Nai Baat:
2025-04-22@11:05:25 GMT

کتاب، کتاب میلے ، عوام اور سرکار

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

کتاب، کتاب میلے ، عوام اور سرکار

کتاب دماغی میدان میں نئے نظریات کے فروغ میں ایک بیج کا کردار ادا کرتی ہیں ، ان سے جڑے رہنے سے دماغی صحت بہتر نشوونما حاصل کرتی ہے اور فرد نہ صرف اپنے لیے اپنے ملک و قوم کے لیے بھی فایدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔
پاکستان ایک بھرپور ادبی ورثے کی حامل ریاست ہے لیکن بدقسمتی سے اب یہاں مطالعہ کا رواج اس حد تک کم ہو چکا ہے کہ اشاعتی ادارے زیادہ تر اب نئے پروجیکٹ پر کام نہیں کر رہے۔ کتابوں کی محدود اشاعت نے کاروبار کو جس طرح نقصان پہنچایا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ حکومتی پالیسیاں بھی کتاب دشمنی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ کاغذ کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ اور لوگوں کی قوت خرید اور غیر قانونی پی ڈی ایف کلچر نے بھی کتاب کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ میرا چونکہ اشاعتی اداروں سے براہ راست تعلق رہا ہے اس لیے یہ جانتی ہوں کہ کتاب اشاعت سے پہلے اور بعد میں کن کن مراحل سے گزرتی ہے۔ آپ لکھاری سے پہلے اشاعتی ادارے کے سربراہ کی خوشی کا اندازہ لگائیں کہ جب کوئی نئی کتاب شائع ہو کر اس کے پاس آتی ہے اور وہ اسے کسی نومولود کی طرح ہاتھوں میں لیتا ہے ، اسے محسوس کرتا ہے جیسے اس نے دنیا فتح کر لی ہو، اسی احساس سے ایک لکھاری گزرتا ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان کے کئی شہروں میں بھی سالانہ بنیادوں پر کئی بڑی سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں ، اداروں اور ایکسپو سینٹر میں کتاب میلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جو بلاشبہ ایک متحرک اور دلچسپ ثقافتی رجحان ہے جہاں اشاعتی ادارے، پبلشرز اور مصنفین کتابوں کی نمائش اور فروخت کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ یہ کتاب سے محبت کرنے والوں کے لیے نئے عنوانات دریافت کرنے، مصنفین سے ملنے اور ساتھی قارئین کے ساتھ جڑنے کا ایک پلیٹ فارم ہے۔بلاشبہ یہ ایک ایسی سرگرمی ہے جس کی جتنی داد دی جائے کم ہے لیکن حکومت کو ان میلوں کی مکمل سرپرستی کرنی چاہیے تاکہ کتب بینی کے کم ہوتے ہوئے رحجان کو فروغ دیا جا سکے۔
اگر ہم کتاب میلوں کی اہمیت کے بارے میں بات کریں تو کتاب میلے لوگوں کو پڑھنے اور ادب سے محبت پیدا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ وہ مصنفین اور ناشرین کو اپنے کام کو وسیع تر قارئین کے ساتھ اپنے تجربات شئیر کرنے کے لیے ایک بڑا اور محفوظ پلیٹ فارم مہیا کرتے ہیں۔کتاب میلے لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں، کتاب سے محبت کرنے والوں میں برادری کے احساس کو فروغ دیتے ہیں۔وہ مقامی مصنفین کو اپنے کام کی نمائش اور قارئین سے رابطہ قائم کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔یہ شاندار تقاریب علمی نصابی کتب سے لے کر فکشن ناولوں تک، متنوع دلچسپیوں اور ترجیحات کو پورا کرنے والی کتابوں کی ایک وسیع رینج کی نمائش کرتی ہیں۔
میں جب بھی کسی بک فیئر میں جاتی ہوں تو مجھے تازہ چھپی ہوئی کتابوں کی خوشبو سے بھرے ایک متحرک اور ہلچل سے بھرپور ماحول میں جی بھر کر سانس لینے کا موقع ملتا ہے۔ شرکائے بک فیئر نئی ریلیز، بیسٹ سیلرز، اور دیگر کتابوں کو تلاش کر سکتے ہیں۔ میلے میں کتاب پر دستخطوں، مصنفین کے ساتھ مذاکروں اور پینل مباحثوں کی بھی میزبانی کی جاتی ہے، جو ادب کے شائقین کو اپنے پسندیدہ مصنفین کے ساتھ مشغول ہونے کا ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔ جبکہ کتاب میلہ خواندگی، تعلیم اور ثقافتی تبادلے کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پبلشرز، مصنفین اور قارئین کو اکٹھا کر کے، میلہ کمیونٹی اور فکری ترقی کے احساس کو فروغ دیتا ہے۔ یہ مکالمے، سیکھنے اور دریافت کرنے کے لیے ایک جگہ فراہم کرتا ہے، اسی لیے یہ شہری ثقافتی کیلنڈر میں ایک اہم واقعہ ہے۔
دنیا بھر میں کتاب میلے کی ثقافت پر نظر ڈالیں تو فرینکفرٹ بک فیئر (جرمنی) عالمی سطح پر سب سے بڑے اور باوقار کتاب میلوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ اس کے علاو¿ہ لندن بک فیئر (برطانیہ) اشاعتی صنعت کے لیے ایک اہم تقریب شمار کی جاتی ہے۔ بیجنگ بین الاقوامی کتاب میلہ (چین) چینی پبلشرز اور مصنفین کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم گردانا جاتا ہے۔ ساو¿تھ ایشیا میں کولکتہ بک فیئر (انڈیا) ایشیا کے سب سے بڑے کتاب میلوں میں سے ایک ہے۔ جبکہ پاکستان میں بک فیئر اب ایک باقاعدہ سرگرمی میں ڈھل رہی ہے اور میلہ کلچر کی ثقافت فروغ پا رہی ہے ،جس میں سال بھر متعدد تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ پاکستان میں کچھ قابل ذکر کتاب میلوں میں کراچی بین الاقوامی کتاب میلہ جو ملک کے سب سے بڑے کتاب میلوں میں سے ایک ہے۔ لاہور بین الاقوامی کتاب میلہ ایک مقبول تقریب ہے جو پورے خطے سے کتاب کے شائقین کو راغب کرتی ہے اور پنجاب میں آباد کتاب کے قاری یہاں ضرور آتے ہیں۔اسلام آباد بین الاقوامی کتاب میلہ مصنفین، پبلشرز اور قارئین کے لیے ایک اہم پلیٹ فارم ہے۔
امام غزالی کہتے ہیں کہ بری صحبت سے تنہائی اچھی ہے، لیکن تنہائی سے پریشان ہو جانے کا اندیشہ ہے، اس لئے اچھی کتابوں کے مطالعے کی ضرورت ہے۔ کتاب میلے خواندگی کو فروغ دینے، ثقافتی تبادلے اور کمیونٹی کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ کتاب سے محبت کرنے والوں کو اکٹھے ہونے اور ادب کے لیے اپنے مشترکہ جذبے کا جشن منانے کا ایک منفرد موقع فراہم کرتے ہیں۔ لیکن یہاں پر اب کچھ ذمہ داری حکومت کو بھی اٹھانی پڑے گی۔ کیونکہ ان کتاب میلوں میں عوامی شمولیت کو یقینی بنانے کے لیے اشاعتی اداروں کی جانب سے کتابوں کی قیمتوں میں کمی کر دی جاتی ہے تاہم حکومت کی جانب سے ناشرین کو اسٹال لگانے کے سلسلے میں کسی قسم کی پزیرائی نہیں ملتی۔ صرف پنجاب یونیورسٹی میں لگنے والے بک فیئر کی بات کریں تو وہاں ایک اسٹال ناشر کو 35 ہزار کا پڑتا ہے اور ایکسپو سینٹر لاہور میں یہ اسٹال ایک لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ میں دیا جاتا ہے۔ اوپر سے ناشرین قیمتیں کم رکھنے پر بھی پابند ہیں۔ اگر حکومت تین چار دن کے لیے ایکسپو سینٹر فری کر دے تو کیا جاتا ہے ؟ شہریوں کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کی ذمہ داری اٹھانی ہے تو ساتھ ریاست بھی اپنا کردار ادا کرے اور سرکار تک یہ پیغام پہنچانے کے لیے قلم کار آگے بڑھیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے لیے ایک کتابوں کی پلیٹ فارم کرتے ہیں کے ساتھ ایک اہم جاتا ہے بک فیئر کو فروغ ہے اور سے ایک

پڑھیں:

عوام کا ریلیف حکومت کے خزانے میں

موجودہ حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے دعوے ویسے تو صبح وشام کرتی رہتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی مجبوریوں کا اظہار بھی کرتی رہتی ہے لیکن ریلیف دینے کا جب جب موقعہ میسر آتاہے وہ اس میں کٹوتی کرنے کی تدابیر بھی سوچنے لگتی ہے۔ایسا ہی اس نے ابھی چند دن پہلے کیا۔

وہ جانتی تھی کہ عوام عالمی سطح پر پیٹرول کی قیمتوں میں بڑی کمی کا ریلیف اپنے یہاں بھی دیکھنا چاہ رہے ہیں،لہٰذا اس نے بلوچستان میں اٹھنے والی شورش کو بہانہ بناکر وہاں ایک بڑی شاہراہ بنانے کی غرض سے یہ متوقع سارا ریلیف اپنے خزانے میں ڈال لیا۔یہ مجوزہ شاہراہ بنتی ہے بھی یا نہیں ،ابھی اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہاجاسکتاہے بلکہ خود حکومت کے مستقبل کے بارے میں بھی کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ یہ حکومت اپنے بقیہ چار سال پورے بھی کرپائے گی یانہیں۔ایک لیٹر پیٹرول پر حکومت نے ابھی ایک ماہ پہلے ہی دس روپے اضافہ کرکے لیوی کو ستر روپے کردیا تھا۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ پچھلی حکومت کے دور میں IMF نے اسی لیوی کو 35 روپے کرنے کو کہا تھااوروہ بھی قسطوں میں یکمشت نہیں۔مگر ابھی تو کسی عالمی مالیاتی ادارے نے ہم سے اس جانب کوئی مطالبہ بھی نہیں کیاتھامگر اس حکومت نے اپنے ڈیڑھ دو برسوں میں اسے ستر روپے سے بھی زائد کرکے اپنے بجٹ کا خسارہ کم کرنے کا بہت ہی آسان طریقہ ڈھونڈلیا۔

ستر روپے فی لیٹر ہی کچھ کم نہ تھاکہ اب اس میں مزید آٹھ روپے کاسراسر ناجائز اضافہ کردیا۔دیکھا جائے توامریکا کی جانب سے ٹیرف میں اضافے کے بعد عالمی مارکیٹوں میں تیل کی قیمت میں بیس فیصد تک کمی ہوئی ہے لیکن ہماری دردمند حکومت نے صرف تین فیصد یعنی آٹھ روپے ہی کم کرکے اسے بلوچستان کے عوام سے ہمدردی کے نام پراپنے خزانے میں منتقل کردیے۔یہ مجوزہ سڑک اورشاہراہ نجانے کب بنتی ہے کسی کو نہیں پتا۔ ایک طرف بلوچستان کے عوام سے اظہارہمدردی کرکے اوردوسری طرف ترقی وخوشحالی کے دعوے کرکے یہ ایک بڑا ریلیف عوام کی پہنچ سے دور کردیا۔دیکھا جائے تو تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی کا براہ راست فائدہ عوام کو ملنا چاہیے تھااورساتھ ہی ساتھ بجلی کی قیمتوں میںبھی مزید کمی کی جانی چاہیے تھی مگر سرکاری ہیرا پھیری نے یہ سارا ریلیف اپنے ذاتی ریلیف میں تبدیل کرلیا۔ایک لٹر پیٹرول پر78 روپے لیوی شاید ہی کسی اورملک میں لی جاتی ہو۔

یہ لیوی جس کامطالبہ IMF نے بھی نہیں کیامگر ہماری حکومت نے اپنے طور پراپنے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کی غرض سے لاگو کردیا۔ اُسے لمحہ بھر کے لیے عوام کی کسمپرسی اورمفلوک الحالی کا بھی خیال نہیں آیا کہ وہ کس حال میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ ہمیں پورا یقین ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں اگر عالمی سطح پرپھرسے بڑھیں تو حکومت اُسے اپنے یہاں بڑھانے میں ذراسی بھی دیریا غفلت نہیںکرے گی۔

حکومت نے اپنے پارلیمانی ساتھیوں کے معاوضے میںتو یکمشت پانچ سو فیصد تک اضافہ کردیا مگر عوام کو دس بیس روپے کا ریلیف دینے سے بھی انکار ی ہے۔ حکومت اپنے ایسے کاموں سے اپنی وہ کارکردگی اورستائش ضایع کردیتی ہے جو اس نے اگر کچھ اچھے کاموں سے حاصل کی ہوتی ہے۔ بجلی کی قیمت کم کرنے والا حکومتی اقدام اگرچہ ایک اچھا اقدام تھا مگر اسکی تشہیر کا جو طریقہ اپنایا گیا وہ کسی طور درست نہیںتھا۔ ہرٹیلی فون کال پروزیراعظم کی آواز میں قوم کو اس احسان کی یاد دہانی درست نہیں۔ سوشل میڈیا پر اس طریقہ کا مذاق بنایا گیا ۔پچھتر برسوں میں ہم نے پہلے کبھی کسی بھی حکمراں کی طرف سے ایسا کرتے نہیں دیکھا تھا۔

حکومت نے بے شک اس مختصر عرصے میں اچھے کام کیے ہیں جن کااعتراف اور پذیرائی بھی بہرحال عوام کی طرف سے کی جارہی ہے لیکن یاد رکھاجائے کہ ابھی بہت سے اور بھی کام کرنے ہیں۔بجلی کی حالیہ قیمتیں اب بھی بہت زیادہ ہیں، اسے مزید کم ہونا چاہیے۔IPPs سے مذاکرات کرکے اسے مزید کم کیاجاسکتا ہے۔ ان کمپنیوں سے اس داموں بجلی بنانے کے معاہدے بھی ہماری دوسیاسی پارٹیوں کی حکومتوںنے ہی کیے تھے ۔ اپنی ان غلطیوں کا ازالہ موجودہ حکومت اگر آج کررہی ہے تو یقینا یہ قابل ستائش ہے مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ قوم کو صبح وشام گوش گزار کرکے اپنی تشہیر کی جائے۔سابقہ دور میں غلط کاموں کی تصحیح بہرحال ایک اچھا اورصائب قدم ہے اوراسے مزید جاری رہنا چاہیے۔ بجلی کی قیمت میںمزید کمی ہونی چاہیے ۔

پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ اس مد میں بھی عوام کو ملناچاہیے۔ بلوچستان کے لوگوں کا احساس محرومی صرف ایک سڑک بنانے سے ہرگز دور نہ ہوگا۔وہاں کے لوگوں کی تشویش کئی اور وجوہات سے بھی ہے ہمیں اُن وجوہات کا ازالہ بھی کرنا ہوگا۔ سارے ملک کے لوگوں سے پیٹرول کی مد میں 20روپے نکال کراسے سات آٹھ روپے ظاہرکرکے بلوچستان میںسڑک بنانے کے لیے رکھ دینے سے وہاں کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ ہمیں اس مسئلے کا سنجیدہ بنیادوں پرحل تلاش کرنا ہوگا ۔ ایسالگتا ہے حکومت کو اب بھی وہاں کی اصل صورتحال کاادراک ہی نہیں ہے یاپھر وہ جان بوجھ کراسے نظر انداز کررہی ہے ۔

 ہم یہاں حکومت کو یہ باورکروانا چاہتے ہیں کہ وہ اگرکچھ اچھے کام کررہی ہے تو خلوص نیت اورایمانداری سے کرے ۔ پیٹرول کی قیمت جو ہماری کرنسی کی وجہ سے پہلے ہی بہت زیادہ ہے اُسے جب عالمی صورتحال کی وجہ سے کم کرنے کا موقعہ غنیمت میسر ہوتو پھر اُسے فوراً عوام کو منتقل کرناچاہیے ناکہ اُسے حیلے بہانوں سے روک لیناچاہیے۔پیٹرول جب جب دنیا میں مہنگا ہوتا ہے تو حکومت فوراً اسے اپنی مجبوری ظاہرکرکے عوام پر منتقل کردیتی ہے لیکن جب کچھ سستا ہوتو یہ ریلیف اپنے خزانوں میں ڈال دیتی ہے ۔

عوام کی تنخواہوں میں اضافے کی ہر تجویز IMFکے ساتھ ہونے والے معاہدے سے نتھی کرکے ٹال دیاجاتا ہے جب کہ اپنے پارلیمانی ساتھیوں کی مراعات میں کئی کئی سوفیصد اضافہ کرتے ہوئے اُسے IMF کی یہ شرائط یاد نہیں آتی ہیں۔یہ دورخی پالیسی سے عوام بددل ہوجاتے ہیں۔حکمرانوں کو اپنے ان طور طریقوں پرغور کرنا ہوگا۔سب کچھ اچھا ہے اورعوام اس سے خوش ہیں ۔اس خام خیالی سے باہر نکلنا ہوگا۔اپنے ساتھیوں کی مداح سرائی کی بجائے ذرا باہر نکل کربھی دیکھیں عوام کس حال میں زندگی بسر کررہے ہیں۔

سات روپے بجلی سستی کرکے یہ سمجھ لینا کہ عوام ان کی محبت میںسرشار ہوچکے ہیں اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ قوم سے ہربرے وقت میں قربانی مانگنے کی بجائے اب خود بھی کوئی قربانی دیں۔اس مشکل وقت میںپچاس پچاس وزیروں کی بھلاکیا ضرورت ہے اور وہ بھی بھاری بھرکم تنخواہوں پر۔یاد رکھیں عوام اب مزید قربانیاں دینے کوہرگز تیار نہیں ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • خاموش بہار ۔وہ کتاب جوزمین کے دکھوں کی آواز بن گئی
  • مودی سرکار اور مقبوضہ کشمیر کے حالات
  • سندھ کی عوام اپنے حقوق کا سودا کرنے والوں کو کسی قسم کے مذاکرات کا حق نہیں دیگی، سردار عبدالرحیم
  • وقف ترمیمی بل پر بھارت بھر میں غم و غصہ
  • کتاب ہدایت
  • وقف ترمیمی بل پر بھارت بھر میں غم و غصہ، حیدرآباد میں بتی گُل احتجاج کا اعلان
  • عوام کا ریلیف حکومت کے خزانے میں
  • اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کرنے پر پاکستانیوں کے مشکور ہیں، حماس رہنما
  • فلسطین کے معاملے پر امت مسلمہ کو فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے ،اسپیکر ایاز صادق
  • فلسطین کے معاملے پر امت مسلمہ کو فیصلہ کن اقدامات کرنے ہوں گے ، ایاز صادق