Nai Baat:
2025-04-22@06:20:15 GMT

پلے اور پھر فاﺅل پلے

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

پلے اور پھر فاﺅل پلے

عدالتی محاذ ایک مرتبہ پھر گرم ہو گیا ہے بلکہ گرم کیا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ سے منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ فاﺅل پلے کے ذریعے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے مقابل جب فریق مخالف فاﺅل پلے کرے گا تو پھر شور اٹھے گا کہ یہ کیا ہو گیا ۔ہر کھیل کے کچھ اصول ہوتے ہیں اور انہی کے تحت کھیل کھیلا جاتا ہے لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے سیاست کے میدان کارزار میں ایک فریق مسلسل کھیل کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فاﺅل پلے کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ سیاست میں نئی لیکن انتہائی منفی روایات جنم لے رہی ہیں اس لئے کہ اگر ایک فریق منفی سیاست کر رہا ہے تو دوسرے فریق کو نا چاہتے ہوئے بھی مجبوری کے عالم میں فاﺅل پلے کھیلنا پڑے گا جس کی ایک بڑی مثال تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے موقع پر حکومت کی جانب سے اپنایا گیا غیر آئینی طرز عمل تھا ۔ آئین پاکستان میں بلاکسی ابہام واضح طور پر درج ہے کہ حکومت کے خلاف اگر قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع کرائی جائے گی تو اس پر تین دن کے بعد اور سات دن کے اندر ووٹنگ کرائی جائے گی لیکن اول تو اس پر آئین میں دی گئی مدت میں ووٹنگ نہیں کرائی گئی اور کم و بیش ایک ماہ بعد اس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اس تحریک کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ پوری حزب اختلاف غیر ملکی سازش کا آلہ کار بن کر عدم اعتماد کے ذریعے ملک کے خلاف سازش کر رہی ہے۔ یہ عدم اعتمادکوئی پہلی مرتبہ کسی وزیر اعظم کے خلاف نہیں آئی تھی بلکہ اس سے پہلے1989میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اور2006میں جنرل مشرف دور میں شوکت عزیز کے خلاف بھی عدم اعتماد کی تحریکیں آ چکی ہیں اور دونوں بار ان پر آئین کے مطابق ووٹنگ کروائی گئی تھی اور دونوں بار یہ ناکام رہی تھیں ۔ محترمہ شہید بینظیر بھٹو اور خاص طور پر جنرل مشرف کے لئے تویہ کام بہت آسان تھا کہ وہ بھی عدم اعتماد کی تحریک کو ایک سائفر لہرا کر غیر ملکی سازش کا بیانیہ بناتے اور اسے مسترد کر دیتے لیکن جنرل مشرف نے جو کام ایک آمر ہونے کے باوجود نہیں کیا تھا بلکہ زیادہ درست یہ ہو گا کہ ایسا نادر خیال ماضی میں کسی کو نہیں آیا کہ وہ پوری حزب اختلاف کو ہی غدار قرار دے کر عدم اعتماد کو مسترد کر دیتے ۔ اس طرح تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنا یقینا فاﺅل پلے تھا جسے بعد میں سپریم کورٹ نے بھی غیر آئینی قرار دیا اور اس فاﺅل پلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس عدم اعتماد کی تحریک پر گنتی کرانے کے لئے پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر قیدیوں کی وین پہنچانے جیسے انتہائی اقدامات کرنا پڑے کہ جو نہیں ہونے چاہئے تھے ۔
اس کے بعد کیا ہوا کہ تحریک انصاف کے بانی اور رہنماﺅں کو تھوک کے حساب سے عدالتوں سے ضمانتیں ملنا شروع ہو گئیں تو یہ ماضی کے مقابلے میں ایک غیر معمولی صورت حال تھی یعنی ایک طرف تو تحریک انصاف کے دور میں پوری حزب اختلاف کو اٹھاکر جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا لیکن اس وقت کسی کو ” گڈ ٹو سی یو “ نہیں کہا گیا اور نہ ہی کسی گرفتار رہنما کو ججز والے گیٹ سے سپریم کورٹ میں لایا گیا ہاں البتہ نواز شریف کے خلاف کیس میں ” گڈٹو سی یو “ تو نہیں کہا گیا لیکن ” سیسلین مافیا “ جیسے القاب سے ضرور نوازا گیا ۔ اب ایک جانب سے جب ضمانتوں پر ضمانتیں دی جانے لگیں حتیٰ کہ 63-Aکی تشریح کے نام پر نیا آئین ہی تشکیل دے کر فاﺅل پلے کھیلا گیا اور ایک فریق کو عدالتی آرڈرز کے ذریعے کھڈے لائن لگانے کا کام شروع ہوا تو پھر دوسری طرف سے جوڈیشل آرڈر کے مقابلے میں ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے ان احکام کو بے اثر کرنے کا کام شروع ہو گیا جو کہ نہیں ہونا چاہئے تھا لیکن انتہائی مجبوری تھی کہ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پھر کیا کیا جاتا ۔ جمہوریت میں ہر شہری کو پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے لیکن اس حق کی آڑمیں اگر ایک بار نہیں دو بار نہیں بلکہ بار بار ایک صوبہ اپنے پورے سرکاری وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے وفاق پر چڑھائی کرے تو وفاقی حکومت کے پاس پھر دو ہی آپشن رہ جاتے ہیں ایک یہ کہ انھیں من مانی کرنے دیں اور بات پارلیمنٹ پر حملے تک پہنچ کر آپے سے باہر ہو جاتی اور دوسری یہ کہ اس مسلح ہجوم کو روک کر ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرتی اور جب ایسا کیا گیا تو پھر لاشوں کا پروپیگنڈا کر کے پھر فاﺅل پلے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش اس لئے ناکام ہو گئی کہ لاشوں کی سیاست کے لئے لاشوں کا ہونا بھی ضروری تھا ۔ملکی معیشت اگر دیوالیہ کے خطرے سے نکل کر بہتری کی جانب گامزن ہے تو انتشاری سیاست سے گریز کرنا چاہئے۔
26ویں ترمیم کچھ لوگوں کے لئے یقینا بڑی تکلیف دہ ہو گی لیکن کیا کریں مجبوری ہے کہ آئین کے تحت اگر پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے کوئی قانون بنا دے تو وہ آئین کا حصہ بن جاتا ہے اور آئین ہی کے تحت پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی کسی ترمیم کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا تو اب اگر کسی کو 26ویں آئینی ترمیم اچھی نہیں لگتی اور وہ اسے فاﺅل طریقے سے معطل کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر کیا یہ آئین کو سبو تاژ کرنے کے مترادف نہیں ہو گا تو پھر کیا کیا جائے اس لئے کہ عدلیہ کا جو محاذ گرم کیا جا رہا ہے اس میں کچھ مفاد پرست لوگ آئین اور قانون کو پس پشت ڈال کر آئین و قانون کے نام پر آئین اور قانون کے ساتھ ہی کھلواڑ کرنا چاہتے ہیں تو جب ان لوگوں کو آئین و قانون کے تحت ہی شٹ اپ کال دی جاتی ہے تو پھر واویلا کیا جاتا ہے کہ زیادتی ہو گئی تو عدالتی محاذ ایک مرتبہ پھر گرم ہو گیا ہے بلکہ گرم کیا جا رہا ہے اور پارلیمنٹ سے منظور کردہ 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ فاﺅل پلے کے ذریعے کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کے مقابل جب فریق مخالف فاﺅل پلے کرے گا تو پھر شور اٹھے گا کہ یہ کیا ہو گیا ۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے کے خلاف کی کوشش ہو گیا کے لئے کے تحت ہے اور رہا ہے کیا جا اور اس

پڑھیں:

پنجاب کا کوئی محکمہ ترقیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکا، فنانشل رپورٹ نے قلعی کھول دی

لاہور:

پنجاب کا ایک بھی محکمہ رواں مالی سال میں ترقیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکا،  فنانشل رپورٹ نے کارکردگی کا پول کھول دیا۔

صوبائی اسمبلی میں پوسٹ بجٹ بحث کے لیے رواں مالی سال کے تیسرے کوارٹر کی فنانشل رپورٹ نے سرکاری محکموں کی کارکردگی کی قلعی کھول دی ، جس کے مطابق پنجاب کا ایک بھی  سرکاری محکمہ رواں مالی سال کے تیسرے کوارٹر کے طے شدہ اہداف حاصل نہیں کرسکا ۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب حکومت نے تیسرے کوارٹر کے لیے مجموعی طور پر  488 ارب 43 کروڑ روپے جاری کیے ، تاہم  رواں مالی سال کے تیسرے کوارٹر تک  مجموعی طور پر 355 ارب 43 کروڑ روپے خرچ کیے جاسکے ۔

محکمہ زراعت کو 3 ارب روپے کا بجٹ ملا لیکن ایک ارب 21 کروڑ روپے خرچ ہوسکے ۔ اسی طرح بورڈ آف ریونیو کو 30 ارب 50 کروڑ روپے کا بجٹ ملا تاہم 4 ارب 79 کروڑ روپے خرچ کیے گیے  جب کہ محکمہ مواصلات و تعمیرات کو 4 ارب 62 کروڑ روپے جاری کیے گئے لیکن  2 ارب 91 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔

علاوہ ازیں محکمہ تعلیم کو 4 ارب 62 کروڑ روپے جاری کیے گئے لیکن2 ارب 91 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔ محکمہ خزانہ کو 2 ارب 30 کروڑ روپے کا بجٹ ملے لیکن 1 ارب 33 کروڑ روپے خرچ کیے گئے۔ محکمہ جنگلات، جنگلی حیات و ماہی پروری کو 324 ارب 24 کروڑ روپے جاری کیے گئے جبکہ 296 ارب 4 کروڑ روپے خرچ کیے ۔

اسی طرح محکمہ صحت کو ایک ارب 98 کروڑ روپے جاری ہوئے لیکن  1 ارب 26 کروڑ روپےکیے گئے ۔ محکمہ داخلہ کو 25 ارب 50 کروڑ روپے دیے گئے لیکن 2 ارب 18 کروڑ روپے ہی خرچ ہوئے  جب کہ محکمہ ہاؤسنگ و پبلک ہیلتھ انجینئرنگ کو 1 ارب 22 کروڑ روپے ملے جبکہ 67 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔

صنعت، تجارت و سرمایہ کاری کو 1 ارب 64 کروڑ روپے جبکہ 27 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ۔ محکمہ آبپاشی کو 19 ارب 50 کروڑ روپےملے لیکن 5 ارب 85 کروڑ روپے خرچ ہوسکے  اور محکمہ لائیو اسٹاک و ڈیری ڈیولپمنٹ کو 1 ارب 97 کروڑ روپے ملے لیکن 93 کروڑ روپے خرچ کیے جاسکے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ محکمہ قانون و پارلیمانی امور کو 1 ارب 41 کروڑ روپے ملے لیکن ایک ارب روپےخرچ ہوسکے ۔ محکمہ معدنیات و کان کنی کو 31 ارب روپے ملے لیکن  12 ارب 6 کروڑ روپے خرچ ہوسکے ۔ محکمہ پولیس کو  16 ارب 25 کروڑ روپے ملے لیکن 13 ارب 93 کروڑ روپے  خرچ ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ متفرق مدات میں  24 ارب 17 کروڑ روپے جاری کیے گئے لیکن  7 ارب 65 کروڑ روپے خرچ کیے جاسکے۔

متعلقہ مضامین

  • ریاست کا حصہ ہیں، عقل کے اندھے آئین پڑھیں: عمر ایوب 
  • بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری قبول نہیں، دھرنا جاری رہے گا، رخسانہ انور
  • بلاول کو پنجاب کے کسان کا خیال آگیا لیکن سندھ کے کسان کی بات نہیں کی، عظمی بخاری
  • ہمارے خلاف منصوبے بنتے ہیں مگر ہم کہتے ہیں آؤ ہم سے بات کرو، سلمان اکرم راجہ
  • ہمیں معیشت کی بہتری کا جھوٹا بیانیہ دیا گیا، سلمان اکرم راجہ
  • ریاست اپنی جگہ لیکن کسی کی زندگی سےکھیلناقابل قبول نہیں:عظمیٰ بخاری
  • فیکٹ چیک: کیا سابق چینی وزیر اعظم نے واقعی سزائے موت کی تجویز دی؟
  • پنجاب کا کوئی محکمہ ترقیاتی اہداف حاصل نہیں کر سکا، فنانشل رپورٹ نے قلعی کھول دی
  • عمران خان کچھ شرائط پر ہر کسی سے بات چیت کیلئے تیار ہیں: شاندانہ گلزار
  • معاشی استحکام حقیقی لیکن یہ عالمی منڈی کا مرہون منت ہے: مفتاح اسماعیل