ہمارے نوجوان اور ’’انقلاب کی پکار‘‘
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
ہم عرصہ دراز سے انقلاب، انقلاب اور انقلاب یا یوں کہہ لیں کہ بچپن سے لے کر آج بڑھاپے کی عمر کو آنے تک کی باتیں سن رہے ہیں۔ آخر یہ انقلاب ہے کس چیز کا نام۔ نہ ہم نے کبھی پاکستان میں انقلاب کا درشن کیا اور نہ انقلاب نے پاکستان کی کبھی راہ دیکھی۔ اکثر سنتے ہیں کہ انقلاب آ گیا، کہاں آ گیا یہ انقلاب ہمیں بھی تو دکھائو، اس انقلاب کی شکل دکھائو۔ کیسی ہوتی ہے۔ اب یہاں دوسرے ممالک میں برپا ہونے والے انقلابات کی بات نہ کر دیں ہم تو کئی عشروں سے یہی سن رہے ہیں کہ ملک میں سیاسی استحکام ہوگا تو معاشی استحکام آئے گا اب یہ دونوں استحکام لانے میں انہی کی ذمہ داری ہے جو بار بار ایک ہی بات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں اور وہی دونوں کی تباہی کے ذمہ دار بھی ہیں۔ میرے نزدیک ان دونوں سسٹم میں اس وقت استحکام کی امید پیدا کی جا سکتی ہے جب تک آپ اس ملک کی 65فیصد یوتھ کو ایجوکیشن یا روزگار کی طرف نہیں لائیں گے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ دور جدید میں نوجوان ہی انقلاب کی بنیاد رکھتے ہیں اور جتنی ایسے انقلابات کی ضرورت آج پاکستان کو ہے اس سے پہلے شاید کبھی نہیں تھی کہ انقلاب کی پکار بھی ہمیشہ نوجوانوں ہی سے اٹھتی ہے۔ البتہ ہمارے ہاں ایک دور ایسا بھی گزرا جب فوجی انقلاب برپا ہوتے تھے، اب وہ دور گئے۔ دیکھا جائے تو اگر روز اوّل ہی سے جب ہم آزاد ہوئے تھے اس زمانے سے اگر نوجوانوں کے لئے ایسی پالیسیز بنا دی جاتیں یا ملکی ترقی میں ان کے کردار کو بھی رکھا جاتا تو آج ہمارے سیاسی اور معاشی استحکام دونوں کبھی خطرے میں نہ پڑتے۔ یہاں کوئی ہے جو میرے ان سوالات کا جواب دے کہ ہماری ہی پاک دھرتی کیوں دہشت گردی کا شکار بنائی گئی اور اس سفاک دہشت گردی کرنے والوں نے 70ہزار بے گناہوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلنے کی اجازت اور ماحول کس نے بنائے۔ کوئی اس سوال کا جواب تو دے کہ آج پھر اپنی پیاس بجھانے کے لیے مذاکرات کی آڑ میں دہشت گرد سرگرم عمل ہیں اور ان کا نہ ختم ہونے والا یہ عمل نہ جانے ہمیں کب اور کہاں تک لے جائے؟ ہے کسی کے پاس اس کا جواب کہ ایسے حالات میں ہماری بحیثیت قوم ذمہ داریاں کیا ہیں۔ حکومت وقت گو ان دہشت گردوں کے خلاف برسرپیکار ہے مگر ہم کب تک اس سے چھٹکارا پائیں گے؟کب ہماری نسلیں لفظ دہشت گرد کو بھول پائیں گی؟
اکثر حلقوں میں ہم ایسے ہی انقلاب کی باتیں سنتے ہیں کہ وہ آگے آئیں کہ اگر وہ آ جائے تو قوم سدھر جائے گی۔ میرا یہ سوال ایک محب الوطن پاکستانی ہونے کی حیثیت سے ان نوجوانوں کے ساتھ بھی ہے جو پاکستان میں بہتری ، آسودگی ، معیشت ، سوسائٹی ، اچھے معاشرے اور سسٹم کا انقلاب برپا ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ کیسے اور کب آگے آئیں گے گو ہمارے نوجوان تو قدم بڑھانے کو تو تیار ہیں مگر ان کی راہنمائی کون کرے گا یہ بات ان کے علم میں نہیں۔ دوسری طرف یہ بات بھی جاننا ہوگی کہ قائداعظمؒ کے پاکستان کے ساتھ جتنی ناانصافی ہو چکی اس کی بھی ایک حد تھی جو ہم نے اپنی انائوں میں ڈبو دی۔ اب ہماری انہی نوجوان نسلوں کا ایک فرض تو بنتا ہے کہ وہ استحکام اور عزم صمیم کو اپنی فطرت بناتے ہوئے ایک ایسے انقلاب کی طرف بڑھیں جس سے کم از کم آنے والی نسلوں کو تحفظ دیا جا سکے۔ اس بات کو جانتے ہوئے کہ 1947ء میں قائداعظمؒ نے قوم کی تشکیل اور آزادی کی خاطر ہزاروں انسانوں کی قربانیاں صرف آزادی انقلاب کے نام دیں۔ اگر ہمیں صرف معاشی اور سیاسی استحکام ہی کی طرف جانا ہے تو پھر آج کے نوجوانوں کو عمرانڈو سیاست سے نکالنا ضروری ہے کہ اس کے جو غلط ذہن سازی کی جس سے نوجوان تو تباہ ہوا سو ہوا اس سے ہماری نسلیں بری طرح سے متاثر ہوئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اب حکمرانوں کو بھی چاہئے کہ وہ ملکی مسائل میں نوجوانوں کو ساتھ لے کر چلے تاکہ ہم اپنے پائوں پر کھڑے ہو سکیں۔
یہ ہم سب کا پاکستان اور اسے انہی نوجوان نسلوں نے بچانا ہے اسی کے لئے ہم کئی عشروں سے لڑ رہے ہیں مگر بے سود کہ ہمیں اچھی لیڈرشپ ہی نہیں ملی۔ انقلاب، قتل و غارت اور آتش زنی یا سفاکانہ مہم کا نام نہیں۔ یہ اِدھر اُدھر چند بم پھینکنے ، گولیاں چلانے نیز 9مئی کی طرح تہذیبی اور عسکری نشانیوں کو تباہ کرنے اور مساوات اور انصاف کے اصولوں کی دھجیاں بکھیرنے کا نام نہیں، قوموں میں آنے والے انقلاب مایوسی کا فلسفہ، نہ مایوس کن لوگوں کا عقیدہ۔ انقلاب ’’خدا شکن تو ہو سکتا ہے انسان شکن نہیں، ہم زندہ اور پائندہ قوم ہیں اور یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی انقلاب کے بغیر اتحاد ہم آہنگی اور توازن کا وجود ممکن نہیں ہوتا پھر بقول ارسطو انقلاب قانون ہے، انقلاب تربیت ہے۔ انقلاب سچائی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم از کم آج ہماری قوم کے نو جوانوں کو اس حقیقت کا احساس ہو چکا ہے کہ آنے والا کل انہی نوجوان نسلوں کا ہے اور نوجوان غیر ذمہ دار نہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، ان سے زیادہ بہتر اور کوئی نہیں جانتا کہ ان کا راستہ پھولوں کی سیج نہیں۔ ان کے لئے اتنا ہی جاننا کافی ہے کہ ہمارے سرگرم اور طاقتور نظریات ہی ہمیں بہت آگے لے جانے اور بڑی قوم بنانے کے لئے کافی ہیں۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: انقلاب کی کے ساتھ ہیں اور ہیں کہ کے لئے
پڑھیں:
ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم
سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جو اپنی ذاتی حیثیت میں کوششیں کر رہے ہیں اور کرتے رہتے ہیں ان کو بھی خان صاحب نے کہہ دیا ہے کہ میری رہائی کے حوالے سے میں نے کسی کو بھی آتھرائز نہیں کیا کہ وہ کوئی مذاکرات کریں۔ اسلام ٹائمز۔ مرکزی رہنماء پاکستان تحریک انصاف شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہے کہ بات شروع کرنے سے قبل میں ایک چیز کلیریٹی سے کہہ دوں کہ فی الوقت جب ہم بات کر رہے ہیں، ہمارے بیک ڈور یا سامنے کسی قسم کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات جاری نہیں ہیں، جو اپنی ذاتی حیثیت میں کوششیں کر رہے ہیں اور کرتے رہتے ہیں ان کو بھی خان صاحب نے کہہ دیا ہے کہ میری رہائی کے حوالے سے میں نے کسی کو بھی آتھرائز نہیں کیا کہ وہ کوئی مذاکرات کریں، وہ بات وہاں فائنل ہو گئی ہے، اگر کوئی کلیم بھی کرتا ہے کہ مجھے خان نے آتھرائز کیا ہے تو خان صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ میں نے کسی کو آتھرائز نہیں کی۔
ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خان صاحب نے ایک اور بات بڑی واضح کر دی ہے، ساتھ ہی کہ ہم بطور پولیٹکل پارٹی مذاکرات کے بالکل خلاف نہیں ہیں مگر مذاکرات کس لیے؟ نمبر ون قوم کیلیے، نمبر ٹو آئین کی بالادستی اور نمبر تین قانون کی حکمرانی کیلیے، ہیومن رائٹس کے لیے، جمہوریت کیلیے۔