Express News:
2025-04-22@14:12:39 GMT

’مجھے کیا کرنا چاہیے تھا۔۔۔؟‘

اشاعت کی تاریخ: 28th, January 2025 GMT

کچھ دن پہلے میں بیرون ملک سے واپس اپنے شہر کراچی آتے ہوئے ’ہوائی اڈے‘ کی ’انتظار گاہ‘ میں بیٹھ کر اپنی پرواز کا انتظار کرنے لگی۔ وہاں اور بھی بہت سے پاکستانی نظر آئے۔ کچھ دیر بعد مجھے پیاس لگی، تو کینٹین کا رخ کیا۔ وہاں ایک جوڑا پہلے سے موجود تھا۔

  ان صاحب اور صاحبہ نے اپنے لیے چائے اور ’کافی‘ لی اور میں اپنی پانی کی بوتل لے کر اپنی نشست پر آ بیٹھی۔ وہ جوڑا بھی ہماری نشست کے برابر میں آ کر بیٹھ گیا۔ میں پانی پی کر اپنی بیٹی سے باتوں میں مصروف ہو گئی، جس دوران میرا پاؤں کسی چیز سے ٹکرایا۔ میں نے دیکھا، تو وہاں خالی پیالی تھی۔ ان دونوں نے اپنی چائے اور ’کافی‘ کی خالی پیالیاں وہیں سیٹ کے کنارے پر رکھ دیے تھے، جس سے میرا پاؤں لگا تھا، یہ عمل دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا۔

میں نے دل میں سوچا کہ یہ کون سا طریقہ ہے۔۔۔؟ جب کہ برابر ہی میں ’کوڑے دان‘ موجود ہے، یہ اس میں ڈالنے میں انھیں کیا مسئلہ تھا؟ اتنے میں بورڈنگ کا اعلان ہوگیا تو وہ پاکستانی جوڑا اپنا کچرا وہیں چھوڑ کر جہاز کی طرف چل دیا۔ یہ عمل دیکھ کر مجھے اور غصہ آیا، لیکن میں دل ہی دل میں کُڑھ کر رہ گئی اور میں بھی جہاز کی طرف روانہ ہو گئی۔

پھر جب صبح نو بجے تک گھر پہنچی، تو ہماری جٹھانی صاحبہ نے ہمارے لیے ناشتے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ساتھ بیٹھ کر ناشتا کیا اور کچھ گپ شپ ہوئی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ واقعہ سب کو سنایا کہ کیسے ہم پاکستانیوں نے خود اپنی عادتوں سے اپنا نام بدنام کر رکھا ہے۔ تبھی پاکستانیوں کی کہیں کوئی عزت نہیں ہوتی۔ اپنا کچرا کوڑے دان میں ڈالنے میں بھی پاکستانیوں کو دقت کیوں محسوس ہوتی ہے، اس پر سب نے بہت دکھ کا اظہار کیا۔

ناشتے سے فارغ ہو کر میں اپنے گھر پہنچی، کچھ دیر آرام کے بعد پھر اپنے کاموں میں مصروف ہو گئی۔ لیکن نہ جانے کیوں خلاف معمول یہ سارا واقعہ میرے ذہن سے چمٹا رہا۔  میں نے اس واقعے پر غور کرنا شروع کیا، تو میری سوچ اپنے ہی عمل کی طرف آ پہنچی کہ ایک پاکستانی نے یہ کام غلط کیا تو دوسرے پاکستانی کا کیا عمل ہونا چاہیے تھا، یہ سوچ مجھے پریشان کرنے لگی۔ رات میں سونے سے پہلے میں کتاب اور قلم لے کر بیٹھ گئی۔  خیالات کے سیلاب میں  ڈوب گئی، پھر قلم اور کاغذ کی مدد سے کچھ الجھے ہوئے خیالات کو سلجھانے کی کوشش کی، میں اس فکر میں تھی کہ آخر یہ مسئلہ کیسے ٹھیک ہو سکتا تھا۔ یک دم میرے ذہن میں اپنے استاد کا ایک اور قول آیا کہ ’جس کا فہم زیادہ ہے، اس کی ذمہ داری زیادہ ہے۔‘

 میں اپنے علم کے ساتھ جب اس سارے معاملے پر غور و فکر کرنے لگی تو اس نتیجے پر پہنچی کہ اس معاملے میں انسانوں کے تین درجے ہیں۔ سب سے نچلا درجہ وہ ہے، جو اپنے کچرے کو بھی ٹھیک جگہ پر ڈالنے سے قاصر ہیں اور جہاں جی چاہتا ہے پھینک دیتے ہیں، جو کہ ایک حیوانی سطح ہے۔

دوسرا درجہ وہ جن تک علم پہنچ گیا اور وہ اپنے کچرے کو کوڑے دان تک پہنچانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ تیسرا درجے کے لوگ وہ جو اپنے پیدا کیے ہوئے کچرے پر بھی غور و فکر کرتے ہیں، اور اپنے گھروں سے ری سائیکل ہونے والا کچرا نکالنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ ان کو یہ فکر ہوتی ہے کہ کہیں ان کے پیدا کیے ہوئے کچرے سے زمین کو نقصان نہ پہنچے۔

اور میری نظر میں تیسرا درجہ سب سے اعلیٰ اور بہترین ہے، کیوں کہ یہ ہمیں اپنی زندگی کے رہن سہن، وسائل کے استعمال اور ماحول پر اپنے اثرات کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے کی ترغیب دیتا ہے۔

جیسے جیسے آپ کا درجہ بلند ہوتا ہے، آپ کی ذمہ داری بھی بڑھتی جاتی ہے۔ سب سے بڑی اور ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اس علم کو دوسروں تک پہنچائیں۔ اس حوالے سے مجھے نبی کریم ﷺ کا خطبۃ الوداع یاد آتا ہے، جس میں آپ نے تاکید کی تھی کہ جس تک علم پہنچ گیا ہے، اس پر فرض ہے کہ وہ یہ علم دوسروں تک پہنچائے۔ یہ تعلیم و تبلیغ کی ذمہ داری انسانیت کی بھلائی اور معاشرے کی بہتری کے لیے انتہائی اہم ہے۔

اب ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، میں نے غور کیا کہ دوسرے کے اس فعل پر میرا عمل کیا ہونا چاہیے تھا۔ تو میں اس نتیجے پر پہنچی کہ ان صاحب اور صاحبہ کے پاس جا کر یہ بات براہ راست کہنا شاید غیبت کرنے سے بہتر ہوتا۔ اس طرح نہ صرف مسئلہ حل ہونے کا امکان ہوسکتا تھا، بلکہ کسی کے پیٹھ پیچھے بات کرنے کے گناہ سے بھی بچا جا سکتا تھا۔ ہم میں سے اکثر خواتین یہ سب باتیں نہیں سوچتیں۔

ان سے یہ بات کچھ اس انداز میںبھی کی جا سکتی تھی کہ ’’میں نے وہاں ایک کوڑے دان دیکھا ہے، سوچا آپ کو بتا دوں، تاکہ آپ کچرا وہاں ڈال دیں۔‘‘ شاید یہ بات مسئلے کا حل بن جاتی، لیکن اگر پھر بھی ان کے اندر اس کا احساس پیدا نہ ہوتا اور وہ اسے چھوڑ کر چلے جاتے، تو دوسرا میرا عمل یہ ہو سکتا تھا کہ میں خود وہ کچرا اٹھا کر کوڑے دان میں ڈال دیتی!

آخر ہم اس کام کو کرنے سے کیوں شرماتے ہیں۔۔۔؟ اگر ایک پاکستانی پاکستان کو بدنام کر رہا ہے، تو کیا دوسرے پاکستانی کا عمل صرف غیبت کرنے تک محدود ہونا چاہیے۔۔۔؟ یا اسے اپنے عمل سے اس بدنامی کو مٹانے کی کوشش کرنی چاہیے؟

دینِ اسلام ہمیں اخلاقیات کے اعلیٰ درجے پر فائز ہونا سیکھتا ہے، لیکن ہم نے ان تعلیمات پرعمل تو دور کی بات غور وفکرتک نہیں کیا۔ غیر مسلمانوں نے اخلاقیات کو اپنا لیا اس کی مثال جاپانیوں کا اپنا اسٹیڈیم صاف کرنا ہے، یہ سوچے بغیر کہ یہ کچرا میرا نہیں، وہ پوری توجہ سے اسٹیڈیم صاف کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے : عمر ایوب

ویب ڈیسک : پی ٹی آئی رہنما اور اپوزیشن لیڈر عمرا یوب نے کہا ہے کہ سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔

عمران خان سے جیل میں ملاقات کی اجازت نہ ملنے پر توہین عدالت کیس مقرر نہ ہونے پر عمر ایوب اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے، جہاں بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 2 دن پہلے درخواست دائر کی تھی، تاحال ہماری درخواست مقرر نہیں ہوئی،  اس پر دائری نمبر لگ چکا ہے۔

ہر وقت پیاس؛ سنگین مرض کی نشانی

میڈیا کے نمائندوں گفتگو میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب  نے کہا کہ 2 دن پہلے ہائی کورٹ میں بانی پی ٹی آئی کی بہنیں اور قیادت موجود تھی ۔ چیف جسٹس کے پاس پیش ہونا چاہا مگر وہ شاید جمعہ کی وجہ سے چلے گئے تھے ۔

انہوں نے بتایا کہ پٹیشن کو دائری نمبر لگا دیا گیا ہے مگر وہ ابھی تک فکس نہیں ہوئی۔ پہلے بھی ہمارے کیس یہاں پر لگتے رہے ہیں، اس کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تھا ۔ اُس وقت کوئی زمین آسمان اوپر نیچے نہیں ہوا۔

افغان شہریوں کی واپسی؛ ازالہ شکایات کیلئے وزارت داخلہ میں کنٹرول روم قائم

عمر ایوب کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی سمیت دیگر پی ٹی آئی کی قیادت جو گرفتار ہیں وہ سیاسی قیدی ہیں ۔ مجھ پر بسکٹ چوری تک کے کیس لگائے گئے ہیں۔ ہم لوگ یہاں آئے ہیں اور انصاف کے لیے عدالت کا دروازہ ہی کھٹکھٹائیں گے۔

اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہم ریاست کا حصہ ہیں، ریاست کی جو تعریف یہ لوگ کرتے ہیں وہ یکسر مختلف ہے۔ عقل کے اندھوں سے کہتا ہوں کے آئین کا مطالعہ کر لیں تو سمجھ آئے گا کہ  ریاست کیا ہوتی ہے۔

ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی نے فلسطینیوں کے حق میں پوسٹ شیئر کر دی

انہوں نے کہا کہ پاکستان ہارڈ اسٹیٹ نہیں کیوں کہ یہاں قانون کی حکمرانی ہی نہیں،یہاں صرف جنگل کا قانون چل رہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نہ ڈھیل مانتے ہیں نہ ہی ڈیل کو مانتے ہیں۔ بانی  کی بہنوں کو سیاست میں لانا ناجائز ہے ، بہنیں بطور فیملی ممبر ملاقات کرتی ہیں۔

انہوں نے اپنے استعفے کی خبروں کی تردید بھی کی اور کہا کہ سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے ۔ پی ڈی ایم حکومت میں ہم نے دھاندلی کیسے کرلی؟ میرے خلاف امیدوار ہار مان چکے ہیں لیکن ریموٹ کنٹرول والوں کو چین نہیں آرہا۔

نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کا ایران اور افغانستان کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فونک رابطہ

Ansa Awais Content Writer

متعلقہ مضامین

  • طعنہ دینے والے ہمارے ووٹوں سے ہی صدر بنے ،بلاول کی حکومت پر سخت تنقید سے متعلق رانا ثنا کا ردعمل
  • وقف بورڈ قانون کو لیکر مجھے سپریم کورٹ پر بھروسہ ہے، ڈمپل یادو
  • سیاستدان کو الیکشن اور موت کے لیے ہر وقت تیار رہنا چاہیے : عمر ایوب
  • بھارت، طلبہ نے امتحانی کاپیوں میں جوابات کے بجائے پاس کرنے کیلئے فرمائشیں لکھ دیں
  • لگتا تھا طلاق ہوگئی تو مرجاؤں گی، عمران خان کی سابق اہلیہ کا انکشاف
  • ہسپتال میں 77 سالہ بزرگ پر ڈاکٹر کا بہیمانہ تشدد ، ویڈیو وائرل
  • بی جے پی نے مجھے مارنے پر انعام رکھا ہے‘، سکھ رہنما کی نائب امریکی صدر سے دورہ بھارت میں معاملہ اٹھانے کی درخواست
  • ’بی جے پی نے مجھے مارنے پر انعام رکھا ہے‘،گرپتونت سنگھ پنوں کا امریکی نائب صدر کو خط
  • کومل میر کی کاسمیٹک سرجری اور وزن میں اضافے پر لب کشائی
  • معاشی ترقی اور اس کی راہ میں رکاوٹ