Express News:
2025-04-22@06:30:31 GMT

امریکی صدر کے عزائم

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

امریکا دنیا کی وہ واحد سپرپاور ہے جہاں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلی کے مثبت اور منفی ہر دو طرح کے اثرات پوری دنیا کو متاثر کرتے ہیں۔ سیاست سے لے کر معیشت تک اور جنگ و جدل سے تجارت تک ہر شعبے میں تغیر کے آثار ہویدا ہو جاتے ہیں۔ اسی باعث پوری دنیا کی نظریں ہر چار سال بعد امریکا میں ہونے والے صدارتی انتخاب پر لگی ہوتی ہیں۔

پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں مبصرین، ماہرین، سیاستدان اور تجزیہ نگار امیدواروں کی ممکنہ جیت یا ہار کے حوالے سے تبصرے اور تجزیے کر رہے ہوتے ہیں۔

گزشتہ برس ہونے والے امریکی صدر کے انتخاب کے حوالے سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے کے حوالے سے دنیا بھر کے میڈیا میں ہونے والے تبصروں اور تجزیوں میں کہا جا رہا تھا کہ ان کی متنازعہ شخصیت، ماضی کے کردار، ان پر قائم متعدد مقدمات اور امریکا کے طاقت ور حلقوں کی مخالفت کے باعث ان کا صدر بننا مشکل نظر آتا ہے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کو یقین تھا کہ ان کے خلاف چلائی جانے والی پروپیگنڈا مہم میں جان نہیں۔

 رواں ماہ 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا کے 47 ویں صدر کا حلف اٹھا لیا ہے۔ تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے بعض اہم اقدامات اور اعلانات کیے جن سے ان کے مستقبل کے عزائم اور ارادوں کا واضح اظہار ہوتا ہے کہ وہ اپنے آیندہ یعنی دوسرے دور صدارت میں امریکا کو کن خطوط پر چلانا چاہتے ہیں۔

انھوں نے اپنے پیش رو بائیڈن دور پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ خدا نے انھیں اس لیے محفوظ رکھا کہ وہ امریکا کو ایک عظیم ملک بنا سکیں۔ واضح رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر انتخابی مہم کے دوران تقریر کرتے ہوئے قاتلانہ حملہ ہوا تھا اور گولی ان کے کان کو چھوتی ہوئی نکل گئی تھی۔ صدر ٹرمپ نے اپنے صدارتی انتخاب میں کہا کہ امریکا سے لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کو بے دخل کر دیں گے، کوئی ملک ٹیکس سے مستثنیٰ نہیں ہوگا، پاناما کینال پر قبضہ واپس لیں گے، خلیج میکسیکو کا نام خلیج امریکا رکھیں گے۔

سرکاری طور پر صرف مرد اور عورت دو ہی جنس ہوں گی، سیاسی پناہ اور پیدائشی حق کی شہریت کا قانون ختم کر دیں گے، جنوبی سرحد پر قومی ایمرجنسی نافذ کریں گے، عوام پر ٹیکس میں کمی اور مہنگائی ختم کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی منصب سنبھالتے ہی 78 ایگزیکٹیو آرڈر جاری کرکے اپنے جارحانہ عزائم کا اظہار کر دیا۔

انھوں نے بائیڈن دور کے متعدد اقدامات کو بہ یک جنبش قلم منسوخ کر دیا۔ صدر ٹرمپ نے کیپٹل ہل پر حملے کے ملزمان کو معاف کرکے ان کی رہائی کا حکم بھی جاری کر دیا۔ صدر ٹرمپ نے پیدائشی حق شہریت کے جس حکم نامے پر دستخط کیے تھے اسے وفاقی امریکی جج نے غیر آئینی قرار دیتے ہوئے معطل کر دیا۔ امریکا کی وفاقی عدلیہ کی طرف سے ٹرمپ کے ابتدائی حکم نامہ معطلی ان کے لیے ایک بڑا جھٹکا اور عدلیہ و ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان کشمکش کا نقطہ آغاز بھی ہے۔

صدر ٹرمپ نے اسرائیل حماس حالیہ جنگ بندی معاہدے کے حوالے سے آگے بڑھ کر اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق جو مثبت کردار ادا کیا تھا تو یہ امید ہو چلی تھی کہ وہ اپنے دور صدارت کے آغاز میں ہی عارضی جنگ بندی معاہدے کو مستقل کرنے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کریں گے، لیکن وائٹ ہاؤس واپسی پر ایک رپورٹر نے جب ان سے سوال کیا کہ کیا دونوں فریق مستقل جنگ بندی پر آمادہ ہو جائیں گے تو ان کا جواب تھا کہ میں پراعتماد نہیں ہوں کہ یہ معاہدہ برقرار رہے گا۔

مبصرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل کی فلسطین دشمنی کے جنگی اقدام کے آگے بند باندھنے میں صدر ٹرمپ کی کوششیں زیادہ سودمند ثابت نہیں ہو سکیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدر ٹرمپ یوکرین روس جنگ رکوانے میں تو شاید کامیاب ہو جائیں لیکن فلسطینیوں کی نسل کشی روکنے کے اسرائیلی عزائم کو روکنے میں وہ کوئی موثر کردار ادا نہیں کرسکیں گے یعنی ان کے دوسرے دور میں بھی تنازعہ کشمیر، فلسطین اور مسئلہ کشمیر خطے کے امن کے لیے ’’فلیش پوائنٹ‘‘ بنا رہے گا جو یقینا افسوس ناک صورت حال ہے جہاں تک صدر ٹرمپ کے جاری دور صدارت میں پاک امریکا تعلقات کا تعلق ہے تو تاریخ بتاتی ہے کہ پاکستان اور امریکا کبھی پراعتماد دوست نہیں رہے۔ دو طرفہ تعلقات ہمیشہ مفادات کے ٹکراؤ کے درمیان مد و جزر کی کیفیت سے گزرتے رہے۔

بائیڈن دور میں پاک امریکا تعلقات میں کشمکش کا عنصر غالب نہیں تھا، پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی امریکا مطمئن تھا۔ لیکن صدر ٹرمپ کے دور میں صورت حال ذرا مختلف نظر آتی ہے ادھر وطن عزیز میں اسٹیبلشمنٹ اور اتحادی حکومت کے درمیان پراعتماد مراسم ہیں۔ برسر اقتدار حکمران طبقے کو اسٹیبلشمنٹ کا مکمل تعاون اور سپورٹ حاصل ہے ۔ بانی پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کے اچھے مراسم تھے۔ اسی باعث پی ٹی آئی کے رہنما و کارکن پرامید ہیں کہ ماضی کے ’’خان ٹرمپ‘‘ محبتانہ و دوستانہ مراسم ان کے ’’مرشد‘‘ کی رہائی کا پیغام لائیں گے۔

اس حوالے سے حکومتی حلقے بھی خدشات اور تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں لیکن ابھی یقین سے اس ضمن میں کلام کرنا مشکل ہے۔ کیوں کہ ٹرمپ کے سامنے اس وقت ’’اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘‘ والی صورت حال ہے تو ادھر حکومت کے سب سے بڑے اتحادی بلاول بھٹو بھی حکومتی فیصلوں سے شاکی نظر آتے ہیں اور مختلف مواقعوں پر برملا اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔

ابھی چار روز پیش تر حکومت نے پیکا ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی سے منظور کرایا ہے ،اس پر نہ صرف ملک بھر کی صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ہیں بلکہ اپوزیشن بھی ان کی ہمنوا ہے اور خود بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ حکومت مشاورت کے بغیر فیصلے کرکے اپنے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے حوالے سے ڈونلڈ ٹرمپ ٹرمپ کے کر دیا

پڑھیں:

ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل

اسلام ٹائمز: ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔ تحریر: آتوسا دینیاریان

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے من پسند پالیسیوں پر انحصار کرتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً چین کے خلاف ٹیرف کی ایک وسیع جنگ شروع کی ہے، اس طرزعمل کے نتائج نے موجودہ امریکی معیشت پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور عوام کے عدم اطمینان میں اضافہ ہوا ہے۔ حالیہ مہینوں میں ریاستہائے متحدہ میں معاشی حالات خراب ہوئے ہیں اور حالیہ مہینوں میں ٹرمپ کے فیصلوں کی وجہ سے امریکی صارفین کے لیے قیمتوں میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ تحفظ پسند پالیسیوں کو نافذ کرکے اور چین اور دیگر ممالک کے خلاف تجارتی محصولات میں اضافہ کرکے "عظیم امریکی خواب" کے نظریے کو بحال کر رہے ہیں۔ لیکن عملی طور پر ان پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ، معاشی ترقی کی رفتار میں کمی اور وسیع پیمانے پر عدم اطمینان پیدا ہوا ہے۔

ٹرمپ کی مقبولیت میں کمی:
اس وقت صرف 44% امریکی ان کے معاشی انتظام سے مطمئن ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے تو ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آئے گا۔

افراط زر اور بڑھتی ہوئی قیمتیں:
افراط زر کی شرح 3% تک پہنچ گئی ہے، جبکہ فیڈرل ریزرو کا ہدف 2% ہے۔ یہ وہ علامات ہیں، جو کسی ملک میں کساد بازاری کو دعوت دینے کے مترادف سمجھی جاتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں ترقی کی رفتار رک جاتی ہے اور سست اقتصادی ترقی کا سایہ منڈلانے لگتا ہے۔ تجارتی پالیسی کے عدم استحکام کی وجہ سے سرمایہ کار طویل مدتی سرمایہ کاری سے گریز کرنے لگتے ہیں۔

بڑے پیمانے پر احتجاج:
 ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیوں کے خلاف ہزاروں امریکیوں نے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے ہیں۔ یہ مظاہرے متوسط ​​طبقے اور محنت کشوں کی ان پالیسیوں سے عدم اطمینان کی عکاسی کرتے ہیں، جو دولت مند اور بڑی کارپوریشنز کے حق میں ہیں۔ ادھر فیڈرل ریزرو کے چیئرمین جیروم پاول نے خبردار کیا ہے کہ نئے ٹیرف مہنگائی اور سست اقتصادی ترقی کو بڑھا سکتے ہیں۔ اگرچہ ٹرمپ کے معاشی فیصلے ظاہری طور پر امریکی معاشی حالات کو بہتر بنانے اور ملکی پیداوار کو سپورٹ کرنے کے دعوے کے ساتھ کیے گئے تھے، لیکن عملی طور پر وہ مسابقت میں کمی، قیمتوں میں اضافے، معاشی ترقی میں سست روی اور مارکیٹ میں عدم استحکام کا باعث بنے ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ اگر موجودہ رجحان جاری رہا تو امریکہ افراط زر کے ساتھ کساد بازاری کے دور میں داخل ہو جائے گا۔ ایک تشویشناک منظر نامہ جسے ماہرین اقتصادیات 1970ء کی دہائی کی "جمود" کی طرف واپسی کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ان مسائل کی وجہ سے نہ صرف ٹرمپ کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے بلکہ دنیا کے ساتھ امریکہ کے تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں اور بلا شبہ عالمی سطح پر خدشات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان حالات میں امریکہ کو عظیم بنانا ایک ناقابل حصول خواب لگتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ٹرمپ کی ناکام پالیسیاں اور عوامی ردعمل
  • عالمی تنازعات، تاریخ کا نازک موڑ
  • ٹرمپ ٹیرف: چین کا امریکا کے خوشامدی ممالک کو سزا دینے کا اعلان
  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی محکمہ خارجہ کی از سرِ نو تشکیل کی تجویز
  • ’ امریکا میں کوئی بادشاہ نہیں‘ مختلف شہروں میں ٹرمپ مخالف مظاہرے
  • ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف امریکا میں 700 مقامات پر ہزاروں افراد کے مظاہرے
  • امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے باشندوں کی جبری ملک بدری روک دی
  • امریکا، سپریم کورٹ نے وینزویلا کے تارکین وطن کو بیدخل کرنے سے روک دیا
  • تبدیل ہوتی دنیا
  • ٹرمپ انتظامیہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی پر غور کر رہی ہے،امریکی اخبار