گالم گلوچ کلچر اور تھانیدار کا قتل!
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
پولیس میں "دبنگ افسر” کی اصطلاح اسی کے لیے استعمال کی جاتی ہے جس کا غصہ ناک پر دھرا ہو، جو بات بات پر گالم گلوچ کا عادی ہو اور ماتحت عملہ کو سخت سزائیں دیتا ہو ۔ ملازمین کو ان کی جائز چھٹی دینے کے لیے بھی ترلے منتیں کرانا اور دو چار چکر لگوانا معمول ہے ۔ شاید اس ڈیپارٹمنٹ میں اسی کو افسری کہا جاتا ہے ۔ یہاں بہت اچھے آفیسرز بھی ہیں لیکن مجموعی تاثر یہی ہے کہ اگر ماتحت کو گالیاں نہ دیں تو "حکمرانی ” نہیں ہو گی ۔ پولیس افسران کے اردل روم میں گالیوں کے سوا شاید ہی کچھ ہو ، ماتحت کو سامنے کھڑا کر کے اس کی فائل کھولی جاتی ہے اور پھر گالیاں دے کر کمرے سے باہر نکال دیا جاتا ہے ۔ میں نے ایک پولیس ملازم سے پوچھا کہ اردل روم میں دی جانے والی سزاﺅں میں ایک لفظ "سنشور” بھی ہے ۔ یہ کیا سزا ہے ؟ کہنے لگا کچھ نہیں ، کمرے میں بلا کر گالیاں وغیرہ دے کر دفع کر دیا جاتا ہے۔ اکثر آفیسر تو فائل کھول کر پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے ۔ ماتحت کی پیشی کے وقت عموماً افسر کے سامنے کرسی نہیں رکھی جاتی ، ماتحت سامنے کھڑے ہو کر گالیاں سنتے ہیں ، صفائی پیش کرتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں ۔ کرسی رکھی جائے تو افسر کی میز سے بہت دور رکھی جاتی ہے تاکہ ماتحت کو اپنی "اوقات ” کا احساس رہے۔ ایک بار ایک ایڈیشنل آئی جی رینک کے افسر نے مختلف اضلاع کے تھانیداروں کو لائن حاضر کیا ہوا تھا ۔ میں ان آفیسر کے کمرے میں کافی پی رہا تھا ۔ صاحب بہادر کے کمرے میں بیٹھے ہوئے یہ احساس تک نہ ہوا کہ باہر تھانیدار لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں ۔ بہرحال گپ شپ کے بعد باہر نکلا تو ایک واقف تھانیدار مل گیا ۔ اس سے گفتگو کے دوران ہی اس کی باری آ گئی ۔ اس نے فوراً شرٹ کا اوپری بٹن کھولا ، ایک پلو پینٹ سے باہر نکالا ، سینے پر لگا بیج تھوڑا ٹیڑھا کیا اور بال بگاڑ کر اپنی پولیس کیپ بھی ایک طرف جھکا لی ۔ پیشی کے بعد دوبارہ ملا تو میں نے کہا آفیسر کے سامنے اچھے انداز میں جانا چاہیے تم عجیب ہو کہ ڈریس کا حلیہ بگاڑ لیا ۔ ایک آنکھ دبا کر کہنے لگا : شاہ جی ان افسروں کو ایسے ہی ماتحت چاہئیں جو تھوڑے بوکھلائے ہوئے ، گھبرائے ہوئے اور پاگل پاگل سے لگیں۔ پتا لگے کہ وہ صاحب اور ہم ملازم ہیں ۔ ان کی انا کی تسکین کے سوا اردل روم کیا ہے ؟ اگر میں فل اٹینشن ہوتا تو وہ میری فائل کھول کر اس میں سے کوئی بڑا جرم ڈھونڈنے لگ جاتے اور سزا دیتے، اب انہوں نے غصہ سے وردی ٹھیک کرائی، شرٹ کا بٹن ٹھیک کرایا، دو چار گالیاں بکیں اور دفع ہونے کا کہہ دیا۔ میری جان بچ گئی ۔ پھر ہنستے ہوئے کہنے لگا ان کی یہ کمزوری اور انا کی تسکین کا طریقہ ہم سب کو پتا ہے اس لیے اب ہم بھی انہیں ایسے ہی چونا لگاتے ہیں۔ میں اس ”دبنگ تھانیدار“ کو دیکھتا رہ گیا جو تھانے کے علاہ افسر چلانے کا گر بھی جان چکا تھا ۔ محکمہ پولیس میں گالیاں سننے والوں میں کانسٹیبل سے لے کر ڈی ایس پی رینک تک کے افسران شامل ہیں۔ گالیاں بکنے والوں میں اے ایس پی سے آئی جی رینک تک کے افسران ملوث ہوتے ہیں ۔ محکمہ پولیس دو طبقات میں تقسیم ہے ۔ ایک وہ جو رینکر کہلاتے ہیں ، دوسری افسر شاہی یعنی پی ایس پی کلاس ہے ۔ اس کلاس سسٹم نے محکمے کو برھمن اور شودر میں تقسیم کیا ہوا ہے ۔ یہی ڈی ایس پی سے اہلکار تک کا رینکر طبقہ گالیاں سننے کے بعد یہ گالیاں اور رویہ عوام تک پوری ایمانداری سے منتقل کرتا ہے ۔ اس سے بھی دلچسپ بات یہ ہے کہ گالیاں بکنے اور گالیاں سننے والوں کا تعلق عموما وردی فورس سے ہے ۔ سول یا کلیریکل سٹاف کے ساتھ یہ رویہ کم ہی دیکھنے میں آیا ہے یا پھر انہیں "فورس” نہیں سمجھا جاتا۔ ماضی میں ایک ڈی آئی جی کو اسی وجہ سے ان کے اپنے ڈرائیور نے گولی مار دی تھی کہ صاحب ماں بہن کی گالیاں بکتے تھے اور جابر قسم کے آفیسر تھے ۔ اگلے روز ایسا ہی واقعہ لاہور میں بھی پیش آیا۔انسپکٹر سیف اللہ نیازی کا لاہور پولیس میں ایک نام تھا ۔ پرانے تھانیدار تھے ۔ انہیں "دبنگ تھانیدار” سمجھا جاتا تھا۔ اس دبنگ آفیسر کو اسی کے پسٹل سے ایک موٹر مکینک نے قتل کر دیا ۔ اس قتل نے لاہور پولیس کو ہلا کر رکھ دیا ہے ۔ یہ موٹر ورکشاپ ان کی رہائش گاہ کے ساتھ تھی ۔ ملزم کے مطابق وہ آتے جاتے اسے ماں بہن کی گالیاں بکتے تھے جس کے ردعمل میں اس نے انہیں قتل کر دیا ۔ میں نے لاہور کے اس دبنگ تھانیدار کی لاش اس حالت میں دیکھی کہ آفیسر اور اہلکار کھڑے ہیں اور ان کے پاﺅں میں تھانیدار کی لاش پڑی ہے۔ سیف اللہ نیازی جیسے تھانیدار کی موت ڈاکوﺅں کے ساتھ کسی مقابلے میں شہادت کی صورت ہونی چاہیے تھی لیکن المیہ دیکھیں وہ اس حال میں ایک موٹر سائیکل مکینک کے ہاتھوں مارے گئے کہ اسلحہ بھی ان کا اپنا تھا اور وجہ بھی وہ خود بنے ۔ پنجاب پولیس میں تمام تر دعووں کے باوجود سیف اللہ نیازی جیسے بے شمار تھانیدار ہیں جو وردی کے زعم میں کمزور شہریوں کی تذلیل کرتے رہتے ہیں ۔ پی ایس پی کلاس کا رویہ تو اپنے ماتحتوں تک محدود ہے لیکن ڈی ایس پی سے کانسٹیبل تک کا عملہ یہ غصہ عوام پر اتارتا ہے ۔میں پنجاب پولیس کے ایسے بہت سے افسران کو جانتا ہوں جن کا ماتحت عملہ روز "صاحب” کے مرنے کی دعا کرتا ہے۔ جن پولیس افسران کے میڈیا سے بہت اچھے تعلقات ہیں اور وہ بہت ہی بردبار قسم کے افسر ظاہر ہوتے ہیں ان کی اکثریت نے بھی اپنے ماتحتوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ ایک بار ایک ایسے ایس پی سے ملنے گیا جن کی مسکراہٹ مشہور ہے ، صحافیوں سے ذاتی دوستی ہے ۔ ان کے عملہ سے بھی سلام دعا ہے ۔ میں گیا تو عملہ سے کہا انہیں میرا بتا دیں ۔ ان کے پی اے سمیت کوئی صاحب کے کمرے میں جانے یا اطلاع دینے کو تیار نہ تھا ۔ ایک دوسرے کو کہنے کے بعد ان کے پی اے نے کہا آپ خود ہی چلے جائیں ، آپ کے تو دوست ہیں ۔ ہم صاحب کے "منہ لگے ” صبح صبح گالیاں سن کر ہمارا منہ خراب ہو جائے گا ۔ سابق ایڈیشنل آئی جی طارق مسعود یٰسین یاد آتے ہیں ۔انہوں نے محکمہ پولیس کی "اخلاقیات” بہتر کرنے کی بہت کوشش کی ۔اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو آج انسپکٹر سیف اللہ نیازی قتل نہ ہوتا ۔ طارق مسعود یٰسین ریٹائرڈ ہو چکے ہیں لیکن محکمہ میں اب بھی کئی سیف اللہ نیازی موجود ہیں ۔
پلے اور پھر فاﺅل پلے
عدالتی محاذ ایک مرتبہ پھر گرم ہو گیا ہے بلکہ گرم کیا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ سے منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ فاﺅل پلے کے ذریعے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے مقابل جب فریق مخالف فاﺅل پلے کرے گا تو پھر شور اٹھے گا کہ یہ کیا ہو گیا ۔ہر کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور انہی کے تحت کھیل کھیلا جاتا ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے سیاست کے میدان کارزار میں ایک فریق مسلسل کھیل کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فاﺅل پلے کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سیاست میں نئی لیکن انتہائی منفی روایات جنم لے رہی ہیں اس لئے کہ اگر ایک فریق منفی سیاست کر رہا ہے تو دوسرے فریق کو نا چاہتے ہوئے بھی مجبوری کے عالم میں فاﺅل پلے کھیلنا پڑے گا جس کی ایک بڑی مثال تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر حکومت کی جانب سے اپنایا گیا غیر آئینی طرز عمل تھا ۔ آئین پاکستان میں بلاکسی ابہام واضح طور پر درج ہے کہ حکومت کے خلاف اگر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی جائے گی تو اس پر تین دن کے بعد اور سات دن کے اندر ووٹنگ کرائی جائے گی لیکن اول تو اس پر آئین میں دی گئی مدت میں ووٹنگ نہیں کرائی گئی اور کم و بیش ایک ماہ بعد اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اس تحریک کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ پوری حزب اختلاف غیر ملکی سازش کا آلہ کار بن کر عدم اعتماد کے ذریعے ملک کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ یہ عدم اعتمادکوئی پہلی مرتبہ کسی وزیر اعظم کے خلاف نہیں آئی تھی بلکہ اس سے پہلے1989میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور2006میں جنرل مشرف دور میں شوکت عزیز کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریکیں آ چکی ہیں اور دونوں بار ان پر آئین کے مطابق ووٹنگ کروائی گئی تھی اور دونوں بار یہ ناکام رہی تھیں ۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹو اور خاص طور پر جنرل مشرف کے لئے تویہ کام بہت آسان تھا کہ وہ بھی عدم اعتماد کی تحریک کو ایک سائفر لہرا کر غیر ملکی سازش کا بیانیہ بناتے اور اسے مسترد کر دیتے لیکن جنرل مشرف نے جو کام ایک آمر ہونے کے باوجود نہیں کیا تھا بلکہ زیادہ درست یہ ہو گا کہ ایسا نادر خیال ماضی میں کسی کو نہیں آیا کہ وہ پوری حزب اختلاف کو ہی غدار قرار دے کر عدم اعتماد کو مسترد کر دیتے ۔ اس طرح تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنا یقینا فاﺅل پلے تھا جسے بعد میں سپریم کورٹ نے بھی غیر آئینی قرار دیا اور اس فاﺅل پلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس عدم اعتماد کی تحریک پر گنتی کرانے کے لئے پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر قیدیوں کی وین پہنچانے جیسے انتہائی اقدامات کرنا پڑے کہ جو نہیں ہونے چاہئے تھے ۔
اس کے بعد کیا ہوا کہ تحریک انصاف کے بانی اور رہنماﺅں کو تھوک کے حساب سے عدالتوں سے ضمانتیں ملنا شروع ہو گئیں تو یہ ماضی کے مقابلے میں ایک غیر معمولی صورت حال تھی یعنی ایک طرف تو تحریک انصاف کے دور میں پوری حزب اختلاف کو اٹھاکر جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا لیکن اس وقت کسی کو ” گڈ ٹو سی یو “ نہیں کہا گیا اور نہ ہی کسی گرفتار رہنما کو
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: عدم اعتماد کی تحریک پولیس میں ایس پی سے میں ایک جاتا ہے کے خلاف کے افسر ہیں اور کے ساتھ کر دیا کے بعد کیا ہو رہا ہے
پڑھیں:
عورتیں جو جینا چاہتی تھیں
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 21 اپریل 2025ء) گزشتہ ہفتے سندھ کی دو مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والی دو خودمختار خواتین کو بے دردی سے قتل کیا گیا لاڑکانہ کی سرکاری اسکول ٹیچر صدف حاصلو اور میرپورخاص کی پولیس اہلکار مہوش جروار۔ دونوں کے قاتل پولیس سے تعلق رکھنے والے مرد تھے۔ یعنی اسی ادارے کے نمائندے، جس پر ان کے تحفظ کی ذمہ داری تھی۔
صدف حاصلو، لاڑکانہ کی ایک باہمت لڑکی تھی، جس نے والد کے انتقال کے بعد اپنی ماں کے ساتھ مل کر گھر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ وہ کبھی پرائیویٹ اسکولوں میں معمولی تنخواہ پر پڑھاتی رہی، کبھی بچوں کو ٹیوشن دیتی رہی اور بالآخر اپنی محنت سے ایک سرکاری اسکول میں ٹیچر لگ گئیں۔ لیکن ایک خودمختار عورت اس معاشرے کو کب قبول ہوتی ہے؟
ایک پولیس اہلکار صدف سے شادی کا خواہشمند تھا۔
(جاری ہے)
صدف کی ماں نے اس کا نکاح تو اس پولیس اہلکار سے پڑھوا دیا، لیکن رخصتی سے پہلے کچھ شرائط رکھی۔ مگر چونکہ لڑکا پولیس میں تھا، اس نے سمجھا کہ اب صدف پر اس کا مکمل حق ہے۔ وہ بار بار صدف کے گھر آتا، دھمکاتا اور ایک دن بندوق اٹھا کر زبردستی کرنے پہنچ گیا۔ صدف نے ہمت دکھائی، خلع کا فیصلہ کیا اور تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع بھی کیا۔ لیکن کون سنتا ہے ایک عام سی اسکول ٹیچر کی فریاد؟ نہ تحفظ ملا، نہ انصاف۔چند دن بعد، جب صدف اسکول سے واپس آ رہی تھی، تو اسی پولیس اہلکار نے سرِعام اسے گولی مار کر قتل کر دیا۔ آج بھی وہ قاتل آزاد گھوم رہا ہے، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
دوسری خاتون، مہوش جروار جو ایک پولیس کانسٹیبل تھی۔ مہوش جروار، ایک یتیم لڑکی، جس کا باپ برسوں پہلے دنیا سے رخصت ہو چکا تھا، اپنی ماں کے ساتھ غربت کے سائے میں پلی بڑھی۔
دو سال پہلے اسے پولیس میں کانسٹیبل کی نوکری ملی۔ یہ نوکری اس کے لیے ایک امید تھی، ایک نئی زندگی کی راہ۔ مگر اس نظام میں نوکری نہیں، صرف کمزوروں کا استحصال بکتا ہے۔مہوش کی پوسٹنگ میرپورخاص سینٹرل جیل میں ہوئی۔ پھر پولیس اہلکار یوسف کھوسہ نے اسے مسلسل بلیک میل کرنا شروع کر دیا۔ تنگ آ کر مہوش نے اپنی پوسٹنگ حیدرآباد کروالی، لیکن حالات اور غربت اسے دوبارہ میرپورخاص کھینچ لائی۔
پھر ایک دن وہی وردی جو اس کی پہچان تھی، اس کی لاش پر موجود تھی۔ مہوش اپنی پولیس کی وردی ہی میں پھندے سے جھولتی پائی گئی۔ایک بات طے ہے، مہوش اس بلیک میلنگ سے تھک چکی تھی، اس نے آواز اٹھانے کی کوشش کی، مقام بدلا، شکایات درج کروائیں، مگر سسٹم نے کبھی اس کی بات سننا گوارا نہ کی۔ حیدرآباد میں ایف آئی اے کے دفتر میں ایک شکایت 2 جنوری کو درج ہوئی اور ابھی اپریل چل رہا ہے۔
مگر اس کی تفتیش کا کوئی پتہ نہیں۔ نہ کوئی فون، نہ کوئی طلبی، نہ کوئی پیش رفت۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اگر صدف اور مہوش جیسی تعلیم یافتہ، بہادر، محنتی عورتیں بھی اس معاشرے میں محفوظ نہیں، تو پھر تحفظ کی ضمانت کس کے پاس ہے؟ یہ دو کہانیاں محض دو عورتوں کی نہیں، بلکہ اس پورے نظام کی ناکامی کی کہانی ہیں۔ ایک ایسا نظام جو عورت کو صرف اس وقت برداشت کرتا ہے جب وہ خاموشی سے سر جھکائے، "ہاں" کہنا سیکھ لے اور اپنی خودمختاری قربان کر دے۔
صدف اور مہوش جیسے بے شمار چہرے ہیں جو روز کام پر جاتے ہیں، خود کو اور اپنے گھر والوں کو سنبھالتے ہیں اور اس امید پر زندہ رہتے ہیں کہ شاید ایک دن یہ معاشرہ انہیں جینے کا حق دے گا۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔