سائنسدانوں کو ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے کا حل مل گیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
سائنس دانوں نے ایک ایسا نیا گرین میوٹنٹ مائکروب دریافت کیا ہے جسے ’چونکس‘ کا نام دیا گیا ہے، یہ چونکس آب و ہوا کی تبدیلیوں سے لڑنے اور فضا سے بڑی مقدار میں کاربن کو اپنے اندر ذخیرہ کرنے والی خصوصیات رکھتا ہے۔
سائنس نیوز کے مطابق مائیکروبائیولوجسٹ میکس شوبرٹ کی سربراہی میں ایک تحقیقی ٹیم نے اٹلی کے ولکانو جزیرے کے ساحل کے قریب جہاں سورج کی روشنی پڑتی ہے وہاں گہرے پانیوں میں سبزمیوٹنٹ مائکروب کو دریافت کر لیا ہے،جسے انہوں نے ’چونکس‘ کا نام دیا ہے۔
میکس شوبرٹ کی تحقیقی ٹیم ان چھوٹے جانداروں کی تلاش کے لیے پانی میں اتری جو فوٹو سینتھیسس کے عمل کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ لیتے ہیں لیکن انہیں ان جانداروں کی جگہ سائنو بیکٹیریا کی ایک قسم جو فوٹو سینتھیسس کا تیزی سے عمل کرتی ہے، کی قدرتی طور پر پیدا ہونے والی متغیر قسم کا پتا چلایا ہے۔
سینیکوکوکس ایلونگیٹس تیزی سے بڑھنے کے لیے جانا جاتا ہے اور مختلف قسم کے حالات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، چونکس مائکروب سپر پاور ورژن کے طور پر سامنے آیا ہے۔
جب تحقیقاتی ٹیم نے اسے لیبارٹری میں ٹیسٹ کیا تو معلوم ہوا کہ سائنو بیکٹیریا کے مقابلے میں انفرادی چونکس کے خلیات کئی زیادہ تیزی سے بڑھتے ہیں۔ ان خلیات کی میں بڑی تعداد میں اضافہ بھی دیکھا گیا۔
’چونکس‘ کو سینیکوکوکس ایلونگیٹس کی کسی بھی دوسری قسم کے مقابلے میں زیادہ کاربن ذخیرہ کرتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ تحقیق میں پتا چلا کہ چونکس مائکروب اپنے خلیوں کے اندر کاربن کو تیزی سے پیک کرتا ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ لیبارٹری میں دیکھا گیا کہ چونکس دیگر مائکروب میں تیزی سے بھاری ہو جاتا ہے اور ٹیسٹ ٹیوب میں رکھے جانے کے بعد اس کے خلیات تیزی سے نیچے کی طرف ڈوب گئے اور گھنی شکل اختیار کر لی۔
محققین نے کہا ہے کہ چونکس کی اتنی بڑی مقدار میں کاربن ذخیرہ کرنے کی صلاحیت سے موحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پانے میں بہت حد تک مدد حاصل کی جا سکتی ہے، یہ آب و ہوا کو گدلا کرنے والے کاربن کو ہوا سے کھینچ کر اپنے خلیات میں پیک کر کے فوری سمندر کی تہہ میں ذخیرہ کرنے کے لیے بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
اس کے خلیات سمندر کی تہہ میں موجود سائنو بیکٹیریا کے مقابلے میں زیادہ کاربن جذب کرنے کے قابل ہیں اور چونکہ یہ بہت تیزی سے ڈوبنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں، لہٰذا یہ پانی کے اوپر سے کاربن کو ہٹانے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کاربن کو تیزی سے کے لیے
پڑھیں:
خاموش بہار ۔وہ کتاب جوزمین کے دکھوں کی آواز بن گئی
ڈاکٹر جمشید نظر
دنیا بھر میں ہر سال 22اپریل کومدر ارتھ ڈے ” عالمی یوم ارض”منایا جاتا ہے جس کا مقصدزمین پر رہنے والے انسانوں کو زمین کے مسائل اور مشکلات سے متعلق آگاہ کرنا اوراس بات کا شعور پیدا کرنا ہے کہ انسانوں سمیت دیگر جانداروں کے رہنے کے قابل واحد سیارے ”زمین ”کوہر طرح کی آفات اور آلودگی سے محفوظ رکھنے کے لئے مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ زمین کا عالمی دن منانے کا آغاز سن1970 میں امریکہ سے ہواتھا جس میں20ملین لوگوں نے حصہ لیا تھا۔موجودہ سال اس عالمی دن کا موضوع ہے (OUR POWER, OUR PLANET) یعنی ہر جاندار کی سب سے بڑی طاقت اور قوت کرہ ارض ہے کیونکہ زمین سے ہی ہم اپنی خوراک ،پانی اور زندہ رہنے کے لئے بنیادی اشیاء حاصل کرتے ہیں۔
دنیا میںزمین کا عالمی دن منانے کا رحجان ایک بڑے دلچسپ واقعہ سے ہواتھاجس کے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں۔امریکہ کی نامور مصنفہ ”ریچل کارسن”27مئی1907میں پنسلوانیا میں پیدا ہوئی تھی اُس نے اپنی زندگی میں بہت سے موضوعات پر شمار کتابیں لکھیں لیکن زیادہ تر کتابیں سمندری حیاتیات اورماحولیات کے موضوع پر تھیں۔ریچل کارسن کی ایک کتاب سائلنٹ اسپرنگ ”خاموش بہار”کے نام سے سن1962 میں شائع ہوئی تو اس کتاب کے منفرد ،حیرت انگیز تحریری مواد اور انکشافات نے دنیا میں یکدم ہلچل مچادی۔سائلنٹ سپرنگ کتاب میں زمین پر زندگی کو ختم کرنے والی اُن آلودگیوں کے بارے میںانکشاف کیا گیا تھا جوخودانسان کی پیدا کردہ تھیںحالانکہ اُن دنوں انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا بھی نہیں ہوتا تھا کہ ریچل کی تحقیق تیزی سے دنیا میں پھیل جاتی لیکن اس کے باوجودحیرت انگیز طور پرد ریچل کی کتاب ”خاموش بہار”اس قدر تیزی سے مشہور ہوئی کہ دنیا کے 24 ممالک میں اس کی 5لاکھ سے زائد کاپیاں دھڑا دھڑا فروخت ہوگئیں۔اس زمانے میں اتنی بڑی تعداد میںکسی کتاب کا فروخت ہونا ایک بہت بڑا ریکارڈ تھا۔ کتاب کی مقبولیت پر ریچل کوآٹھ مشہور ایوارڈز بھی دیئے گئے۔اسی لئے ریچل کی کتاب”سائلنٹ اسپرنگ” آج بھی دنیا میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں میں سے ایک کتاب سمجھی جاتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد زراعت میںکیڑے مار ادویات کا اندھادھند استعمال کیا جانے لگا تھا جس سے جنگ عظیم کے بعد زندہ بچ جانے والوں انسانوں کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق تھا، ریچل نے اپنی کتاب میں ان خطرات کا ذکر کرتے ہوئے زرعی سائنسدانوں کے طریقوں کو چیلنج کرتے ہوئے قدرتی نظام میں انسان کے بدلتے تصورات کو تبدیل کرنے کا مطالبہ کیاتھا۔اس نے اپنی کتاب کے ذریعے ایک ایسی ماحولیاتی تحریک کو جنم دے دیا تھا جس کی وجہ سے انسانی زندگی میں سائنس کے مقام کی بنیادی تبدیلی کی گئی۔
ریچل کی کتاب کے شائع ہونے پربڑی بڑی کیمیکل کمپنیوں ،اُن کے تجارتی اتحادیوں اور کچھ سرکاری عہدیدارو ںنے ریچل کی تحقیق کو بدنام کرنے اوراس کے کردارکو داغدار کرنے کے لئے تقریبا دو لاکھ پچاس ہزار ڈالرتک خرچ کرڈالے اور یہ افواہ پھیلا دی کہ ریچل ایک گھبرائی ہوئی جذباتی بوڑھی عورت ہے جو بلیوں کی دیکھ بھال کرتی ہے اور جنیات کی سائنس سے پریشان ہے۔ریچل کی کردار کشی کے باوجود اس کی ماحولیاتی تحریک کو دبایا نہ جاسکا۔ کتاب شائع ہونے کے ایک سال بعد سن1963میںریچل نے امریکی کانگریس سے انسانی صحت اور ماحولیات کے تحفظ کے لئے نئی پالیسیاں بنانے کامطالبہ کرتے ہوئے دنیا پرواضح کردیا کہ ماحولیاتی نظام شدید خطرے میں ہے۔اس سے قبل کے امریکی کانگریس ریچل کے مطالبہ پر کوئی ردعمل ظاہر کرتی ریچل سن1964 میں چھاتی کی کینسر کے باعث انتقال کرگئی لیکن اس کی ماحولیاتی تحریک زندہ رہی اور آخرکار ریچل کی تحریک کو عملی جامہ پہناتے ہوئے امریکی سینیٹر گیلارڈ نیلسن نے 22اپریل سن1970کو امریکہ میں تقریباََ 20لاکھ لوگوں،دو ہزارکالجزاوریونیورسٹی،10ہزار گرائمر اورہائی سکول اورایک ہزارکمیونیٹیز کو ماحولیاتی مسائل اور انسان کی وجہ سے ماحول کو درپیش خطرات کی نشاندہی اور تدارک کیلئے اکٹھاکیا اورپہلی مرتبہ ارتھ ڈے منایا۔سن 1995میں سینیٹر گیلارڈ نیلسن کو یومِ ارض تحریک کے بانی کے طور پرامریکہ کے سب سے بڑے سول ایوارڈ سے نوازا گیا۔سن2009 میں اقوامِ متحدہ نے 22اپریل کو” Mother Earth Day ”کے نام سے منسوب کردیا جس کے بعداب ہر سال 22اپریل کو یہ دن دنیا کے 193ممالک میں باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔