Nai Baat:
2025-04-22@18:55:40 GMT

عدلیہ کا کردار

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

عدلیہ کا کردار

تاریخ کاسبق یہی ہے کہ اس سے کوئی کوئی ہی سبق سیکھتا ہے۔ہم تو بالکل بھی نہیں سیکھتے کہ ہم جو ٹھہرے دائروں کے مسافر۔نہ آگے بڑھنے کی لگن نہ چاہ اور نہ ہی راہ۔تھوڑے وقفے کے بعد اسی مقام پر کھڑے ہوتے ہیں یہاں سے مشکل سے گزرہوا تھا۔آج سپریم کورٹ اور حکومت کے حالات دیکھ کرانیس سو ستانوے یاد آگیا۔یہی کچھ تھاجو آج ہے بس اس وقت حکمران نوازشریف تھے آج ان کے بھائی ہیں۔
فروری 1997میں عام انتخابات میں مسلم لیگ ن دوتہائی اکثریت کے ساتھ حکومت میں آگئی ۔ نوازشریف وزیراعظم بنے جوایک بار آٹھویں ترمیم سے خود اوردوبار بے نظیر کواسی صدارتی اختیار کا شکار ہوتے دیکھ چکے تھے۔اب تہیہ کیا کہ اس اختیار کو ختم کریں گے تاکہ قصر صدارت سے جو خطرہ ہر وقت لب بام رہتا ہے اس سے تو چھٹکارا پایا جائے ۔اختیار بھی پاس تھا کہ دوتہائی اکثریت کی حکومت تھی۔موقع بھی تھا کہ فاروق لغاری صدر تھے اورایک حکومت کو شکار کرچکے تھے۔منہ کو خون تو لگ ہی چکا تھا ۔نوازشریف پیچھاچھڑانا چاہتے تھے کہ جس صدر نے اپنی پارٹی کی وزیراعظم کا خیال نہ کیا اورحکومت توڑ کر گھر بھیج دیا وہ نوازشریف کو کیونکر بخشیں گے۔اصل کشمش یہ تھی کہ اگر فاروق لغاری کوہٹانے کا کام فی الحال نہ بھی ہو لیکن کم از کم ان سے اسمبلی تحلیل کرنے کا اختیار فوری چھین لیا جائے۔نوازشریف نے حکم کیا ۔آئین کی تیرھویں ترمیم تیار ہوئی اوراسمبلی سے پاس ہوکر قانون بن گیا ۔فاروق لغاری نہتے صدر بن کر رہ گئے۔
اس نقطے سے عدلیہ کی انٹری ہوگئی۔ جسٹس سجاد علی شاہ چیف جسٹس تھے۔وہ تین سال سے اس عہدے پر تھے لیکن حکومتی معاملات میں ٹانگ اڑانے کا ٹریک ریکارڈ بالکل بھی نہیں تھا بلکہ یہاں تک ایک فیصلے میں کہہ چکے تھے کہ آٹھویں ترمیم ایک ڈکٹیٹرنے آئین میں ڈالی تھی اس کو ختم ہونا چاہئے لیکن اس کو ختم کرنا عدلیہ کا کام نہیں ہے ۔اسمبلی کو قانون سازی کے ذریعے اس ترمیم کوختم کرنا چاہئے۔ نوازشریف کے سامنے چیف جسٹس کایہ فیصلہ تھا اس لیے انہیں ذرا بھی خطرہ نہیں تھا کہ عدلیہ اس سیاسی معاملے میں دخل دے گی لیکن پاکستان میں کبھی کچھ بھی مستقل کہاں رہتا ہے۔
ایک طرف ایوان صدر تھا تو دوسری طرف سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے حکومت سے اختلافات ہوگئے ۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں پانچ جج تعینات کرنے کے لیے بھجوائے تو وزیراعظم نوازشریف نے ان میں سے دونام مسترد کردیے بلکہ یہ تک کہا کہ سپریم کورٹ میں مزید ججز کی ضرورت ہی کیا ہے۔انہوں نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد کم کرنے کی کوشش بھی کی لیکن کامیاب نہیں ہوسکے۔ ان اقدامات نے جسٹس سجاد علی شاہ کو طیش دلایا انہوں نے نوازشریف کو توہین عدالت میں سپریم کوٹ بلوالیاوزیراعظم نے توہین عدالت میں غیرمشروط معافی مانگ لی لیکن سجاد علی شاہ نے ان کی معافی قبول کرنے سے انکارکردیا۔اس بات پر حکمران جماعت نے شدید ردعمل دیا اورسپریم کورٹ پر حملہ ہی کردیا۔
اس وقت سیاسی افراتفری یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ سب کو مارشل لا ءلگنے کا یقین ہوگیا تھا۔ آرمی چیف جہانگیر کرامت نے حکومت مخالف قوتوں کا ساتھ دینے سے انکارکردیا کہ ابھی ملک میں الیکشن کو ہوئے نو ماہ بھی نہیں گزرے ہیں تو اتنی جلدی ایک اور الیکشن کیسے ہوسکتا ہے۔اور دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ سب جانتے تھے کہ اس وقت نوازشریف اپنی مقبولیت کے عروج پر ہے اسمبلی تحلیل بھی ہوگئی تو وہ دوبارہ جیت جائیں گے اس لیے اسمبلی توڑمہم ناکام ہوگئی ۔اس مہم کے ناکام ہونے کے بعد صدر فاروق لغاری کو استعفیٰ دینے پر رضامند کرلیا گیا۔فاروق لغاری راستے سے ہٹ گئے۔ وسیم سجاد جو چیئرمین سینیٹ تھے قائم مقام صدر بن گئے۔
اس کے بعد نوازشریف حکومت چیف جسٹس سجاد علی شاہ سے نمٹنے کے لیے تیار ہوگئی۔سپریم کورٹ مکمل تقسیم ہوچکی تھی۔ سپریم کورٹ کے دس ججوں نے اپنے چیف جسٹس کو ان کی تقرری کے کیس میں بینچ کے سامنے بلوالیا۔اس کیس میں سپریم کورٹ کے باغی ججز نے اپنے ہی چیف جسٹس کو کام کرنے سے روک دیا۔یہ دسمبر 1997کا پاکستان تھا۔چیف اور صدر کو گھر بھیجنے کے بعد نوازشریف نے جسٹس اجمل میاں کو چیف جسٹس اور رفیق تارڑ کوصدربنادیا اورحکومت کرنے لگے۔انہوں نے آئین میں چودھویں ترمیم کی جس میں فلورکراسنگ پر پابندی لگادی گئی ۔تمام اختیارات صدرسے لے کر وزیراعظم کو دے دیے گئے۔آٹھویں ترمیم کا خاتمہ ہوا۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی نوازشریف کی حکومت مدت پوری کرنے میں ناکام رہی اور انجام مشرف کے مارشل لاپر ہوا۔
آج کی سپریم کورٹ میں بھی ستانوے جیسی صورت حال نظر آ رہی ہے۔ ملک میں جاری سیاسی تقسیم نے پاکستان کے سب سے بڑے عدل کے فورم کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مسئلہ کسی اصولی مو¿قف سے جڑا ہوا نہ کل تھا نہ آج ہے۔ مسئلہ طاقت اور عہدے ہیں۔حکومت نے بندیال کی سپریم کورٹ اور اس سے پہلے ثاقب نثار کے ہاتھوں ”کمبل کُٹ“ کھانے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ آئینی مقدمات جن سے براہ راست حکومت کے مفلوج ہونے کا خطرہ منڈلاتا ہے اس کا بندوبست کرنے کےلئے آئینی ترمیم لائی جائے۔ حکومت نے چھبیسویں آئینی ترمیم تو کرلی لیکن معزز مائی لارڈز میں جن کو اس ترمیم کا ”فیض“ باہم نہیں مل سکا وہ اب غصے میں ہیں۔جناب معزز مائی لارڈ منصور علی شاہ صاحب جنہوں نے مخصوص نشستوں کا فیصلہ کرتے وقت آئین اور قانون کو نیپال بھیج کر آئین کی تشریح کی بجائے دوبارہ آئین تحریراس لیے کردیا کہ کہیں حکومت کو دوتہائی اکثریت نہ مل جائے کہ وہ آئین میں کوئی ترمیم کرسکے۔
حکومت تو حکومت ہوتی ہے اس نے آئینی ترمیم کا پھر بھی بندوبست کر لیا۔ چیف جسٹس بننے کے لیے ہر حد تک جانے کی جدوجہد کو دیکھتے ہوئے حکومت نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے لیے یحییٰ آفریدی کو منتخب کرلیا۔اوپر سے منصور علی شاہ صاحب کو آئینی بینچ سے بھی دورکردیا گیا۔ اب بھلے وہ قاضی ہیں جس کا کام آنکھوں پر پٹی باندھ کر انصاف کرنا ہے لیکن وہ ایک انسان بھی توہیں۔ یہ انسانی وصف ان کو چین ہی نہیں لینے دے رہا۔وہ ہر صورت اس ترمیم اور اس کے نتیجے میں ہونے والے اقدامات کو لپیٹنا چاہتے ہیں۔تازہ واردات سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹررارکیخلاف توہین عدالت کیس ہے جس کافیصلہ محفوظ ہے لیکن سوال ہے کہ کیا سپریم کورٹ اس ملک کے عوام کا بھی کوئی بھلا کبھی کرے گی یا طاقت کی لڑائی کا مہرہ ہی بنی رہے گی؟

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: جسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے فاروق لغاری انہوں نے چیف جسٹس کے لیے کے بعد

پڑھیں:

اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے تبادلے کیخلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت

اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے ٹرانسفر کے خلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی، سماعت جسٹس محمد علی مظہر کی سربراہی میں 5 رکنی آئینی بینچ نے کی۔

بینچ میں جسٹس نعیم اختر افغان، شاہد بلال، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس صلاح الدین پنہور بھی شامل تھے۔

اس موقع پر درخواست گزار ججز کے وکیل منیر اے ملک سے استفسار کرتے ہوئے جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ تمام فریقین کے تحریری جوابات آچکے ہیں، کیا آپ ان جواب پر جواب الجواب دینا چاہیں گے؟ جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ جی میں جواب الجواب تحریری طور پر دوں گا۔

یہ بھی پڑھیے: سپریم کورٹ ججز ٹرانسفر کیس میں رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے جواب جمع

جسٹس محمد علی مظہر نے مزید استفسار کیا کہ آپ کو کتنا وقت چاہیے ہوگا جس پر منیر اے ملک نے کہا کہ آئندہ جمعرات تک وقت دے دیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اتنا وقت کیوں چاہیے بہت سے وکلا نے دلائل دینے ہیں۔ منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ تمام فریقین کے جوابات کی کاپیاں آج ملی ہیں، تمام جوابات اور دستاویزات کا جائزہ لینے کا وقت دیا جائے۔

سماعت کے دوران وکیل کراچی بار فیصل صدیقی نے کہا کہ آئندہ ہفتے میں دستیاب نہیں ہوں گا، آئندہ ہفتے فوجی عدالتوں کا کیس بھی ہوگا، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے بھی کہا کہ میں بھی بیرون ملک ہوں گا جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس کو اتنا لمبا نہ کریں۔

یہ بھی پڑھیے: ججز ٹرانسفر اور سنیارٹی کیس، جوڈیشل کمیشن، رجسٹرار سپریم کورٹ اور وزارت قانون نے جواب جمع کرا دیا

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس کیس کو ہم صبح رکھ لیں گے، ویسے بھی فوجی عدالتوں کا کیس ساڑھے 11 بجے ہوتا ہے۔

کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی گئی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اسلام آباد ہائیکورٹ ججز تبادلہ کیس ججز ٹرانسفر کیس سپریم کورٹ

متعلقہ مضامین

  • ایک سال بعد جرم یاد آنا حیران کن ہے، ناانصافی پر عدالت آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی، سپریم کورٹ
  • ججزٹرانسفرکیس : رجسٹرار سندھ ہائیکورٹ نے سپریم کورٹ آئینی بنچ کو جواب جمع کرا دیا
  • اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز کے تبادلے کیخلاف کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت
  • ہائیکورٹ کے پاس تمام اختیارات ہوتے ہیں،ناانصافی پر آنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں،سپریم کورٹ کے صنم جاوید کی بریت فیصلے کیخلاف پنجاب حکومت کی اپیل پرریمارکس
  • سپریم کورٹ: 9 مئی مقدمات میں صنم جاوید اور شیخ رشید کی بریت پر حکومت کو عدالت کا دو ٹوک پیغام
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • سابق جج سپریم کورٹ جسٹس سرمد جلال عثمانی انتقال کر گئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائم مقام چیف جسٹس پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا
  • سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈسرمد جلال عثمانی انتقال کرگئے
  • جسٹس منصور علی شاہ نے قائمقام چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف اٹھالیا