Express News:
2025-04-22@14:13:26 GMT

ہوا میں اڑتے ننھے جنگجو شکر خورے

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

ابھی چھ بھی نہیں بجے تھے لیکن امریکی ریاست اریزونا کی وادی دھوپ سے جگمگا اٹھی تھی۔ پچاس سالہ میرون پیٹن جب اپنے باورچی خانے میں گئیں تو انہیں کھڑکی سے نظر آیا کہ ساتھ والے باغ میں بیس پچیس لوگ بیٹھے ہیں جنہوں نے آنکھوں پر دوربینیں لگا رکھی ہیں۔

پیٹن اب مکمل طور پر ان کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ اچانک انہیں ایک آواز آئی’’دائیں طرف صنوبر کے درخت پر گھاٹی شکر خورا اڑ رہا ہے۔‘‘ ساری دوربینیں دائیں طرف ہو گئیں۔ تھوڑی دیر بعد آواز آئی’’پیلا شکرخورا ہمارے پیچھے گانا گا رہا ہے۔‘‘ سب لوگ پیچھے مڑ کر دیکھنے لگے۔ یہ سب پرند نگاہ باز(Bird watchers) تھے جن کی رہنمائی ایک رہنما (گائیڈ)کررہا تھا۔ جلد ہی سب دوربینیں دوبارہ پیٹن کے گھر کی طرف جم گئیں کیونکہ ان کے صحن میں ایسی تھیلیاں لٹک رہی تھیں جن میں میٹھا پانی موجود تھا۔ ان کے اردگرد شکر خورے (Hummingbirds) گھوم رہے تھے۔ یہ وہ ننھی منی مخلوق ہے جسے ایک فطرت پسند، جان جیمز نے ’’قوس قزح کے چمکتے دمکتے پارے‘‘ کہا ہے۔

درحقیقت پیٹن کے صحن میں نظر آتے قوس قزحی رنگ ایک رنگا رنگ منظر پیش کررہے تھے لیکن رنگوں کے شائق ناظرین کے سامنے خاصاتشدد پسند منظر بھی تھا۔ ہمہ اقسام کے شکرخورے ایک دوسرے کو ٹھونگے مارتے میٹھے رس سے بھری تھیلیوں تک پہنچنے کی کوشش کررہے تھے۔ دراصل پیٹن کا گھر اس راستے پر ہے جس سے گزر کر شکر خورے موسم سرما میں گرم علاقوں کی طرف جاتے ہیں۔ اسی لیے ہجرت کے زمانے میں پیٹن کے گھر گیارہ، بارہ اقسام کے شکر خورے اور ساتھ والے باغ میں چالیس پچاس پرند نگاہ باز روزانہ آتے ہیں۔ ٹام وڈ پیٹن کے گھر کے قریب ہی رہتے ہیں اور شکرخوروں کی ہجرت کے زمانے میں لوگوں کی رہنمائی کرتے ہیں۔ ان کی بیوی، شیری بھی ایک رہنما ہے۔ ٹام کہتے ہیں ’’شکرخورے عام لوگوں میں دیومالائی پرندے سمجھے جاتے ہیں۔ لوگ انہیں بڑے تعجب سے دیکھ کر کہتے ہیں کہ یہ بہت پیارے لیکن کتنے چھوٹے ہیں۔‘‘

مارٹن کہتے ہیں ’’میں فوراً انہیں جواب دیتا ہوں’’جی ہاں! یہ واقعی بہت ننھے منے ہیں۔‘‘

٭٭

یہ درست ہے کہ گرم خون والے جانوروں میں شکرخورے سب سے پست قد ہیں لیکن ساتھ ساتھ سب سے زیادہ خودغرض بھی ہیں… شاید یہ بات پڑھ کر کئی مردوزن تلملائیں لیکن یہ حقیقت ہے۔ جب ایک سائنسی ادارے نے شکر خورے کی بادامی رنگ کی قسم پر تحقیق کی تو اپنی رپورٹ میں یہ ہردلعزیز رائے بھی شامل کی:’’معاشرتی رویہ: کوئی نہیں‘ صرف اپنی بقا مدِنظر رہتی ہے۔‘‘

ٹام وڈ کے ہمراہی دوربینیں آنکھوں سے لگائے مسلسل میٹھے رس سے بھری تھیلیوں کی طرف دیکھ رہے تھے۔ قوس قزح کے چمکتے دمکتے پارے چیختے چلاتے ایک دوسرے پر کراری ضربیں لگا رہے تھے تاکہ سب سے پہلے شیریں پانی پی سکیں۔ٹام کہتے ہیں ’’لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ ننھی منی پریاں ہیں لیکن حقیقتاً یہ چھوٹے چھوٹے اجسام میں جنگجوہواباز ہیں۔ کل ہی میں نے دیکھا کہ ہوا میں اڑتے اڑتے ایک شکرخورا دوسرے سے جاٹکرایا اور اپنی چونچ اس کے سینے میں گھونپنے کی کوشش کرنے لگا۔‘‘ وہ شانے اچکاتے ہوئے کہتے ہیں’’انسان خوش قسمت ہیں کہ یہ اڑتے جنگی جہاز کوئے جتنے بڑے نہیں ہیں ورنہ باغات اور جنگلات میں ہمارا چلنا پھرنا مشکل ہو جاتا۔‘‘

٭٭

بات یہ ہے کہ شکر خورا اپنے غضب ناک نظام استحالہ (Metabolism) کا غلام ہے۔ (یاد رہے کہ استحالہ زندہ عضویوں میں وہ مجموعی کیمیائی تبدیلی ہے جس کے ذریعے خوراک نخرمایہ(پروٹوپلازم) میں تبدیل ہوتی ہے پھر نخرمایہ ٹوٹ کر عضویے کو توانائی فراہم کرتے ہوئے فضلے کی شکل اختیار کر لیتا ہے) کیوبا میں پائے جانے والی شکر خورے کی ایک قسم،مکھی شکر خورے کا وزن صرف دوگرام ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ زیادہ وزنی اقسام مثلاً بادامی رنگ یا چوڑی دم والے شکر خوروں کا وزن بھی ایک چھوٹے سکے سے کم ہوتا ہے۔ چھوٹی جسامت انہیں پرُکشش بناتی ہے… لیکن ان کی غصیلی، انتہائی تیز رفتار اور لڑائی جھگڑے والی طرز زندگی کو بھی ظاہر کرتی ہے۔

یہ ننھے پرندے پھولوں کا رس چوس کر اپنا پیٹ بھرتے اور توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایک عام شکر خورے کو روزانہ 30 سے 50 کلو جول (Joule)توانائی درکار ہوتی ہے۔ یہ عدد بظاہر سادہ سا لگتا ہے لیکن تخمینہ لگانے پر حیرت انگیز انکشاف ہوتا ہے۔ ایک جول ایک ہزار جول کے برابر ہوتے ہیں۔( جول توانائی یا کام کی وہ مقدار ہے جو میٹر کلو گرام سیکنڈوں کی اکائی کی شکل میں اس توانائی کے برابر ہے جو ایک نیوٹن قوت کو ایک میٹر فاصلے تک صرف کرنے کے لیے درکار ہوتی ہے)

ذرا سوچیں کہ اسی کلو کے ایک آدمی کو روزانہ ساڑھے آٹھ لاکھ کلو جول توانائی کی ضرورت ہو تو اس کا کیا حال ہوگا؟ یعنی اسے روزانہ 74کلو وزنی بھنے قیمے کے سینڈوچ کھانے پڑیں گے۔ ایک شکرخورا اسی صورت میں زندہ رہ سکتا ہے کہ روزانہ ایک ہزار پھولوں کو تلاش کرے اوران کا رس پیئے۔ اسی وجہ سے یہ خوبصورت، ننھامنا پرندہ خوراک حاصل کرنے کے معاملے میں وحشی جانور کی مانند خونخوار ہے۔

٭٭

امریکہ کے مشہور پہاڑی سلسلے، راکی ماؤنٹین پر ایک جگہ ماہرین حیوانیات نے اپنا تحقیقی مرکز قائم کیا ہوا ہے۔ مرکز کے ایک ماہر، بل کلاڈرنے نرمی سے ایک بادامی رنگ شکرخورا پکڑ رکھا ہے، جولائی کا مہینہ ہے اور شکرخورے کی دیگر اقسام کی مادائیں ابھی انڈوں پر بیٹھی ہیں لیکن یہ انگوٹھے جتنا پرندہ اڑتے ہوئے تقریباً 3200 کلومیٹر طے کر چکا تھا۔ یہ موسم گرما گزارنے مغرب کی طرف گیا تھا اور اب موسم سرما گزارنے میکسیکو جا رہا ہے۔ کلاڈر نے جب بادامی رنگ شکر خورے کو سورج کے سامنے کیا تو اس کی گردن پر موجود رنگین دھبے یعنی گردن پوش نارنجی اور سرخ رنگ چمکنے اور جھلملانے لگے۔ گردن پوش کے چمکتے رنگ ماداؤں کے لیے باعثِ کشش ہیں اور ساتھ ساتھ حملہ آوروں کو خوفزدہ کرتے ہیں۔ اگرچہ کلاڈر کے مطابق یہ قوس قزحی رنگ شکر خورے کی انتہائی برق رفتار زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ کلاڈر کے مطابق ’’شکر خورے کو ہاتھ میں پکڑیں تو لگتا ہے کہ انگارہ پکڑ لیا ہے۔‘‘

کلاڈر پرندے کو اپنے کمرے میں لے گئے، اس کا وزن کیا،ٹانگ پر ایک شناختی چھلا ڈالا، باہر آئے اور اسے آزاد کر دیا۔کلاڈر اپنی بیگم، لورین کے ہمراہ پچھلے تیس برسوں سے شکر خوروں پر تحقیق کررہے ہیں۔ تحقیقی مرکز میں ان کا بنیادی موضوع یہ ہے کہ پرندے روزمرہ کی اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اپنے جسمانی وزن کو کیسے اچھی حالت میں رکھتے ہیں؟

کلاڈر ارینرونا یونیورسٹی میں حیاتیات کے پروفیسر بھی ہیں۔ انہوں نے کلوریڈو (ریاست) میں اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ دریافت کیا کہ چوڑی دم والا شکر خورا صرف ایک گھنٹے میں غذا کی تھیلی کی طرف چالیس دفعہ محض اس لیے جاتا ہے تاکہ رقیبوں کو بھگا سکے۔ اس کے علاوہ وہ اسی ایک گھنٹے میں پینتالیس بار ہوا میں تیر کے مانند تقریباً بیس میٹر اوپر جاتا اور واپس آتا ہے۔ ماہرین اسے جنسِ مخالف کو رجھانے کا نمائشی رویہ قرار دیتے ہیںلیکن اس زبردست سرگرمی کے نتیجے میں شکرخورے کی بہت توانائی خرچ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود اگر چوڑی دم والے نر شکر خورے کے سامنے بے شمار پھول ہوں تب بھی وہ دن بھر بہت کم خوراک کھاتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اگر اس کا پیٹ بھرا ہو تو اس کی اڑنے کی رفتار کم ہو جاتی ہے۔ وہ پھر مخالفین کا پیچھا نہیں کر سکتا اور ماداؤں کو رجھا نہیں پاتا۔ اسی لیے شکرخورا شام کا انتظار کرتا ہے پھر اسے کھانا کھانے کا دورہ پڑجاتا ہے۔ وہ بے شمار پھولوں کا رس چوستا ہے حتیٰ کہ اس کا پیٹ بھر جاتا ہے اور اسے وہ توانائی مل جاتی ہے جو رات گزارنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔ چوڑی دم نر شکرخورے کے شب و روز اسی طرح گزرتے ہیں۔

٭٭

مشہور ہے کہ شکر خورے پھولوں کا رس سب سے زیادہ چوستے ہیں لیکن وہ چکنائی اور لحمیات بنیادی طور پر کیڑے مکوڑوں سے حاصل کرتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کی زندگی کے بیشتر پہلو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ شکرخورے پھولوں سے محبت کرنے والے پرندے ہیں۔ انسانوں میں خصوصاً ان کی اڑان کا طریقہ مقبول ہے۔ یہ ننھے منے پرندے ناقابل یقین درستگی کے ساتھ اڑتے اڑتے پھولوں پر ٹھہرتے یا منڈلاتے ہیں۔ شکر خورے اپنی جسامت کے حساب سے تمام پرندوں کو اڑنے میں مدد دینے والے سب سے بڑے عضلات رکھتے ہیں جو ان کے کل وزن کا تیس فیصد ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان کے جسم میں جتنی جسامت کا دل ہونا چاہیے، توقع کے مطابق اس سے دگنی جسامت کا دل ہوتا ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق اڑتے ہوئے شکر خورے کا دل فی منٹ بارہ سو بار دھڑکتا ہے۔ بڑے پرندوں کے برعکس شکرخورے کے جسم میں خون کے سرخ خلیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے تاکہ عضلات کو مسلسل آکسیجن ملتی رہے۔

جب شکر خورا رس چوسنے کے لیے ہوا میں معلق ہوتا ہے تو اس کے پر افقی سمت پھڑپھڑاتے ہوئے آٹھ کے ہندسے جیسی شکل اختیار کرتے ہیں۔ ایک تجربے کے دوران معلوم ہوا کہ چوڑ ی دم شکر خورا اڑتے ہوئے فی منٹ 2280بار اپنے پروں کو پھڑپھڑاتا ہے…یہ انتہائی برق رفتاری کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اسی صلاحیت کا نتیجہ ہے کہ شکر خورا اڑتے اڑتے رک سکتا ہے یا آگے پیچھے اور اوپر نیچے جا سکتا ہے۔ عقاب، اُلو اور دوسرے شکاری پرندے شکرخورے سے کئی گنا بڑے ہیں لیکن عموماً شکرخورا انہیں برق رفتار اڑان کے ذریعے غچہ دے جاتا ہے۔

٭٭

شکر خورے بہت ذہین بھی ہوتے ہیں۔ وہ موسم گرما الاسکا اور موسم سرما میکسیکو کے قریبی علاقوں میں گزارتے ہیں۔ اکثر شکرخورے آتے جاتے پھولوں کے جھنڈ یا پرندوں کے دیوانوں کے گھروں میں لٹکی رس سے بھری تھیلیوں کو یاد رکھتے ہیں۔ ایک عورت نے ماہرین کو بتایا کہ میں نے لٹکی تھیلی ہٹا دی لیکن ایک شکرخورا مسلسل تین برس تک تھیلی سے رس پینے آتا رہا۔

زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ شکر خورے دن میں سینکڑوں پھولوں کا رس چوستے ہیں لیکن ہر پھول کو یاد رکھتے ہیں۔ انہیں یاد رہتا ہے کہ کس پھول میں ابھی رس ہے اور کس میں ختم کیا جا چکا ہے۔ جس پھول میں رس باقی ہو، وہ اسی کی طرف آتے ہیں۔ ایک تجربے کے دوران ماہرین نے باغ میں سولہ مصنوعی پھولوں میں رس کی مختلف مقدار بھر کررکھی۔ چند پھولوں میں آہستہ آہستہ رس بھرا گیا اور چند میں تیزی سے۔ دیکھا یہ گیا کہ شکرخورے ہر پھول کا معاینہ کر کے انہی پھولوں سے رس چوستے جن میں زیادہ رس ہوتا اور جنہیں تیزی سے دوبارہ رس سے بھراجاتا۔

یہ چالاک،ہوشیار‘ چھوٹے سے پرندے جب بے قراری کے عالم میں غذا تلاش کرتے ہیں تو ہر اس کونے کھدرے کا جائزہ لیتے ہیں جہاں سے خوراک ملنے کا امکان ہوتا ہے۔ اگر باغ میں پھول اب تک نہیں کھلے تو وہ لوگوں کے گھروں میں تھیلیوں سے شکر پانی پیتے ہیں۔ اگر بروقت تھیلیوں میں رس نہ بھرا جائے تو سب سے پہلے آنے والے بھوکے شکرخورے آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ظاہر ہے، وہ مطلق مطلب پرست ہیں۔ انہیں صرف رس درکار ہوتا ہے… اور فوراً سے پیشتر چاہیے ہوتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رکھتے ہیں ہے کہ شکر ہیں لیکن کرتے ہیں کہتے ہیں کے مطابق یہ ہے کہ جاتا ہے رہے تھے ہوتی ہے پیٹن کے ہوا میں خورے کی ہوتا ہے ہیں کہ کے گھر کی طرف کے لیے تے ہیں

پڑھیں:

پیپلز پارٹی کو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑا تو 2 منٹ نہیں لگائیں گے، ناصر حسین شاہ

خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سندھ کے صوبائی وزیر نے کہا کہ جو بھی پانی دریائے سندھ سے نکالا جائے گا اس سے سندھ کا پانی کم ہوگا، وزیراعظم، اسحاق ڈار، راناثنا اللہ کے کچھ بیانات مثبت تھے لیکن کچھ لیگی رہنماؤں نے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کوشش کی۔ اسلام ٹائمز۔ صوبائی وزیر توانائی سندھ سید ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑا تو 2 منٹ نہیں لگائیں گے، اگر پیپلز پارٹی ن لیگ کا ساتھ نہ دیتی تو الیکشن ہونے میں 9 سال لگ جاتے۔ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سید ناصر شاہ نے کہا کہ جو بھی پانی دریائے سندھ سے نکالا جائے گا اس سے سندھ کا پانی کم ہوگا، وزیراعظم، اسحاق ڈار، راناثنا اللہ کے کچھ بیانات مثبت تھے لیکن کچھ لیگی رہنماؤں نے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پر امید ہیں وزیراعظم مثبت فیصلہ کریں گے لیکن کوئی بات نہیں ہو رہی اسی لیے بلاول بھٹو نے جلسوں کی بات کی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • فلم اسٹار خوشبو خان نے اپنی زندگی کے دکھوں سے پردہ اٹھا دیا
  • پیپلز پارٹی کو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑا تو 2 منٹ نہیں لگائیں گے، ناصر حسین شاہ
  • ’بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے‘، برسوں پیسہ جوڑ کر فراری خریدنے والے کی خوشی چند منٹوں کی نکلی
  • بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری قبول نہیں، دھرنا جاری رہے گا، رخسانہ انور
  • بلاول کو پنجاب کے کسان کا خیال آگیا لیکن سندھ کے کسان کی بات نہیں کی، عظمی بخاری
  •  خیبر پختونخوا کی بے اختیار بلدیاتی حکومتیں اور نمائندے 3 سال گزرنے کے باوجود فنڈز سے محروم
  • ریاست اپنی جگہ لیکن کسی کی زندگی سےکھیلناقابل قبول نہیں:عظمیٰ بخاری
  • فیکٹ چیک: کیا سابق چینی وزیر اعظم نے واقعی سزائے موت کی تجویز دی؟