Express News:
2025-04-22@06:04:59 GMT

غزہ سے فلسطینیوں کا انخلا، غیر انسانی منصوبہ

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان میں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ اردن، مصر اور دیگر عرب ممالک غزہ کی پٹی سے مزید فلسطینی پناہ گزینوں کو قبول کریں۔ دوسری جانب انھوں نے اسرائیل کو 2,000 پاؤنڈ وزنی بم بھیجنے پر عائد پابندی ختم کر دی ہے۔ اسرائیلی وزیرِ خزانہ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس خیال کا خیرمقدم کیا کہ غزہ کے فلسطینی باشندوں کو مصر اور اردن منتقل کر کے غزہ کو ’’مکمل خالی‘‘ کردیا جائے۔

 ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب فلسطینی حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے نفاذ پر جشن منا رہے ہیں اور اپنے گھروں میں واپسی کے منتظر ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے اپنا سیاسی کیریئر ایک کٹر اسرائیل کے حامی کے طور پر بنایا ہے۔ ٹرمپ پہلے بھی غزہ کے مستقبل کے بارے میں غیر روایتی خیالات پیش کرچکے ہیں جب کہ حماس نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ وہ اس امریکی تجویز کو ناکام بنا دے گی، جب کہ عرب ممالک پر مشتمل علاقائی تنظیم عرب لیگ نے اپنے بیان میں کہا ’’ اپنی سرزمین سے جبری بے دخلی کو صرف نسلی خاتمہ ہی کہا جا سکتا ہے۔‘‘

درحقیقت فلسطینیوں کے لیے غزہ سے ان کی منتقلی کی کوئی بھی کوشش انھیں 1948 میں اسرائیل کے قیام کے دوران ہونے والی بڑے پیمانے پر نقل مکانی، جسے عرب دنیا ’’ نکبہ‘‘ یا تباہی کہتی ہے، کی تلخ یادیں دلاتی ہے۔ صدر ٹرمپ کی یہ تجویز ایسے وقت میں آئی ہے جب امریکا نے مصر اور اسرائیل کے علاوہ تمام ممالک کے لیے امداد بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

مصر پہلے ہی غزہ سے فلسطینیوں کو سینائی صحرا میں منتقل کرنے کی کسی بھی ’’ زبردستی نقل مکانی‘‘ کی کوشش کے خلاف خبردار کرچکا ہے اور اتوار کو قاہرہ نے فلسطینیوں کے عارضی یا طویل مدتی نقل مکانی کی مذمت کرتے ہوئے اس ’’ ناقابل تنسیخ حقوق‘‘ کی خلاف ورزی کو مسترد کر دیا۔

اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی کی جنگ پندرہ ماہ تک جاری رکھی۔ اس کی فوج نے ناقابل تصور طور پر کمزور آبادی پر اپنے مسلسل حملوں میں بین الاقوامی انسانی قانون کے تقریباً ہر پہلو کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے حراستی کیمپ کو زندگی کی بنیادی ضروریات یعنی خوراک، پانی، ادویات، صفائی، بجلی اور ایندھن سے محروم کردیا ہے اور اس کے شہری بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنانے کے عمل نے غزہ کے باشندوں کی اکثریت کو بے گھر کردیا ہے۔

اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اسرائیلی منصوبے کے مطابق غزہ کو اسرائیلی آبادکاروں سے آباد کیا جائے گا، غزہ آباد کاری منصوبے کو جنرلز پلان کا نام دیا گیا ہے۔ اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق اس منصوبے کے تحت مغربی کنارے میں بھی یہودی بستیوں کو مزید توسیع دی جائے گی۔ اسرائیل کا مغربی کنارے کی فلسطینی آبادی کا علاقہ مزید مختصر کرنے کا منصوبہ ہے، اس سلسلے میں مغربی کنارے کی 19 فلسطینی بستیوں کو گرایا جا چکا ہے۔ کسی بھی اسرائیلی فوجی مقصد کے لیے غزہ کی مکمل تباہی کی ضرورت نہیں ہے۔

46 ہزار فلسطینیوں کو قتل کرنا اور بہت سے لوگوں کو زخمی کرنا کوئی واضح تزویراتی مقصد نہیں ہے۔ نہ ہی غزہ کی یونیورسٹیوں، اسکولوں، اسپتالوں اور محلوں کی منظم اور بڑے پیمانے پر تباہی کوئی عسکری کامیابی ہے، اگر اسرائیل غزہ پر قبضہ اور الحاق کرنا چاہتا ہے تو غالباً وہ بلاسٹ زون کے علاوہ کچھ اورکا بھی مالک ہونا چاہے گا،اور اب جب کہ اسرائیل کا طرز عمل غیر معقول دکھائی دیتا ہے، اسی طرح اس کے قریبی اتحادی امریکا کی غیر مشروط حمایت بھی پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اسرائیل کی نسل کشی کی واشنگٹن کی آہنی حمایت نے اس کی بین الاقوامی اتھارٹی کو ختم کردیا ہے اور بین الاقوامی قوانین پر مبنی نظام کو برقرار رکھنے کا دعویٰ خاک میں ملا دیا ہے۔

بہت سے لوگ حماس کے 7 اکتوبر کے حملے سے پیدا ہونے والے ذلت کے احساس کو اسرائیل کی غیر معقولیت قرار دیتے ہیں۔ اس انتہائی جذباتیت نے اسرائیلی سیاست کی دائیں جانب تبدیلی کو تیزکیا، جو اب کھلے عام نسل کشی کے کارناموں کا جشن مناتی ہے۔ ’’پرامن بقائے باہمی‘‘ کی بیان بازی ختم ہوگئی اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس کے بجائے ’’مکمل فتح‘‘ کا وعدہ کیا۔ تاریخ اس بات کا اشارہ دے سکتی ہے کہ اس جملے سے اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔

یہ جرمن لفظ Endsieg سے بہت مماثلت رکھتا ہے، جس کا لفظی ترجمہ ’’حتمی فتح‘‘ ہے اور نازی حکومت کے نسل کشی کے عزائم کے مکمل احساس کو بیان کیا ہے۔ یقینی طور پر، امریکا اسرائیل کا ایک قابل اعتماد اتحادی اور مدد گار ہے، لیکن، کچھ عرصہ پہلے تک، اس نے اپنے بے شمار بین الاقوامی تحفظات کی وجہ سے خود کو اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان ایک یکساں ثالث کے طور پر مارکیٹ کرنے میں جو احتیاط اختیار کی ہوئی تھی وہ احتیاط ختم ہوگئی۔ امریکا نے واضح طور پر غزہ میں اسرائیل کی تباہ کن مہم کے ہر قدم کی حمایت کی ہے، یہاں تک کہ اس نے صرف بیان بازی کی حد تک ’’تحمل‘‘ یا ’’جنگ بندی‘‘ کا مطالبہ کیا ہے۔ واشنگٹن کی وفاداری حیران کن ہے۔

جب سے حملہ شروع ہوا ہے، سابق صدر جوبائیڈن نے ہر موڑ پر اسرائیل کی مکمل حمایت کی ہے، لیکن امریکا اور اسرائیل الگ الگ معاشرے ہیں جن کے مفادات اکثر مختلف ہوتے ہیں۔ یقیناً جنگ کے بارے میں امریکی اور اسرائیلی موقف میں کم از کم تھوڑا فرق ہونا چاہیے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ اسرائیل لابی محض امریکی خارجہ پالیسی سازی کا حکم دے؟ امریکن اسرائیل پبلک افیئر کمیٹی (اے آئی پی اے سی) جیسے گروپ بلاشبہ طاقتور ہیں، لیکن وہ واشنگٹن میں اثر و رسوخ کے لیے دوڑ لگانے والی بہت سی لابیوں میں سے صرف ایک کی نمایندگی کرتے ہیں۔

شاید امریکا غزہ کی ساحلی پٹی سے بالکل دور گیس فیلڈز چاہتا ہے؟ لیکن واشنگٹن کو اس گیس کو حاصل کرنے کے لیے نسل کشی کی مدد اور حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ غیر مساوی مذاکرات کے باوجود مکمل طور پر پُرامن چال چلی جائے گی۔درحقیقت، مندرجہ بالا مندرجات میں سے کوئی بھی اس بات کی وضاحت نہیں کرے گا کہ امریکا اسرائیل کی فلسطینیوں کی نسل کشی کی پشت پناہی کر کے نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا میں اس طرح کی بدنامی کا خطرہ کیوں مول لے رہا ہے۔ تو کیا اسرائیل کی نسل کشی کے جرم کے لیے امریکی حمایت غزہ کے بارے میں بالکل بھی نہیں ہے؟ کیا امریکا محض یہ دکھانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ’’باس‘‘ کون ہے؟حالیہ برسوں میں، کثیر قطبیت کے بارے میں بہت زیادہ بات ہوئی ہے۔

بہت سے تجزیہ کاروں نے ایک ایسی دنیا کی پیش گوئی کی ہے جہاں امریکا کی اب عالمی بالادستی نہیں ہے۔اس چہ میگوئی کے دوران، امریکا کو بالترتیب یوکرین اور شام میں روس کے ساتھ نقصان اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس نے افغانستان سے فوری طور پر انخلا کیا، جس کے نتیجے میں طالبان دوبارہ اقتدار میں آگئے۔ مختلف لاطینی امریکی حکومتیں بائیں طرف منتقل ہوگئی ہیں، جس سے امریکا کے اندرکھینچا تانی بڑھ رہی ہے۔

امریکا کا اصل حریف چین عالمی منظر نامے پر اپنا اثر و رسوخ ظاہر کرتا رہا ہے۔ BRICS ایک بین الحکومتی تنظیم جہاں بیجنگ کلیدی کردار ادا کرتا ہے،کیونکہ اس میں ایران، متحدہ عرب امارات، ایتھوپیا اور مصر شامل ہیں۔عوامی جمہوریہ چین نے مشرق وسطیٰ کے اسٹیج پر بھی اپنی نقاب کشائی کی، 2023 میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان امن ساز کا کردار ادا کیا اور یمن میں دشمنی کو ٹھنڈا کرنے میں سہولت فراہم کی۔ مختصراً، امریکا بیک فٹ پر کھڑا دکھائی دے رہا تھا، جس کی غالب عالمی سپر پاورکے طور پر اس کی پوزیشن تیزی سے متزلزل نظر آرہی ہے۔ غزہ میں، اسے اپنے آپ کو دوبارہ قائم کرنے کا موقع نظر آتا ہے۔ ہمیں غزہ میں امریکی مداخلت کو اسی طرح سمجھنا چاہیے۔

دوسری صورت میں، ہلکے ہتھیاروں سے لیس حماس کے یک طرفہ حملے کے جواب میں امریکا مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجی موجودگی کو مضبوط کیوں کرے گا؟ یہ ایک غیر محفوظ سپر پاور ہے، اپنی پائیدار برتری ثابت کرنے کے لیے بے چین ہے اور یہ بین الاقوامی انسانی قانون کے سب سے بنیادی اصولوں کو بھی نظر انداز کررہا ہے تاکہ یہ ظاہر کیا جاسکے کہ اسے کوئی نہیں روک سکتا، لیکن اس میں سے کوئی بھی بظاہر لامحدود وسائل اور سفارتی مدد کو چیلنج کرنے کے لیے کافی نہیں ہے جو امریکا، اسرائیل کو فراہم کر رہا ہے۔ BRICS کا مقصد مغربی تسلط کا مقابلہ کرنا ہے۔

اس کے باوجود، چین، اس کا رہنما اور سب سے بڑی معیشت ہونے کے باوجود، یورپی یونین جیسی بالادست قوتوں کے اندر کچھ زیادہ جرات مندانہ دکھائی نہیں دیا۔ اس نے خود کو حمایتی بیان بازی اور کچھ سفارتی اقدامات تک محدود کر رکھا ہے، جب کہ روس کو واضح طور پر خاموش کردیا گیا ہے اور بھارت کھلے عام اسرائیل کا حامی ہے۔

BRICS نسل کشی کو روکنے کے لیے بہت کچھ کر سکتا تھا۔ وہ اپنے انتہائی تکلیف دہ لمحے میں غزہ کے لوگوں کی ٹھوس حمایت کے لیے اور بھی بہت کچھ کر سکتے تھے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔امریکا BRICS کو کاغذی شیر کے طور پر بے نقاب کر رہا ہے۔

جنوبی افریقہ اور ایران کے استثناء کے ساتھ، بلاک ابھی تک وقت کے امتحان پر پورا نہیں اترسکا۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکا نے اپنا موقف پیش کر دیا ہے۔ یہ اب بھی دنیا کی سپر پاور ہے جب تک کہ BRICS دوسری صورت ثابت نہ کر سکے، اب حالات یہ ہیں کہ اسرائیل دندنا رہا اور اسے روکنے والا کوئی نہیں، جب رکاوٹ ہی کوئی نہیں تو پھر امریکا اور اسرائیل کو کون روک سکتا ہے؟

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بین الاقوامی اور اسرائیل کے بارے میں اسرائیل کا اسرائیل کی اسرائیل کے نسل کشی کی کے طور پر نہیں ہے سکتا ہے رہا ہے ہے اور غزہ کے کے لیے غزہ کی دیا ہے اور اس

پڑھیں:

امیر جماعت اسلامی نے 26 اپریل کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کردیا

اسلام آباد:

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے حکومت اور اپوزیشن سے فلسطین اور مسئلہ کشمیر پر متحد ہونے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ 26 اپریل کو ملک بھر میں ہڑتال ہوگی اور 27 اپریل کو اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔

امیرجماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے اسلام آباد میں غزہ مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے حکمران سوئے ہوئے ہیں، ہم نے کہا تھا امریکی سفارت خانے کی طرف مارچ کریں گے، حکمران طبقہ اسرائیل اور امریکا سے ڈرتا ہے اور حکمرانوں نے پورے اسلام آباد کو بند کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ امریکا ایک قاتل ملک ہے، اسرائیل کو امریکی پشت پناہی حاصل ہے، فلسطینی امت مسلمہ کی طرف دیکھ رہے ہیں، ہم 26 اپریل کو ہڑتال کرین گے اور 27 اپریل کوآئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کروں گا۔

حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ امریکا میں نوجوان اپنے حکمرانوں کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں، اسرائیل نے فلسطینوں کی زمین پر قبضہ کیا ہوا ہے، فلسطینوں سے کلمے کا تعلق ہے۔

انہوں نے حکمرانوں کومتنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کا سوچنا بھی مت، اٹھو اور فلسطین کا مقدمہ لڑو، امریکا کو آج پیغام دیا، تم غلام ابن غلام ہو لیکن محمد کے غلاموں کو امریکا کی غلامی قبول نہیں ہے۔

امیر جماعت اسلامی نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں حماس کا دفتر کھولا جائے، حماس کے مجاہد قابض فوجیوں سے لڑ رہے ہیں اور امریکا نے حماس کو اقتدار میں نہیں آنے دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کوئی کام نہیں کر رہی ہے، اپنے کام کروانا ہو تو اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات بھی ہو جاتے ہیں، ذاتی مفاد کے لیے تھر پارکر میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کا اتحاد بھی ہو جاتا ہے۔

حافظ نعیم الرحمان نے حکومت اور اپوزیشن کو مخاطب کرکے کہا کہ تنخواہوں میں اضافہ کروا لیتے ہولیکن امریکا کی مذمت نہیں کرتے۔

انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے کہتا ہوں کشمیر اور فلسطین کے معاملے پر ایک ہوجاؤ، فلسطین کا معاملہ انسانیت کا ہے، بچوں کوشہید کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یرغمالیوں کا تحفظ حماس نے کیا ہے لیکن اسرائیل اپنی قید میں موجود فلسطینوں کے ساتھ انسانیت سوز ظلم کر رہا ہے، مسلمانوں پر جہاد فرض ہے، ہم بائیکاٹ کریں گے، فلسطینوں کے لیے پسندیدہ کھانے پینے کی اشیا چھوڑ سکتے ہیں، سوشل میڈیا پر جہاد کریں گے کیونکہ حکمران جہاد کرنے نہیں دیتے۔

امیرجماعت اسلامی نے کہا کہ بلوچ حقوق مانگ رہے اور پشتون امن مانگ رہے ہیں، سندھ کے لوگ کینال کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔

دریں اثنا جماعت اسلامی کے ریڈزون کے اندر غزہ مارچ  کے اعلان پر وفاقی پولیس نےفیض آباد، زیرو پوائنٹ اور ریڈزون سمیت ریڈزون کی طرف جانے والے تمام راستے سیل کردیےتھے لیکن پھر جماعت اسلامی اور حکومت کے مابین رابطہ کے بعد اسلام آباد ہائی وے پر آئی ایٹ پل کے قریب احتجاج مارچ اور جلسے کی اجازت دے دی گئی۔

احتجاج کے لیے جماعت اسلامی کے ہزاروں کارکن بسوں، کاروں اور دیگر گاڑیوں پرقافلوں کی شکل میں وہاں پہنچے، اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری سیکیورٹی کے لیے تعینات رکھی گئی تھی، امیر جماعت اسلامی کے خطاب کے بعد غزہ مارچ کے مظاہرین پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔

متعلقہ مضامین

  • لاہور، آئی ایس او کی اسرائیلی بربریت کیخلاف احتجاجی ریلی
  • ہالی ووڈ اداکارہ انجلینا جولی کا غزہ کی حمایت کا اعادہ
  • 26؍اپریل کو مکمل ملک گیر ہڑتال ہو گی، حافظ نعیم الرحمان
  • اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کرنے پر پاکستانیوں کے مشکور ہیں، حماس رہنما
  • امیر جماعت اسلامی نے 26 اپریل کو ملک گیر ہڑتال کا اعلان کردیا
  • حکمران امریکا اور اسرائیل سے ڈرتے ہیں، حافظ نعیم الرحمان کا غزہ مارچ سے خطاب
  • حکمران امریکا اور اسرائیل سے خوف کھاتے ہیں:حافظ نعیم الرحمٰن
  •   حکمران امریکا اور اسرائیل سے خائف، ہمیں متحد ہونا پڑے گا، حافظ نعیم الرحمٰن
  •  او آئی سی انجمن غلامان امریکہ ہے، یمن اور ایران مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں، مشتاق احمد 
  • امریکا فلسطینیوں کے قتل میں برابر کا شریک ہے: حافظ نعیم الرحمان