Nai Baat:
2025-12-13@23:13:04 GMT

ٹرمپ نے حلف اٹھا لیا

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ٹرمپ نے حلف اٹھا لیا

جگے ماریا لائل پور ڈاکا تے ٹلیاں کھڑک گیاں تے ٹرمپ چکیا حلف امریکا تے ٹلیاں پاکستان کھڑک گیاں ۔یقین کریں کہ ٹرمپ کے حلف اٹھانے کا اتناانتظار امریکا میں نہیں تھا اس کی جماعت ریپبلکن کو نہیں تھا بلکہ خود ٹرمپ کو نہیں تھا کہ جتنا پاکستان میں ہمارے تحریک انصاف کے دوستوں کو تھا ۔ ٹرمپ نے آتے ہی جو بائیڈن کے 80ایگزیکٹو آرڈرز کو منسوخ کر دیا اور درجنوں نئے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیئے جن میں کیپیٹل ہل پر حملے کرنے والے 1500لوگوں کو عام معافی دے دی لیکن بانی پی ٹی آئی کا ذکر تک نہیں کیا کہ جس کا پاکستان میں اس دن سے بہت چرچا ہو رہا تھا کہ جس دن سے ڈونلڈ ٹرمپ جیتے تھے ۔ ٹرمپ کے حوالے سے کچھ لوگوں نے ان سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی تھیں اور اب بھی ہیں کہ ٹرمپ یہ کر دے گا وہ کر دے گا بلکہ ٹرمپ جدوں آئے گا تے لگ پتا جائے گا جس دن سے ٹرمپ نے الیکشن جیتا تے اج خوشیاں دے نال مینوں پے گئے نے حال ۔ کوئی اس قسم کا ماحول تھا ۔ ایک بڑے ٹی وی چینل پر ایک سینئر صحافی لیکن ہم خیال صحافی نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ٹرمپ نے جس دن حلف اٹھانا ہے اس کے دو دن بعد وہ پاکستان کے الیکشن کمیشن کے متعلق ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کرے گا جیسے کہ اس نے بنگلا دیش کے الیکشن کمیشن کے متعلق جاری کیا تھا حالانکہ اس وقت وہ صدر ہی نہیں تھے لیکن ہوا کیا کہ ٹرمپ نے تو اپنی تقریر میں میرے قائد انقلاب مرشد کا ذکر تک نہیں کیا ۔ ذکر تو دور کی بات ہے وہ ذلفی بخاری کے ٹرمپ کے داماد سے قریبی تعلق وہ ایک سے زائد لابنگ فرم جنھیں کروڑوں روپے دیئے جاتے ہیں یہ سب مل کر Oath Taking Ceremonyکا ایک Invitation Cardحاصل نہیں کر سکے جبکہ وزیر داخلہ محسن نقوی وہاں پہنچے ہوئے تھے ۔ اسی حوالے سے سوشل اور قومی الیکٹرانک میڈیا پر بلاول بھٹو زرداری کے دعوت نامے کی بھی خبریں آئیں اور ہم نے بھی اپنے ایک کالم میں اس کا ذکر کیا تھا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا تھا کہ یہ ایک غیر مصدقہ خبر ہے کہ جس کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع تصدیق نہیں کر رہے لیکن اس افواہ پر بھی انصافی سوشل میڈیانے باقاعدہ خبر کے طور پر پوسٹ وائرل کر دی کہ یہ دعوت نامہ بلاول نے سوا ملین یعنی34کروڑ میں خریدا ہے ۔ یہ وہ حالات ہیں اور دیکھنا یہ ہے کہ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اور خود بانی پی ٹی آئی اب امیدوں کا مرکز کسے بناتے ہیں ۔
کچھ لوگ اس کے باوجود بھی حکومت کے جانے کی باتیںکر رہے ہیں اس لئے کہ کیا حکومت جانے والی ہے ۔ یہ وہ سوال ہے کہ جو پاکستان کی سیاست میں کسی وقت آﺅٹ آف ڈیٹ نہیں ہوتا ۔88سے لے کر مشرف مارشل لاءتک چار حکومتیں اور پھر مشرف دور میں کہ جس میں اسٹیبلشمنٹ کا چیف خود حکمران تھا اس دور میں بھی میر ظفر اللہ خان جمالی کے متعلق قیاس آرائیاںہوتی رہی اور پھر اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی انھیں ہٹا کر پہلے چند ماہ کے لئے چوہدری شجاعت اورپھر شوکت عزیز کو وزیر اعظم بنا دیا گیا ۔ اس کے بعد 2008میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکوت آئی تو چند ماہ بعد ہی پاکستان کا میڈیا اسے ہر رات گرا کر سوتا تھا لیکن بہر حال وہ حکومت پانچ سال پورے کر گئی لیکن پھر بھی یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دے کر روایت کو برقرار رکھا گیا اور ان کی جگہ راجہ پرویز اشرف کو وزیر اعظم بنا دیا گیا ۔2013میں نواز لیگ کی حکومت آئی تو پھر نواز شریف کو مدت پوری نہیں کرنے دی گئی اور انھیں بھی نا اہل قرار دے دیا گیا اور ان کی جگہ شاہد خاقان عباسی آ گئے اور اسی طرح تحریک انصاف کی حکومت کو بھی تین سال آٹھ ماہ بعد ختم کر دیا گیا ۔ فروری کے الیکشن پر دھاندلی کے نام پر حکومت کے خلاف محاذآرائی شروع کر دی گئی تھی لیکن ماضی اور حال میں فرق یہ ہے کہ اس بار اسٹیبلشمنٹ موجودہ حکومت کے ساتھ ہے لیکن مختلف جگہ پر سہولت کار اپنا کام کر رہے ہیں ۔ میں نے چند ماہ پہلے اسی موضوع پر کہا تھا کہ تحریک انصاف ابھی حکومت کے خلاف سنجیدہ نہیں ہے اور پھر حکومت کے خلاف ہر مزاحمت ناکام ثابت ہوئی لیکن اب حکومت کے خلاف جو بھی ہو گا اس میں حکومت گرانے کی پوری کوشش کی جائے گی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو معیشت کی بہتری کے لئے جتنے بھی سخت اقدامات لینا تھے وہ کم و بیش لئے جا چکے ہیں بلکہ اب تو بجلی کی قیمتوں میں کمی کی خبریں ہیں تو اسی لئے اب پوری کوشش ہو گی کہ کسی بھی طرح جیسے بھی ممکن ہو حکومت کو گھر بھیجا جائے اور عوام کو ریلیف دینے کا کام خود کر کے نیک نامی کمائی جائے ۔ آپ یہ دیکھیں کہ تمام ہتھکنڈے ناکام ہونے کے بعد پھر ٹرمپ سے امیدیں لگائی گئی اور اب ڈپٹی رجسٹرار سپریم کورٹ کی ایک غلطی کے سبب آئینی بنچ کا ایک کیس ریگولر بینچ میں لگنے پر سپریم کورٹ میں کیا قیامت کے حالات ہو چکے ہیں ۔ دوسری طرف مذاکرات کے لئے شرط اول ہی یہی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے ۔ ہر Attemptناکام ہونے کے بعداب پھر نئے سرے سے صف بندی ہو رہی ہے لیکن 190پونڈ کیس میں سزا کے بعد اسٹیبلشمنٹ کے موڈ کا تو پتا چل چکا ہے لہٰذا ہوا میں جتنی مرضی فائرنگ کر لیں لیکن نشانہ پر کوئی گولی نہیں لگے گی ۔ اس لئے کہ سٹیبلشمنٹ اور حکومتی اتحاد ایک ساتھ ہیں ۔
اب آخری بات کہ تحریک انصاف نے اچانک مذاکرات کے خاتمے اور پھر مشروط بحالی کا اعلان کیوں کیا ۔ حکومت کی جانب سے بیانات ضرور آئے لیکن مذاکراتی کمیٹی نے باضابطہ طور پر جوڈیشل کمیشن کے متعلق کچھ نہیں کہا اور اگر مذاکراتی کمیٹی کی جانب سے کچھ کہا بھی جاتا تو اس کے لئے مزید مذاکرات ہو سکتے تھے لیکن ایسے لگ رہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو ٹرمپ کے حلف اٹھانے کے بعد اب ٹرمپ انتظامیہ سے کچھ امیدیں ہیں کہ جو کام ٹرمپ نہیں کر سکا اب وہ شاید ٹرمپ انتظامیہ کر دے لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کیا ہو گا ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: حکومت کے خلاف تحریک انصاف کے متعلق کہ ٹرمپ ٹرمپ کے نہیں کر اور پھر دیا گیا کے بعد کے لئے تھا کہ

پڑھیں:

دہشتگردی کا نیا خطرہ افغان سرزمین سے سر اٹھا رہا ہے، وزیراعظم شہباز شریف کا ترکمانستان میں عالمی فورم سے خطاب

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ عالمی امن و سلامتی کے فروغ کے لیے پاکستان اپنا بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ دہشتگردی کا نیا خطرہ افغان سرزمین سے سر اٹھا رہا ہے۔ عالمی برادری افغان حکومت پر اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لیے زور ڈالے۔

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں منعقدہ عالمی فورم سے خطاب کرتے ہوئے عالمی امن و سلامتی، ترقی یافتہ ٹیکنالوجیز تک منصفانہ رسائی، مالیاتی شمولیت اور موسمیاتی تبدیلی کے چیلنجز پر زور دیا۔

اپنے خطاب میں انہوں نے ترکمان قوم اور قیادت کے ساتھ تعلقات کو بھائی چارے کی مثال قرار دیا اور پاکستان کی بین الاقوامی ذمہ داریوں اور کردار کو اجاگر کیا۔

وزیراعظم نے کہا کہ ترکمان قوم کے رہنما گربانگلی بردی محمدوف اور صدر بردی محمدوف میرے لیے بھائیوں جیسے ہیں۔ انہوں نے ترکمانستان کی 30 سالہ مستقل جانبداری پر مبارکباد دی اور کہا کہ اشک آباد کے شاندار شہر اور ترکمان عوام کی گرمجوشی، سفید سنگ مرمر کی خوبصورتی کے ساتھ قابل تعریف ہیں۔

شہباز شریف نے عالمی امن کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے رواں سال اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اپنی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں اور عالمی امن و سلامتی کے فروغ کے لیے بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔ انہوں نے افغانستان سے پیدا ہونے والے دہشتگردی کے نئے خطرات کی جانب توجہ دلائی اور عالمی برادری پر زور دیا کہ افغان حکومت کو اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مدد فراہم کرے۔

وزیراعظم نے اپنی خارجہ پالیسی کے اصول بھی واضح کیے اور کہا کہ تنازعات کا پرامن حل پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے عالمی ترقی کے لیے 2023 کے ایجنڈے کو جامع لائحہ عمل قرار دیا، مالیاتی شمولیت اور خواتین کو معاشی دھارے میں شامل کرنے کی اہمیت اجاگر کی، اور کہا کہ پاکستان کا صاف اور سرسبز ترقیاتی ماڈل دنیا کے لیے مثال ہے۔

مزید برآں، وزیراعظم نے موسمیاتی تبدیلی اور عالمی عدم مساوات کو ترقی پذیر ممالک کے لیے بڑے چیلنجز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ٹیکنالوجیز تک منصفانہ رسائی عالمی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ انہوں نے 2025 کو بین الاقوامی امن اور اعتماد کا سال قرار دینے کے اقدام کو خوش آئند قرار دیا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

اشک آباد ترکمانستان وزیراعظم محمد شہباز شریف

متعلقہ مضامین

  • آئین کا مقصد، ترامیم یا نفاذ ؟
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغانستان سےسر اٹھا رہا ہے، شہباز شریف
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغان سرزمین سے سر اٹھا رہا ہے: وزیراعظم شہباز شریف
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغان سرزمین سے سر اٹھا رہا ہے، وزیراعظم شہباز شریف کا ترکمانستان میں عالمی فورم سے خطاب
  • دہشتگردی کا نیا خطرہ افغان سرزمین سےسر اٹھا رہا ہے:وزیراعظم شہباز شریف  
  • روس ڈونباس پر کنٹرول چاہتا ہے لیکن اسے قبول نہیں کریں گے، زیلینسکی
  • چین: 30سال بعد شہری کے پیٹ سے فعال لائٹر برآمد
  • چین: فعال لائٹر شہری کے پیٹ سے 30 سال بعد برآمد
  • قومی اسمبلی میں پی پی کی حکومت پر تنقید، پی ٹی آئی کا عمران خان کی تصاویر اٹھا کراحتجاج
  • ٹرمپ کی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹجی کا تاریخی تناظر