Daily Ausaf:
2025-04-22@11:28:55 GMT

علمی زوال کا شکار قومیں ترقی نہیں کر سکتیں

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

طبقاتی نظام کی طرح ہمارا تعلیمی نظام بھی بٹا ہوا ہے۔کہتے ہیں جو قوم اچھی تعلیم سے بہرہ ور نہ ہو،وہ اچھے شعور سے بھی بہرہ ور نہیں ہوتی۔آگہی کے سب راستے اس پر بند ہو جاتے ہیں۔حکومتوں کے کئی دور آئے،کئی جماعتیں برسر اقتدار رہیں مگر کوئی جماعت بھی اپنی توجہ تعلیمی نظام کی بہتری کے لئے مرکوز نہیں کر سکی۔ اسی لئے ہم آزادی کے 77 سال گزرنے کے باوجود بحیثیت قوم آج بھی انحطاط پذیر ہیں۔وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں جو علمی زوال کا شکار ہوں۔ یہ’’انحطاط‘‘ کیوں ہے،اس کے اسباب کیا ہیں ؟ آئیے اس کے متعلق کچھ بات کرتے ہیں۔ دیکھنا پڑے گا تعلیمی اداروں میں ہم اپنے بچوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔کیا پڑھا رہے ہیں؟ ان کی تربیت کیسی ہو رہی ہے؟ ہم انہیں کامیاب بنانا چاہتے ہیں یا ان کے اندر حسد اور غیر سنجیدگی فروغ دے رہے ہیں۔ملک میں ناقص تعلیمی نظام کی بدولت ہم قوم نہیں،ہجوم بن رہے ہیں جو شعور و ادب سے قطعی ناآشنا ہے۔کیونکہ شعور تربیت سے آتا ہے۔تعلیم نے ہی شعور دینا ہوتا ہے اور ادب سکھانا ہوتا ہے۔بدقسمتی سے پاکستان تعلیم کے شعبے میں آج دنیا کے دیگر ممالک سے بہت پیچھے ہے۔وطن عزیز میں آج بھی انگریزوں کا قائم کردہ وہی تعلیمی ڈھانچہ موجود ہے جس کے ذریعے ہم کلرک ہی پیدا کر سکتے ہیں۔ تعلیمی ڈھانچے کی اسی خرابی کے نتیجے میں آج ہم سائنس اور تخلیق کے شعبے میں دنیا کے بہت سے ترقی پذیر ممالک سے ناصرف بہت پیچھے رہ گئے ہیں بلکہ ادراک رکھتے ہوئے بھی نہیں سوچ رہے کہ انحطاط پذیر اس تعلیمی نظام نے ہی ہمیں دنیا سے بہت پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔پاکستان میں آج بھی طبقاتی نظامِ تعلیم موجود ہے جس میں ایک طرف او لیول اور کیمرج سسٹم کے اسکولز ہیں،جن سے صرف دولت مند طبقے کے بچے ہی فیض یاب ہو سکتے ہیں۔تو دوسری جانب سرکاری سکول ہیں جو غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں کی پہنچ میں تو ہیں لیکن ان کی جو حالت زار ہے،اس سے سبھی واقف ہیں۔ ملک بھر میں موجود اکثر اسکولوں کی عمارتیں انتہائی خستہ حالی کا شکار ہیں،ایسے بھی سکول ہیں جہاں واش روم اور بیٹھنے کے لئے کرسیاں نہیں۔ بہت سے اسکول ایسے بھی ہیں جو برسوں سے اساتذہ سے محروم چلے آرہے ہیں۔ سہولیات کے فقدان اور ناقص معیار تعلیم کے باعث غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے بہت سے ذہین طلبا ء بھی تعلیمی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔امیر اور غریب کے تعلیمی معیار میں اس واضح فرق کی وجہ سے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے طالب علم کے آگے بڑھنے کا عمل رک جاتا ہے اور وہ ترقی کا ارتقائی مرحلہ طے نہیں کر پاتا۔ جس کے نتیجے میں پورے ملک پر او لیول اور کیمرج تعلیم حاصل کرنے والوں کا راج رہتا ہے۔جسے نہ تو غریب کے مسائل کا اندازہ ہوتا ہے،نہ ہی وہ انہیں حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ہمارے ملک میں تعلیم کو ایک الگ ہی انداز سے دیکھا جاتا ہے جبکہ حصول علم کا طریقہ بھی باقی دنیا سے الگ ہے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی تعلیم کو حصول روزگار کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے،حالانکہ تعلیم کو علم و دانش کا ذریعہ سمجھا جانا چاہیے۔جہاں ناقص ذریعہ تعلیم ہو گا وہاں ہم رومی اور رازی جیسے عظیم لوگ پیدا ہونے کی امید نہیں لگا سکتے۔علم کے لئے آج وہ جستجو نہیں جس کے لئے مشرق کے مسلمان مغرب اور مغرب کے مسلمان مشرق کی خاک چھانتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک میں سائنسدان نہیں،خادم پیدا ہوتے ہیں،اسی لئے ہمارا سارا انحصار دوسرے ملکوں پر ہوتا ہے۔کسی ٹیکنالوجی کی ضرورت ہو تو دوسرے ملکوں سے منگوانی پڑتی ہے۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے نوجوان صرف روزگار حاصل کرنے کے لئے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔یہ پاکستان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے۔پاکستان میں بعض ایسے علاقے بھی ہیں جو آج بھی تعلیمی اداروں سے محروم ہیں۔کہیں اسکول نہیں،اسکول ہیں تو کالج نہیں۔ وہ نصاب اور معیار تعلیم نہیں جو طالب علموں کے لئے سود مند ثابت ہو سکے۔ تقدیر بدلنے کے لئے ہمیں اچھی تعلیم کی ضرورت ہے۔ لیکن طبقاتی تقسیم کے باعث ہم تعلیمی میدان میں انتہائی گراوٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔تسلیم شدہ امر ہے اقوام کی ترقی صرف علم و تحقیق میں مضمر ہے۔معاشرہ کوئی بھی ہو،ترقی کے لئے اسے ہمیشہ تعلیم اور اس کے نظام کے فروغ کے لئے کوشاں رہنا ہوتا ہے۔تحقیق اور مطالعہ سے ہمیں آگاہی حاصل ہوتی ہے کہ آگے بڑھنا ہے،زندگی میں کامیاب ہونا ہے تو اس کے لئے تعلیم لازم ہے۔ موجودہ نظام تعلیم پر غور کریں تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ آج کے تعلیمی ادارے ایک دوسرے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ اس بھاگ دوڑ نے تعلیمی نظام کا حلیہ ہی بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ موجودہ تعلیمی نظام نے طالب علموں کو رٹا لگانے اور سلیکٹیڈ سٹڈی میں مصروف رکھا ہوا ہے۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ غور وفکر اور مشاہدے کو طالب علم اپنی زندگی کا حاصل بنائیں۔ اس کے عادی بن جائیں لیکن ایسا نہیں ہو رہا۔ محض نوکری کے لئے تعلیم حاصل نہیں کرنی چاہیے۔بلکہ تعلیم ایسی چیز ہے جو انسان کو معاشرے میں اس کی پہچان کراتی ہے۔ دکھ کی بات ہے ہمارے تعلیمی نظام پر غیر پیشہ ورانہ افراد کی کثیر تعداد قابض ہے۔تعلیمی منصوبوں پر اگرچہ حکومت اپنے بجٹ کا کثیر حصہ خرچ کرتی ہے لیکن اس کے پھر بھی خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہوتے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ جب نئی حکومت آتی ہے تو سابقہ حکومت کی تعلیمی پالیسیوں کو نظرانداز کر کے نئی پالیسیاں بنانا شروع کر دیتی ہے۔ تعلیم کی طبقاتی بنیادوں پر تقسیم ہمارے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ملک کے اندر تعلیمی نظام کے بگاڑ کی وجہ بھی یہی طبقاتی تقسیم ہے۔ پھر یہ کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں طالب علموں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور سہولتیں انتہائی کم۔ جہاں سہولتیں بہت کم ہوں گی، وہاں بہت سارے مسائل بھی پیدا ہوں گے۔جس سے بگاڑ آتا ہے۔ سیاسی مداخلت نے بھی ہمارے تعلیمی نظام کو انتہائی نقصان پہنچایا ہے۔ تعلیمی نظام کو درپیش مسائل میں سیاسی مداخلت بھی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ اساتذہ کی تقرریاں اور تبادلے جہاں سیاسی بنیادوں پر ہونے لگیں تو پھر کوئی نظام کیسے چلے گا؟ سیاسی مداخلت سے اساتذہ کی عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے۔اس طرح سے تعلیمی نظام میں گڑ بڑ پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے اور نتیجہ بہت بڑے ’’بلاسٹ‘‘ کی صورت میں ہمارے سامنے آتا ہے۔سلیبس کی تشکیل اور ترتیب و تدوین کا معاملہ بھی ہمیشہ زیر بحث رہا ہے۔پرائمری مڈل اور ہائی کلاسز کے سلیبس کو اگر دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق ماہر اور تجربہ کار اساتذہ اور دانشوروں کی زیر نگرانی ترتیب دیا جائے تو ہائی لیول تک اچھی تعلیم کی بنیاد پڑ سکتی ہے۔بنیاد اچھی اور مضبوط ہو گی تو کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر اس کے بہتر نتائج نکلیں گے۔تمام تر تعلیمی پالیسیاں ایسی بننی چاہئیں جنہیں کوئی تبدیل نہ کر سکے تاکہ یہ تسلسل کے ساتھ سالہا سال چلتی رہیں۔یوں معیار تعلیم میں بہتری آسکتی ہے۔اگر ہم اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرنے میں کامیاب ہو گئے تو سمجھیں بہت بڑا معرکہ سر کر لیا۔ اچھے تعلیمی نظام میں ہی ہماری نجات ہے۔موجودہ نظام تعلیم ہمیں غور و فکر کی دعوت دے رہا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: تعلیمی نظام طالب علم ہوتا ہے رہے ہیں نظام کی نہیں کر کا شکار ہیں جو کے لئے ہے اور آج بھی

پڑھیں:

مشہور ریسلر رے مسٹیریوں سے متعلق بری خبر!

ڈبلیو ڈبلیو ای لیجنڈ رے مسٹیریو ریسل مینیا 41 سے ایک روز قبل انجری کا شکار ہوگئے۔

50 سالہ ہال آف فیمر (جن کی 2023 کے آخر میں گھٹنے کی سرجری ہوئی تھی) ممکنہ طور پر اب ایک اور انجری کا شکار ہوگئے ہیں۔

لاس ویگس میں ہونے والے شو اسمیک ڈاؤن کے دوران وہ ڈریگن لی اور ری فینکس کے ساتھ مل کر چیڈ گیبل اور دی کریڈ برادرز کے خلاف مقابلہ کر رہے تھے۔

تاہم، وہ یہ مقابلہ مکمل نہیں کر پائے اور طبی ماہرین کو اس دوران ان کے پاس دیکھا گیا۔ آف کیمرا رے مسٹیریو کو سہارا دیا گیا کیوں کہ وہ اپنی ٹانگ پر وزن نہیں ڈال پا رہے تھے۔

اس صورتحال کے بعد ان کا ریسل مینیا میں ایل گرانڈے امیریکانو کے خلاف میچ مشکل میں پڑ گیا ہے اور فی الحال اس حوالے سے کوئی اپ ڈیٹ نہیں ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں: سپریم کورٹ
  • ناانصافی ہو رہی ہو تو اُس پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں، سپریم کورٹ
  • ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ کے صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پرریمارکس
  • محکمہ تعلیم کی امبریلہ اسکیموں کے تحت تخمینہ لاگت اور مختص کردہ وسائل میں ہم آہنگی پیدا کی جائے تاکہ وسائل کا ضیاع نہ ہو اور ہر اسکیم مثر انداز سے مکمل ہو، وزیر اعلی بلوچستان میر سرفراز بگٹی
  • جدید تعلیم ہی قوم کی ترقی کا واحد راستہ ہے،جہانگیر ترین
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  • گورننس سسٹم کی خامیاں
  • سندھ کے تعلیمی اداروں میں کیا ہورہا ہے؟
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
  • مشہور ریسلر رے مسٹیریوں سے متعلق بری خبر!