ملک کی بڑی صنعتوں کی پیدوار میں تشویش ناک کمی
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین ۔ 27 جنوری 2025ء ) ملک کی بڑی صنعتوں کی پیدوار میں تشویش ناک کمی، وزارت خزانہ کی جانب سے بڑی صنعتوں کی پیداوار منفی 3.8 فیصد ہو جانے کی تصدیق کر دی گئی۔ تفصیلات کے مطابق وفاقی وزارت خزانہ مالی سال 2025 کے پہلے 6 ماہ کی اقتصادی کارکردگی رپورٹ کا اجراء کردیا ہے۔ رپورٹ میں جولائی سے دسمبر تک کی اقتصادی کارکردگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں ملک کی بڑی صنعتوں کی پیدوار میں تشویش ناک کمی ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے۔ وزارت خزانہ کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ میں ملک کی بڑی صنعتوں کی پیداوار منفی 3 عشاریہ 8 فیصد رہی۔ بڑی صنعتوں کی پیدوار کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری میں بھی کمی ہوئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ملکی معیشت نے مالی سال 2025 کی پہلی ششماہی میں بہتری کی طرف سفر جاری رکھا، رواں سال جی ڈی پی گروتھ میں 2.5 فیصد اضافہ ہوا۔
(جاری ہے)
داخلی و بیرونی مالی اکاؤنٹس کے اضافی استحکام سے بھی معیشت میں مثبت روانی پیدا ہوئی، پہلی ششماہی میں افراط زر کی شرح پچھلے سال کے 28.8 فیصد سے گر کر 7.2 فیصد کی شرح پر آگئی۔ پہلی ششماہی میں ترسیلات زر، برآمدات اور درآمدات میں اضافہ ہوا، اسٹیٹ بینک کے مالی ذخائر میں اضافہ اور روپے کی قدر میں استحکام رہا۔ ترسیلات زر میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 29.3 فیصد کا اضافہ ہوا ۔ مالی سال 2024 میں زرعی ترقی میں 6.2 فیصد اضافہ ہوا۔ واضح رہے کہ ملک کی بڑی صنعتوں کی پیدوار میں کمی کے حوالے سے حال ہی میں مشیر خزانہ مزمل اسلم کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ وفاقی حکومت ایک طرف اڑان پروگرام میں لمبی لمبی اڑان کے دعوے کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف ملک کی معیشت کا تختہ نکل گیا ہے۔ مزمل اسلم نے انکشاف کیا کہ وفاقی حکومت کے اپنے جاری کردہ شماریات کے مطابق ملک میں نومبر میں صنعت کی پیداوار منفی 4 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے۔ جبکہ گزشتہ 5 ماہ میں مجموعی صنعتی پیداوار منفی 1.2 فیصد ہوگئی۔ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پیداوار منفی اضافہ ہوا مالی سال
پڑھیں:
پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری پر تشویش ہے، افغان وزیر خارجہ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اپریل 2025ء) پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار نے آج افغانستان کے دارالحکومت کابل پہنچنے کے بعد طالبان انتظامیہ کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات کی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق اعلیٰ سطحی مذاکرات میں 'سلامتی سمیت دو طرفہ مسائل کو مثبت ماحول میں حل کرنے کے لیے بات چیت جاری رکھنے' پر اتفاق کیا گیا۔
وزارت خارجہ کے بیان میں مزید کہا گیا کہ اسحاق ڈار نے علاقائی تجارت اور رابطے کے فوائد کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے لیے خاص طور پر سکیورٹی اور بارڈر مینجمنٹ سے متعلق مسائل کو حل کرنے کی بنیادی اہمیت پر زور دیا۔ اس کے علاوہ دونوں فریقوں نے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کے اپنے عزم کا اعادہ کیا اور اعلیٰ سطحی روابط کو برقرار رکھنے کی اہمیت پر بھی اتفاق کیا۔
(جاری ہے)
پاکستان سے افغان مہاجرین کی ملک بدری کا معاملہپاکستان کے وزیر خارجہ طالبان حکام سے ملاقات کے لیے ایسے وقت میں افغانستان پہنچے ہیں جب ان کی حکومت نے صرف دو ہفتوں میں 85,000 سے زائدافغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے جمعہ کو کہا کہ ان میں سے نصف سے زیادہ بچے تھے۔ وہ ایک ایسے ملک میں داخل ہو رہے ہیں جہاں لڑکیوں پر سیکنڈری اسکول اور یونیورسٹی جانے پر پابندی ہے اور خواتین کو کام کے کئی شعبوں سے روک دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے دوران افغان شہریوں کی پاکستان سے ملک بدری پر 'گہری تشویش' کا اظہار کیا۔
افغان وزارت خارجہ کے نائب ترجمان ضیاء احمد نے ایکس پر کہا، "متقی نے پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کی جبری ملک بدری کی صورت حال پر گہری تشویش اور مایوسی کا اظہار کیا اور پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ وہاں مقیم افغانوں اور یہاں آنے والوں کے حقوق کو دبانے سے گریز کریں۔
" احمد نے مزید کہا کہ پاکستانی وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے افغان حکام کو یقین دلایا کہ افغان باشندوں کے ساتھ "بدسلوکی نہیں کی جائے گی۔"اسلام آباد نے اپریل کے آخر تک 800,000 سے زائد ایسے افغان باشندوں کو واپس بھیجنے کے لیے ایک سخت مہم شروع کی ہے جن کے رہائشی اجازت نامے منسوخ ہو چکے ہیں۔ ان میں کچھ ایسے افغان بھی ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے یا کئی دہائیوں سے وہاں مقیم تھے۔
'سرحد پار دہشت گردی' پر پاکستان کے تحفظاتپاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کابل دورے کے دوران افغانستان کے عبوری وزیر اعظم ملا محمد حسن اخوند سے بھی ملاقات کی۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے جاری کردہ بیان کے مطابق بات چیت میں سلامتی و تجارت جیسے معاملات پر گفتگو کی گئی۔
افغانستان روانگی سے قبل سرکاری میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے سے خدشات ہیں، اور اس معاملے پر افغان فریق سے بات چیت کی جائے گی۔
پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں حالیہ تناؤ کی بڑی وجہ پاکستان کے سرحدی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملے اور دہشت گردی کے بڑھتے واقعات ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ سال پچھلی ایک دہائی کے دوران سب سے مہلک رہا۔ اسلام آباد کی طرف سے کابل پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو افغانستان میں پناہ لینے کی اجازت دے رہے ہیں۔ پاکستان کا دعوٰی ہے کہ دہشت گرد وہاں سے پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ طالبان حکومت اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
ادارت: عاطف بلوچ