خوش رہنے کے حوالے سے بالکل درست ہے۔ ہم سب کے پاس بہت سی یادیں ہیں، چاہے اچھی ہوں یا بری، جنھیں ہم تھامے رکھتے ہیں۔ جب کہ ماضی کو یاد کرنا اور اس سے سیکھنا بالکل ٹھیک ہے، لیکن یہ اس وقت مسئلہ بن جاتا ہے، جب ہم اسے اپنے حال اور مستقبل پر حاوی کر لیتے ہیں۔
ماضی میں مسلسل جینا ہمیں موجودہ لمحے میں خوشی محسوس کرنے سے روک سکتا ہے۔ یہ ہمیں مستقبل کی طرف دیکھنے سے بھی روکتا ہے۔ خوش رہنے والے افراد اس بات کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ماضی کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن اسے اپنے حال پر بالکل بھی حاوی ہونے نہیں دیتے۔ وہ اپنی تاریخ سے سبق لیتے ہیں، لیکن اسے اپنے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیتے۔
ایک ایسا وقت ہوتا ہے جب آپ کا دماغ مسائل پیدا کرتا ہے، جو دراصل وہاں موجود نہیں ہوتے، یعنی جب آپ دماغی طور پر گفتگو کو دُہراتے ہیں، چھوٹی چھوٹی پریشانیوں پر فکر کرتے ہیں، یا مستقبل کے بارے میں بے خواب راتیں گزارتے ہیں۔ زیادہ سوچنا آپ کی خوشیوں کی راہ میں بڑی وجہ بن سکتا ہے۔ یہ منفی خیالات اور ذہنی دباؤ کے بے شمار چکروں میں ڈالتا ہے اور ہمیں زندگی سے لطف اندوز ہونے یا موجودہ لمحات کی خوشیوں میں شمولیت سے روکتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے خیالات کو منظم کرنا سیکھیں اور انھیں ہمیں خود پر قابو نہ پانے دیں۔
مسلسل دوسروں سے موازنہ کرنا اس دور میں بہت آسان ہو گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر موازنے کا کھیل کھیلنا بہت آسان ہے۔ ہم لوگوں کو بھرپور زندگیوں کے جھرمٹ میں دیکھتے ہیں۔ ان کی کام یابیاں، ان کے مکمل خاندان اور خوش حالی سے ہمیں رشک محسوس ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلسل موازنہ ہماری اپنی خوشی چرا سکتا ہے۔ یہ ہمیں جو کچھ ہمارے پاس ہے، اس کے بجائے جو ہمارے پاس نہیں ہے اس پر توجہ مرکوز کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ یہ عدم اطمینان اور ناخوشی پیدا کرتا ہے۔ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہر کسی کا سفر منفرد ہے۔ آپ جو کچھ ’سوشل میڈیا‘ پر دیکھتے ہیں، وہ اکثر کسی کی زندگی کا ایک بہترین لمحہ ہوتا ہے، نہ کہ مکمل زندگی اور پوری حقیقت۔ سچی خوشی یہ ہے کہ اپنے آپ کو اور جو کچھ آپ کے پاس ہے، اس میں سکون محسوس کریں۔
زندگی بہت مختصر اور قیمتی ہے۔ اس لییپرانے زخموں کو پالنے کے بہ جائے خوش رہیے۔ بغض پالنا صرف آپ کو زیادہ نقصان پہنچاتا ہے نہ کہ اس شخص کو جس نے آپ کو تکلیف پہنچائی ہو۔ یہ ایک بھاری بوجھ کی طرح ہوتا ہے، جو آپ کے دل اور روح کو دبائے رکھتا ہے۔معاف کرنا دراصل اپنے آپ کو کینہ اور غصے کے بوجھ سے آزاد کرتا ہے۔ یہ ہمارے اندر کے سکون اور خوشی کے لیے ہے۔
تبدیلی، جتنی بھی خوف ناک ہو، اکثر ہمیں بہتر چیزوں کی طرف لے جاتی ہے۔ یہ ہمیں ہماری آرام دہ جگہوں سے باہر نکالتی ہے، ہمیں آگے بڑھنے پر مجبور کرتی ہے اور نئے امکانات کے دروازے کھولتی ہے، لیکن جب ہم اس غیر متوقع تبدیلی کو قبول نہیں کرتے اور یہی سوچتے رہتے ہیں اگر اسی جگہ پر ہوتے تو بہترین ہوتے حالاں کہ موجود عُہدہ آپ کو نہ صرف کام یابی کی طرف لے جا سکتا ہے، بلکہ آپ کی زندگی کو پرسکون بھی بنا سکتا ہے۔
زندگی مختلف جذبات کا مجموعہ ہے، خوشی، غم، غصہ، جوش، خوف۔ ان سب کی اپنی جگہ ہے اور یہ ہماری زندگیوں کو معنی خیز بناتے ہیں۔جب ہم مستقل خوشی کی تلاش کرتے ہیں، تو ہم اپنے آپ سے غیر حقیقت پسندانہ توقعات لگا لیتے ہیں۔ ہم یہ ماننے لگتے ہیں کہ کوئی بھی منفی جذبہ ناکامی کی علامت ہے، لیکن یہ درست نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ان عادات میں توازن قائم کیا جائے۔
شکرگزاری کو زندگی کا حصہ بنایا جائے، نہ کہ ہر وقت زندگی سے بیزاری کا اظہار کیا جائے اور یہ کہا جائے کہ کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے اور نہ ہی بہتری کی امید ہے۔
اس سے ہماری توجہ بس اسی پر مرکوز رہتی ہے، جو ہمارے پاس ہے، نہ کہ جو ہمیں ملتا رہتا ہے اور ہم اسے یاد نہیں رکھتے۔ شکرگزاری مثبت سوچ کو فروغ دیتی ہے اور ہمارے ذہنی دباؤ کو کم کرتی ہے۔ شکرگزاری کا اظہار ہماری مجموعی خوشی میں نمایاں اضافہ کر سکتا ہے۔ اگر آپ باقاعدگی سے شکرگزاری کا اظہار نہیں کر رہے، تو آج ہی شکرگزاری کا آغاز کیجیے، اپنے پیاروں کو بتائیے کہ وہ آپ کے لیے کتنے اہم ہیں، ہر روز کسی لمحے میں اپنے اردگرد کی خوب صورتی کی قدر کریں۔ آپ حیران ہوں گے کہ آپ کتنی خوش محسوس کرتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: زندگی میں کرتے ہیں ہوتا ہے سکتا ہے کرتا ہے ہے کہ ا ہے اور اپنے ا
پڑھیں:
26؍اپریل کو مکمل ملک گیر ہڑتال ہو گی، حافظ نعیم الرحمان
ہم نے امریکی سفارتخانے کی طرف مارچ کا کہا تھا، حکمرانوںنے اسلام آباد بند کیا ہے ، ہم کسی بندوق اور گولی سے ڈرنے والے نہیں ، یہ ہمارا راستہ نہیں روک سکتے تھے مگر ہم پولیس والوں کے ساتھ تصادم نہیں کرنا چاہتے
حکمران سوئے ہوئے ہیں مگر امت سوئی ہوئی نہیں ہے ، اسرائیلی وحشت روکنے کیلئے ہمیں متحد ہونا پڑے گا، یہ سیاسی نعرے بازی نہیں ہمارے ایمان کا معاملہ ہے ، امیر جماعت اسلامی کا اسلام آباد میں غزہ مارچ سے خطاب
امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ حکمران امریکا اور اسرائیل سے خوف کھاتے ہیں، مگر امت سوئی ہوئی نہیں ہے ، اسرائیلی وحشت روکنے کیلئے ہمیں متحد ہونا پڑے گا۔اسلام آباد میں غزہ مارچ سے خطاب کرتے ہوئے حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل کی خدمت کرکے عزت حاصل کرسکتے ہیں تو یاد رکھیں امریکا کسی کا بھی نہیں ہے ، وہ صرف دہشت گردوں کو سپورٹ کرتا ہے اور ہم سب اس کا نشانہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکا مسلمانوں اور انسانوں کا قاتل ہے ، امریکا کے نوجوان خود اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں، یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات فلسطین کی حمایت میں احتجاج کررہے ہیں۔حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ بیت المقدس یہودیوں کے قبضے میں ہے ، یہ عربوں اور فلسطینیوں کی سرزمین ہے جس پر یہودی جبراً مسلط کردیے گئے ہیں، مغربی کنارے میں بھی انہوں نے ایک لاکھ لوگ بے گھر کیے گئے ہیں، قبضے کا یہ سلسلہ رکے گا نہیں ہمیں روکنا پڑے گا۔انہوں نے کہا کہ ہمیں متحد ہونا پڑے گا، عالم اسلام کو بھی جگانا پڑے گا، اور باضمیر ممالک جو اس وقت اسرائیل کے خلاف ہیں انہیں اکٹھا کرنا پڑے گا، کوئی اور یہ کام کرے نہ کرے ، پاکستان کو یہ کام کرنا ہوگا، لوگ پاکستان کی طرف بہت امید سے دیکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ قائداعظم نے اسرائیل کو مغرب اور استعمال کی ناجائز اولاد قرار دیا تھا، اور اعلان کردیا تھا کہ پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔ حافط نعیم الرحمن نے کہا کہ ہم نے امریکی سفارتخانے کی طرف مارچ کا کہا تھا، حکمران امریکا سے خوف کھاتے ہیں، اسرائیل سے ڈرتے ہیں، اس لیے انہوں نے اسلام آباد بند کیا ہے ، مگر ہم کسی بندوق اور گولی سے ڈرنے والے نہیں ہیں، یہ ہمارا راستہ نہیں روک سکتے تھے مگر ہم پولیس والوں کے ساتھ تصادم نہیں کرنا چاہتے ۔انہوں نے کہا کہ حکمران سوئے ہوئے ہیں مگر امت سوئی ہوئی نہیں ہے ، اسرائیلی وحشت روکنے کیلئے ہمیں متحد ہونا پڑے گا، یہ سیاسی نعرے بازی نہیں ہمارے ایمان کا معاملہ ہے ۔امیر جماعت اسلامی نے حکمرانوں ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ ظالم حکمرانوں نے تباہی پھیر دی ہے اور ملک بھر میں مسائل اس وجہ سے مظلوموں کی طاقت تقسیم کردی گئی ہے ، ہمیں بلوچ، پنجابی، سندھی، پختونوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں متحد ہوکر ان ظالموں اور جابروں اور امریکا کے غلاموں کو تقسیم کرنا ہوگا، پھر کسی کا حق نہیں مارا جائے گا، میں ملک بھر کے عوام سے کہتا ہوں کہ متحد ہوجاؤ اور ان ظالموں سے اپنا حق حاصل کرو۔خطاب کے آخر میں حافظ نعیم الرحمن نے عوام سے 26 اپریل کی ہڑتال کو کامیاب بنانے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ 27 اپریل کو اگلے لائحہ کا اعلان کیا جائے گا۔