Nai Baat:
2025-04-22@00:17:42 GMT

وادی پر خار میں پھول کھلنے کا وقت !

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

وادی پر خار میں پھول کھلنے کا وقت !

جنہیں موسم خزاں پسند ہے وہ چاہتے ہیں کہ نئی کونپلیں نہ نکلیں پھول پتے نمو دار نہ ہوں اور ان پر رنگ برنگی تتلیاں نہ منڈلائیں مگر فطرت ایسا نہیں چاہتی لہٰذا یہ خزاں ر±ت باقی نہیں رہے گی بہار میں بدل جائے گی پھر فضا خوشبووں سے رچ بس جائے گی ماحول میں تازگی اور خوشگواریت کا احساس ہوگا لہٰذا چہروں پر پھیلی ہوئی پژمردگی و اداسی دکھائی نہیں دے گی۔اسی طرح ہم پر امید ہیں کہ سیاست کی دنیا میں جو حزن و ملال کی لہر ابھری ہوئی ہے قہقہوں میں بدل جائے گی۔اگر چہ دوسروں کے د±کھوں کو محسوس نہ کرنے والے حالت موجود کو اِدھر ا±دھر نہیں ہونے دینا چاہتے اور ہر روز اس کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر ” ویلے دی اکھ نے“ د±ور کہیں کسی روشن چراغ کو دیکھ لیا ہے لہذا روشنی پھیلنے کا آغاز ہو چکا ہے اور اب ہر شے واضح نظر آئے گی۔
اس نظام کو اس سوچ کو بدلنے کے لئے کوئی آئے بلکہ آرہا ہے یہ کیسی بات ہے کہ لوگ د±کھ جھیلتے چلے آئیں اور وہ طبقہ جسے اشرافیہ کہتے ہیں ان پر مسلسل حکمرانی کرتا چلا آئے اور اپنے لئے ہر آسانی اور راحت کا سامان پیدا کر لے۔غریبوں کے مسائل کو بھاری پتھر جان کر نظر انداز کردے اور وہ سوچوں میں گ±م ہو جائیں ان سے یہ نہ پوچھ سکیں کہ تم ہی کیوں ریاستی وسائل کے حق دار ہو تم ہی کیوں بار بار اقتدار میں آتے ہو کبھی کوئی کبھی کوئی ٹیکس لگاتے ہو مہنگائیوں کے سائیکلون برپا کرتے ہو اور اس تکلیف دہ نظام کا تحفظ کرتے ہو ؟ مگر اب یہ مشق جاری نہیں رہ سکتی کیونکہ بیداری نے ہر غریب کے ذہن کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔پہلے وہ جو ہر حکمران سے کسی بہتر کی آس لگاتے تھے اب ان کے ہاتھ سے اس آس کا دامن چھوٹ چکا ہے لہٰذا وہ ماضی کی سیاست کو خیر باد کہہ چکے ہیں اور جو ایک نیا چہرہ ابھر کران کے سامنے آیا ہے اس کے پیچھے چل پڑے ہیں ۔
جی ہاں !عمران خان کو عوام کی غالب اکثریت نے اپنا لیڈر مان لیا ہے وہ اس کی ہر ادا پر صدقے واری جا رہے ہیں اس نے بھی ثابت کر دیا ہے کہ وہ عوامی ہے اس نے پ±ر آسائش طرز بود و باش سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ لہٰذا وہ کوئی مطالبہ نہیں کر رہا اور کسی ڈیل کے ذریعے باہر نہیں آنا چاہتا کہ ویسے بھی وہ زنداں میں رہنے کا عادی ہو چکا ہے مگر کب تک آخر کار اسے باہر آنا ہی ہے کیونکہ جب وہ اس نظام کو تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اس کا زنداں میں تادیر رہنا ممکن نہیں۔
بہرحال عوامی امنگوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ستتر برس بیت گئے اور اشرافیہ اب بھی چاہتی ہے کہ یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھے مگر اس کے لئے وقت سازگار نہیں یہ سماں اور یہ ر±ت بدل کر رہے گی چاہے کوئی بھی بدلے مگر وہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ سب کچھ جوں کا توں رہے اس مقصد کے لئے وہ اپنے تئیں مختلف النوع حکمت عملیاں اختیار کر رہی ہے اور جاگے ہوئے ذہنوں کو سلانے کی سعی کر رہی ہے اِس میں ا±سے کامیابی حاصل نہیں ہو رہی۔ خیر اب جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے باضابطہ نئے صدر بن چکے ہیں اور روایتی سیاست و پالیسیوں سے الگ ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں تو ہمارے اہل اختیار ان سے پہلی سی محبت کے خواہاں ہیں مگر انہیں کیوں یہ معلوم نہیں کہ وہ روایتی سیاست کو ترک کرنے جا رہے ہیں اس کا اظہار وہ باقاعدہ کر چکے ہیں وہ دوسرے ملکوں میں بھی ایسا ہی چاہتے ہیں امن و آشتی کی بات کر رہے ہیں عوامی مینڈیٹ کا احترام ان کے پیش نظر ہے اس پر ہمارے کرتا دھرتا کسی گہری سوچ میں پڑ گئے ہیں مگر یہ نظام یہ طرز عمل بدلنا ہی ہے ٹرمپ بدلیں یا نہ بدلیں عوام خود بدلیں گے ان کے صبر کا پیمانہ
لبریز ہوچکاہے اس کا ثبوت وہ آٹھ فروری کو دے چکے ہیں اس وقت بھی انتخابات ہو جائیں تو بھی پی ٹی آئی واضح اکثریت سے جیتے گی اس کا ادراک اہل حکومت کو بخوبی ہو گا۔ بات صاف اور سیدھی ہے کہ خان لوگوں کے اذہان کو اپنی مخصوص فکر سے گرفت میں لے چکا ہے لہٰذا وہ حکومت کی کسی منصوبے اور کسی بیان کو تحسین کی نگاہوں سے نہیں دیکھ رہے ان کا موقف ہے کہ جو حکومت ان کے مینڈیٹ کو تسلیم نہ کرتے ہوئے اقتدار میں آئے اس کی کوئی بات بھی قابل قبول نہیں یہی وجہ ہے کہ اس کے چند ایک فلاحی پروگرام بھی ان کی توجہ حاصل نہیں کر پا رہے کہ انہیں تو اس نظام کو بدلنا ہے کہ جس میں مساوات ہو ان کے حقیقی نمائندے انہیں جواب دہ ہوں وہ بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم پھر نہ رہے ہوں ان کی دولت میں اضافہ نہ ہوتا ہو اور اگر ہو بھی تو اسے بحق سرکار ضبط کر لیا جائے مگر ایسا بڑی جدوجہد سے ممکن ہو سکے گا کیونکہ یہ نظام بڑا ہی طاقتور ہے عمران خان اس نظام کو تبدیل کرنے کی خواہش تو رکھتا ہے مگر اسے قدم قدم پر رکاوٹوں کا سامنا ہے اور سلاخوں کے پیچھے بیٹھا ہے۔حیرانی ہوتی ہے کہ وہ ابھی تک اپنے نظریے پر ہی قائم ہے جبکہ ماضی میں بہت سے سیاست دان نیویں نیویں ہوکر باہر آگئے مگر اس میں اتنی جرات و ہمت کہاں سے آگئی ہے کہ وہ چودہ برس کی سزا پر بھی مسکرا رہا ہے شاید اسے یہ یقین ہے کہ عوام اس کے ساتھ ہیں پھر اب تو ڈونلڈ ٹرمپ بھی اس کی رہائی چاہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ انہوں نے حکومت کو کوئی فون نہیں کیا مگر ان کے بعض حکومتی عہدیدار خان کی رہائی کا کہہ رہے ہیں وہ حکومت کو مجبور کر سکتے ہیں یا نہیں جلد معلوم ہو جائے گا ویسے کچھ کچھ لگ رہا ہے کہ کہیں نہ کہیں ضرور کوئی بات ہو رہی ہو گی کیونکہ ہم قرضے لے کر جوان ہوئے ہیں آئندہ بھی اپنا ان پر ہی انحصار ہے کیونکہ جو دولت چھپائی گئی ہے اسے ظاہر نہیں کرنا چاہتے کہنے والے کہتے ہیں کہ اسی لئے ہی موجودہ فرسودہ اور تکلیف دہ نظام کو بدلا نہیں جا رہا مگر وادی¿ پ±رخار میں زندگی کا پھولوں کی مہک میں گزرنے کا وقت ہوا چاہتا ہے !

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: اس نظام کو کرتے ہو چکے ہیں رہے ہیں ہیں کہ کے ہیں

پڑھیں:

ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم

سیکرٹری اطلاعات پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ جو اپنی ذاتی حیثیت میں کوششیں کر رہے ہیں اور کرتے رہتے ہیں ان کو بھی خان صاحب نے کہہ دیا ہے کہ میری رہائی کے حوالے سے میں نے کسی کو بھی آتھرائز نہیں کیا کہ وہ کوئی مذاکرات کریں۔ اسلام ٹائمز۔ مرکزی رہنماء پاکستان تحریک انصاف شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہے کہ بات شروع کرنے سے قبل میں ایک چیز کلیریٹی سے کہہ دوں کہ فی الوقت جب ہم بات کر رہے ہیں، ہمارے بیک ڈور یا سامنے کسی قسم کے اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات جاری نہیں ہیں، جو اپنی ذاتی حیثیت میں کوششیں کر رہے ہیں اور کرتے رہتے ہیں ان کو بھی خان صاحب نے کہہ دیا ہے کہ میری رہائی کے حوالے سے میں نے کسی کو بھی آتھرائز نہیں کیا کہ وہ کوئی مذاکرات کریں، وہ بات وہاں فائنل ہو گئی ہے، اگر کوئی کلیم بھی کرتا ہے کہ مجھے خان نے آتھرائز کیا ہے تو خان صاحب نے واضح کر دیا ہے کہ میں نے کسی کو آتھرائز نہیں کی۔

ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ خان صاحب نے ایک اور بات بڑی واضح کر دی ہے، ساتھ ہی کہ ہم بطور پولیٹکل پارٹی مذاکرات کے بالکل خلاف نہیں ہیں مگر مذاکرات کس لیے؟ نمبر ون قوم کیلیے، نمبر ٹو آئین کی بالادستی اور نمبر تین قانون کی حکمرانی کیلیے، ہیومن رائٹس کے لیے، جمہوریت کیلیے۔

متعلقہ مضامین

  • نظام کی بہتری کے لیے 26 ویں ترمیم کی گئی، ضرورت ہوئی تو مزید قانون سازی کریں گے، وزیر قانون
  • وادی کشمیر کے ضلع بارہمولہ میں "بین المسالک بیداری کانفرنس" کا اہتمام
  • ہمارے اسٹیبلشمنٹ سے کوئی مذاکرات نہیں ہورہے، شیخ وقاص اکرم
  • پیچیدہ ٹیکس نظام،رشوت خوری رسمی معیشت کے پھیلاؤ میں رکاوٹ
  • گورننس سسٹم کی خامیاں
  • جمہوریت کی مخالفت کیوں؟
  • نکیال آزاد کشمیر۔۔۔ بچیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں
  • آزاد کشمیر میں بارش سے موسم سرد
  • جو کہتے ہیں کوئی ڈیل ہورہی ہے انکی عقل چلی گئی ہے: اعظم سواتی
  • مقبوضہ وادی کشمیر میں طوفانی بارشیں، ژالہ باری سے فصلیں تباہ