سندھ اسمبلی نے سندھ پروٹیکشن اینڈ پروموشن آف بریسٹ فیڈنگ اینڈ چائلڈ نیوٹریشن ایکٹ نافذ کردیا ہے جس کے تحت صوبے بھر میں ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر بچوں کے لیے خشک  فارمولا دودھ کی فروخت پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔

نئے قانون کے مطابق سندھ کے تمام میڈیکل اسٹورز کو نوزائیدہ بچوں کے دودھ کی مصنوعات صرف ڈاکٹر کے نسخے کے ساتھ فروخت کرنا ہوں گی اور پیکنگ میں واضح طور پر اس پروڈکٹ کو مصنوعی دودھ کا لیبل لگایاجائے گا۔

پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے مطابق نئے قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 5 لاکھ روپے تک جرمانے اور ممکنہ طور پر 6 ماہ قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

دودھ پلانے کی کم شرح

پاکستان میں اس وقت دودھ پلانے کی شرح صرف 48 فیصد ہے اور 52 فیصد مائیں اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتیں۔ اس سے نوزائیدہ بچوں کی صحت کے بارے میں سنگین خدشات پیدا ہو گئے ہیں، کیونکہ بہت سے بچوں کو قدرتی قوت مدافعت کی کمی کی وجہ سے کم عمری میں ہی خسرہ، ڈائریا، نمونیا اور ٹائیفائیڈ جیسی بیماریاں لاحق ہو رہی ہیں۔

دودھ کیوں پلا رہے ہیں؟

پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر مسعود صادق اور ڈاکٹر خالد شفیع نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے دودھ پلانے کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔

انہوں نے وضاحت کی کہ پہلے 2 سال تک دودھ پلانے سے بچوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے، ان کے مدافعتی نظام کو تقویت ملتی ہے اور ذہنی نشوونما میں مدد ملتی ہے۔ ماں کا دودھ قدرتی طور پر جراثیم سے پاک ہوتا ہے، جس سے بچوں کو مختلف بیماریوں سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

سندھ پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر وسیم جمالی اور ڈاکٹر خالد شفیع نے بھی 20 مختلف کمپنیوں کی جانب سے فروخت کی جانے والی مصنوعی دودھ کی پروڈاکٹس پر تشویش کا اظہار کیا جو بچوں کی صحت کے لیے نقصان دہ سمجھی جاتی ہیں۔

درآمد شدہ بچوں کے دودھ کے فارمولوں پر خاندانوں کو ماہانہ 25،000 سے 30،000 روپے خرچ ہوتے ہیں، اس سے ایک خاندان کو سالانہ 360،000 روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اربوں روپے غیر ملکی درآمدات پر خرچ ہو رہے ہیں جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بھی برا اثر پڑتا ہے۔

پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن نے حکومت کی مشاورت سے سندھ پروٹیکشن اینڈ بریسٹ فیڈنگ ایکٹ کی منظوری میں اہم کردار ادا کیا جسے فوری طور پر نافذ کردیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سندھ حکومت نے قانون پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن اور پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے نمائندوں پر مشتمل ایک بورڈ بھی تشکیل دیا ہے۔

بغیر ڈاکٹر کے نسخے کے مصنوعی دودھ فروخت کرنے پر سزائیں

نئے قانون کے تحت اگر کوئی ڈاکٹر بغیر کسی وجہ کے مصنوعی دودھ کی تشہیر کرتا ہے یا تجویز کرتا ہے تو اسے 5 لاکھ روپے جرمانہ اور 6 ماہ قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ مزید برآں اسپتالوں کو مصنوعی دودھ کے لیے کسی بھی پروموشنل کنٹنٹ کی تشہیر کی اجازت نہیں ہوگی اور میڈیکل اسٹورز ڈاکٹری نسخے کے بغیر فارمولا دودھ کی مصنوعات کو فروخت نہیں کر سکتے۔

ہنگامی طور پر استعمال کی اجازت

ایمرجنسی کی صورت میں ڈاکٹروں کی رہنمائی میں اسپتالوں میں نوزائیدہ بچوں کو مصنوعی دودھ فراہم کیا جا سکتا ہے تاہم اس کی اجازت محدود مدت کے لیے ہی دی جائے گی۔ ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ مصنوعی دودھ ماں کے دودھ کی طرح مدافعتی فوائد فراہم نہیں کرتا، یہی وجہ ہے کہ جن بچوں کو فارمولا دودھ دیا جاتا ہے وہ بیماریوں کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔

ڈاکٹروں اور ماہرین نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ مصنوعی دودھ قدرتی طور پر دودھ پلانے کا مناسب متبادل نہیں ہے۔ سندھ میں اس قانون میں بچوں کے ڈاکٹروں کی جانب سے مصنوعی دودھ تجویز کرنے پر سخت پابندی بھی شامل ہے، جس سے بچوں کی غذائیت کے لیے ترجیحی اور صحت مند ترین آپشن کے طور پر دودھ پلانے پر زور دیا گیا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بریسٹ فیڈنگ پابندی حکومت خشک خواتین خود اعتمادی دودھ ڈاکٹری نسخہ سندھ غذائی قلت فارمولا قدرتی غذا معدافتی نظام منظوری.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بریسٹ فیڈنگ پابندی حکومت خواتین ڈاکٹری نسخہ غذائی قلت فارمولا قدرتی غذا معدافتی نظام فارمولا دودھ بریسٹ فیڈنگ دودھ پلانے نسخے کے بچوں کی بچوں کو سے بچوں دودھ کی بچوں کے کے لیے

پڑھیں:

گاڑیوں کی فروخت میں رواں برس اب تک 18 فیصد کا اضافہ؛ وجہ کیا ہے؟

پاکستان آٹو موٹیو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن ( پاما) کے مطابق مارچ 2025 میں گاڑیوں کی فروخت میں گزشتہ سال اسی ماہ کے مقابلے میں 18 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاما کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں گاڑیوں کی فروخت میں گزشتہ مالی سال کے پہلے 9 مہینوں کے مطابق 46 فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

واضح رہے کہ پاما کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 9 مہینوں میں اب تک پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ جبکہ گزشتہ مالی سال اسی عرصے کے دوران 1 لاکھ سے بھی کم گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں۔

پاکستان میں ایک عرصے کے بعد گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس اضافے کے پیچھے وجہ کیا ہے؟ اور کیا اب لوگ بہ آسانی گاڑی خرید سکتے ہیں؟

یہ بھی پڑھیے چینی ساختہ الیکٹرک گاڑی ’ڈونگ فینگ بکس‘ پاکستان میں لانچ، قیمت کیا ہے؟

آل پاکستان کار ڈیلر ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایم شہزاد اکبر نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم گزشتہ برس کے مقابلے میں حالیہ اعدادوشمار دیکھیں تو اس میں تھوڑا سا پروڈکشن اور فروخت میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن چند برس قبل تک یہ سالانہ اعدادوشمار تقریباً اڑھائی لاکھ سے اوپر ہوتے تھے۔ مگر اس وقت جو بھی ہو رہا ہے، اس کے باوجود ہم اپنی اس شرح سے اب بھی پیچھے چل رہے ہیں۔ اور یہ کوئی بہت اچھی فروخت نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آج بھی دنیا کی مہنگی ترین گاڑی ہم عوام کو اسمبل کر کے دے رہے ہیں۔ یہ گاڑیاں قوت خرید میں نہیں ہیں۔ اور اس فروخت میں اضافے کی وجہ بھی شرح سود میں کمی ہے لیکن شرح سود میں کمی کے باوجود گاڑیوں کی فروخت میں کوئی ریکارڈ اضافہ نہیں دیکھنے میں آیا۔ کیونکہ گاڑیوں کی قیمتیں تو وہیں ہیں۔ اس لیے اس وقت ہمیں اشد ضرورت ہے کہ ہمارے ملک میں مینوفیکچرنگ ہو۔ ملک میں لوکلائزیشن اور میڈ ان پاکستان کار ہونی چاہیے۔ تب کہا جا سکتا ہے کہ ملک میں گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوں گی۔ اور عوام بھی تب ہی اس قابل ہو گی کہ زیادہ گاڑیاں خرید سکے۔

ایک سوال کے جواب پر انہوں نے کہا کہ جب تک ملک میں لوکلائزیشن نہیں ہوتی، اس وقت تک میں نہیں سمجھتا کہ آٹو سیکٹر کی بحالی کوئی اچھے پیمانے پر ہوگی۔ ہمارے ملک میں سستی اور معیاری گاڑی نہیں ہوگی، اس وقت ملک میں یہ صنعت ترقی نہیں کر سکتی۔ اور مڈل کلاس کے لوگ تو اب بھی گاڑی نہیں خرید سکتے۔ کیونکہ گاڑی صرف پاکستان میں ایلیٹ طبقہ ہی افورڈ کر سکتا ہے۔ پاکستان میں گاڑی کے نام پر جو کوالٹی بیچی جاتی ہے، اس کی بات نہ کرنا ہی بہتر ہے۔

یہ بھی پڑھیے گوگو کی الیکٹرک گاڑیوں کی قیمتوں میں 10 لاکھ روپے سے زائد کمی، مگر کیوں؟

گزشہ 20 برس سے گاڑیوں کی خریدوفروخت کا کاروبار کرنے والے ایک ڈیلر کا کہنا تھا کہ شرح سود میں کمی کے بعد گاڑیوں سمیت تقریباً تمام سیکٹرز میں بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔

پاکستان میں گاڑی کی قیمت حد سے زیادہ ہے۔  اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عام بندہ نیٹ کیش پر گاڑی خریدنا افورڈ نہیں کر سکتا۔ شرح سود میں کمی سے اتنا ضرور ریلیف ملا ہے کہ وہ افراد جو گاڑیاں خریدنے کے خواہشمند ہیں، وہ بہ آسانی بینک فنانشل کے ذریعے گاڑی لے سکتے ہیں۔

جو گاڑی انہیں گزشتہ برسوں کے دوران تقریباً ڈبل قیمت میں پڑ رہی تھی، اب وہی گاڑی کم از کم انہیں آدھے لون پر پڑ رہی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کے لیے آسان طریقے سے گاڑی حاصل کرنا قابل استطاعت ہو چکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آٹو سیکٹر اس وقت پہ بحال ہو سکتا ہے۔ جب صرف شرح سود میں ہی کمی نہ ہو۔ بلکہ گاڑیوں کہ قیمتوں میں بھی کمی ہو۔ اور سہی وقت عام عوام کے لیے گاڑی خریدنے کا اسی وقت ہوگا۔ جب گاڑی کی قیمت اور شرح سود دونوں ہی کم ہوں۔

ایم سی بی بینک کے آٹو لان مینیجر محمد عدنان کا کہنا تھا کہ شرح سود میں کمی کے بعد عوام کا بینک فنانسنگ پر گاڑی لینے کا رجحان کافی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ کیونکہ شرح سود میں کمی کے بعد عوام نے بینکوں میں سیونگ کے لیے رکھے گئے پیسے بینکوں سے نکال لیے ہیں۔ جس کے بعد اب وہ مختلف سیکٹرز میں انویسٹ کر رہے ہیں۔

گاڑی پاکستان میں اب ایک سیونگ کا نظام بن چکی ہے۔ کیونکہ پاکستان میں گاڑیاں کافی مہنگی ہیں اور گاڑیوں کی قیمتوں میں کمی مشکل ہی سے ہوتی ہے، اس لیے لوگ گاڑی کو انویسٹمنٹ کے طور پر خرید رہے ہیں۔ لوگوں کے لیے بینک سے انتہائی کم شرح سود پر گاڑی لینا کافی منافع بخش ہو چکا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • تھیٹر کے ساتھ شادیوں میں بھی فحش گانوں پر پابندی عائد کی جائے، فنکاروں کا مطالبہ
  • ’دودھ جلیبی، عمران خان اور مراد سعید‘، ہنسی سے لوٹ پوٹ کر دینے والا انٹرویو
  • قطری اور مصری ثالثوں کی جانب سے غزہ میں 7 سالہ جنگ بندی کا نیا فارمولا تجویز
  • مدعی کی تصویر کے بغیر پنجاب کی میں کیس دائر کرنے پر پابندی
  • گاڑیوں کی فروخت میں رواں برس اب تک 18 فیصد کا اضافہ؛ وجہ کیا ہے؟
  • قومی انسداد پولیو مہم شروع، ساڑھے 4 کروڑ بچوں کو قطرے پلانے کا ہدف
  • سولر صارفین کے لیے بری خبر، سمارٹ اے ایم آئی میٹرز کی پرائیویٹ پرچیز پر پابندی عائد
  • پولیو کے خاتمے کے لئے حکومت سندھ پرعزم ہے، وزیراعلیٰ سندھ
  • سندھ میں انسداد پولیو مہم کا باقاعدہ آغاز
  • کنول عالیجا، مصنوعی ذہانت کے بل پر عالمی کاروباری اداروں تک رسائی پانے والی باہمت خاتون