Nai Baat:
2025-04-22@18:58:07 GMT

لاہور سے بہاولپور تک !

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

لاہور سے بہاولپور تک !

جنوبی پنجاب کا دورہ جہاں نئی تازگی اور انرجی دیتاہے وہاں اس علاقے کی ترقی نہ کرنے کی وجوہات دکھی کردیتی ہیں۔ اس بار اپنی جنم بھومی بہاولپور کے ایک روزہ وزٹ کے دوران کئی مختصر لیکن بھرپورملاقاتوں نے دل کو تازگی بخشی۔ جی ٹی روڈ کی نسبت اب موٹروے سے سفر زیادہ آرام دہ اور مختصر ہو گیا ہے۔ اپنی گاڑی پر لاہور سے بہاولپور کا سفر ساڑھے 5 گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔پہلے یہ سفر بذریعہ جی ٹی روڈ کم ازکم 7 گھنٹے میں طے ہوتا تھا۔ بہاولپور شہر میں بچپن سے جوانی تک کا گزرا وقت، ایس ڈی ہائی سکول، ایس ای کالج اور اسلامیہ یونیورسٹی میں تعلیمی ادوار کی یادیں، لگ بھگ 6 دروازوں کی قید میں اندرون شہر کے چپے چپے سے واقفیت اورانسیت اب بھی بدن میں خون کی طرح دوڑتی ہے۔ گو کہ شہر میں پرانی کالونیوں کے علاوہ نئے اور بڑے ٹا¶نز بن چکے ہیں لیکن اندرون شہر کی اپنی ہی بات ہے۔ گذشتہ جمعہ کی شام بہاولپور پہنچا تو شہر میں داخل ہوتے ہی ہر بار کی طرح بہت دکھ ہوا۔ لاری اڈے سے فرید گیٹ تک کی سڑک آج بھی ویسے ہی ہے جیسا کہ آج سے 20 برس پہلے میں چھوڑ کر گیا تھا۔ شام کی مصروفیات پہلے سے طے تھیں۔ دیرینہ دوست اور سینئرصحافی بقا المحسن جو بہاولپور پریس کلب کے تازہ جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ہیں۔ ان کے گھر جا کر مبارکباد پیش کی۔ بقا بھائی نے ہمیشہ کی طرح پر تکلف چائے کا اہتمام کیا۔ دیگر لوازمات کے ساتھ گھر کے بنے ہوئے دودھ اور دیسی گھی میں بنے میٹھے ٹِکڑوں نے بچپن کی یادیں تازہ کر دیں۔ ہمارے بچپن میں یہ ٹِکڑے ماں جی (خدا سلامت رکھے) اکثر بنا کر دیتی تھیں۔ جب اسلام آباد میں روہی ٹی وی میں جاب کرتا تھا تو ہر بار ڈھیرسارے ٹِکڑے بنا کردیتیں کہ ناشتہ کر لیا کرنا۔ لیکن یہاں آتے ہی یہ دوستوں میں سوغات کے طور پر بانٹ دیتا۔ بقا صاحب کے ساتھ بہاولپور کی عدم ترقی اور مقامی سیاسی قیادت کی بے حسی پر سیر حاصل گفتگوہوئی۔ پچھلی دو دہائیوں میں طارق بشیر چیمہ، بلیغ الرحمان، سمیع اللہ چوہدری کے پاس صوبائی اور مرکزی وزارتوں کے علاوہ پنجاب کی گورنر شپ بھی رہی ہے۔ اس وقت بھی ظہیر اقبال چنڑ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی ہیں۔ لیکن یہ قیادتیں ان بیس برس میں کوئی بھی قابل ذکر ترقیاتی منصوبہ، کسانوں کو درپیش چیلنجز کا حل،
مقامی سطح پر سوشل اینڈ اکنامک چیلنجز، نوجوانوں کو مقامی سطح پر روزگار کے لئے مواقع فراہم کرنے کے لئے کوئی حکمت عملی بنا کر پیش نہیں کر سکیں۔ دریائے ستلج کی انڈس واٹر ٹریٹی کے تحت فروخت سے قبل اور اس کے کچھ عرصے بعد تک بھی بہاولپور اور اس کے گرد و نواح کا علاقہ اپنی زرخیزی کی وجہ سے سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔ بعد ازاں بھارت نے ان پانیوں پر سرہند، بھاکھڑا اور راجھستان کینال جیسی دریا نما نہروں سے اپنے سوکھے مشرقی پنجاب اور راجھستان کے ریگزاروں کو ہریالے کھیت کھلیانوں میں تبدل کر دیا ہے۔ جبکہ جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا ہریالہ ڈویژن بہاولپور چولستان کے ریگزاروں میں تبدیل ہو رہا ہے۔ میرے دوست اور صحافت کے پروفیسر عبدالباسط صاحب کے گھر ڈنر پر انٹرنیشنل ریلیشنز کے پروفیسر شہزاد ملک صاحب، فریڈم کالج کے پرنسپل اجمل ملک، مایہ ناز سوشل ورکر اور میرے چھوٹے بھائی کاشف ڈوگر، پروگریسو زمیندار اور میرے برادر نسبتی چوہدری فرخ بھی موجود تھے۔ ان کے ساتھ بھی انہی موضوعات کا تسلسل رہا۔ باسط صاحب نے بتایا کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس سلیب کی تبدیلیوں کے بعد گذشتہ برس ماہانہ تنخواہ سے 8 ہزار روپے کٹنے والا ٹیکس اب 30 ہزار ہو چکا ہے۔ جبکہ ہوشربا مہنگائی نے تنخواہ کو عملاً نصف کر دیا۔ موجودہ ٹیکس سلیب کے بعد بچنے والی سالانہ آمدن گذشتہ برس کے 10ماہ کی تنخواہ کے برابر رہ گئی ہے یعنی حکومت 2 ماہ مفت کام کرائے گی۔ فرخ صاحب نے بتایا کہ زمینداروں کا بہت برا حال ہے۔ انھیں سمجھ نہیں آرہا کہ کہاں جائیں۔ پچھلے برس گندم کی فصل کی خریداری سے متعلق حکومتی فیصلے نے زمینداروں کو پریشان کردیا ہے۔
ہمیں منڈی کے آڑھتیوں کے حوالے کرنے کی بجائے ٹھوس میکنزم بنائیں تاکہ زمیندار براہ راست اپنی پراڈکٹ خریدار کو بیچ سکیں۔ صرف گندم کی فصل کی درست قیمت نہ ملنے سے خرچے پورے نہیں ہو رہے۔ ٹھیکیداروں نے زمین کاٹھیکہ دینے سے معذرت کر لی ہے۔ پاکستان ڈومیسٹک کامرس سے چلنے والا ملک ہے اور اس کی 60 فیصد سے زائد اکانومی بلا واسط یا بالواسط زرعت سے منسلک ہے۔ زمیندار کے پاس پیسے آتے ہیں تو وہ ٹریکٹر، کاریں اور،موٹرسائیکل خریدتا ہے، بچوں کی شادیاں کرتا ہے۔ مارکیٹ میں سرمائے کی گردش سے سب کو فائدہ ہوتا ہے۔ انڈسٹری کا زیادہ تردارومدار زمیندار کی خرچ کرنے کی صلاحیت سے جڑاہے۔ آج اگر صنعت کار پریشان ہے تو اس کی بنیادی وجہ زراعت سے متعلق ناقص حکمت عملی ہے۔ حکومت پر مہنگائی کنٹرول کرنے کا دبا¶ تھا۔ اس کے لئے آسان ہدف زمیندار طبقہ تھا لہٰذا وقتی طور اشیاءخورونوش کی قیمتوں کوکنٹرول توکر لیا لیکن اس کے دور رس منفی اثرات پوری معیشت کو جھیلنا پڑیں گے۔ ذکر بہاولپور چل رہا تو شاید اب بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ بہاولپور میں انٹرنیشنل سٹینڈرڈ کا ڈرنگ اسٹیڈیم بھی موجود ہے جہاں کرکٹ، ہاکی اور فٹبال سمیت دیگر کھیلوں کے بین الاقوامی مقابلے ہوچکے ہیں۔ آج کل انٹرنیشنل سپورٹس ایونٹ ملکوں اور شہروں کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ پاکستان میں فروری میں ہونے والی کرکٹ چیمیئنز ٹرافی ایک اچھاموقع تھا کہ ہم لاہور، کراچی اور راولپنڈی کے علاوہ اپنے دیگر شہروں کو بھی موقع دیتے۔ ملتان اوربہاولپور کو نظر انداز کئے جانے کی پوری ذمہ دار یہاں کی مقامی سیاسی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ جنھوں نے کوشش کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ ان ایونٹس سے شہروں کی ترقیاتی، ثقافتی اور سیاحتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ جو کام کئی برسوں تک نہیں ہو سکتا وہ چند مہینوں میں ہو جاتا ہے۔ بہاولپور سیاسی طور پر مسلم لیگ ن کا گڑھ رہا ہے۔ شہریوں نے نواز شریف کے امیدواروں کو ہمیشہ ووٹ تو دیئے ہیں لیکن انھیں اس کا صلہ نہیں مل سکا۔ اب چیف منسٹر محترمہ مریم نواز کی قیادت میں بہاولپور کے لئے ترجیحی پروگرام ترتیب دیئے جانے کی ضرورت ہے۔ ترجیحی بنیادوں پراسکل بیسڈ ایجوکیشن، جس میں کسانوں کے لئے ڈائریکٹ کنزیومر مارکیٹنگ ٹریننگ بمعہ فروخت سنٹرز، کم تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لئے انٹرنیشنل ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈیجیٹل اینڈ اسکلز پروگرام، مقامی زمینداروں لئے جدید فارمنگ اور ویلیو ایڈڈ ایگری پراڈکٹس پروگرام سمیت ایکسپورٹ پراسسیسنگ زون کا قیام، خواتین کے لئے لوکل ہینڈ میڈ پراڈکٹس کی براہ راست فروخت کے لئے ڈیجیٹل سیلنگ سکلز دی جائیں۔ چولستان کینا ل منصوبے کو عملی جامہ پہنانا وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے کارناموں میں شمار ہوگا۔صرف پالیسی فریم ورک اور دستیاب وسائل کی بہترین حکمت عملی کے ذریعے بہاولپور پورے صوبے کے لئے ایک رول ماڈل سٹی بن سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: کے لئے اور اس

پڑھیں:

دو نہریں سندھ، دو پنجاب اور ایک بلوچستان میں بننی ہے: معین وٹو کا انکشاف

لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن )وفاقی وزیر برائے آبی وسائل معین وٹو نے کہا ہے کہ گرین پاکستان منصوبے کے تحت دو نہریں سندھ ، دو پنجاب میں اور ایک بلوچستان میں بننی ہے۔
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق لاہور میں میڈیا سے بات چیت کے دوران وفاقی وزیر آبی وسائل معین وٹو نے انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ نہروں کا معاملہ غلط فہمی اور مشاورت نہ ہونے کے باعث تنازع کا شکار ہوا تاہم اب اس پر مذاکرات شروع ہو چکے ہیں اور اب یہ معاملہ خوش اسلوبی سے طے پا جائے گا۔
معین وٹو نے کہا کہ گرین پاکستان منصوبے کے تحت دو نہریں سندھ ، دو پنجاب میں اور ایک بلوچستان میں بننی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر صوبہ اپنے حصے کے پانی کو اپنی مرضی سے استعمال کر سکتا ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ: ماتحت عدلیہ کے 2 ججز کی خدمات پشاور ہائیکورٹ کو واپس

مزید :

متعلقہ مضامین

  • بہاولپور: چرواہوں نے نایاب نسل کے انڈین سرمئی بھیڑیے کو ہلاک کر دیا
  • پیپلز پارٹی کو حکومت سے علیحدہ ہونا پڑا تو 2 منٹ نہیں لگائیں گے، ناصر حسین شاہ
  • بہاولپور: ریسٹورنٹ، بیکری، بیوریجز پلانٹ پر جرمانے
  • بنیادی صحت کے مراکز کی نجکاری قبول نہیں، دھرنا جاری رہے گا، رخسانہ انور
  • بلاول کو پنجاب کے کسان کا خیال آگیا لیکن سندھ کے کسان کی بات نہیں کی، عظمی بخاری
  • پنجاب بارکونسل میں دو روزہ بین الاقوامی مصالحت و ثالثی ٹریننگ کا آغاز
  • دو نہریں سندھ، دو پنجاب اور ایک بلوچستان میں بننی ہے: معین وٹو کا انکشاف
  • لاہور بیٹھک، ن لیگ اور پی پی کا ساتھ چلنے پر اتفاق
  • ریاست اپنی جگہ لیکن کسی کی زندگی سےکھیلناقابل قبول نہیں:عظمیٰ بخاری
  • فیکٹ چیک: کیا سابق چینی وزیر اعظم نے واقعی سزائے موت کی تجویز دی؟