امریکی صدارتی نظام میں ایگزیکٹو آرڈرز کی اہمیت
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اپنے اقتدار کے پہلے روز ایگزیکٹو آرڈرز جاری کرنا امریکی صدور کی ایک روایت ہے۔ ایگزیکٹو آرڈر ایک ایسا حکم نامہ ہوتا ہے جسے جاری کرنے کے لیے صدر کو کانگریس کی اجازت درکار نہیں ہوتی۔ تاہم اس صدارتی حکم نامے کی بھی حدود ہیں۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ ایگزیکٹو آرڈر کس طرح جاری ہوتے ہیں، ان میں کتنی قوت ہوتی ہے، ان کی حدود کیا ہیں اور آیا یہ احکامات غیر مؤثر بھی کیے جا سکتے ہیں۔
ایگزیکٹو آرڈرز کیا ہوتے ہیں؟
بنیادی طور پر ایگزیکٹو آرڈر صدر کے دستخطوں سے جاری ہونے والی ایک ایسی دستاویز ہے جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ صدر کس طرح وفاقی حکومت کو منظم کرنا چاہتے ہیں۔ ایگزیکٹو آرڈر وفاقی ایجنسیوں کے لیے ہدایات ہوتی ہیں کہ انہیں کیا کارروائی کرنی ہے یا انہیں کیا رپورٹس حاصل کرنی ہے۔ بعض ایگزیکٹو آرڈر قابل اعتراض بھی ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر کرسمس کے اگلے روز وفاقی ملازمین کو چھٹی دینا۔ اسی طرح ایگزیکٹو آرڈرکسی بڑی اور اہم پالیسی کی بنیاد بن سکتے ہیں، جس کی ایک حالیہ مثال سابق صدر بائیڈن کی جانب سے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے بارے میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کا اجرا ہے۔ اس حکم نامے میں اس کے استعمال پر مؤثر نگرانی کے لیے قواعد و ضوابط بنانے کے لیے کہا گیا تھا۔
ایگزیکٹو آرڈر کے لیے کانگریس کی منظوری درکار نہیں
امریکی آئین کے تحت قوانین کانگریس کے ایوان منظوری کے بعد حتمی دستخط کے لیے صدر کے بھیجتے ہیں اور دستخط ہونے کے بعد وہ قانون کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں۔ جب کہ ایگزیکٹو آرڈر صدر براہ راست جاری کرتا ہے۔ امریکن بار ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹو آرڈر کو کانگریس کی منظوری کی ضرورت نہیں ہے اور قانون ساز اسے براہ راست رد نہیں کر سکتے، لیکن کانگریس کے پاس ایگزیکٹو آرڈر کو غیر مؤثر بنانے کے طریقے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر وہ ایگزیکٹو آرڈر پر عمل کے لیے اس کی فنڈنگ روک سکتی ہے یا کچھ اور رکاوٹیں کھڑی کر سکتی ہے، جس سے ایگزیکٹو آرڈر پر کارروائی عملی طور پر رک جاتی ہے۔
سینٹاباربرا میں قائم کیلی فورنیا یونیورسٹی کے امریکن پریذیڈنسی پراجیکٹ کے لیے جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق امریکی تاریخ میں اب تک کئی ہزار ایگزیکٹو آرڈر جاری ہو چکے ہیں۔ جارج واشنگٹن نے 8 ایگزیکٹو آرڈرز جاری کیے تھے، جب کہ فرینکلین روز ویلٹ کے جاری کردہ ایگزیکٹو آرڈرز کی تعداد 3721 تھی۔ حالیہ دور میں سابق صدر بائیڈن نے اپنے عہدے کی مدت کے دوران 160 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ، جب کہ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ اپنے اقتدار کے ابتدائی ایام میں 100 سے زیادہ ایگزیکٹو آرڈرز جاری کریں گے۔ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈرز کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ ان میں غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری، میکسیکو کی سرحد کے کنٹرول کو سخت بنانے، توانائی کے حصول کو ترقی دینے، وفاقی کارکنوں کے لیے قوانین اور صنفی پالیسیاں وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے ٹک ٹاک کو فروخت کے لیے مزید وقت دینے کے لیے بھی ایگزیکٹو آرڈر جاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
ایگزیکٹو آرڈر پر عمل کون روک سکتا ہے
کانگریس اور عدالت دونوں کے پاس ایگزیکٹو آرڈر کو غیر مؤثر بنانے کی طاقت موجود ہے۔ مثال کے طور پر کانگریس نے 1992 میں اس وقت کے صدر جارج ایچ بش کے سائنسی تحقیق کے لیے انسانی جنین کے ٹشوزکے لیے ایک بینک کے قیام کو یہ کہہ کر رد کردیا تھا کہ اس کا کوئی قانونی اثر نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ کانگریس ایگزیکٹو آرڈر پر عمل کے لیے درکار فنڈنگ روک کر یا وفاقی ایجنسیوں کو ایگزیکٹو آرڈر پر عمل نہ کرنے کا کہہ کر اسے غیر مؤثر بنا سکتی ہے۔ عدالت کے ذریعے ایگزیکٹو آرڈر کو غیرمؤثر بنانے کا ایک واقعہ صدر ہیری ٹرومین کے دور میں پیش آیا جب انہوں نے کوریائی جنگ کے دوران ایک اسٹیل مل پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو امریکی سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ صدر کے پاس کانگریس کی منظوری کے بغیر نجی جائداد قبضے میں لینے کا اختیار نہیں ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایگزیکٹو ا رڈر پر عمل ایگزیکٹو ا رڈر کو ایگزیکٹو ا رڈرز کانگریس کی کے لیے
پڑھیں:
جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
گزشتہ دنوں میرے ایک دوست جو درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں، میری ان سے ملاقات ہوئی۔ میرے یہ دوست جمہوریت کے سخت ترین مخالف ہیں۔ ان کے نزدیک ہماری تمام تر سیاسی نظام کی خرابیوں کی جڑ پاکستان میں رائج یہ جمہوری نظام ہے جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ان کے نزدیک اسلام کا سیاسی نظام ہی ہمارے مسائل کا حل ہے۔
اپنے اس دوست کی سوچ کے برعکس راقم التحریر جمہوری نظام کی تمام تر خرابیوں کے باوجود اس کا حامی رہا ہے۔ میرے نزدیک ہماری تمام سیاسی نظام میں خرابیوں کی وجہ جمہوری نظام کا تسلسل کے ساتھ جاری نہ رہنا ہے۔
بار بار کے مارشل لا اور سیاست میں مداخلت کے نتیجے میں یہ خرابیاں پیدا ہوئیں اور عوام جمہوریت کے حقیقی ثمرات سے محروم رہے۔ مجھے دینی اور مذہبی موضوعات پر اپنی کم علمی اورکم فہمی کا ہمیشہ احساس رہا ہے، اس لیے میں عموماً دینی اور مذہبی موضوعات پر علمی گفتگو سے گریز کرتا ہوں۔ تاہم جب جمہوریت کا موضوع ہمارے درمیان دوران گفتگو آیا تو اس گفتگو نے مکالمے کی صورت اختیار کر لی۔
جمہوریت کی مخالفت کے حوالے سے میرے دوست کا کیا موقف ہے، اسے اپنے اسلوب میں بیان کر رہا ہوں۔ میرے دوست کے نزدیک ایک صالح اور مہذب حکومت وہی ہو سکتی ہے جس کی بنیاد اخلاقی اقدار اور تصورات پر قائم ہو۔
دنیا کے سیاسی نظاموں میں اخلاقی اقدارکی کوئی جگہ نہیں، اس میں نمایندگی کا اہل وہی شخص تصورکیا جاتا ہے جو ڈپلومیٹک اور چرب زبان ہو، چاہے اخلاقی حوالے سے کتنا ہی گرا ہوا کیوں نہ ہو۔ یہ عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔ اس نظام میں قانون سازی کا حق شہری کا حق ہے۔ لازمی اس قانون سازی میں انسانی خواہشات کو اولین حیثیت حاصل ہوگی اس طرح انسان کی روحانی زندگی تباہ ہو جائے گی اور انسان نفس کا غلام بن کر رہ جائے گا۔
اسلام میں نسلی اور مذہبی گروہ بندی جائز نہیں۔ جمہوری طریقہ انتخاب میں نسلی، لسانی اور مذہبی تعصبات کو ابھارکر عوامی جذبات کو استعمال کرکے اسے اپنی کامیابی کا زینہ بنایا جاتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے میں کشمکش اور تصادم کی فضا پیدا ہوتی ہے۔
جمہوریت کی بنیادی خوبی محض عددی برتری تصورکی جاتی ہے یہ منطقی لحاظ سے درست نہیں،کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ 200 کے مقابلے 201 کی رائے زیادہ درست اور دانش مندانہ ہے۔ اس نظام میں افراد کی گنتی کی جاتی ہے انھیں تولا نہیں جاتا، یعنی صلاحیت اور قابلیت کی اس نظام میں کوئی اہمیت نہیں۔
جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس کا مزاج سیکولر ہے، یہی وجہ ہے کہ جو مذہبی اور دینی جماعت اس میں حصہ لیتی ہے، اس کا مزاج سیکولر ہو جاتا ہے۔ اس نظام میں کامیابی کے لیے تمام طبقات کی حمایت درکار ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ جماعتیں مصلحت کا شکار ہو کر خدائی احکامات کے نفاذ کے بجائے انسانی خواہشات کی تکمیل میں سرگرم عمل ہو جاتی ہیں یہ طرز عمل اسلامی اصولوں کے منافی ہے۔
میرے دوست کی یہ تمام باتیں جزوی طور پر درست ہیں کلی طور پر نہیں۔ میرا موقف یہ تھا کہ انسانی معاشرے کو مہذب اور تمدنی معاشرہ کہلانے اور عوام الناس کو اجتماعیت کے دائرے میں رکھنے کے لیے کسی نہ کسی نظام حکومت کی ضرورت لازمی طور پر ہوتی ہے اب یہ نظام حکومت کیسے وجود میں آئے گا، اس نظام کے خد و خال کیا ہوں گے؟
حکومت کرنے والوں کے اختیارات کی حدود کیا ہوں گی، ان کا انتخاب کس طرح کیا جائے گا اور سیاسی استحکام کس طرح پیدا ہوگا۔ اس حوالے سے مختلف زمانے میں مختلف تجربات سامنے آئے ہیں، اس میں ایک تجربہ جمہوری نظام بھی ہے۔ دنیا نے اب تک کے تجربات سے جمہوری نظام کو اس کی بہت سی خرابیوں کے باوجود ایک بہتر نظام سیاست پایا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو دنیا بھر میں فروغ حاصل ہوا۔
اگر آپ جمہوری نظام کو اس کی چند خرابیوں کی بنیاد پر مسترد کرتے ہیں تو آپ کو دنیا کے سامنے ایک واضح سیاسی نظام پیش کرنا ہوگا۔ محض ہوا میں قلعے بنانے سے کچھ حاصل نہ ہو سکے گا۔
جہاں تک اسلام کے نظام حکومت کی بات ہے تو ہمیں اسے تاریخی پس منظر میں سمجھنا ہوگا۔ اسلام کے سیاسی نظام میں خلاف راشدہ کے دور کو رول ماڈل قرار دیا جاتا ہے۔ یہ دور حکومت 30 سال کے عرصے پر محیط ہے، اس مدت میں چار صحابی خلیفہ مقرر ہوئے چاروں خلفا کا تقرر چار مختلف طریقوں سے ہوا۔ اس کے بعد جو ماڈل سامنے آیا اسے خاندانی ماڈل کہا جاسکتا ہے۔
اسلام کی پوری سیاسی تاریخ اس پس منظر میں چلتی رہی، اسی پس منظر میں مسلم حکومتیں قائم ہوئیں۔ اس میں زیادہ تر حکمران وہی تھے جو خاندانی حکومت کے اصول کے تحت حکمران بنے تھے۔ یہ خاندانی ماڈل خلافت راشدہ کے رول ماڈل سے مختلف تھا لیکن کیونکہ اس ماڈل میں اہل اسلام کو امن اور حفاظت کے ساتھ دین پر عمل کرنے اور دین کی تبلیغ و اشاعت کا کام بخوبی انجام پا رہا تھا، اس لیے عوام الناس نے اس نظام کو قبول کیا عرب کے بعض ممالک میں یہ نظام آج بھی رائج ہے۔
اس تاریخی پس منظر کا جائزہ لینے کے بعد یہ بات سامنے آتی ہے۔ اسلام کسی لگے بندھے نظام کی تجویز یا خاکہ پیش نہیں کرتا بلکہ ایسے بنیادی اصول قائم کرتا ہے جو کسی حکومت کے عمومی خدوخال کی تشکیل کرتے ہیں وقت اور حالات کے تحت طرز حکومت کیسا ہونا چاہیے اس کا فیصلہ لوگوں پر چھوڑ دیا ہے یہ میری ناقص رائے ہے اس پر بہتر علمی رائے کا اظہار مذہبی اسکالر اور علما دین ہی کر سکتے ہیں۔
ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ اس وقت دنیا میں جمہوری نظام کامیابی سے جاری ہے۔ جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسا نظام حکومت ہے جس میں حکومتی مدت پوری ہوتی ہے اس میں پرامن انتقال اقتدار کا طریقہ موجود ہے۔
عوامی رائے عامہ کے ذریعے اسے قانونی اور اخلاقی جواز حاصل ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس نظام کو سیاسی استحکام حاصل ہوتا ہے اس لیے اس نظام کو غیر اسلامی قرار دینا درست عمل نہیں ہے اور نہ ہی اسے مغربی طرز حکومت کا نام دیا جانا چاہیے۔ بعض لبرل اور سیکولر عناصر سیاست میں دینی اور مذہبی جماعتوں کی شمولیت کے خلاف ہیں میری ذاتی رائے میں اگر ملک کی اکثریت کسی نظام حیات کو قبول کرکے اس کے نفاذ کی کوشش کرتی ہے تو اس کے اس جمہوری حق کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اسے تسلیم کیا جانا جمہوریت کی روح کے عین مطابق ہے۔
یہ ہے دونوں جانب کا نقطہ نظر، کون درست ہے کون غلط اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔