WE News:
2025-04-22@07:19:55 GMT

ویسٹ انڈیز: کالی آندھی سے کالی دھند تک

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

 پاکستانی کرکٹ کا حال گذشتہ 2 دہائیوں سے وہی ہے جو ہماری سیاست اور نظامِ حکومت سمیت دیگر شعبوں کا ہے۔ اِکا دُکا اچھی خبروں کے علاوہ مجموعی طور پر دیکھیں تو ہر طرف مایوسی کے بادل منڈلاتے نظر آتے ہیں۔

کرکٹ میں چند ماہ قبل چند اچھی خبریں ملنا شروع ہوئیں، وہ جو کہا جاتا ہے کہ مکمل تباہی کے بعد ہی بہتری کا سفر شروع ہوتا ہے، تو کرکٹ ٹیم کے کرتا دھرتا شاید اسی خرابی کا انتظار کر رہے تھے اور جب ہم خرابی کے پاتال تک پہنچ گئے تو انھیں خیال آیا کہ معاملات ہاتھ سے نکلتے جا رہے ہیں۔

اس وقت چند کھلاڑیوں نے ٹیم کو ذاتی جاگیر سمجھ رکھا تھا، اقربا پروری اور دوست نوازی عروج پر تھی، جس کا دوہرا نقصان ہو رہا تھا۔

ایک تو شاداب اور حسن جیسے کھلاڑی مستقل ٹیم پر بوجھ بنے ہوئے تھے جب کہ دوسری طرف کئی انتہائی باصلاحیت کھلاڑی مایوسی کے اندھیروں میں جا رہے تھے۔

ایسے میں کچھ بہت اہم فیصلے کیے گئے۔ ایک تو ٹیم میں چند کھلاڑیوں کی برتری کو چیلنج کیا گیا اور بڑے کھلاڑی جو بزعم خود ناگزیر بنے ہوئے تھے، انھیں باہر بٹھایا گیا۔ اس سے نئے لڑکوں کو موقع ملا اورہم نے دیکھا کہ دو تین سیریز کی بات تھی، پاکستان کی ٹیم ایک بہترین ٹیم نظر آنے لگی۔

لیکن پھر ویسٹ انڈیز کی ایک نسبتاً کمزور ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ ہم نے پہلا ٹیسٹ بھاری مارجن سے جیتا اور یوں لگا ویسٹ انڈیز تو اگلے ٹیسٹ میں ان کے سامنے بالکل نہیں ٹک پائے گا۔ لیکن ملتان کا دوسرا ٹیسٹ آج تیسرے دن کے آغاز میں ہی ختم ہو گیا۔

یہ پاکستان کے لیے شرمندگی کا باعث ہے کہ یہ ٹیسٹ سوا دو دن میں ختم ہوا۔ ویسٹ انڈیزاس سے قبل پاکستان میں اب تک صرف چار ٹیسٹ میچ ہی جیت سکا تھا، یہ ان کی پانچویں فتح ہے۔

ہم اپنے سپنرز پر ناز کرتے تھے اور انہوں نے محنت بھی بہت کی، لیکن ویسٹ انڈیز کے سپنرز 2 ہاتھ آگے دکھائی دیے، انہوں نے وہ کام کر دکھایا کہ ہمارے اسپنرز کی کارکردگی بے معنی ہوگئی، کیونکہ ہمارے بیٹرز نے ان کا ساتھ ہی نہ دیا۔

ہمارے بیٹرز جو کسی زمانے میں ویسٹ انڈیز کے فاسٹ بالروں کی کالی آندھی کے سامنے ڈٹ جاتے تھے، سپنرز کی کالی دھند کے سامنے بے بس دکھائی دیے۔ ہم نے سپنرز پر انحصار کیا اور مشکل پچیں بنائیں، لیکن ہمیشہ کی طرح،’’لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا‘‘ والا معاملہ ہوا، اور ویسٹ انڈیز کے سپنر ویری کن نے ہمیں کان پکڑوا دیے۔

ہمارے کھلاڑیوں نے انہیں شاید آسان بھی لیا اور پہلے ٹیسٹ میں کامیابی کے بعد کچھ زیادہ ہی خود اعتمادی کا شکار ہو گئے، پہلی اننگز میں بھی 54 پر 8 آوٹ کرنے کے بعد ویسٹ  انڈیز کی ٹیم کو جب 100 رنز تک محدود کر سکتے تھے، ان کی ٹیل کو وقت دیا اور انھوں نے 163 رنز کر لیے۔

پھر ہم نے بیٹنگ بھی اتنی غیر ذمہ داری سے کی کہ جس کی مثال کم کم ملتی ہے۔ ایسے میں ایک ہی خبراچھی ہے کہ ویسٹ انڈیز کو صورت حال کا تاخیر سے اندازہ ہوا جس کی وجہ سے ہم پہلا ٹیسٹ جیت گئے تھے، سو یہ سیریز برابر ہو گئی۔

اب پاکستان کا ون ڈے کرکٹ کا سیزن شروع ہو رہا ہے، جس میں نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ کے ساتھ ایک تین ملکی سیریز ہے اور اس کے بعد چمپئنز ٹرافی منعقد ہونی ہے۔

پاکستان کوکچھ نئی تبدیلیاں کرنا پڑیں گی، ایک تو فخر زمان کو واپس لانا چاہیے اور اگر صائم ایوب فٹ ہو جاتے ہیں تو ہمیں زمان کے ساتھ ایک شاندار لیفٹ ہینڈرز کی جوڑی دستیاب ہو سکتی ہے۔

صائم کے پاس کئی طرح کے کرکٹ شاٹس ہیں اور وہ ہر سچویشن میں کھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے، وہ بابر اعظم کے برعکس بڑی شاٹس بھی کھیل سکتا ہے۔ اس نے ایشین بیٹسمینوں کے لیے مشکل سمجھی جانے والی پچوں پرشاندار کارکردگی دکھائی اور ٹیم کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

پھر یہ کہ وہ وقت کے ساتھ اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی بھی پوری کوشش کر رہا ہے۔ لیکن اگر وہ فٹ نہ ہوا تو پھر ون ڈے میں فی الحال کسی نمایاں کارکردگی کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

پڑھیں:

علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ

محمکہ ڈاک پاکستان نے پہلا ڈاک ٹکٹ 9 جولائی 1948 کو جاری کیا تھا، اس سے پہلے ڈاک کا نظام کیسے چلتا رہا وہ کہانی پھر سہی، چونکہ آج شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کی 87ویں برسی ہے، اس لیے آج ’اقبال‘ پر جاری کیے گئے ڈاک ٹکٹوں تک محدود رہتے ہیں۔

علامہ اقبال کی 20ویں برسی پر 21 اپریل 1958 کو 3 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے

محمکہ ڈاک پاکستان نے علامہ اقبال کی 20ویں برسی کے موقع پر 21 اپریل 1958 کو 3 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔ جو ڈیڑھ آنہ، 2 آنہ اور 14 آنہ مالیت کے تھے۔ تینوں کا ڈیزائن ایک سا تھا لیکن رنگ الگ الگ تھے۔ ان پر علامہ اقبال کا مشہور شعر ’معمارِ حرم، باز بہ تعمیر جہاں خیز‘ بھی درج تھا۔

ان پر علامہ اقبال کے دستخط کا عکس اور پس منظر میں ’پاکستان‘ اردو، بنگالی اور انگریزی میں لکھا گیا تھا۔ علامہ اقبال کی پیدائش کا سال 1873 لکھا گیا تھا۔( بعد میں حکومتی کمیٹی کی سفارشات کے بعد آئندہ ڈاک ٹکٹوں پر پیدائش کا سال 1877 ہی چھاپا گیا)۔ عبدالرحمان چغتائی کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ انگلینڈ کی کمپنی ’ہیریسن لمیٹڈ لندن‘ نے چھاپے تھے۔

مزید پڑھیں: ’ایسا لگا کہ میں اقبال ہوں اور خود کو پینٹ کر رہا ہوں‘

علامہ اقبال کی 29ویں برسی پر 21 اپریل 1967 کو 2 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے

محکمہ ڈاک نے 21 اپریل 1967 کو علامہ اقبال کی 29ویں برسی پر 2 یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیے۔ عبدالرؤف کے ڈیزائن کردہ 15 پیسے اور 1 روپیہ مالیت کے ٹکٹوں پر علامہ اقبال کے اردو اور فارسی اشعار بھی درج تھے۔ 15 پیسے والے ٹکٹ پر اردو میں یہ شعر درج تھا:

’ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر‘

ٹکٹوں پر علامہ اقبال کا سن پیدائش 1877 اور سن وفات 1938 بھی درج تھا جبکہ اردو اور بنگالی میں ’پاکستان‘ بھی لکھا گیا تھا۔ ان کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ ایک روپیہ والے ٹکٹ پر یہ فارسی شعر درج تھا:

’نغمہ کجا و من کجا، سازِ سخن بہانہ ایست
سوئے قطار می کشم، ناقۂ بے زمام را‘

علامہ اقبال کی سالگرہ کے موقع پر 9 نومبر 1974 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا

9 نومبر 1974 کو علامہ اقبال کی سالگرہ کے موقع پر محکمہ ڈاک نے یادگاری ٹکٹ جاری کیا۔ منور احمد کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 20 پیسے تھی۔ ٹکٹ پر (Iqbal Centenary 1977) اور علامہ اقبال کی تاریخ پیدائش 9 نومبر 1877 اور تاریخ وفات 21 اپریل 1938 بھی درج تھی۔ اس کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ اردو اور انگریزی میں ’پاکستان‘بھی لکھا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: علامہ اقبال اور شاہ عبد العزیز: ایک فکری رشتہ جو تاریخ نے سنوارا

صد سالہ جشن پیدائش کے سلسلے میں 9 نومبر 1975 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا

علامہ اقبال کی صد سالہ جشن پیدائش کی تیاری کے سلسلے میں ایک یادگاری ٹکٹ 9 نومبر 1975 کو ان کی سالگرہ کے موقع پر جاری کیا گیا۔ عادل صلاح الدین کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 20 پیسے تھی۔ ٹکٹ پر (Iqbal Centenary 1977) اور علامہ اقبال کا تاریخ پیدائش 9 نومبر 1877 اور سن وفات 21 اپریل 1938 بھی درج تھا۔

مفکر پاکستان گہری سوچ میں دکھائی دے رہے ہیں جبکہ پس منظر میں ان کی تصانیف (جاوید نامہ، ضرب کلیم، پیام مشرق، بانگ درا، بال جبریل، رموز بیخودی) کے نام بھی درج تھے۔ اس کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ اردو اور انگریزی میں ’پاکستان‘ بھی لکھا گیا تھا۔

علامہ اقبال کی 99ویں سالگرہ کے موقع پر 9 نومبر 1976 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا

صد سالہ جشن پیدائش کی تیاری کے سلسلے میں ایک یادگاری ٹکٹ 9 نومبر 1976 کو علامہ اقبال کی 99ویں سالگرہ کے موقع پر جاری کیا گیا۔ عارف جاوید کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 20 پیسے تھی۔

ٹکٹ پر (Iqbal Centenary 1977) اور علامہ اقبال کا تاریخ پیدائش 9 نومبر 1877 اور سن وفات 21 اپریل 1938 بھی درج تھا۔ اقبال کا مشہور شعر بھی درج تھا:
’فرد قائم ربطِ ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں‘

مزید پڑھیں: ’قوم علامہ اقبال کے افکار کی پیروی کرے‘ صدر اور وزیرِاعظم کا شاعر مشرق کی برسی پر پیغام

صد سالہ جشن پیدائش پر 9 نومبر 1977 کو 5 ٹکٹوں پر مشتمل یادگاری سیٹ جاری کیا گیا

پاکستان میں 1977 کو علامہ محمد اقبال کے صد سالہ جشن پیدائش کے طور پر منایا گیا۔ محکمہ ڈاک 9 نومبر 1977 کو 5 ٹکٹوں پر مشتمل یادگاری سیٹ جاری کیا۔ اخلاق احمد کے ڈیزائن کردہ 20 پیسہ اور 65 پیسہ مالیت کے ٹکٹوں پر اقبال کے فارسی اشعار اور ممتاز ایرانی مصور ’بہزاد‘ کی پینٹنگز شائع کی گئیں۔ ان پر یہ فارسی اشعار درج تھے:

’رفتم و دیدم دو مرد اندر قیام
مقتدی تاتار و افغانی امام‘

’روح رُومی پردہ ہا را بر درید
از پس کہ پارۂ آمد پدید‘

اسی ڈاک ٹکٹ سیٹ کی 1 روپیہ 25 پیسہ اور 2 روپے 25 پیسہ مالیت کی ٹکٹوں پر اقبال کے یہ اشعار درج تھے:

’کوئی اندازہ کرسکتا ہے اُس کے زورِ بازو کا؟
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں‘

’نہ افغانیم و نے ترک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم‘

پانچواں ٹکٹ جس کی مالیت 3 روپے تھی، اس پر علامہ اقبال کا پورٹریٹ شائع کیا گیا تھا۔ ان کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی جبکہ اردو اور انگریزی میں ’پاکستان‘ بھی لکھا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد میں یادگارِ اقبال

23 مارچ 1990 کو قراردادِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر 3 یادگاری ٹکٹ جاری کیے گئے

23 مارچ 1990 کو قراردادِ پاکستان کی گولڈن جوبلی کے موقع پر 3 یادگاری ٹکٹ جاری کیے۔ ان میں سے ایک پر علامہ اقبال کی پورٹریٹ اور ایک ٹکٹ پر ان کا شعر شائع کیا گیا تھا۔ ایک ٹکٹ پر منٹو پارک لاہور کی منظر کشی ہے جہاں قراردادِ پاکستان منظور کی گئی تھی۔ اس تصویر میں اسٹیج پر لگے بینر پر اقبال کا شعر درج تھا:

’جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے اِدھر نکلے‘

ایک ٹکٹ پر علامہ اقبال کو 1930 میں الٰہ آباد جلسہ میں ان کی مشہور تقریر کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جس میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا تھا۔ ایک، ایک روپے مالیت کے ان ٹکٹوں کو آفتاب ظفر نے ڈیزائن کیا تھا۔

14 اگست 1990 کو تحریک آزادی کے اکابرین پر 27 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا گیا

14 اگست 1990 کو محکمہ ڈاک نے تحریک آزادی کے اکابرین پر 27 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا۔ یہ سیٹ قائداعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح اور دیگر رہنماؤں پر مشتمل تھا۔ پروفیسر سعید اختر کے تیار کردہ پینسل اسکیچز سے بنے ہر ٹکٹ کی قیمت ایک روپے تھی۔

علامہ اقبال کی تصویر کے اوپر انگریزی میں ان کا نام اور پیدائش اور وفات کے سال درج تھے جبکہ سب سے اوپر (Pioneers of freedom) لکھا تھا۔

علامہ اقبال اور مولانا رومی کی یاد میں 2 یادگاری ٹکٹ جاری کیے گئے۔

21 اپریل 1997 کو پاکستان اور ایران کے باہمی ثقافتی تعلقات کے اظہار کے طور پر پاکستان اور ایران کے محکمہ ڈاک نے علامہ اقبال اور مولانا رومی کی یاد میں 3، تین روپے مالیت کے 2 یادگاری ٹکٹ بیک وقت جاری کیے تھے۔

ٹکٹوں پر دونوں عظیم شعرا کے فارسی اشعار درج تھے۔ عظیم صوفی شاعر اور روحانی پیشوا مولانا جلال الدین رومی (1252-1148) کے ٹکٹ پر یہ شعر درج تھا: ’بشنو ازنی چون حکایت می کند ۔۔۔ وز جدا ییہا شکایت می کند‘۔

جاوید الدین کے ڈیزائین کردہ ان ڈاک ٹکٹوں کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی، علامہ اقبال کے ٹکٹ پر فارسی کا یہ شعر درج تھا: ’ ای امین حکمتِ اُم الکتاب ۔۔۔ وحدت گم گشتہ خود بازیاب‘۔

مزید پڑھیں: اقبال کی شاعری خود شناسی کی لازوال دعوت ہے، یوم اقبال پر وزیراعظم کا پیغام

14 اگست 1997 کو آزادی کے 50 برس مکمل ہونے پر 4 ٹکٹوں کا یادگاری سیٹ جاری کیا گیا۔

14 اگست 1997 کو پاکستان کی آزادی کے 50 برس مکمل ہونے پر جشن (گولڈن جوبلی) منایا گیا۔ اس موقع پر محکمہ ڈاک نے تحریک آزادی کے اکابرین پر 4 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا۔ یہ سیٹ قائداعظم، علامہ اقبال، لیاقت علی خان، محترمہ فاطمہ جناح پر مشتمل تھا۔

پروفیسر سعید اختر کے تیار کردہ ہر ٹکٹ کی قیمت 3 روپے تھی۔ علامہ اقبال کی تصویر کے اوپر انگریزی میں Golden Jubilee Celebrations (1947–1997)) لکھا تھا۔

9 نومبر 2002 کو 2 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا گیا

محمکہ ڈاک پاکستان نے 2002 کو علامہ اقبال کا سال قرار دیا اور اسی سال 9 نومبر کو ان کے یوم پیدائش کی مناسبت سے 2 یادگاری ٹکٹوں کا سیٹ جاری کیا گیا۔ فیضی امیر کے ڈیزائین کردہ ٹکٹوں کی مالیت فی عدد 4 روپے تھی۔

ان ڈاک ٹکٹوں کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی تھی۔

14 جنوری 2005 کو علامہ اقبال اور میہائی ایمینیسکو کی اسلام آباد میں واقع یادگار پر 2 ڈاک ٹکٹ جاری کیے گئے

پاکستان پوسٹ نے 14 جنوری 2005 کو علامہ اقبال اور میہائی ایمینیسکو کی اسلام آباد میں واقع یادگار پر 2 ڈاک ٹکٹ جاری کیے تھے۔ ٹکٹوں کی فی عدد قیمت 5 روپے ہے جن پر دونوں شاعروں کی تصاویر کے ساتھ پاکستان اور رومانیہ کے جھنڈے بھی ہیں۔

ایک ٹکٹ پر تہذیبوں کے مابین مکالمے کی ضرورت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ یہ ڈاک ٹکٹ عادل صلاح الدین نے ڈیزائن کیے تھے۔ ان کی طباعت پاکستان پوسٹ فاؤنڈیشن پریس نے کی تھی۔

علامہ اقبال کی 75ویں برسی 21 اپریل 2013 کو یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا

علامہ اقبال کی 75ویں برسی کے موقع پر 21 اپریل 2013 کو بھی ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا تھا۔ عادل صلاح الدین کے ڈیزائین کردہ ٹکٹ کی مالیت 15 روپے تھی۔

یہ علامہ اقبال پر جاری کیا گیا پہلا ڈاک ٹکٹ تھا جس پر شاعر، فلاسفر اور سوشل ریفارمر بھی درج کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: لاہور کی جاوید منزل جہاں سے آج بھی شاعر مشرق علامہ اقبالؒ کی خوشبو آتی ہے

پاک ترک سفارتی تعلقات کے 70 سال مکمل ہونے پر مشترکہ یادگاری ڈاک ٹکٹ کا اجرا

9 نومر 2017 کو پاکستان اور ترکی کے درمیان سفارتی تعلقات کے 70 سال مکمل ہونے کے موقع پر ترکی کی ڈاک اور ٹیلی گراف تنظیم (PTT) اور پاکستان پوسٹ نے 2 مشترکہ یادگاری ٹکٹ جاری کیے۔ 10 روپے فی عدد مالیت کی ٹکٹوں پر پاکستان کے قومی شاعر علامہ محمد اقبال (1938-1877) اور ترکی کے قومی شاعر مہمت عاکف ارسوی (1963-1873) کی تصاویر موجود تھیں، جنہیں دونوں ممالک کے عوام دل سے چاہتے ہیں۔

ترکی اب تک پاکستان کے حوالے سے 13 ڈاک ٹکٹ جاری کرچکا تھا، لیکن یہ پہلا موقع تھا جب دونوں ممالک نے مشترکہ ٹکٹ جاری کیا۔ ٹکٹ عادل صلاح الدین نے ڈیزائن کیے تھے جبکہ ان کی طباعت پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کارپوریشن کراچی میں ہوئی۔

پاکستان اور ایران نے بنا رائیلٹی کے ڈاک ٹکٹس پر چھاپے؟

پاکستان پوسٹ نے 9 نومبر 2021 کو پاک جرمن تعلقات کے 70 برس مکمل ہونے پر ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا تھا، جس پر علامہ اقبال اور جرمن شاعر گوئٹے کے پورٹریٹ شائع کیے گئے تھے۔ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کمپنی، کراچی سے طباعت شدہ 20 روپے مالیت کے 4 لاکھ ٹکٹس جاری کیے گئے تھے۔

رائیلٹی کے لیے 3 دسمبر 2021 کو ڈائریکٹر جنرل پاکستان پوسٹ کو لکھے گئے خط کا عکس

پاکستان پوسٹ نے مصور اقبال ’عجب خان‘ کی اجازت کے بغیر ان کا بنایا ہوا اقبال کا پورٹریٹ شائع کیا تو انہوں نے رائیلٹی کے لیے 3 دسمبر 2021 کو ڈائریکٹر جنرل پاکستان پوسٹ سمیت دیگر ارباب اختیار کو خطوط لکھے جو تاحال جواب کے منتظر ہیں۔

فرزند اقبال کی 100ویں سالگرہ پر یادگاری سونیئر شیٹ بمعہ یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا گیا

ڈاکٹر جاوید اقبال (1924–2015) پاکستان کے عظیم مفکر، مصنف، ماہرِ قانون اور جج تھے۔ وہ علامہ محمد اقبال فرزند تھے، ان کی زندگی بھی فکری، علمی اور عدالتی خدمات سے بھرپور تھی۔ ان کی 100ویں سالگرہ کی مناسبت سے پاکستان پوسٹ کی جانب سے 100 روپے مالیت کی سونیئر شیٹ بمعہ یادگاری ڈاک ٹکٹ 9 نومبر 2024 کو جاری کیا۔

یوم اقبال (9 نومبر) کے موقع پر جاری کیے گئے ٹکٹ کو ابو عبیدہ ایاز اور حسنین محمود نے ڈیزائین کیا تھا۔ پاکستان سیکیورٹی پرنٹنگ کمپنی، کراچی سے طباعت شدہ 10 ہزار سونیئر شیٹز جاری کی گئی تھیں۔ یہ پاکستان کی ڈاک تاریخ میں پہلی بار QR کوڈ والا ٹکٹ بھی ہے۔QR کوڈ اسکین کرنے سے ڈاکٹر جاوید اقبال کی زندگی، خدمات اور تصانیف کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتے ہیں جو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے علم کے فروغ کی جانب اہم قدم ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

پاکستان پوسٹ ڈاکٹر محمد علامہ اقبال علامہ اقبال علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ علامہ اقبال پر جاری کیے گئے ڈاک ٹکٹ مشکورعلی

متعلقہ مضامین

  • تھیلیسیمیا مائنر والے والدین کی شادی پر پابندی نہیں لگوا رہے، ٹیسٹ کی بات کر رہے ہیں، شرمیلا فاروقی
  •   دلہا دلہن کا مرضی سے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کر انے کا بل منظور
  • شادی سے قبل دلہا دلہن کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی ہوگا؟ قائمہ کمیٹی اجلاس میں بحث
  • بنگلہ دیش کی ٹیم اپنے ہی میدان پر ریت کی دیوار ثابت
  • علامہ اقبال اور پاکستان پوسٹ
  • ویمنز ورلڈکپ کوالیفائر میں ناکامی پر ویسٹ انڈین کپتان مایوس
  • امریکہ اپنے تمام تجارتی شراکت داروں پر اندھا دھند محصولات عائد کر رہا ہے، چینی وزارت تجارت
  • امریکہ کے اندھا دھند محصولات کے اقدامات غلط ہیں،یونیڈو
  • آج اسلام آباد اورکشمیرمیں آندھی/جھکڑ / ژالہ باری/گرج چمک کا امکان
  • پاکستان اور قطر کے درمیان انسداد منشیات تعاون پر اہم پیش رفت